Ayats Found (2)
Surah 92 : Ayat 5
فَأَمَّا مَنْ أَعْطَىٰ وَٱتَّقَىٰ
تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور (خدا کی نافرمانی سے) پرہیز کیا
Surah 92 : Ayat 7
فَسَنُيَسِّرُهُۥ لِلْيُسْرَىٰ
اس کو ہم آسان راستے کے لیے سہولت1 دیں گے
1 | یہ ہے مساعی کی اس قسم کا نتیجہ۔ آسان راستہ سے مراد وہ راستہ ہے جو انسان کی فطرت کے مطابق ہے، جو اس خالق کی مرضی کے مطابق ہے جس نے انسان کو اور ساری کائنات کو بنایا ہے، جس میں ا نسان کو اپنے ضمیر سے لڑ کر نہیں چلنا پڑتا، جس میں انسان اپنے جسم و جان اور عقل و ذہن کی قوتوں پر زبردستی کر کے ان سے وہ کام نہیں لیتا جس کو ہر طرف اس جنگ ، مزاحمت اور کشمکش سے سابقہ پیش نہیں آتا جو گناہوں سے بھری ہوئی زندگی میں پیش آتا ہے،بلکہ انسانی معاشرے میں ہر قدم پر اس کو صلح و آتشی اور قدر و منزلت میسر آتی چلی جاتی ہے۔ ظاہر بات ہے کہ جو آدمی اپنا مال خلق خدا کی بھلائی کے لیے استعمال کر ہو، جو ہر ایک سے نیک سلوک کر رہا ہو، جس کی زندگی جرائم ، فسق و فجور اور بد کرداری سے پاک ہو، جو اپنے معاملات میں کھرا اور راستباز ہو، جو ہر شخص کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آئے اور کسی کو اس کی سیرت و کردار پر انگلی رکھنے کا موقع نہ ملے، وہ خواہ کیسے ہی بگڑے ہوئے معاشرے میں رہتا ہو، بہرحال اس کی قدر ہو کر رہتی ہے، اس کی طرف دل کھنچتے ہیں، نگاہوں میں اس کی عزت قائم ہو جاتی ہے، اس کا اپنا قلب و ضمیر بھی مطمئن ہو تا ہے ا ور معاشرے میں بھی اس کو وہ وقار حاصل ہوتا ہے جو کبھی کسی بد کردار آدمی کو حاصل نہیں ہوتا۔ یہی بات ہے جو سورہ نحل میں فرمائی گئی ہے کہ ’’مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً‘‘ ’’جو شخص نیک عمل کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن ، اسے ہم اچھی زندگی بسر کرائیں گے‘‘۔ (آیت 97) اور اسی بات کو سورہ مریم میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَـٰنُ وُدًّا‘‘’’یقیناً جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے رحمان ان کے لیے دلوں میں محبت پیدا کر دے گا‘‘ (آیت 96)۔ پھر یہی وہ راستہ ہے جس میں دنیا سے لے کر آخرت تک انسان کے لیے سرور ہی سرور اور راحت ہی ر احت ہے۔ اس کے نتائج عارضی اور وقتی نہیں بلکہ ابدی اور لازوال ہیں۔ اس کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ہم اسے اس راستے پر چلنے کے لیے سہولت دیں گے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ جب وہ بھلائی کی تصدیق کر کے یہ فیصلہ کر لے گا کہ یہی راستہ میرے لائق ہے ا ور برائی کا راستہ میرے لائق نہیں ہے، اور جب وہ عملاً مالی ایثار اور تقویٰ کی زندگی اختیار کر کے یہ ثابت کر دے گا کہ اس کی یہ تصدیق سچی ہے ، تو اللہ تعالی اس راستے پر چلنا اس کے لیے سہل کر دے گا۔ اس کے لیے پھر گناہ کرنا مشکل اور نیکی کرنا آسان ہو جائے گا۔ مالِ حرام اس کے سامنے آئے گا تو وہ یہ نہیں سمجھے گا کہ یہ نفع کا سودا ہے بلکہ ا سے یوں محسوس ہو گا کہ یہ آگ کا انگارہ ہے جسے وہ ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔ بد کاری کے مواقع اس کے سامنے آئٍیں گے تو وہ انہیں لطف اور لذت حاصل کرنے کے مواقع سمجھ کر ان کی طرف نہیں لپکے گا بلکہ جہنم کے دروازے سمجھ کر ان سے دور بھاگے گا۔ نماز اس پر گراں نہ ہو گی بلکہ اسے چین نہیں پڑے گا جب تک وہ وقت آنے پر وہ اس کو ادا نہ کر لے۔ زکوۃ دیتے ہوئے اس کادل نہیں دکھے گا بلکہ اپنا مال اسے ناپاک محسوس ہو گا جب تک وہ اس میں سے زکوۃ نکال نہ دے ۔ غرض ہر قدم پر اللہ تعالی کی طرف سے اس کو اس راستے پر چلنے کی توفیق و تائید ملے گی، حالات کو اس کے لیے ساز گار بنایا جائے گا، اور اس کی مدد کی جائے گی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس سے پہلے سورہ بلد میں اسی راستے کو دشوار گزار گھاٹی کہا گیا ہے اور یہاں اس کو آسان راستہ قرار دیا گیا ہے۔ ان دونوں باتوں میں تطبیق کیسے ہوگی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اس راہ کو اختیار کرنے سے پہلے یہ آدمی کو دشوار گزار گھاٹی ہی محسوس ہوتی ہے جس پر چڑھنے کے لیے اسے اپنے نفس کی خواہشوں سے، اپنے دنیا پرست اہل و عیال سے، اپنے رشتہ داروں سے اپنے دوستوں اور معاملہ داروں سے اور سب سے بڑھ کر شیطان سے لڑنا پڑتا ہے، کیونکہ ہر ایک اس میں رکاوٹیں ڈالتا ہے اور اس کو خوفناک بنا کر دکھاتا ہے، لیکن جب انسان بھلائی کی تصدیق کر کے اس پر چلنے کا عزم کر لیتا ہے اور اپنا مال راہ خدا میں دے کر اور تقوی کا طریقہ اختیار کر کے عملاً اس عزم کو پختہ کر لیتا ہے تو اس گھاٹی پر چڑھنا اس کے لیے آسان اور اخلاقی پستیوں کے کھڈ میں لڑھکنا اس کے لیے مشکل ہو جاتا ہے |