Ayats Found (4)
Surah 2 : Ayat 194
ٱلشَّهْرُ ٱلْحَرَامُ بِٱلشَّهْرِ ٱلْحَرَامِ وَٱلْحُرُمَـٰتُ قِصَاصٌۚ فَمَنِ ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَٱعْتَدُواْ عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا ٱعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ
ماہ حرام کا بدلہ حرام ہی ہے اور تمام حرمتوں کا لحاظ برابری کے ساتھ ہوگا1 لہٰذا جوتم پر دست درازی کرے، تم بھی اسی طرح اس پر دست درازی کرو البتہ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ انہیں لوگوں کے ساتھ ہے، جو اس کی حدود توڑنے سے پرہیز کرتے ہیں
1 | اہلِ عرب میں حضرت ابراہیم ؑ کے وقت سے یہ قاعدہ چلا آ رہا تھا کہ ذی القعدہ، ذی الحجّہ اور مُحَرَّم کے تین مہینے حج کے لیے مختص تھے اور رجب کا مہینہ عُمرے کے لیے خاص کیا گیا تھا ، اور ان چار مہینوں میں جنگ اور قتل و غارت گری ممنوع تھی تاکہ زائرین ِ کعبہ امن و امان کے ساتھ خدا کے گھر تک جائیں اور اپنے گھروں کو واپس ہو سکیں۔ اِس بنا پر اِن مہینوں کو حرام مہینے کہا جاتا تھا، یعنی حرمت والے مہینے۔ آیت کا منشا یہ ہے کہ ماہِ حرام کی حُرمت کا لحاظ کفار کریں، تو مسلمان بھی کریں اور اگر وہ اس حرمت کو نظر انداز کر کے کسی حرام مہینے میں مسلمانوں پر دست درازی کر گزریں ، تو پھر مسلمان بھی ماہِ حرام میں بدلہ لینے کے مجاز ہیں۔ اس اجازت کی ضرورت خاص طور پر اس وجہ سے پیش آگئی تھی کہ اہلِ عرب نے جنگ و جدل اور لُوٹ مار کی خاطر نَسِی کا قاعدہ بنا رکھا تھا، جس کی رُو سے وہ اگر کسی سے انتقام لینے کے لیے یا غارت گری کرنے کے لیے جنگ چھیڑنا چاہتے تھے، تو کسی حرام مہینے میں اُس پر چھاپہ مار دیتے اور پھر اس مہینے کی جگہ کسی دُوسرے حلال مہینے کو حرام کر کے گویا اس حرمت کا بدلہ پُورا کر دیتے تھے۔ اس بنا پر مسلمانوں کے سامنے یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر کفّار اپنے نَسِی کے حیلے کو کام میں لا کر کسی حرام مہینے میں جنگی کاروائی کر بیٹھیں، تو اُس صُورت میں کیا کیا جائے۔ اسی سوال کا جواب آیت میں دیا گیا ہے |
Surah 9 : Ayat 36
إِنَّ عِدَّةَ ٱلشُّهُورِ عِندَ ٱللَّهِ ٱثْنَا عَشَرَ شَهْرًا فِى كِتَـٰبِ ٱللَّهِ يَوْمَ خَلَقَ ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضَ مِنْهَآ أَرْبَعَةٌ حُرُمٌۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُۚ فَلَا تَظْلِمُواْ فِيهِنَّ أَنفُسَكُمْۚ وَقَـٰتِلُواْ ٱلْمُشْرِكِينَ كَآفَّةً كَمَا يُقَـٰتِلُونَكُمْ كَآفَّةًۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ
حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے1، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو2 اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں3 اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے
3 | یعنی اگر مشرکین ان مہینوں میں بھی لڑنے سے باز نہ آئیں تو جس طرح وہ متفق ہو کر تم سے لڑتے ہیں تم بھی متفق ہو کر ان سے لڑو۔ سورۂ بقرہ آیت ۱۹۴ اِس آیت کی تفسیر کرتی ہے |
2 | یعنی جن مصالح کی بنا پر ان مہینوں میں جنگ کرنا حرام کیا گیا ہے ان کو ضائع نہ کرو اور ان ایام میں بد امنی پھیلا کر اپنے اوپر ظلم نہ کرو۔ چار حرام مہینوں سے مراد ہیں ذی القعدہ ، ذی الحجہ اور محرم حج کے لیے اور رجب عُمرے کے لیے |
1 | یعنی جب سے اللہ نے چاند، سورج اورزمین کو خلق کیا ہے اسی وقت سے یہ حساب بھی چلا آرہا ہے کہ مہینے میں ایک ہی دفعہ چاند ہلال بن کر طلوع ہوتا ہے اور اس حساب سے سال کے ۱۲ ہی مہینے بنتے ہیں۔ یہ بات اس لیے فرمائی گئی ہے کہ عرب کے لوگ نَسِی کی خاطر مہینوں کی تعداد ۱۳ یا ۱۴ بنالیتے تھے، تاکہ جس ماہِ حرام کو انہوں نے حلال کر لیا ہو اسے سال کی جنتری میں کھپا سکیں۔ اس مضمون کی تشریح آگے آتی ہے |
