Ayats Found (4)
Surah 29 : Ayat 7
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّـَٔـاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ ٱلَّذِى كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے1
1 | ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہےجنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں۔ زبان کا عمل یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جوبات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور ااعضاء و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی ہیں، اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہو ااس ایمان و ومل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں اس سے دار کر دی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی اور اس کے اعمال سے بہتر جشا دی جائے گی۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بغاوت کے بذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں اس کے نیک اعمال کا لحاظ کرکے اُن سے درگزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہو گی اور اس کی بہت سے کمزوری دور ہو جائیں گی۔ ایمان و عمل کی جزاء کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے لَنَجزِیَنَہمُ اَحسَنَ الَذِی کَانُو یَعمَلُونَ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں جو اعمال سب سے زیادہ اھے ہوں گے، ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی کے لحاظ سے جتنی جزاء کا مستحق ہوگا۔ اس سے زیادہ اچھی جزاء اُسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے مثلا سورہ انعام میں فرمایا مَن جَاء باَلحَسَنَۃِ فَللَہ خَیر مَنھَا (آیت ۸۴)۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے ہتر اجر دیا جائے گا۔ اور سورہ نساء میں فرمایا اِنَ اللہُ لاَ مَثقَالَ ذرَۃ وَاَِن تَلک حَسَِنَۃ یُضَا عِفہاَ (آیت ۴۰) اللہ ظلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اس کو بڑھاتا ہے |
Surah 49 : Ayat 10
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ فَأَصْلِحُواْ بَيْنَ أَخَوَيْكُمْۚ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں، لہٰذا اپنے بھائیوں کے درمیان تعلقات کو درست کرو1 اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا2
2 | پچھلی دو آیتوں میں مسلمانوں کی باہمی لڑائی کے متعلق ضروری ہدایات دینے کے بعد اہل ایمان کو یہ احساس دلایا گیا تھا کہ دین کے مقدس ترین رشتے کی بنا پروہ ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ان کو خدا سے ڈرتے ہوۓ اپنے آپس کے تعلقات کو درست رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔اب آگے کی دو آیتوں میں ان بڑی بڑی برائیوں کے سد باب کا حکم دیا جا رہا ہے جو بالعموم ایک معاشرے میں لوگوں کے باہمی تعلقات کو خراب کرتے ہیں۔ ایک دوسرے کی عزت پر حملہ،ایک دوسرے کی سل آزاری، ایک دوسرے سے بد گمانی، اور ایک دوسرے کے عیوب کا تجسس، در حقیقت یہی وہ اسباب ہیں جن سے آپس کی عداوتیں پیدا ہوتی ہیں اور پھر دوسرے اسباب کے ساتھ مل کر ان سے بڑے بڑے فتنے رو نما ہوتے ہیں۔ اس سلسلے میں جو احکام آگے کی آیتوں میں دیے گۓ ہیں اور ان کی جو تشریحات احادیث میں ملتی ہیں ان کی بنا پر ایک مفصل قانون ہتک عزت (Law of libel) مرتب کیا جا سکتا ہے۔ مغربی قوانین ہتک عزت اس معاملے میں اتنے ناقص ہیں کہ ایک شخص ان کے تحت دعویٰ کر کے اپنی عزت کچھ اور کھو آتا ہے۔ اسلامی قانون اس کے بر عکس ہر شخص کی ایک بنیادی عزت کا قائل ہے جس پر حملہ کرنے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ قطع نظر اس سے کہ حملہ واقعیت پر مبنی ہویا نہ ہو، اور جس پر حملہ کیا گیا ہے اس کی کوئی ’’حیثیت عرفی‘‘ ہو یا نہ ہو۔ مجرد یہ بات کہ ایک آدمی نے دوسرے آدمی کی تذلیل کی ہے اسے مجرم بنا دینے کے لیے کافی ہے، الا یہ کہ اس تذلیل کا کوئی رعی جواز ثابت کر دیا جاۓ |
