Ayats Found (19)
Surah 3 : Ayat 32
قُلْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَۖ فَإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّ ٱللَّهَ لَا يُحِبُّ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اُن سے کہو کہ 1"اللہ اور رسول کی اطاعت قبول کر لو" پھر تم اگر وہ تمہاری دعوت قبول نہ کریں، تو یقیناً یہ ممکن نہیں ہے کہ اللہ ایسے لوگوں سے محبت کرے، جو اس کی اور اس کے رسول کی اطاعت سے انکار کرتے ہوں
1 | یہاں پہلی ختم ہوتی ہے ۔ اس کے مضمون ، خصُوصاً جنگِ بدر کی طرف جو اشارہ اس میں کیا گیا ہے، اس کے انداز پر غور کرنے سے غالب قیاس یہی ہوتا ہے کہ اس تقریر کے نزول کا زمانہ جنگِ بدر کے بعد اور جنگِ اُحد سے پہلے کا ہے، یعنی سن ۳ ہجری ۔ محمد بن اسحاق کی روایت سے عموماً لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ اس سورت کی ابتدائی ۸۰ آیتیں و فدِ نجران کی آمد کے موقع پر سن ۹ ہجری میں نازل ہوئی تھیں۔ لیکن اوّل تو اس تمہیدی تقریر کا مضمون صاف بتا رہا ہے کہ یہ اس سے بہت پہلے نازل ہوئی ہو گی، دُوسرے مُقاتل بن سلیمان کی روایت میں تصریح ہے کہ وفدِ نجران کی آمد پر صرف وہ آیات نازل ہوئی ہیں جو حضرت یحییٰ اور حضرت عیسیٰ علیہما السّلام کے بیان پر مشتمل ہیں اور جن کی تعداد ۳۰ یا اس سے کچھ زائد ہے |
Surah 3 : Ayat 132
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَٱلرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
اور اللہ اور رسول کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا
Surah 4 : Ayat 59
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَأُوْلِى ٱلْأَمْرِ مِنكُمْۖ فَإِن تَنَـٰزَعْتُمْ فِى شَىْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى ٱللَّهِ وَٱلرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِۚ ذَٲلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو1 اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے2
2 | ”قرآن مجید چونکہ محض کتابِ آئین ہی نہیں ہے بلکہ کتابِ تعلیم و تلقین اور صحیفۂ وعظ و ارشاد بھی ہے ، اس لیے پہلے فقرے میں جو قانونی اُصُول بیان کیے گئے تھے، اب اِس دُوسرے فقرے میں ان کی حکمت و مصلحت سمجھائی جا رہی ہے۔ اس میں دو باتیں ارشاد ہوئی ہیں : ایک یہ کہ مذکورۂ بالا چاروں اُصُولوں کی پیروی کرنا ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ مسلمان ہونے کا دعویٰ اور ان اصولوں سے انحراف ، یہ دونوں چیزیں ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتیں۔ دوسرے یہ کہ ان اُصُولوں پر اپنے نظامِ زندگی کو تمیر کرنے ہی میں مسلمانوں کی بہتری بھی ہے۔ صرف یہی ایک چیز ان کو دنیا میں صراطِ مستقیم پر قائم رکھ سکتی ہے اور اسی سے ان کی عاقبت بھی درست ہو سکتی ہے۔ یہ نصیحت ٹھیک اُس تقریر کے خاتمہ پر ارشاد ہوئی ہے جس میں یہودیوں کی اخلاقی و دینی حالت پر تبصرہ کیا جا رہا تھا۔ اس طرح ایک نہایت لطیف طریقہ سے مسلمانوں کو متنبہ کیا گیا ہے کہ تمہاری پیش رَو اُمّت دین کے اِن بُنیادی اُصُولوں سے منحرف ہو کر جس پستی میں گِر چکی ہے ا س سے عبرت حاصل کرو۔ جب کوئی گروہ خدا کی کتاب اور اس کے رسُول کی ہدایت کو پسِ پشت ڈال دیتا ہے ، اور ایسے سرداروں اور رہنما ؤں کے پیچھے لگ جاتا ہے جو خدا رسُول کے مطیعِ فرمان نہ ہوں، اور اپنے مذہبی پیشواؤں اور سیاسی حاکموں سے کتاب و سنت کی سند پوچھے بغیر ان کی اطاعت کرنے لگتا ہے تو وہ اُن خرابیوں میں مبتلا ہونے سے کسی طرح بچ نہیں سکتا جن میں بنی اسرائیل مبتلا ہوئے |
1 | یہ آیت اسلام کے پُورے مذہبی، تمدّنی اور سیاسی نظام کی بُنیاد اور اسلامی ریاست کے دستور کی اوّلین دفعہ ہے۔ اس میں حسب ذیل اصول مستقل طور پر قائم کر دیے گئے ہیں: (۱) اسلامی نظام میں اصل مُطاع اللہ تعالیٰ ہے۔ ایک مسلمان سب سے پہلے بندۂ خدا ہے، باقی جو کچھ بھی ہے اس کے بعد ہے۔ مسلمان کی انفرادی زندگی ، اور مسلمانوں کے اجتماعی نظام، دونوں کا مرکز و محوَر خدا کی فرمانبرداری اور وفاداری ہے۔ دُوسری اطاعتیں اور وفاداریاں صرف اس صورت میں قبول کی جائیں گی کہ وہ خدا کی اطاعت اور وفاداری کی مدِّ مقابل نہ ہوں بلکہ اس کے تحت اور اس کی تابع ہوں۔ ورنہ ہر وہ حلقۂ اطاعت توڑ کر پھینک دیا جائے گا جو اس اصلی اور بنیادی اطاعت کا حریف ہو۔ یہی بات ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق۔ خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کے لیے کوئی اطاعت نہیں ہے۔ (۲)اسلامی نظام کی دُوسری بنیاد رسول کی اطاعت ہے۔ یہ کوئی مستقل بالذّات اطاعت نہیں ہے بلکہ اطاعتِ خدا کی واحد عملی صُورت ہے۔ رسول اس لیے مُطاع ہے کہ وہی ایک مستند ذریعہ ہے جس سے ہم تک خدا کے احکام اور فرامین پہنچتے ہیں۔ ہم خدا کی اطاعت صرف اسی طریقہ سے کر سکتے ہیں کہ رسول کی اطاعت کریں۔ کوئی اطاعتِ خدا رسُول کی سند کے بغیر معتبر نہیں ہے ، اور رسُول کی پیروی سے منہ موڑنا خدا کے خلاف بغاوت ہے۔ اسی مضمون کو یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصَانی فقد عصَی اللہ۔” جس نے میری اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے خدا کی نافرمانی کی۔“ اور یہی بات خود قرآن میں پوری وضاحت کے ساتھ آگے آرہی ہے۔ (۳)مذکورۂ بالا دونوں اطاعتوں کے بعد اور ان کے ماتحت تیسری اطاعت جو اسلامی نظام میں مسلمانوں پر واجب ہے وہ اُن” اولی الامر“ کی اطاعت ہے جو خود مسلمانوں میں سے ہوں۔”