Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 168
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ كُلُواْ مِمَّا فِى ٱلْأَرْضِ حَلَـٰلاً طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
لوگو! زمین میں جو حلال اور پاک چیزیں ہیں انہیں کھاؤ اور شیطان کے بتائے ہوئے راستوں پر نہ چلو1 وہ تمہارا کھلا دشمن ہے
1 | یعنی کھانے پینے کے معاملے میں اُن تمام پابندیوں کو توڑ ڈالو جو توہمّات اور جاہلانہ رسموں کی بنا پر لگی ہوئی ہیں |
Surah 2 : Ayat 172
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ كُلُواْ مِن طَيِّبَـٰتِ مَا رَزَقْنَـٰكُمْ وَٱشْكُرُواْ لِلَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر تم حقیقت میں اللہ کی بندگی کرنے والے ہو تو جو پاک چیزیں ہم نے تمہیں بخشی ہیں اُنہیں بے تکلف کھاؤ اور اللہ کا شکر ادا کرو1
1 | یعنی اگر تم ایمان لا کر صرف خدائی قانون کے پَیرو بن چکے ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے تو پھر وہ ساری چھُوت چھات، اور زمانہء جاہلیّت کی وہ ساری بندشیں اور پابندیاں توڑ ڈالو جو پنڈتوں اور پروہتوں نے ، ربّیوں اور پادریوں نے ، جوگیوں اور راہبوں نے اور تمہارے باپ دادا نے قائم کی تھیں۔ جو کچھ خدا نے حرام کیا ہے اس سے تو ضرور بچو، مگر جن چیزوں کو خدا نے حلال کیا ہے انہیں بغیر کسی کراہت اور رکاوٹ کے کھا ؤ پیو۔ اسی مضمون کی طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث بھِ اشارہ کرتی ہے جس میں آپ ؐ نے فرمایا کہ مَنْ صَلّٰی صَلوٰ تَنَا و َ اسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَاَکَلَ ذَبِیْحَتَنَا فَذٰلِکَ الْمُسْلِمُالخ یعنی جس نے وہی نماز پڑھی جو ہم پڑھتے ہیں اور اسی قبلے کی طرف رُخ کیا جس کی طرف ہم رُخ کر تے ہیں اور ہمارے ذبیحے کو کھایا وہ مسلمان ہے۔ مطلب یہ ہے کہ نماز پڑھنے اور قبلے کی طرف رُخ کرنے کے باوجود ایک شخص اس وقت تک اسلام میں پوری طرح جذب نہیں ہوتا جب تک کہ وہ کھانے پینے کے معاملے میں پچھلی جاہلیّت کی پابندیوں کو توڑ نہ دے اور اُن توہّمات کی بندشوں سے آزاد نہ ہو جائے جو اہلِ جاہلیّت نے قائم کر رکھی تھیں۔ کیونکہ اُس کا اُن پابندیوں پر قائم رہنا اِس بات کی علامت ہے کہ ابھی تک اُس کی رگ و پے میں جاہلیّت کا زہر موجود ہے |
Surah 6 : Ayat 142
وَمِنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ حَمُولَةً وَفَرْشًاۚ كُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ وَلَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ إِنَّهُۥ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
پھر وہی ہے جس نے مویشیوں میں سے وہ جانور بھی پیدا کیے جن سے سواری و بار برداری کا کام لیا جاتا ہے اور وہ بھی جو کھانے اور بچھانے کے کام آتے ہیں1 کھاؤ اُن چیزوں میں سے جو اللہ نے تمہیں بخشی ہیں اور شیطان کی پیرو ی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے2
