Ayats Found (2)
Surah 22 : Ayat 77
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱرْكَعُواْ وَٱسْجُدُواْ وَٱعْبُدُواْ رَبَّكُمْ وَٱفْعَلُواْ ٱلْخَيْرَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ۩
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، رکوع اور سجدہ کرو، اپنے رب کی بندگی کرو، اور نیک کام کرو، شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو1
1 | یعنی فلاح کی توقع اگر کی جا سکتی ہے تو یہ روش اختیار کرنے سے کی جا سکتی ہے۔ لیکن جوشخص بھی یہ روش اختیار کرے اسے اپنے عمل پر گھمنڈ نہ ہونا چاہیے کہمیں جب ایسا عبادت گزر اور نیکو کار ہوں تو ضرور فلاح پاؤں گا، بلکہ اسے اللہ کے فضل کا امیدوار رہنا چاہیے اور اسی کی رحمت سے توقعات وابستہ کرنی چاہییں۔ وہ فلاح دے تب ہی کوئی ژخص فلاح پا سکتا ہے۔ خود فلاح حاصل کر لینا کسی کے بس کی بات نہیں ہے۔ ’’ شاید کہ تم کو فلاح نصیب ہو۔ ‘‘ یہ فقرہ ارشاد فرمانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس طرح فلاح نصیب ہونا مشکوک ہے۔ بلکہ در اصل یہ شاہانہ انداز بیان ہے۔ بادشاہ اگر اپنے کسی ملازم سے یہ کہے کہ فلاں کام کرو، شاید کہ تمہیں فلاں منصب مل جائے، تو ملازم کے گھر شادیانے بج جاتے ہیں کیونکہ یہ اشارۃً ایک وعدہ ہے اور ایک مہر بان آقا سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ کسی خدمت پر ایک صلے کی امید وہ خود دلائے اور پھر اپنے وفا در خادم کو مایوس کرے۔ امام شافعی، امام احمد ، عبداللہ بن مبارک اور اسحاق بن راھَوَیہ کے نزدیک سورہ حج کی یہ آیت بھی آیت سجدہ ہے۔ مگر امام ابو حنیفہ ، امام مالک، حسن بصری ، سعید بن المسیب، سعید بن جبیر، ابرہیم نخعی اور سفیان ثوری اس جگہ سجدہ تلاوت کے قائل نہیں ہیں۔ دونوں طرف کے دلائل ہم مختصراً یہاں نقل کر دیتے ہیں۔ پلے گروہ کا اولین استدلال ظاہر آیت سے ہے کہ اس میں سجدے کا حکم ہے۔ دوسری دلیل عقبہ بن عامر کی وہ روایت ہے جسے احمد، ابو داؤد ، ترمذی ، ابن کردویہ اور بیہقی نے نقل کیا ہے کہ : قلت یا رسول اللہ افضلت سورۃ الحج علیٰ سائر القراٰن بسجدتین؟ قال نعم فمن لم یسجد ھما فلا یقرأ ھما۔ ’’ میں نے عرض کیا یا روسل اللہ، کیا سورہ حج کو سارے قرآن پر یہ فضیلت حاصل ہے کہ اس میں دو سجدے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ، پس جو ان پر سجدہ نہ کرے وہ انہیں نہ پڑھے ‘‘۔ تیسری دلیل ابو داؤد اور ابن ماجہ کی وہ روایت ہے جس میں عمرؓ ، علیؓ، عثمانؓ، ابن عمرؓ، ابن عباسؓ ، ابو الدرداءؓ ، ابو موسیٰؓ اشعری اور عماؓر بن یاسر سے یہ بات منقول ہے کہ سورہ حج میں دو سجدے ہیں۔ دوسرے گروہ کا استدلال یہ ہے کہ آیت میں محض سجدے کا حکم نہیں ہے بلکہ رکوع اور سجدے کا ایک ساتھ ہے اور قرآن میں رکوع و سجود ملا کر جب بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نماز ہی ہوتی ہے۔ نیز رکوع و سجود کا اجتماع نماز ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ عقبہ بن عامر کی روایت کے متعلق وہ کہتے ہیں کہ اس کی سند ضعیف ہے۔ اس کو ابن لیعہ ابو المصعب بصری سے روایت کرتا ہے اور یہ دونوں ضعیف راوی ہیں۔ خاص کر ابو امصعب تو وہ شخص ہے جو حجاج بن یوسف کے ساتھ کعبے پر منجنیق سے پتھر برسانے والوں میں شامل تھا۔ عمرو بن عاص والی روایت کو بھی وہ پایہ اعتبار سے ساقط قرار دیتے ہیں کیونکہ اس کو سعید العتقی عبداللہ بن منین الکلابی سے روایت کرتا ہے اور دونوں مجہول ہیں ، کچھ پتہ نہیں کہ کون تھے اور کس پایہ کے آدمی تھے۔ اقوال صحابہ کے سلسلے میں وہ کہتے ہیں کہ ابن عباس نے سورہ حج میں دو سجدے ہونے کا یہ مطلب صاف بتایا ہے کہ : الا ولیٰ عزمۃ ا الاخرۃ تعلیم، یعنی پہلا سجدہ لازمی ہے ، اور دوسرا سجدہ تعلیمی |
Surah 28 : Ayat 67
فَأَمَّا مَن تَابَ وَءَامَنَ وَعَمِلَ صَـٰلِحًا فَعَسَىٰٓ أَن يَكُونَ مِنَ ٱلْمُفْلِحِينَ
البتہ جس نے آج توبہ کر لی اور ایمان لے آیا اور نیک عمل کیے وہی یہ توقع کر سکتا ہے کہ وہاں فلاح پانے والوں میں سے ہو گا