Ayats Found (1)
Surah 5 : Ayat 4
يَسْــَٔلُونَكَ مَاذَآ أُحِلَّ لَهُمْۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ ٱلطَّيِّبَـٰتُۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ ٱلْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ تُعَلِّمُونَهُنَّ مِمَّا عَلَّمَكُمُ ٱللَّهُۖ فَكُلُواْ مِمَّآ أَمْسَكْنَ عَلَيْكُمْ وَٱذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَيْهِۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
لوگ پوچھتے ہیں کہ ان کے لیے کیا حلال کیا گیا ہے، کہو تمہارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں 1اور جن شکاری جانوروں کو تم نے سدھایا ہو جن کو خدا کے دیے ہوئے علم کی بنا پر تم شکار کی تعلیم دیا کرتے ہو وہ جس جانور کو تمہارے لیے پکڑ رکھیں اس کو بھی تم کھاسکتے ہو2، البتہ اس پر اللہ کا نام لے لو اور اللہ کا قانون توڑنے سے ڈرو3، اللہ کو حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی
3 | یعنی شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے وقت بسم اللہ کہو۔ حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عَدِی بن حاتم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آیا میں کُتّے کے ذریعہ سے شکار کر سکتا ہوں؟ آپ ؐ نے فرمایا کہ”اگر اس کو چھوڑتے ہوئے تم نے اللہ کا نام لیا ہو تو کھاؤ ورنہ نہیں۔ اور اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھا لیا ہو تو نہ کھاو ٔ کیونکہ اس نے شکار کو دراصل اپنے لیے پکڑا“۔ پھر انہوں نے پُوچھا کہ اگر میں شکار پر اپنا کُتّا چھوڑوں اور بعد میں دیکھوں کہ کوئی اور کُتّا وہاں موجود ہے ؟ آپ ؐ نے جواب دیا”اس شکار کو نہ کھاؤ۔ اس لیے کہ تم نے خدا کا نام اپنے کُتّے پر لیا تھا نہ کہ دُوسرے کُتّے پر“۔ اس آیت سے یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ شکاری جانور کو شکار پر چھوڑتے ہوئے خدا کا نام لینا ضروری ہے۔ اس کے بعد اگر شکار زندہ ملے تو پھر خدا کا نام لے کر اسے ذبح کر لینا چاہیے اور اگر زندہ نہ ملے تو اس کے بغیر ہی وہ حلال ہوگا ، کیونکہ ابتداءً شکار جانور کو اس پر چھوڑتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا نام لیا جا چکا تھا۔ یہی حکم تیر کا بھی ہے |
2 | شکاری جانوروں سے مُراد کُتّے، چیتے، باز، شِکرے اور تمام وہ درندے اور پرندے ہیں جن سے انسان شکار کی خدمت لیتا ہے۔ سَدھائے ہوئے جانور کی خصُوصیّت یہ ہوتی ہے کہ وہ جس کا شکار کرتا ہے اُسے عام درندوں کی طرح پھاڑ نہیں کھاتا بلکہ اپنے مالک کے لیے پکڑ رکھتا ہے۔ اسی وجہ سے عام درندوں کا پھاڑ ا ہوا جانور حرام ہے اور سَدھائے ہوئے درندوں کا شکار حلال۔ اس مسئلہ میں فقہاء کے درمیان کچھ اختلاف ہے۔ ایک گروہ کہتا ہے کہ اگر شکاری جانور نے، خواہ وہ درندہ ہو یا پرندہ شکار میں سے کچھ کھا لیا تو وہ حرام ہو گا کیونکہ اس کا کھا لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ اس نے شکار کو مالک کے لیے نہیں بلکہ اپنے لیے پکڑا۔ یہی مسلک امام شافعی کا ہے۔ دوسرا گروہ کہتا ہے کہ اگر اس نے شکار میں سے کچھ کھالیا ہو تب بھی وہ حرام نہیں ہوتا ، حتٰی کہ اگر ایک تہائی حصّہ بھی وہ کھا لے تو بقیّہ دوتہائی حلال ہے، اور اس معاملے میں درندے اور پرندے کے درمیان کچھ فرق نہیں۔ یہ مسلک امام مالک کا ہے۔ تیسرا گروہ کہتا ہے کہ شکاری درندے نے اگر شکار میں سے کھا لیا ہو تو وہ حرام ہو گا، لیکن اگر شکاری پرندے نے کھایا ہو تو حرام نہ ہوگا۔ کیونکہ شکاری درندے کو ایسی تعلیم دی جا سکتی ہے کہ وہ شکار کو مالک کے لیے پکڑ رکھے اور اس میں سے کچھ نہ کھائے ، لیکن تجربہ سے ثابت ہے کہ شکاری پرندہ ایسی تعلیم قبول نہیں کرتا۔ یہ مسلک امام ابو حنیفہ اور اُن کے اصحاب کا ہے۔ اس کے برعکس حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمانے ہیں کہ شکاری پرندے کا شکار سرے سے جائز ہی نہیں ہے ، کیونکہ اسے تعلیم سےیہ بات سکھائی نہیں جا سکتی کہ شکار کو خود نہ کھائے بلکہ مالک کے لیے پکڑ رکھے |
1 | اس جواب میں ایک لطیف نکتہ پوشیدہ ہے۔ مذہبی طرزِ خیال کے لوگ اکثر اس ذہنیّت کے شکار ہو تے رہے ہیں کہ دُنیا کی ہر چیز کو حرام سمجھتے ہیں جب تک کہ صراحت کے ساتھ کسی چیز کو حلال نہ قرار دیا جائے۔ اس ذہنیّت کی وجہ سے لوگوں پر وہمی پن اور قانونیت کا تسلّط ہو جاتا ہے۔ وہ زندگی کے ہر شعبہ میں حلا ل اشیاء اور جائز کاموں کی فہرست مانگتے ہیں اور ہر کام اور ہر چیز کو اس شبہ کی نظر سے دیکھنےلگتے ہیں کہ کہیں وہ ممنُوع تو نہیں۔ یہاں قرآن اسی ذہنیّت کی اصلاح کرتا ہے۔ پُوچھنے والوں کا مقصد یہ تھا کہ انہیں تمام حلال چیزوں کی تفصیل بتائی جائے تاکہ ان کے سوا ہر چیز کو وہ حرام سمجھیں ۔ جواب میں قرآن نے حرام چیزوں کی تفصیل بتائی اور اس کے بعد یہ عام ہدایت دے کر چھوڑ دیا کہ ساری پاک چیزیں حلا ل ہیں۔ اس طرح قدیم مذہبی نظریہ بالکل اُلٹ گیا۔ قدیم نظریہ یہ تھا کہ سب کچھ حرام ہےبجُز اس کے جسے حلال ٹھیرایا جائے۔ قرآن نے اس کے برعکس یہ اُصُول مقرر کیا کہ سب کچھ حلال ہے بجز اُس کے جس کی حُرمت کی تصریح کر دی جائے۔ یہ ایک بہت بڑی اصلاح تھی جس نے انسانی زندگی کو بندشوں سے آزاد کر کے دُنیا کی وُسعتوں کا دروازہ اس کے لیے کھول دیا ۔ پہلے حِلّت کے ایک چھوٹے سے دائرے کے سوا ساری دُنیا اس کے لیے حرام تھی۔ اب حُرمت کے ایک مختصر سے دائرے کو مستثنیٰ کر کے ساری دُنیا اس کے لیے حلا ل ہو گئی۔ حلال کے لیے ”پاک“ کی قید اس لیے لگائی کہ ناپاک چیزوں کو اس اباحت کی دلیل سے حلال ٹھیرانے کی کوشش نہ کی جائے۔ اب رہا یہ سوال کہ اشیاء کے ”پاک“ ہونے کا تعین کس طرح ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ جُو چیزیں اُصُولِ شرع میں سے کسی اصل کے ماتحت ناپاک قرار پائیں، یا جن چیزوں سے ذوقِ سلیم کراہت کرے ، یا جنہیں مہذّب انسان نے بالعمُوم اپنے فطری احساسِ نظافت کے خلاف پایا ہو، ان کے ماسوا سب کچھ پاک ہے |