2 | سلسلۂ کلام پر نظر کرنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اللہ تعالیٰ تین باتیں ذہن نشین کرانا چاہتا ہے ۔ ایک یہ کہ یہ باغ اور کھیت اور یہ جانور جو تم کو حاصل ہیں ، یہ سب اللہ کے بخشے ہوئے ہیں، کسی دُوسرے کا اس بخشش میں کوئی حصّہ نہیں ہے، اس لیے بخشش کے شکریہ میں بھی کسی کا کوئی حصّہ نہیں ہو سکتا۔ دوسرے یہ کہ جب یہ چیزیں اللہ کی بخشش ہیں تو ان کے استعمال میں اللہ ہی کے قانون کی پیروی ہونی چاہیے۔ کسی دُوسرے کو حق نہیں پہنچتا کہ ان کے استعمال پر اپنی طرف سے حدود مقرر کر دے۔ اللہ کے سوا کسی اَ ور کی مقرر کردہ رسموں کی پابندی کرنا اور اللہ کے سوا کسی اَور کے آگے شُکرِ نعمت کی نذر پیش کرنا ہی حد سے گزرنا ہے اور یہی شیطان کی پیروی ہے۔ تیسرے یہ کہ یہ سب چیزیں اللہ نے انسان کے کھانے پینے اور استعمال کرنے ہی کے لیے پیدا کی ہیں، اس لیے پیدا نہیں کیں کہ انھیں خواہ مخواہ حرام کر لیا جائے۔ اپنے اوہام اور قیاسات کی بنا پر جو پابندیاں لوگوں نے خدا کے رزق اور اس کی بخشی ہوئی چیزوں کے استعمال پر عائد کر لی ہیں وہ سب منشاءِ الہٰی کے خلاف ہیں |
1 | اصل میں لفظ فَرْش استعمال ہوا ہے ۔ جانوروں کو فرش کہنا یا تو اس رعایت سے ہےکہ وہ چھوٹے قد کے ہیں اور زمین سے لگے ہوئے چلتے ہیں۔ یا اس رعایت سے کہ وہ ذبح کے لیے زمین پر لٹائے جاتے ہیں، یا اس رعایت سے کہ ان کی کھالوں اور ان کے بالوں سے فرش بنائے جاتے ہیں |
Surah 7 : Ayat 32
قُلْ مَنْ حَرَّمَ زِينَةَ ٱللَّهِ ٱلَّتِىٓ أَخْرَجَ لِعِبَادِهِۦ وَٱلطَّيِّبَـٰتِ مِنَ ٱلرِّزْقِۚ قُلْ هِىَ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا خَالِصَةً يَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِۗ كَذَٲلِكَ نُفَصِّلُ ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ
اے محمدؐ، ان سے کہو کس نے اللہ کی اُس زینت کو حرام کر دیا جسے اللہ نے اپنے بندوں کے لیے نکالا تھا اور کس نے خدا کی بخشی ہوئی پاک چیزیں ممنوع کر دیں1؟ کہو، یہ ساری چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی ایمان لانے والوں کے لیے ہیں، اور قیامت کے روز تو خالصتاً انہی کے لیے ہوں گی2 اِس طرح ہم اپنی باتیں صاف صاف بیان کرتے ہیں اُن لوگوں کے لیے جو علم رکھنے والے ہیں
2 | یعنی حقیقت کے اعتبار سے تو خدا کی پیدا کردہ تمام چیزیں دنیا کی زندگی میں بھی اہل ایمان ہی کے لیےہیں، کیونکہ وہی خدا کی وفادار رعایا ہیں اور حقَ نمک صرف نمک حلالوں ہی کو پہچانتا ہے۔ لیکن دنیا کا موجودہ انتظام چونکہ آزمائش اور مہلت کے اصول پر قائم کیا گیا ہے، اس لیے یہاں اکثر خدا کی نعمتیں نمک حراموں پر بھی تقسیم ہوتی رہتی ہیں اور بسا اوقات نمک حلالوں سے بڑھ کر انہیں نعمتوں سے نواز دیا جاتا ہے۔ البتہ آخرت میں (جہاں کا سارا انتظام خالص حق کی بنیا دپر ہوگا) زندگی کی آرائشیں اور رزق کے طیبات سب کے سب محض نمک حلالوں کے لیے مخصوص ہوں گے اور وہ نمک حرام ان میں سے کچھ نہ پا سکیں گے جنہوں نے اپنے رب کے رزق پر پلنے کے بعد اپنے رب ہی کے خلاف سر کشی کی |