اولی الامر “ کے مفہُوم میں وہ سب لوگ شامل ہیں جو مسلمانوں کے اجتماعی معاملات کے سربراہ کار ہوں، خواہ وہ ذہنی و فکری رہنمائی کرنے والے علماء ہوں ، یا سیاسی رہنمائی کرنے والے لیڈر، یا مُلکی انتظام کرنے والے حُکّام، یا عدلاتی فیصلے کرنے والے جج، یا تمدّنی و معاشرتی امور میں قبیلوں اور بستیوں اور محلّوں کی سربراہی کرنے والے شیوخ اور سردار۔ غرض جو جس حیثیت سے بھی مسلمانوں کا صاحب. امر ہے وہ اطاعت کا مستحق ہے ، اور اس سے نزاع کر کے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں خلل ڈالنا درست نہیں ہے۔ بشرطیکہ وہ خود مسلمانوں کے گروہ میں سے ہو، اور خدا و رسول کا مطیع ہو۔ یہ دونوں شرطیں اس اطاعت کے لیے لازمی شرطیں ہیں اور یہ نہ صرف آیت مذکورۂ صدر میں صاف طور پر درج ہیں، بلکہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو پُوری شرح و بسط کے ساتھ بیان فرما دیا ہے۔ مثلاً حسب ذیل احادیث ملاحظہ ہوں: السمع و الطاعۃ المرء المسلم فی ما احب و کرہ مالم یؤمر بمعصیۃ فا ذا امر بمعصیۃ فلا سمع ولا طاعۃ۔ (بخاری و مسلم) مسلمان کو لازم ہے کہ اپنے اُولی الامر کی بات سُنے اور مانے خواہ اسے پسند ہو یا نا پسند ، تا وقتیکہ اسے معصیت کا حکم نہ دیا جائے۔ اور جب اسے معصیت کا حکم دیا جائے تو پھر اسے نہ کچھ سُننا چاہیے نہ ماننا چاہیے۔ لا طاعۃ فی معصیۃ انما الطاعۃ فی المعروف۔ (بخاری و مسلم) خدا اور رسُول کی نافرمانی میں کوئی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت جو کچھ بھی ہے ”معروف“ میں ہے۔ یکون علیکم امراء تعرفون و تنکرون فمن انکر فقد بریٔ و من کرہ فقد سم ولکن من رضی و تابع فقالوا افلا نقاتلھم؟ قال لا ما صلّوا۔(مسلم) حضور ؐ نے فرمایا تم پر ایسے لوگ بھی حکومت کریں گے جن کے بعض باتوں کو تم معروف پا ؤ گے اور بعض کو منکر۔ تو جس نے ان کے منکرات پر اظہارِ ناراضی کیا وہ بَری الذّمّہ ہوا۔ اور جس نے ان کو ناپسند کیا وہ بھی بچ گیا۔ مگر جو ان پر راضی ہوا اور پیروی کرنے لگا وہ ماخوذ ہوگا۔ صحابہ نے پوچھا، پھر جب ایسے حکّام کا دَور آئے تو کیا ہم ان سے جنگ نہ کریں، آپ ؐ نے فرمایا نہیں جب تک کہ وہ نماز پڑھتے رہیں۔ یعنی ترکِ نماز وہ علامت ہو گی جس سے صریح طور پر معلوم ہو جائے گا کہ وہ اطاعت ِ خدا و رسُول سے باہر ہو گئے ہیں، اور پھر ان کے خلاف جدوجہد کرنا درست ہو گا۔ شِرَار ائمّتکُم الّدیْن تبغضو نہم و یبغضو نکم و تلعنو نہم و یلعنو نکم قلنا یا رسول اللہ افلا ننا بذھم عند ذٗالک؟ قال لا ما اقامو ا فیکم الصلوۃ، لا مَا اقاموا فیکم الصلوۃ۔ (مسلم) حضُور ؐ نے فرمایا تمہارے بدترین سردار وہ ہیں جو تمہارے لیے مبغوض ہوں اور تم ان کے لیے مبغوض ہو۔ تم ان پر لعنت کرو اور وہ تم پر لعنت کریں۔ صحابہ کرام نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ! جب یہ صُورت ہو تو کیا ہم اُن کے مقابلہ پر نہ اُٹھیں؟ فرمایا نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ نہیں، جب تک وہ تمہارے درمیان نماز قائم کرتے رہیں۔ اس حدیث میں اُوپر والی شرط کو اور زیادہ واضح کر دیا گیا ہے۔ اُوپر کی حدیث سے گمان ہو سکتا تھا کہ اگر وہ اپنی انفرادی زندگی میں نماز کے پابند ہوں تو ان کے خلاف بغاوت نہیں کی جاسکتی۔ لیکن یہ حدیث بتاتی ہے کہ نماز پڑھنے سے مراد دراصل مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں نماز کا نظام قائم کرنا ہے۔ یعنی صرف یہی کافی نہیں ہے کہ وہ لوگ خود پابندِ نماز ہوں ، بلکہ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ ان کے تحت جو نظامِ حکومت چل رہا ہو وہ کم از کم اقامتِ صلوٰۃ کا انتظام کرے۔ یہ اس بات کی علامت ہو گی کہ ان کی حکومت اپنی اُصُولی نوعیت کے اعتبار سے ایک اسلامی حکومت ہے۔ ورنہ اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ حکومت اسلام سے منحرف ہو چکی ہے اور اسے اُلٹ پھینکنے کی سعی مسلمانوں کے لیے جائز ہو جائے گی۔ اسی بات کو ایک اور روایت میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے مِن جملہ اور باتوں کے ایک اس امر کا عہد بھی لیا کہ ان لا ننازع الامر ا ھلہ الا ان ترو اکفر ا بَوَاحًا عندکم من اللہ فیہ برھان، یعنی یہ کہ” ہم اپنے سرداروں اور حُکّام سے نزاع نہ کریں گے، اِلّا یہ کہ ہم ان کے کاموں میں کھُلم کھُلا کفر دیکھیں جس کی موجودگی میں ان کے خلاف ہمارے پاس خدا کے حضور پیش کرنے کے لیے دلیل موجود ہو۔“ (بخار ی و مسلم) (۴) چوتھی بات جو آیت زیرِ بحث میں ایک مستقل اور قطعی اُصُول کے طور پر طے کر دی گئی ہے یہ ہے کہ اسلامی نظام میں خدا کا حکم اور رسُول کا طریقہ بنیادی قانون اور آخری سند( Final authority ) کی حیثیت رکھتا ہے۔ مسلمانوں کے درمیان ، یا حکومت اور رعایا کے درمیان جس مسئلہ میں بھی نزاع واقع ہوگی اس میں فیصلہ کے لیے قرآن اور سنت کی طرف رجوع کیا جائے گا اور جو فیصلہ وہاں سے حاصل ہوگا اس کے سامنے سب سرِتسلیم خم کر دیں گے۔ اس طرح تمام مسائل زندگی میں کتاب اللہ و سنت رسُول اللہ کو سند اور مرجع اور حرفِ آخر تسلیم کرنا اسلامی نظام کی وہ لازمی خصُوصیّت ہے جو اسے کافرانہ نظامِ زندگی سے ممیز کرتی ہے۔ جس نظام میں یہ چیز نہ پائی جائے وہ بالیقین ایک غیر اسلامی نظا م ہے۔ اس موقع پر بعض لوگ یہ شبہہ پیش کرتے ہیں کہ تمام مسائل ِ زندگی کے فیصلہ کے لیے کتاب اللہ و سُنت رسول اللہ کی طرف کیسے رجوع کیا جا سکتا ہے جبکہ میونسپلٹی اور ریلوے اور ڈاک خانہ کے قواعد و ضوابط اور ایسے ہی بے شمار معاملات کے احکام سرے سے وہاں موجود ہی نہیں ہیں۔ لیکن درحقیقت یہ شبہہ اُصُولِ دین کو نہ سمجھنے سے پیدا ہوتا ہے۔ مسلمان کو جو چیز کافر سے ممیّز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ کافر مطلق آزادی کا مدّعی ہے ، اور مسلمان فی الاصل بندہ ہونے کے بعد صرف اُس دائرے میں آزادی کا متمتع ہوتا ہے جو اس کے رب نے اُسے دی ہے۔ کافر اپنے سارے معاملات کا فیصلہ خود اپنے بنائے ہوئے اُصُول اور قوانین اور ضوابط کے مطابق کرتا ہے اور سرے سے کسی خدائی سند کا اپنے آپ کو حاجت مند سمجھتا ہی نہیں۔ اس کے برعکس مسلمان اپنے ہر معاملہ میں سب سے پہلے خدا اور رسُول ﷺ کی طرف رجوع کرتا ہے ، پھر اگر وہاں سے کوئی حکم ملے تو وہ اس کی پیروی کرتا ہے ، اور اگر کوئی حکم نہ ملے تو وہ صرف اِسی صُورت میں آزادیِ عمل برتتا ہے، اور اُس کی یہ آزادیٔ عمل اس حجّت پر مبنی ہوتی ہے کہ اس معاملہ میں شارع کا کوئی حکم نہ دینا اس کی طرف سے آزادیِ عمل عطا کیے جانے کی دلیل ہے |
Surah 4 : Ayat 170
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ قَدْ جَآءَكُمُ ٱلرَّسُولُ بِٱلْحَقِّ مِن رَّبِّكُمْ فَـَٔـامِنُواْ خَيْرًا لَّكُمْۚ وَإِن تَكْفُرُواْ فَإِنَّ لِلَّهِ مَا فِى ٱلسَّمَـٰوَٲتِ وَٱلْأَرْضِۚ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
لوگو! یہ رسول تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر آگیا ہے، ایمان لے آؤ، تمہارے ہی لیے بہتر ہے، اور اگر انکار کرتے ہو تو جان لو کہ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے سب اللہ کا ہے اور اللہ علیم بھی ہے اور حکیم بھی
Surah 5 : Ayat 92
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَأَطِيعُواْ ٱلرَّسُولَ وَٱحْذَرُواْۚ فَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّمَا عَلَىٰ رَسُولِنَا ٱلْبَلَـٰغُ ٱلْمُبِينُ
اللہ اور اُس کے رسول کی بات مانو اور باز آ جاؤ، لیکن اگر تم نے حکم عدولی کی تو جان لو کہ ہمارے رسول پر بس صاف صاف حکم پہنچا دینے کی ذمہ داری تھی
Surah 8 : Ayat 1
يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْأَنفَالِۖ قُلِ ٱلْأَنفَالُ لِلَّهِ وَٱلرَّسُولِۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَأَصْلِحُواْ ذَاتَ بَيْنِكُمْۖ وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ
تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں؟ کہو “یہ انفال تو اللہ اور اُس کے رسُولؐ کے ہیں، پس تم لوگ اللہ سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات درست کرو اور اللہ اور اُس کے رسولؐ کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو"1
