Ayats Found (2)
Surah 29 : Ayat 7
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَنُكَفِّرَنَّ عَنْهُمْ سَيِّـَٔـاتِهِمْ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَحْسَنَ ٱلَّذِى كَانُواْ يَعْمَلُونَ
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک اعمال کریں گے اُن کی برائیاں ہم ان سے دُور کر دیں گے اور انہیں اُن کے بہترین اعمال کی جزا دیں گے1
1 | ایمان سے مراد ان تمام چیزوں کو سچے دل سے ماننا ہےجنہیں تسلیم کرنے کی دعوت اللہ کے رسول اور اس کی کتاب نے دی ہے۔ اور عمل صالح سے مراد اللہ اور اس کے رسول کی ہدایت کے مطابق عمل کرنا ہے۔ دل و دماغ کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی فکر اور اس کے خیالات اور ارادے درست اور پاکیزہ ہوں۔ زبان کا عمل یہ ہے کہ آدمی برائی پر زبان کھولنے سے بچے اور جوبات بھی کرے حق و انصاف اور راستی کے مطابق کرے۔ اور ااعضاء و جوارح کا عمل صالح یہ ہے کہ آدمی کی پوری زندگی اللہ کی اطاعت و بندگی ہیں، اور اس کے احکام و قوانین کی پابندی میں بسر ہو ااس ایمان و ومل صالح کے دو نتیجے بیان کیے گئے ہیں: ایک یہ کہ آدمی کی برائیاں اس سے دار کر دی جائیں گی۔ دوسرا یہ کہ اسے اس کے بہترین اعمال کی اور اس کے اعمال سے بہتر جشا دی جائے گی۔ برائیاں دور کرنے سے مراد کئی چیزیں ہیں۔ ایک یہ کہ ایمان لانے سے پہلے آدمی نے خواہ کیسے ہی گناہ کیے ہوں، ایمان لاتے ہی وہ سب معاف ہو جائیں گے۔ دوسرے یہ کہ ایمان لانے کے بغاوت کے بذبے سے نہیں بلکہ بشری کمزوری سے جو قصور کیے ہوں اس کے نیک اعمال کا لحاظ کرکے اُن سے درگزر کیا جائے گا۔ تیسرے یہ کہ ایمان و عمل صالح کی زندگی اختیار کرنے سے آدمی کے نفس کی اصلاح آپ سے آپ ہو گی اور اس کی بہت سے کمزوری دور ہو جائیں گی۔ ایمان و عمل کی جزاء کے متعلق جو فقرہ ارشاد فرمایا گیا ہے وہ ہے لَنَجزِیَنَہمُ اَحسَنَ الَذِی کَانُو یَعمَلُونَ۔ اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ آدمی کے نیک اعمال میں جو اعمال سب سے زیادہ اھے ہوں گے، ان کو ملحوظ رکھ کر اس کے لیے تجویز کی جائے گی۔ دوسرے یہ کہ آدمی کے لحاظ سے جتنی جزاء کا مستحق ہوگا۔ اس سے زیادہ اچھی جزاء اُسے دی جائے گی۔ یہ بات دوسرے مقامات پر بھی قرآن میں فرمائی گئی ہے مثلا سورہ انعام میں فرمایا مَن جَاء باَلحَسَنَۃِ فَللَہ خَیر مَنھَا (آیت ۸۴)۔ جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کو اس سے ہتر اجر دیا جائے گا۔ اور سورہ نساء میں فرمایا اِنَ اللہُ لاَ مَثقَالَ ذرَۃ وَاَِن تَلک حَسَِنَۃ یُضَا عِفہاَ (آیت ۴۰) اللہ ظلم تو ذرہ برابر نہیں کرتا اور اگر نیکی ہو تو اس کو بڑھاتا ہے |
Surah 47 : Ayat 2
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَءَامَنُواْ بِمَا نُزِّلَ عَلَىٰ مُحَمَّدٍ وَهُوَ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْۙ كَفَّرَ عَنْهُمْ سَيِّـَٔـاتِهِمْ وَأَصْلَحَ بَالَهُمْ
اور جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اُس چیز کو مان لیا جو محمدؐ پر نازل1 ہوئی ہے اور ہے وہ سراسر حق اُن کے رب کی طرف سے اللہ نے ان کی برائیاں اُن سے دور کر دیں2 اور ان کا حال درست کر دیا3
3 | اس کے بھی دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ پچھلی حالت کو بدل کر آئندہ کے لیے اللہ بے ان کو صحیح راستے پر ڈال دیا اور ان کی زندگیاں سنوار دیں۔ اور دوسرا مطلب یہ کہ جس کمزوری و بے بسی اور مظلومی کی حالت میں وہ اب تک مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے ان کو اس سے نکال دیا ہے۔ اب اس نے ایسے حالات ان کے لیے پیدا کر دیے ہیں جن میں وہ ظلم سہنے کے بجاۓ ظالموں کا مقابلہ کریں گے، محکوم ہو کر رہنے کے بجاۓ اپنی زندگی کا نظام خود آزادی کے ساتھ چلائیں گے، اور مغلوب ہونے کے بجاۓ غالب ہو کر رہیں گے |
2 | اس کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ جاہلیت کے زمانے میں جو گناہ ان سے سرزد ہوۓ تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ سب ان کے حساب سے ساقط کر دیے۔ اب ان گناہوں پر کوئی باز پرس ان سے نہ ہو گی۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ عقائد اور خیالات اور اخلاق اور اعمال کی جن خرابیوں میں وہ مبتلا تھے، اللہ تعالیٰ نے وہ ان سے دور کر دیں۔ ان کے ذہن بدل گیے۔ ان کے عقائد اور خیالات بدل گیے۔ ان کی عادتیں اور خصلتیں بدل گئیں۔ ان کی سیرتیں اور ان کے کردار بدل گۓ۔ اب ان کے اندر جاہلیت کی جگہ ایمان ہے اور بد کر داریوں کی جگہ عمل صالح |
1 | اگرچہ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کہنے کے بعد اٰمَنُوْ ا بِمَا نُزِّ لَ عَلیٰ مُحَمَّدٍ کہنے کی حاجت باقی نہیں رہتی۔ کیونکہ ایمان لانے میں محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور آپؐ پر نازل ہونے والی تعلیمات پر ایمان لانا آپ سے آپ شامل ہے، لیکن اس کا الگ ذکر خاص طور پر یہ جتانے کے لیے کیا گیا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے مبعوث ہو جانے کے بعد کسی شخص کا خدا اور آخرت اور پچھلے رسولوں اور پچھلی کتابوں کا ماننا بھی اس وقت تک نافع نہیں ہے جب تک کہ وہ آپؐ کو اور آپؐ کی لائی ہوئی تعلیمات کو نہ مان لے۔ یہ تصریح اس لیے ضروری تھی ہجرت کے بعد اب مدینہ طیبہ میں ان لوگوں سے بھی سابقہ در پیش تھا جو ایمان کے دوسرے تمام لوازم کو تو مانتے تھے مگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی رسالت کو ماننے سے انکار کر رہے تھے |