Ayats Found (2)
Surah 5 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَوْفُواْ بِٱلْعُقُودِۚ أُحِلَّتْ لَكُم بَهِيمَةُ ٱلْأَنْعَـٰمِ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْ غَيْرَ مُحِلِّى ٱلصَّيْدِ وَأَنتُمْ حُرُمٌۗ إِنَّ ٱللَّهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، بندشوں کی پوری پابندی کرو1 تمہارے لیے مویشی کی قسم کے سب جانور حلال کیے گئے2، سوائے اُن کے جو آگے چل کر تم کو بتائے جائیں گے لیکن احرام کی حالت میں شکار کو اپنے لیے حلال نہ کر لو3، بے شک اللہ جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے4
4 | یعنی اللہ حاکمِ مطلق ہے ، اسے پُورا اختیار ہے کہ جو چاہے حکم دے۔ بندوں کو اُس کے احکام میں چون و چرا کرنے کا کوئی حق نہیں۔ اگرچہ اس کے تمام احکام حکمت و مصلحت پر مبنی ہیں ، لیکن بندۂ مسلم اس کے حکم کی اطاعت اس حیثیت سے نہیں کرتا کہ وہ اسے مناسب پاتا ہے یا مبنی بر مصلحت سمجھتا ہے، بلکہ صرف اس بنا پر کرتا ہے کہ یہ مالک کا حکم ہے۔ جو چیز اس نے حرام کر دی ہے وہ صرف اس لیے حرام ہے کہ اس نے حرام کی ہے، اور اسی طرح جو اس نے حلال کر دی ہے وہ بھی کسی دُوسری بنیاد پر نہیں بلکہ صر ف اس بُنیاد پر حلال ہے کہ جو خدا ان ساری چیزوں کا مالک ہے، وہ اپنے غلاموں کو اس چیز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔ لہٰذا قرآن پُورے زور کے ساتھ یہ اُصُول قائم کرتا ہے کہ اشیاء کی حُرمت و حِلّت کے لیے مالک کی اجازت و عدم اجازت کے سوا کسی اور بُنیاد کی قطعاً ضرورت نہیں ، اور اسی طرح بندے کے لیے کسی کام کے جائز ہونے یا نہ ہونے کا مدار بھی اس کے سوا اَور کچھ نہیں کہ خدا جس کو جائز رکھے وہ جائز ہے اور جسے ناجائز قرار دے وہ ناجائز |
3 | احرام“ اُس فقیرانہ لباس کو کہتے ہیں جو زیارت کعبہ کے لیے پہنا جاتا ہے ۔ کعبہ کے گرد کئی کئی منزل کے فاصلہ پر ایک حد مقرر کر دی گئی ہے جس سے آگے بڑھنے کی کسی زائر کو اجازت نہیں جب تک کہ وہ اپنا معمُولی لباس اُتار کر احرام کا لباس نہ پہن لے۔ اس لباس میں صرف ایک تَہمت ہوتا ہے اور ایک چادر جو اُوپر سے اوڑھی جاتی ہے۔ اسے احرام اس لیے کہتے ہیں کہ اسے باندھنے کے بعد آدمی پر بہت سی وہ چیزیں حرام ہو جاتی ہیں جو معمُولی حالات میں حلال ہیں، مثلاً حجامت، خوشبوکا استعمال، ہر قسم کی زینت و آرائش اور قضا ء شہوت وغیرہ۔ انہی پابندیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کسی جاندار کو ہلاک نہ کیا جائے، نہ شکار کیا جائے اور نہ کسی کو شکار کا پتہ دیا جائے |
2 | اَنعام“ (مویشی) کا لفظ عربی زبان میں اُونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری پر بولا جاتا ہے۔ اور ”بہیمہ“ کا اطلاق ہر چَرنے والے چوپائے پر ہوتا ہے۔ اگر اللہ تعالٰی نے یہ فرمایا ہوتا کہ انعام تمہارے لیے حلال کیے گئے ، تو اس سے صرف وہی چار جانور حلال ہوتے جنہیں عربی میں”انعام “ کہتے ہیں۔ لیکن حکم اِن الفاظ میں دیا گیا ہے کہ”مویشی کی قسم کے چرند ہ چوپائے تم پر حلال کیے گئے “۔ اس سے حکم وسیع ہو جاتا ہے اور وہ سب چرندہ جانور اس کےدائرے میں آجاتے ہیں جو مویشی کی توعیّت کے ہوں۔ یعنی جو کچلیاں نہ رکھتے ہوں، حیوانی غذا کے بجائے نباتی غذا کھاتے ہوں، اور دُوسری حیوانی خصُوصیات میں اَنعامِ عرب سے مماثلت رکھتے ہوں۔ نیز اس سے اشارۃً یہ بات بھی مترشح ہو تی ہے کہ وہ چوپائے جو مویشیوں کے بر عکس کچلیاں رکھتے ہوں اور دُوسرے جانوروں کو مار کر کھاتے ہوں، حلال نہیں ہیں۔ اسی اشارے کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر کے حدیث میں صاف حکم دے دیا کہ درندے حرام ہیں۔ اسی طرح حضور نے اُن پرندوں کو بھی حرام قرار دیا ہے جن کے پنجے ہوتے ہیں اور جو دوسرے جانوروں کا شکار کرکے کھاتے ہیں یا مُردار خور ہوتے ہیں۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ نھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن کل ذی ناب من ا لسباع و کل ذی مخلب من الطیر۔ دُوسرے متعدّد صحابہ سے بھی اس کی تائید میں روایات منقول ہیں |
1 | یعنی اُن حُدُود اور قیُود کی پابندی کرو جو اس سُورۃ میں تم پر عائد کی جا رہی ہیں، اور جو بالعمُوم خدا کی شریعت میں تم پر عائد کی گئی ہیں۔ اس مختصر سے تمہیدی جملہ کے بعد ہی اُس بندشوں کا بیان شروع ہو جاتا ہے جن کی پابندی کا حکم دیا گیا ہے |
Surah 22 : Ayat 30
ذَٲلِكَ وَمَن يُعَظِّمْ حُرُمَـٰتِ ٱللَّهِ فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُۥ عِندَ رَبِّهِۦۗ وَأُحِلَّتْ لَكُمُ ٱلْأَنْعَـٰمُ إِلَّا مَا يُتْلَىٰ عَلَيْكُمْۖ فَٱجْتَنِبُواْ ٱلرِّجْسَ مِنَ ٱلْأَوْثَـٰنِ وَٱجْتَنِبُواْ قَوْلَ ٱلزُّورِ
یہ تھا (تعمیر کعبہ کا مقصد) اور جو کوئی اللہ کی قائم کردہ حرمتوں کا احترام کرے تو یہ اس کے رب کے نزدیک خود اسی کے لیے بہتر ہے1 اور تمہارے لیے مویشی جانور حلال کیے گئے2، ما سوا اُن چیزوں کے جو تمہیں بتائی جا چکی ہیں3 پس بتوں کی گندگی سے بچو4، جھوٹی باتوں سے پرہیز کرو5
5 | اگرچہ الفاظ عام ہیں ، اور ان سے ہر جھوٹ ، بہتان،اور جھوٹی شہادت کی حرمت ثابت ہوتی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں خاص طور پر اشارہ ان باطل عقائد اور احکام اور رسوم اور اوہام کی طرف ہے جن پر کفروشرک کی بنیاد ہے۔ اللہ کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھیرانا اور اس کی ذات ، صفات، اختیارات اور حقوق میں اس کے بندوں کو حصہ دار بنانا وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس سے یہاں منع کیا گیا ہے۔ اور پھر وہ جھوٹ بھی اس فرمان کی برہ راست زد میں آتا ہے جس کی بنا پر مشرکین عرب بحرہ اور سائبہ اور حام وغیرہ کو حرام قرار دیتے تھے ، جیسا کہ سورہ نحل میں فرمایا: وَلَا تَقُوْ ا لِمَا تصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْ ا عَلَ اللہِ الْکَذِبَ ، ’’ اور یہ جو تمہاری زبانی جھوٹے احکام لگایا کرتی ہیں کہ یہ حلال ہے اور وہ حرام، تو اس طرح کے حکم لگا کر اللہ پر جھوٹ نہ باندھا کرو‘‘ آیت 116۔ اس کے ساتھ جھوٹی قسم اور جھوٹی شہادت بھی اسی حکم کے تحت آتی ہے ، جیسا کہ صحیح احادیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : عُدِلت شھادۃ الزور بالا شراک باللہِ ، ’’ جھوٹی گواہی شرک باللہ کے برابر رکھی گئی ہے ‘‘ ، اور پھر آپ نے ثبوت میں یہی آیت پیش فرمائی۔ اسلامی قانون میں یہ جرم مستلزم تعزیر ہے۔ امام ابو یوسف اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے کہ جو شخص عدالت میں جھوٹا گواہ ثابت ہو جائے اس کی تشہیر کی جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے۔ یہی حضرت عمرؓ کا قول اور فعل بھی ہے۔ مَکْحول کی روایت ہے کہ حضرت عمر نے فرمایا: یُضْرب ظھرہ و یحلق رأسہ و یسخم و جھہ وہ یطال جلسہ، ’‘اس کی پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں ، اس کا سر مونڈا جائے اور منہ کالا کیا جائے اور لمبی قید کی سزا دی جائے ‘‘۔ عبداللہ بن عمر اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر کی عدالت میں ایک شخص کی گواہی جھوٹی ثابت ہو گئی تو انہوں نے اس کو ایک دن بر سر عام کھڑا رکھ کر اعلان کرایا کہ یہ فلاں بن فلاں جھوٹا گواہ ہے ، اسے پہچان لو، پھر اس کو قید کر دیا۔ موجودہ زمانے میں ایسے شخص کا نام اخبارات میں نکال دینا تدبیر کا مقصد پورا کر سکتا ہے |
4 | یعنی بتوں کی پرستش سے اس طرح بچو جیسے غلاظت سے آدمی گھن کھاتا ہے اور دور ہٹتا ہے۔ گویا کہ وہ نجاست سے بھرے ہوئے ہیں اور قریب جاتے ہیں آدمی ان سے نجس اور پلید ہو جائے گا |
3 | اشارہ ہے اس حکم کی طرف جو سورہ انعام اور سورہ نحل میں ارشاد ہوا ہے کہ ( اللہ نے جن چیزوں کو حرام کیا ہے وہ ہیں مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جو اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا جائے‘‘۔ (الانعام، آیت 145۔ النحل، آیت 115) |
2 | اس موقع پر مویشی جانوروں کی حلت کا ذکر کرنے سے مقصود دو غلط فہمیوں کو رفع کرنا ہے۔ اول یہ کہ قریش اور مشرکین عرب بَھیِرہ اور سائبہ اور وصیلہ اور حام کو بھی اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں شمار کرتے تھے۔ اس لیے فرمایا گیا کہ یہ اس کی قائم کردہ حرمتیں نہیں ہیں ، بلکہ اس نے تمام مویشی جانور حلال کیے ہیں۔ دوم یہ کہ حالت احرام میں جس طرح شکار حرام ہے اس طرح کہیں یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ مویشی جانوروں کا ذبح کرنا اور ان کو کھانا بھی حرام ہے۔ اس لیے بتایا گیا کہ یہ اللہ کی قائم کی ہوئی حرمتوں میں سے نہیں ہے |
1 | بظاہر یہ ایک عام نصیحت ہے جو اللہ کی قائم کی ہوئی تمام حرمتوں کا احترام کرنے کے لیے فرمائی گئی ہے ، مگر اس سلسلہ کلام میں وہ حرمتیں بدرجہ اَولیٰ مراد ہیں جو مسجد حرام اور حج اور عمرے اور حرم مکہ کے باب میں قائم کی گئی ہیں۔ نیز اس میں ایک لطیف اشارہ اس طرف بھی ہے کہ قریش نے حرم سے مسلمانوں کو نکال کر اور ان پر حج کا راستہ بند کر کے اور مناسک حج میں مشرکانہ و جاہلانہ رسمیں شامل کر کے اور بیت اللہ کو شرک کی گندگی سے ملوث کر کے ان بہت سی حرمتوں کی ہتک کر ڈالی ہے جو ابراہیم علیہ السلام کے وقت سے قائم کر دی گئی تھیں |