Surah 9 : Ayat 123
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ قَـٰتِلُواْ ٱلَّذِينَ يَلُونَكُم مِّنَ ٱلْكُفَّارِ وَلْيَجِدُواْ فِيكُمْ غِلْظَةًۚ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُتَّقِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جنگ کرو اُن منکرین حق سے جو تم سے قریب ہیں1 اور چاہیے کہ وہ تمہارے اندر سختی پائیں2، اور جان لو کہ اللہ متقیوں کے ساتھ ہے3
3 | اس تنبیہہ کے دو مطلب ہیں اور دونوں یکساں طور پر مراد بھی ہیں۔ ایک یہ کہ ان منکرین ِ حق کے معاملے میں اگر تم نے اپنے شخصی اور خاندانی اور معاشی تعلقات کا لحاظ کیا تو یہ حرکت تقویٰ کے خلاف ہو گی ، کیونکہ متقی ہونا اور خدا کے دشمنوں سے لاگ لگائے رکھنا دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں، لہٰذا خدا کی مدد اپنے شامل حال رکھنا چاہتے ہو تو اس لاگ لپٹ سے پاک رہو۔ دوسرے یہ کہ یہ سختی اور جنگ کا جو حکم دیا جا رہا ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ ان کے ساتھ سختی کرنے میں اخلاق و انسانیت کی بھی ساری حدیں توڑ ڈالی جائیں۔ حدود اللہ کی نگہداشت تو بہر حال تمہاری ہر کا ر روائی میں ملحوظ رہنی ہی چاہیے۔ اس کو اگر تم نے چھوڑ دیا تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ اللہ تمہارا ساتھ چھوڑ دے |
2 | یعنی اب وہ نرم سلوک ختم ہو جانا چاہیے جو اب تک ان کے ساتھ ہوتا رہا ہے ۔ یہی بات رکوع ۱۰ کی ابتدا میں کہی گئی تھی وَ اغْلُظْ عَلَیْھِمْ ان کے ساتھ سختی سے پیش آؤ |
1 | آیت کے ظاہر الفاظ سے جو مطلب نکلتا ہے وہ یہ ہے کہ دارالاسلام کے جس حصّے سے دشمنانِ اسلام کا جو علاقہ متصل ہو، اُس کے خلاف جنگ کرنے کی اولین ذمہ داری اُسی حصے کے مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے ۔ لیکن اگر آگے کے سلسلۂ کلام کے ساتھ ملا کر اِس آیت کو پڑھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں کفار سے مراد وہ منافق لوگ ہیں جن کا انکار حق پوری طرح نمایاں ہو چکا تھا، اور جن کے اسلامی سوسائٹی میں خلط ملط رہنے سے سخت نقصانات پہنچ رہے تھے۔ رکع ۱۰ کی ابتداء میں بھی جہاں سے اس سلسلہ ٔ تقریر کا آغاز ہوا تھا ، پہلی بات یہی کہی گئی تھی کہ اب ان آستین کے سانپوں کا استیصال کرنے کے لیے باقاعدہ جہاد شروع کر دیا جائے ۔ وہی بات اب تقریر کے اختتام پر تاکید کے لیے پھر دہرائی گئی ہے تاکہ مسلمان اس کی اہمیت کو محسوس کر یں اور اِن منافقوں کے معاملہ میں اُن نسلی و نسبی اور معاشرتی تعلقات کا لحاظ نہ کریں جو اُن کے اور اِن کے درمیان وابستگی کے موجب بنے ہوئے تھے۔ وہاں ان کے خلاف”جہاد “ کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہاں اس سے شدید تر لفظ ”قتال“ استعمال کیا گیا ہے جس سے مراد یہ ہے کہ ان کا پوری طرح قلع قمع کر دیا جائے، کوئی کسر ان کی سرکوبی میں اٹھا نہ رکھی جائے۔ وہاں”کفار“ اور ”منافق“ دو الگ لفظ بولے گئے تھے ، یہاں ایک ہی لفظ” کفار“ پر اکتفا کیا گیا ہے ، تاکہ اِن لوگوں کا انکارِ حق ، جو صریح طور پر ثابت ہو چکا تھا، ان کے ظاہری اقرار ایمان کے پردے میں چھُپ کر کسی رعایت کا مستحق نہ سمجھ لیا جائے |
Surah 16 : Ayat 128
إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلَّذِينَ ٱتَّقَواْ وَّٱلَّذِينَ هُم مُّحْسِنُونَ
اللہ اُن لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ سے کام لیتے ہیں اور احسان پر عمل کرتے ہیں1
1 | یعنی جو خدا سے ڈر کر ہر قسم کے بُرے طریقوں سے پرہیز کرتے ہیں اور ہمیشہ نیک رویہ پر قائم رہتے ہیں۔دوسرے ان کے ساتھ خواہ کتنی ہی بُرائی کریں،وہ ان کا جواب برائی سے نہیں بلکہ بھلائی ہی سے دیے جاتے ہیں۔ |