1 | مطلب یہ ہے کہ اللہ نے تو دنیا کی ساری زینتیں اور پاکیزہ چیزیں بندوں ہی کے لیے پیدا کی ہیں،اس لیے اللہ کا منشاء تو بہر حال یہ نہیں ہو سکتا کہ انہیں بندوں کے لیے حرام کر دے۔ اب اگر کوئی مذہب یا کوئی نظامِ اخلاق و معاشرت ایسا ہے جو نہیں حرام ، یا قابلِ نفرت، یا ارتقائے روحانی میں سدِّ راہ قرار دیتا ہے تو اس کا یہ فعل خود ہی اس بات کا کُھلا ثبوت ہے کہ وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے ۔ یہ بھی اُن حجتوں میں سے ایک اہم حجت ہے جو قرآن نے مذاہب باطلہ کے رد میں پیش کی ہیں، اور اس کو سمجھ لینا قرآن کے طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے |
Surah 16 : Ayat 114
فَكُلُواْ مِمَّا رَزَقَكُمُ ٱللَّهُ حَلَـٰلاً طَيِّبًا وَٱشْكُرُواْ نِعْمَتَ ٱللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
پس اے لوگو، اللہ نے جو کچھ حلال اور پاک رزق تم کو بخشا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کے احسان کا شکر ادا کرو 1اگر تم واقعی اُسی کی بندگی کرنے والے ہو2
2 | یعنی اگر واقعی تم اللہ کی بندگی کے قائل ہو، جیسا کہ تمہارا دعویٰ ہے، تو حرام و حلال کے خود مختار نہ بنو۔ جس رزق کو اللہ نے حلال و طیب قرار دیا ہے اسے کھاؤ اور شکر کرو۔ اور جو کچھ اللہ کے قانون میں حرام و خبیث ہے اس سے پرہیز کرو۔ |
1 | اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سورے کے نزول کے وقت وہ قحط ختم ہو چکا تھا جس کی طرف اوپر اشارہ گزر چکا ہے |
Surah 20 : Ayat 54
كُلُواْ وَٱرْعَوْاْ أَنْعَـٰمَكُمْۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّأُوْلِى ٱلنُّهَىٰ
کھاؤ اور اپنے جانوروں کو بھی چَراؤ یقیناً اِس میں بہت سی نشانیاں ہیں عقل رکھنے والوں کے لیے1
1 | یعنی جو لوگ عقل سلیم سے کام لے کر جستجوۓ حق کرنا چاہتے ہوں وہ ان نشانات کی مدد سے منزلِ حقیقت تک پہنچنے کا راست معلوم کر سکتے ہیں۔ یہ نشانات ان کو بتا دیں گے کہ اس کائنات کا ایک رب ہے اور ربوبیت ساری کی ساری اسی کی ہے۔ کسی دوسرے رب کے لیے یہاں کوئی گنجائش نہیں ہے |
Surah 23 : Ayat 51
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرُّسُلُ كُلُواْ مِنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ وَٱعْمَلُواْ صَـٰلِحًاۖ إِنِّى بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اے پیغمبرو1، کھاؤ پاک چیزیں اور عمل کرو صالح2، تم جو کچھ بھی کرتے ہو، میں اس کو خوب جانتا ہوں
2 | پاک چیزوں سے مراد ایسی چیزیں ہیں جو بجائے خود بھی پاکیزہ ہوں ، اور پھر حلال طریقے سے بھی حاصل ہوں۔ طیبات کھانے کی ہدایت کر کے رہبانیت اور دنیا پرستی کے درمیان اسلام کی راہ اعتدال کی طرف اشارہ کر دیا گیا۔ مسلمان نہ تو راہب کی طرح اپنے آپ کو پاکیزہ رزق سے محروم کرتا ہے ، اور نہ دنیا پرست کی طرح حرام و حلال کی تمیز کے بغیر ہر چیز پر منہ مار دیتا ہے۔ عمل صالح سے پہلے طیبات کھانے کی ہدایت سے صاف اشارہ اس طرف نکلتا ہے کہ حرام خوری کے ساتھ عمل صالح کے کوئی معنی نہیں ہیں۔ صلاح کے لیے شرط اول یہ ہے کہ آدمی رزق حلال کھاۓ۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ ’’ لوگو ، اللہ خود پاک ہے اس لیے پاک ہی چیز کو پسند کرتا ہے ’’ پھر آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی اور اس کے بعد فرمایا لرجل یطیل السفر اشعث ا غبر و مطعمہ حرام و مشربہ حرام و ملبسہ حرام و غذی بالحرام یمدید یہ الی السماءیا رب یا رب فانی یستجاب الذالک۔ ’’ ایک شخص لمبا سفر کر کے غبار آلود و پراگندہ مُو آتا ہے اور آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر دعائیں مانگتا ہے ، یارب یارب ، مگر حال یہ ہوتا ہے کہ روٹی اس کی حرام ، کپڑے اس کے حرام، اور جسم اس کا حرام کی روٹیوں سے پلا ہوا۔ اب کس طرح ایسے شخص کی دعا قبول ہو‘‘۔ (مسلم ، ترمذی، احمد من حدیث ابی ہر یرہؓ) |
1 | پچھلے دو رکوعوں میں انبیاء کا ذکر کرنے کے بعد اب یٰٓاَیُّھَا الُّرُسُل کہہ کر تمام پیغمبروں کو خطاب کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کہیں یہ سارے پیغمبر یک جا موجود تھے اور ان سب کو خطاب کر کے یہ مضمون ارشاد فرمایا گیا۔ بلکہ اس سے یہ بتانا مقصود ہے کہ ہر زمانے میں مختلف قوموں اور مختلف ملکوں میں آنے والے انبیاء کویہی ہدایت کی گئی تھی اور سب کے سب اختلاف زمانہ مقام کے باوجود ایک ہی حکم کے مخاطب تھے۔ بعد کی آیت میں چونکہ تمام انبیاؑ کو ایک امت ، ایک جماعت ایک گروہ قرار دیا گیا ہے ، اس لیے طرز بیان یہاں ایسا اختیار کیا گیا کہ نگاہوں کے سامنے ان سب کے ایک گروہ ہونے کا نقشہ کھنچ جائے۔ گویا وہ سارے کے سارے ایک جگہ جمع ہیں اور سب کو ایک ہی ہدایت دی جا رہی ہے۔ مگر اس طرز کلام کی لطافت اس دور کے بعض کند ذہن لوگوں کی سمجھ میں نہ آ سکی اور وہ اس سے یہ نتیجہ نکال بیٹھے کہ یہ خطاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آنے والے انبیاء کی طرف ہے اور اس سے حضورؐ کے بعد بھی سلسلہ نبوت کے جاری ہونے کا ثبوت ملتا ہے۔ تعجب ہے جو لوگ زبان و ادب کے ذوق لطیف سے اس قدر کورے ہیں وہ قرآن کی تفسیر کرنے کی جرأت کرتے ہیں |
Surah 34 : Ayat 15
لَقَدْ كَانَ لِسَبَإٍ فِى مَسْكَنِهِمْ ءَايَةٌۖ جَنَّتَانِ عَن يَمِينٍ وَشِمَالٍۖ كُلُواْ مِن رِّزْقِ رَبِّكُمْ وَٱشْكُرُواْ لَهُۚۥ بَلْدَةٌ طَيِّبَةٌ وَرَبٌّ غَفُورٌ
سبا کے لیے1 اُن کے اپنے مسکن ہی میں ایک نشانی موجود تھی2، دو باغ دائیں اور بائیں 3کھاؤ اپنے رب کا دیا ہوا رزق اور شکر بجا لاؤ اُس کا، ملک ہے عمدہ و پاکیزہ اور پروردگار ہے بخشش فرمانے والا
3 | اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پورے ملک میں بس دوہی باغ تھے، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ سبا کی پوری سر زمین گلزار بنی ہوئی تھی۔ آدمی جہاں بھی کھڑا ہوتا اسے اپنے دائیں جانب بھی باغ نظر آتا اور بائیں جانب بھی |
2 | یعنی اس امر کی نشانی کہ جو کچھ ان کو میسر ہے وہ کسی کا عطیہ ہے نہ کہ ان کا اپنا آفریدہ۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کے بندگی و عبادت اور شکر و سپاس کا مستحق وہ خدا ہے جس نے ان کو یہ نعمتیں دی ہیں نہ کہ وہ جن کا کوئی حصہ ان نعمتوں کی بخشش میں نہیں ہے۔ اور اس امر کی نشانی کہ ان کی دولت لازوال نہیں ہے بلکہ جس طرح آئی ہے اسی طرح جا بھی سکتی ہے۔ |