1 | یہ اس تبصرہ جنگ کی عجیب تمہید ہے۔ بدر میں جو مال غنیمت لشکر قریش سے لوٹا گیا تھا اس کی تقسیم پر مسلمانوں کے درمیان نزاغ برپا پو گئی۔ چونکہ اسلام قبول کرنے کے بعد ان لوگوں کی پہلی مرتبہ پرچم اسلام کے نیچے لڑنے کا اتفاق ہوا تھا اس لیے ان کو معلوم نہ تھا کہ اس مسلک میں جنگ اور اس سے پیدا شدہ مسائل کے متعلق کیا ضابطہ ہے۔ کچھ ابتدائی ہدایات سورہ بقرہ اور سورہ محمد میں دی جا چکی تھیں۔ لیکن”تہذیب جنگ“ کی بنیاد ابھی رکھنی باقی تھی۔ بہت سے تمدنی معاملات کی طرح مسلمان ابھی تک جنگ کے معاملہ میں بھی اکثر پرانی جاہلیت ہی کے تصورات لیے ہوئے تھے۔ اس وجہ سے بدر کی لڑائی میں کفار کی شکست کےبعد جن لوگوں نے جو جو کچھ مال غنیمت لوٹا تھا وہ عرب کے پرانے طریقہ کے مطابق اپنے آپ کو اس کا مالک سمجھ بیٹھے تھے۔ لیکن ایک دوسرا فریق جس نے غنیمت کی طرف رُخ کرنے کے بجائے کفار کا تعاقب کیا تھا، اس بات کا مدعی ہوا کہ اس مال میں ہمارا برابر کا حصہ ہے کیونکہ اگر ہم دشمن کا پیچھا کرکے اسے دور تک بھگا نہ دیتے اور تمہاری طرح غنیمت پر ٹوٹ پڑتے تو ممکن تھا کہ دشمن پھر پلٹ کر حملہ کر دیتا اور فتح شکست سے بدل جاتی ۔ ایک تیسرے فریق نے بھی ، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت کر رہا تھا، اپنے دعاوی پیش کیے۔ اس کا کہنا یہ تھا کہ سب سے بڑھ کر قیمتی خدمت تو اس جنگ میں ہم نے انجام دی ہے۔ اگر ہم رسول اللہ کے گرد اپنی جانوں کا حصار بنائے ہوئے نہ رہتے اور آپ کو کوئی گزند پہنچ جاتا تو فتح ہی کب نصیب ہو سکتی تھی کہ کوئی مال غنیمت ہاتھ آتا اور اس کی تقسیم کا سوال اٹھتا۔ مگر مال عملاً جس فریق کے قبضہ میں تھا اس کی ملکیت گویا کسی ثبوت کی محتاج نہ تھی اور وہ دلیل کا یہ حق ماننے کے لیے تیار نہ تھا کہ ایک امرِ واقعی کے اس زور سے بدل جائے۔ آخر کار اس نزاع نے تلخی کی صورت اختیار کرنی شروع کردی اور زبانوں سے دلوں تک بد مزگی پھیلنے لگی۔ یہ تھا وہ نفسیاتی موقع جسے اللہ تعالیٰ نے سورہ انفال نازل کرنے کے لیے منتخب فرمایا اور جنگ پر اپنے تبصے کی ابتدا اسی مسئلے سے کی۔ پھر پہلا ہی فقرہ جو ارشاد ہوا اُسی میں سوال کا جواب موجود تھا فرمایا”تم سے انفال کے متعلق پوچھتے ہیں“؟ یہ ان اموال کو ”غنائم“ کے بجائے” انفال “ کے لفظ سے تعبیر کرنا بجائے خود مسئلے کا فیصلہ اپنے اندر رکھتا تھا۔ انفال جمع ہے نفل کی۔ عربی زبام میں نفل اس چیز کو کہتے ہیں جو واجب سے یا حق سے زائد ہو۔ جب یہ تابع کی طرف سے ہو تو اس سے مراد و ہ رضا کارانہ خدمت ہوتی ہے جو ایک بندہ اپنے آقا کے لیے فرض سے بڑھ کر تَطُوَّعًا بجا لاتا ہے۔ اور جب یہ متبوع کی طرف سے ہو تو اس سے مرادہ وہ عطیہ و انعام ہوتا ہے جو آقا اپنے بندے کو اس کے حق سے زائد دیتا ہے۔ پس ارشاد کا مطلب یہ ہوا کہ یہ ساری ردّوکد، یہ نزاع ، یہ پوچھ گچھ کیا خدا کے بخشے ہوئے ، انعامات کے بارے میں ہو رہی ہے؟ اگر یہ بات ہے تو تم لوگ ان کے مالک و مختار کہان بنے جا رہے ہو کہ خواد ان کی تقسیم کا فیصلہ کرو۔ مال جس کا بخشا ہوا ہے۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ کیسے دیا جائے اور کسے نہیں، اور جس کو بھی دیا جائے اسے کتنا دیا جائے۔ یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی اخلاقی اصلاح تھی ۔ مسلمان کی جنگ دنیا کے مادی فائدے بٹورنے کیلے نہیں ہے بلکہ دنیا کے اخلاقی وتمدنی بگاڑ کو اس اصول حق کے مطابق درست کرنے کے لیے ہے ، جسے مجبوراً اُس وقت اختیار کیا جاتا ہےجبکہ مزاحم قوتیں دعوت و تبلیغ کے ذریعہ سے اصلاح کو ناممکن بنا دیں۔ پس مصلحین کی نظر اپنے مقصد پر ہونی چاہیے نہ کہ اُن فوائد پر جو مقصد کے لیے سعی کرتے ہوئے بطور انعام خدا کی عنایت سے حاصل ہوں۔ ان فوائد سے اگر ابتدا ہی میں ان کی نظر نہ ہٹا دی جائے تو بہت جلدی، اخلاقی انحطاط رونما ہو کر یہی فوائد مقصود قرار پا جائیں۔ پھر یہ جنگ کے سلسلہ میں ایک بہت بڑی انتظامی اصلاح بھی تھی۔ قدیم زمانہ میں طریقہ یہ تھا کہ جو مال جس کے ہاتھ لگتا وہی اس کا مالک قرار پاتا۔ یا پھر بادشاہ یا سپہ سالار تمام غنائم پر قابض ہو جاتا ۔ پہلی صورت میں اکثر ایسا ہوتا تھا کہ فتح یاب فوجوں کے درمیان اموال غنیمت پر سخت تنافُس برپا ہو جاتا اور بسا اوقات ان کی خانہ جنگی فتح کو شکست میں تبدیل کر دیتی۔ دوسری صورت میں سپاہیوں کو چوری کا عارضہ لگ جاتا تھا اور وہ غنائم کو چھپانے کی کوشش کرتے تھے۔ قرآن مجید نے انفال کو اللہ اور رسول کا مال قرار دے کر پہلے تو یہ قاعدہ مقرر کر دیا کہ تمام مال غنیمت لا کر بے کم و کاست امام کے سامنے رکھ دیا جائے اور ایک سوئی تک چھپا کر نہ رکھی جائے۔ پھر آگے چل کر اس مال کی تقسیم کا قانون بنا دیا کہ پانچواں حصہ خدا کے کام اور اس کے غریب بندوں کی مدد کے لیے بیت المال میں رکھ لیا جائے اور باقی چار حصے اُس پوری فوج میں تقسیم کر دیے جائیں جو لڑائی میں شریک ہوئی ہو۔ اس طرح وہ دونوں خرابیاں دور ہوگئیں جو جاہلیت کے طریقہ میں تھیں۔ اس مقام پر ایک لطیف نکتہ اور بھی ذہن میں رہنا چاہیے، یہاں انفال کے قصے کو صرف اتنی بات کہہ کر ختم کر دیا ہے کہ یہ اللہ اور اس کے رسول کے ہیں۔ تقسیم کے مسئلے کو یہاں نہیں چھیڑا گیا تا کہ پہلےتسلیم و اطاعت مکمل ہو جائے۔ پھر چند رکوع کے بعد بتایا گیا کہ ان اموال کو تقسیم کس طرح کیا جائے۔ اسی لیے یہاں انہیں”انفال “کہاگیا ہے اور رکوع ۵ میں جب تقسیم کا حکم بیان کرنے کی نوبت آئی تو انہی اموال کو”غنائم“کے لفظ سے تعبیر کیا گیا |
Surah 8 : Ayat 20
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَوَلَّوْاْ عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو
Surah 8 : Ayat 21
وَلَا تَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ قَالُواْ سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ
اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے1
1 | یہاں سننے سے مراد وہ سننا ہے جو ماننے اور قبول کرنے کے معنی میں ہوتا ہے۔ اشارہ اُن منافقین کی طرف ہے جو ایمان کا اقرار تو کرتے تھے مگر احکام کی اطاعت سے منہ موڑ جاتے تھے |
