Ayats Found (1)
Surah 58 : Ayat 5
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحَآدُّونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ كُبِتُواْ كَمَا كُبِتَ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْۚ وَقَدْ أَنزَلْنَآ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍۚ وَلِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں1 وہ اسی طرح ذلیل و خوار کر دیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے کے لوگ ذلیل و خوار کیے جا چکے ہی2ں ہم نے صاف صاف آیات نازل کر دی ہیں، اور کافروں کے لیے ذلت کا عذاب ہے3
3 | سیاق عبارت پر غور کرنے سے یہ بات مترشح ہوتی ہے کہ یہاں اس روش کی دو سزاؤں کا ذکر ہے۔ ایک کبُت، یعنی وہ خواری و رسوائی جو اس دنیا میں ہوئی اور ہو گی۔ دوسرے عذاب مہین، یعنی ذلت کا وہ عذاب جو آخرت میں ہونے والا ہے |
2 | اصل میں لفظ کَبْت استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں رسوا کرنا، ہلاک کرنا، لعنت کرنا، راندہ درگاہ کر دینا دھکے دے کر نکال دینا، تذلیل کرنا۔ ارشاد الہٰی کا مدعا یہ ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت اور اس کے احکام، سے بغاوت کا جوا انجام پچھلے انبیا کی امتیں دیکھ چکی ہیں اس سے وہ لوگ ہر گز نہ بچ سکیں گے جواب مسلمانوں میں سے وہی روش اختیار کریں۔ انہوں نے بھی جب خدا کی شریعت کے خلاف خود قوانین بناۓ، یا دوسروں کے بناۓ ہوۓ قوانین کو اختیار کیا تب اللہ کے فضل اور اس کی نظر عنایت سے وہ محروم ہوۓ، اور اسی کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کی زندگی ایسی گمراہیوں، بد درازیوں اور اخلاقی و تمدنی برائیوں سے لبریز ہوتی چلی گئی جنہوں نے بالآخر دنیا ہی میں ان کو ذلیل و خوار کر کے چھوڑا۔ یہی غلطی اگر اب امت محمدیہ کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ یہ مقبول بارگاہ بنی رہے اور اللہ اسے ذلت کے گڑھے میں گرنے سے بچاۓ چلا جاۓ۔ اللہ کو نہ اپنے پچھلے رسولوں کی امت سے کوئی عداوت تھی، نہ اس رسول کی امت سے اس کا کوئی مخصوص رشتہ ہے |
1 | مخالفت کرنے سے مراد اللہ کی مقرر کی ہوئی حدوں کو نہ ماننا اور ان کے بجاۓ کچھ دوسری حدیں مقرر کر لینا ہے۔ ابنجریر طبری اس آیت کی تفسیر یہ کرتے ہیں : ای یخالفون فی حدودہٖ و فرائضہ فیجعلون حدوداً غیر حدودہ۔ ’’ یعنی وہ لوگ جو اللہکی حدود اور اس کے فرائض کے معاملہ میں اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کی مقرر کی ہوئی حدوں کی جگہ دوسرے حدیں تجویز کر لیتے ہیں ‘‘۔ بیضاوی نے اس کی تفسیر یہ کی ہے : ای یدادو نھما ویداقونھما اویضعون او یختادون حدوداً غیر حدود ھما۔ ’’ یعنی اللہ اور اس کے رسول سے مخاصمت اور جھگڑا کرتے ہیں، یا ان کی مقرر کی ہوئی حدوں کے سوا دوسری حدیں خود وضع کر لیتے ہیں یا دوسروں کی وضع کردہ حدوں کو اختیار کرتے ہیں ‘‘۔ آلودی نے روح المعانی میں بیضاوی کی اس تفسیر سے اتفاق کرتے ہوۓ شیخ الاسلام سعد اللہ ثلَبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’ اس آیت میں ان بادشاہوں اور حکام سوء کے لیے سخت وعید ہے جنہوں نے شریعت کی مقرر کردہ حدود کے خلاف بہت سے احکام وضع کر لیے ہیں اور ان کا نام قانون رکھا ہے ‘‘۔ اس مقام پر علامہ آلوسی شرعی قوانین کے مقابلے میں وضعی قوانین کی آئینی (یعنی اسلامی نقطہ نظر آئینی) حیثیت پر مفصل بحث کرتے ہوۓ لکھتے ہیں : ’’اس شخص کے کفر میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے جو اس قانون کو مستحسن اور شریعت کے مقابلہ میں افضل قرار دیتا ہے، اور کہتا ہے کہ یہ زیادہ حکیمانہ اور قوم کے لیے زیادہ مناسب و موزوں ہے، اور جب کسی معاملہ میں اس سے کہا جاۓ کہ شریعت کا حکم اس کے بارے میں یہ ہے تو اس پر غصے میں بھڑک اٹھتا ہے، جیسا کہ ہم نے بعض ان لوگوں کو دیکھا ہے جن پر اللہ کی پھٹکار پڑی ہوئی ہے |