1 | سلسلۂ بیان کو سمجھنے کے لیے رکوع اول کے مضمون کو نگاہ ہیں رکھنا ضروری ہے۔ اس میں یہ بتایا گیا ہے کہ کفار عرب آخرت کی آمد کو بعید از عقل سمجھتے تھے۔ اور جو رسولؐ اس عقیدے کو پیش کر رہا تھا اس کے متعلق کھلم کھلا یہ کہہ رہے تھے کہ ایسی عجیب باتیں کرنے والا آدمی یا تو مجنون ہو سکتا ہے، یا پھر وہ جان بوجھ کر افترا پردازی کر رہا ہے۔ اس کے جواب میں اللہ تعالٰی نے پہلے چند عقل دلائل ارشاد فرمائے جن کی تشریح ہم حواشی نمبر 7۔8۔12 میں کر چکے ہیں۔ اس کے بعد رکوع دوم میں حضرت داؤد و سلیمانؑ کا قصّہ اور پھر سبا کا قصہ ایک تاریخی دلیل کے طور پر بیان کیا گیا ہے جس سے مقصود یہ حقیقت ذہن نشین کرنا ہے کہ روئے زمین پر خود نوع انسانی کی اپنی سرگزشت قانونِ مکافات کی شہادت دے رہی ہے۔ انسان اپنی تاریخ کو غور سے دیکھے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ دنیا کوئی اندھیر نگری نہیں ہے جس کا سارا کارخانہ اندھا دھند چل رہا ہو بلکہ اس پر ایک سمیع و بصیر خدا فرمانروائی کر رہا ہے جو شکر کی راہ اختیار کرنے والوں کے ساتھ ایک معاملہ کرتا ہے اور ناشکری و کافر نعمتی کی راہ چلنے والوں کے ساتھ بالکل ہی ایک دوسرا معاملہ فرماتا ہے۔ کوئی سبق لینا چاہے تو اسی تاریخ سے یہ سبق لے سکتا ہے کہ جس خدا کی سلطنت کا یہ مزاج ہے اس کی خدائی میں نیکی اور بدی کا انجام کبھی یکساں نہیں ہو سکتا۔ اس کے عدل و انصاف کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ایک وقت ایسا آئے جب نیکی کا پورا اجر اور بدی کا پورا بدلہ دیا جائے۔ |
Surah 67 : Ayat 15
هُوَ ٱلَّذِى جَعَلَ لَكُمُ ٱلْأَرْضَ ذَلُولاً فَٱمْشُواْ فِى مَنَاكِبِهَا وَكُلُواْ مِن رِّزْقِهِۦۖ وَإِلَيْهِ ٱلنُّشُورُ
وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا1 رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے2
2 | یعنی اس زمین پر چلتے پھرتے اور خدا کا بخشا ہوا رزق کھاتے ہوئے اس بات کو نہ بھولو کہ آخر کار تمہیں ایک دن خدا کے حضور حاضر ہونا ہے |
1 | یعنی زمین تمہارے لیے اپنے آپ سے تابع نہیں بن گئی اور وہ رزق بھی جو تم کھا رہے ہو خود بخود یہاں پیدا نہیں ہو گیا، بلکہ اللہ نے اپنی حکمت اور قدرت سے اس کو ایسا بنایا ہے کہ یہاں تمہاری زندگی ممکن ہوئی اور یہ عظیم الشان کرہ ایسا پرسکون بن گیا کہ تم اطمینان سے اس پر چل پھر رہے ہو اور ایسا خوان نعمت بن گیا کہ اس میں تمہارے لیے زندگی بسر کرنے کا بے حدو حساب سرو سامان موجود ہے۔ اگر تم غفلت میں مبتلا نہ ہو اور کچھ ہوش سے کام لے کر دیکھو تو تمہیں معلوم ہو کہ اس زمین کو تمہاری زندگی کے قابل بنانے اور اس کے اندر رزق کے اتھاہ خزانے جمع کر دینے میں کتنی حکمتیں کار فرما ہیں۔ (تشریح کے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، النمل، حواشی 73۔74۔81۔ جلد چہارم، یٰسین، حواشی 29۔32۔ المومن، حواشی 90۔91۔ الزخرف، حاشیہ 7۔ الجاثیہ، حاشیہ 7۔ جلد پنجم قٓ، حاشیہ 18 |