Surah 8 : Ayat 24
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱسْتَجِيبُواْ لِلَّهِ وَلِلرَّسُولِ إِذَا دَعَاكُمْ لِمَا يُحْيِيكُمْۖ وَٱعْلَمُوٓاْ أَنَّ ٱللَّهَ يَحُولُ بَيْنَ ٱلْمَرْءِ وَقَلْبِهِۦ وَأَنَّهُۥٓ إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہو جبکہ رسُول تمہیں اس چیز کی طرف بُلائے جو تمہیں زندگی بخشنے والی ہے، اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہے اور اسی کی طرف تم سمیٹے جاؤ گے1
1 | نفاق کی روش سے انسان کو بچانے کے لیے اگر کوئی سب سے زیادہ موثر تدبیر ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ وہ عقیدے انسان کی ذہن نشین ہوجائیں۔ ایک یہ کہ معاملہ اُس خدا کے ساتھ ہے جو دلوں کے حال تک جانتا ہے اور ایسا رازوان ہے کہ آدمی اپنے دل میں جو نیتیں ،جو خواہشیں، جو اغراض و مقاصد اور جو خیالات چھپا کر رکھتا ہے وہ بھی اس پر عیاں ہیں۔ دوسرےیہ کہ جانابہر حال خدا کے سامنے ہے۔ اس سے بچ کر کہیں بھاگ نہیں سکتے ۔ یہ وہ عقیدے جتنے زیادہ پختہ ہوں گے اتنا ہی انسان نفاق سے دور رہے گا۔ اسی لیے منافقت کے خلاف وعظ و نصیحت کے سلسلہ میں قرآن ان دو عقیدوں کا ذکر بار بار کرتا ہے |
Surah 8 : Ayat 46
وَأَطِيعُواْ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ وَلَا تَنَـٰزَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْۖ وَٱصْبِرُوٓاْۚ إِنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلصَّـٰبِرِينَ
اور اللہ اور اس کے رسُول کی اطاعت کرو اور آپس میں جھگڑو نہیں ورنہ تمہارے اندر کمزوری پیدا ہو جائے گی اور تمہاری ہوا اکھڑ جائے گی صبر سے کام لو1، یقیناً اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے
1 | یعنی اپنے جذبات و خواہشات کو قابو میں رکھو۔ جلد بازی ، گھبراہٹ، ہِراس،طمع اور نا مناسب جوش سے بچو۔ ٹھنڈے دلی اور جچی تلی قوت فیصلہ کےساتھ کام کرو۔ خطرات اور مشکلات سامنے ہوں تو تمہارے قدموں میں لغزش نہ آئے۔ اشتعال انگیز مواقع پیش آئیں تو غیظ و غضب کا ہیجان تم سے کوئی بے محل حرکت سرزد نہ کرنے پائے۔ مصائب کا حملہ ہواور حالات بگڑتے نظر آرہے ہوں تو اضطراب میں تمہارے حواس پر اگندہ نہ ہو جائیں۔ حصول مقصد کے شوق سے بے قرار ہو کر یا کسی نیم پختہ تدبیر کو سر سری نظر میں کارگر دیکھ کر تمہارے ارادے شتاب کاری سے مغلوب نہ ہوں۔ اور اگر کبھی دنیوی فوائد و منافع اور لذاتِ نفس کی تر غیبات تمہیں اپنی طرف لبھا رہی ہوں تو ان کے مقابلہ میں بھی تمہاری نفس اس درجہ کمزور نہ ہو کہ بے اختیار ان کیطرف کھینچ جاؤ۔ یہ تمام مفہومات صرف ایک لفظ”صبر“میں پوشیدہ ہیں، اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ ان تمام حیثیات سے صابر ہوں ، میری تائید انہی کو حاصل ہے |