1 | یہ آیت دنیا کے تمام مسلمانوں کی ایک عالمگیر برادری قائم کرتی ہے اور یہ اسی کی برکت ہے کہ کسی دوسرے دین یا مسلک کے پیروؤں میں وہ اخوت نہیں پائی گئی ہے جو مسلمانوں کے درمیان پائی جاتی ہے۔ اس حکم کی اہمیت اور اس کے تقاضوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنے بکثرت ارشادات میں بیان فرمایا ہے جن سے اس کی پوری روح سمجھ میں آسکتی ہے۔ حضرت جریر بن عبداللہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھ سے تین باتوں پر بیعت لی تھی۔ ایک یہ کہ نماز قائم کروں گا۔ دوسرے یہ کہ زکوٰۃ دیتا رہوں گا۔تیسرے یہ کہ ہر مسلمان کا خیر خواہ رہوں گا (بخاری، کتابالایمان)۔ حضرت عبداللہ بن مسعسد کی رسایت ہے کہ حضور نے فرمایا مسلمان کو گالی دینا فسق ہے اس سے جنگ کرنا کفر(بخاری، کتاب الایمان۔ مسند احمد میں اسی مضمون کی روایت حضرت سعید بن مالک نے بھی اپنے والد سے نقل کی ہے )۔ حضرت ابو ہریرہؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان، مال اور عزت حرام ہے ۔ (مسلم، کتاب البروالصلہ۔ ترمذی، ابواب البروالصِّلہ)۔ حضرت ابو سعید خذریؓ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ آپ نے فرمایا ’’مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، وہ اس پر ظلم نہیں کرتا، اس کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور اس کی تذلیل نہیں کرتا۔ ایک آدمی کے لیے یہی شر بہت ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی کی تحقیر کرے (مسند احمد)۔ حضرت سہل بن سعد ساعدی آپؐ کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ ’’ گروہ اہل ایمان کے ساتھ ایک مومن کا تعلق ویسا ہی ہے جیسا سر کے ساتھ جسم کا تعلق ہوتا ہے۔ وہ اہل ایمان کی ہر تکلیف کو اسی طرح محسوس کرتا ہے جس طرح سر جسم کے ہر حصے کا درد محسوس کرتا ہے۔ (مسند احمد)۔ اسی سے ملتا جلتا مضمون ایک اور حدیث میں ہے، جس میں آپؐ نے فرمایا ہے مومنوں کی مثال آپس کی محبت، وابستگی اور ایک دوسرے پر رحم و شفقت کے معاملہ میں ایسی ہے جیسے ایک جسم کی حالت ہوتی ہے کہ اس کے کسی عضو کو بھی تکلیف ہو تو سارا جسم اس پر بخار اور بے خوابی میں مبتلا ہو جاتا ہے(بخاری و مسلم)۔ ایک اور حدیث میں آپ کا یہ ارشاد منقول ہوا ہے کہ مومن ایک دوسرے کے لیے ایک دیوار کی اینٹوں کی طرح ہوتے ہیں کہ ہر ایک دوسرے سے تقویت پاتا ہے (بخاری، کتاب الادب، ترمذی، ابواب البروالصلہ) |
Surah 65 : Ayat 11
رَّسُولاً يَتْلُواْ عَلَيْكُمْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ مُبَيِّنَـٰتٍ لِّيُخْرِجَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۚ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَيَعْمَلْ صَـٰلِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ قَدْ أَحْسَنَ ٱللَّهُ لَهُۥ رِزْقًا
ایک ایسا رسو ل1 جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے2 جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے
2 | یعنی جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لاۓ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسولؐ نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ کے آکری حصہ میں درج کیا ہے۔ لیکن جو اصحاب علم چاہیں وہ دنیا کے مذہبی اور لادینی قوانین سے قرآن و سنت کے اس قانون کا مقابلہ کر کے خود دیکھ لیں |
1 | مفسرین میں سے بعض نے نصیحت سے مراد قرآن لیا ہے، اور رسول سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں، یعنی آپ کی ذات ہمہ تن نصیحت تھی۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے، کیونکہ پہلی تفسیر کی رو سے فقرہ یوں بنانا پڑے گا کہ ’’ ہم نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے اور ایک ایسا رسول بھیجا ہے ‘‘ قرآن کی عبارت میں اس تبدیلی کی آخر ضرورت کیا ہے جب کہ اس کے بغیر ہی عبارت نہ صرف پوری طرح بامعنی ہے بلکہ زیادہ پر معنی بھی ہے |
Surah 68 : Ayat 50
فَٱجْتَبَـٰهُ رَبُّهُۥ فَجَعَلَهُۥ مِنَ ٱلصَّـٰلِحِينَ
آخرکار اُس کے رب نے اسے برگزیدہ فرما لیا اور اِسے صالح بندوں میں شامل کر دیا