Ayats Found (7)
Surah 7 : Ayat 36
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا وَٱسْتَكْبَرُواْ عَنْهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو لوگ ہماری آیات کو جھٹلائیں گے اور ان کے مقابلہ میں سرکشی برتیں گے وہی اہل دوزخ ہوں گے جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے1
1 | یہ بات قرآن مجید میں ہر جگہ اُس موقع پر ارشاد فرمائی گئی ہےجہاں آدم وحوّاعلیہ السلام کے جنت سے اتارے جانے کا ذکر آیا ہے(ملاحظہ ہو سورہ بقرہ، آیات۳۸۔۳۹۔طٰہٰ۔ آیات ١۲۳۔١۲۴)لہٰذا یہاں بھی اس کو اسی موقع سے متعلق سمجھا جائےگا، یعنی نوعِ انسانی کی زندگی کا آغاز جب ہو رہا تھا اسی وقت یہ بات صاف طور پر سمجھا دی گئی تھی(ملاحظہ ہو سورہ آل عمران، حاشیہ ٦۹) |
Surah 7 : Ayat 41
لَهُم مِّن جَهَنَّمَ مِهَادٌ وَمِن فَوْقِهِمْ غَوَاشٍۚ وَكَذَٲلِكَ نَجْزِى ٱلظَّـٰلِمِينَ
ان کے لیے تو جہنم کا بچھونا ہوگا اور جہنم ہی کا اوڑھنا یہ ہے وہ جزا جو ہم ظالموں کو دیا کرتے ہیں
Surah 14 : Ayat 9
أَلَمْ يَأْتِكُمْ نَبَؤُاْ ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ قَوْمِ نُوحٍ وَعَادٍ وَثَمُودَۛ وَٱلَّذِينَ مِنۢ بَعْدِهِمْۛ لَا يَعْلَمُهُمْ إِلَّا ٱللَّهُۚ جَآءَتْهُمْ رُسُلُهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَرَدُّوٓاْ أَيْدِيَهُمْ فِىٓ أَفْوَٲهِهِمْ وَقَالُوٓاْ إِنَّا كَفَرْنَا بِمَآ أُرْسِلْتُم بِهِۦ وَإِنَّا لَفِى شَكٍّ مِّمَّا تَدْعُونَنَآ إِلَيْهِ مُرِيبٍ
کیا تمہیں1 اُن قوموں کے حالات نہیں پہنچے جو تم سے پہلے گزر چکی ہیں؟ قوم نوحؑ، عاد، ثمود اور اُن کے بعد آنے والی بہت سی قومیں جن کا شمار اللہ ہی کو معلوم ہے؟ اُن کے رسول جب اُن کے پاس صاف صاف باتیں اور کھلی کھلی نشانیاں لیے ہوئے آئے تو اُنہوں نے اپنے منہ میں ہاتھ دبا لیے2 اور کہا کہ 3"جس پیغام کے ساتھ تم بھیجے گئے ہو ہم اس کو نہیں مانتے اور جس چیز کی تم ہمیں دعوت دیتے ہو اُس کی طرف سے ہم سخت خلجان آمیز شک میں پڑے ہوئے ہیں"
3 | یعنی ایسا شک جس کی وجہ سے اطمینان رخصت ہو گیا ہے۔ یہ دعوتِ حق کا خاصہ ہے کہ جب وہ اٹھتی ہے تو اس کی وجہ سے ایک کھلبلی ضرور مچ جاتی ہے اور انکار و مخالفت کر نے والے بھی اطمینان کے ساتھ نہ اس کا انکار کر سکتے ہیں نہ اُس کی مخالفت۔ وہ چاہے کتنی ہی شدت کے ساتھ اُسے رد کریں اور کتنا ہی زور اُس کی مخالفت میں لگائیں ، دعوت کی سچائی ، اس کی معقول دلیلیں ، اُس کی کھر کھری اور بے لاگ باتیں ، اُس کی دل موہ لینے والی زبان ، اس کے داعی کی بے داغ سیرت، اُس پر ایمان لانے والوں کی زندگیوں کا صریح انقلاب ، اور اپنے صدقِ مقال کے عین مطابق اُن کے پاکیزہ اعمال، یہ ساری چیزیں مِل جُل کر کٹَّے سے کٹّے مخالف کے دل میں بھی ایک اضطراب پیدا کر دیتی ہیں۔ داعیانِ حق کو بے چین کرنے والا خود بھی چین سے محروم ہو جاتا ہے |
2 | ان الفاظ کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان بہت کچھ اختلاف پیش آیا ہے اور مختلف لوگوں نے مختلف معنی بیان کیے ہیں۔ ہمارے نزدیک اِن کا قریب ترین مفہوم وہ ہے جسے ادا کرنے کے لیے ہم اردو میں کہتے ہیں کانو ں پر ہاتھ رکھے، یا دانتوں میں انگلی دبائی۔ اس لیے کہ بعد کا فقرہ صاف طور پر انکار اور اچنبھے ، دونوں مضامین پر مشتمل ہے اور کچھ اس میں غصے کا انداز بھی ہے |
1 | حضرت موسیٰ کی تقریر اوپر ختم ہوگئی۔ اب براہِ راست کفارِ مکہ سے خطاب شرو ع ہوتا ہے |
Surah 14 : Ayat 17
يَتَجَرَّعُهُۥ وَلَا يَكَادُ يُسِيغُهُۥ وَيَأْتِيهِ ٱلْمَوْتُ مِن كُلِّ مَكَانٍ وَمَا هُوَ بِمَيِّتٍۖ وَمِن وَرَآئِهِۦ عَذَابٌ غَلِيظٌ
جسے وہ زبردستی حلق سے اتارنے کی کوشش کرے گا اور مشکل ہی سے اتار سکے گا موت ہر طرف سے اس پر چھائی رہے گی مگر وہ مرنے نہ پائے گا اور آگے ایک سخت عذاب اس کی جان کا لاگو رہے گا
Surah 20 : Ayat 48
إِنَّا قَدْ أُوحِىَ إِلَيْنَآ أَنَّ ٱلْعَذَابَ عَلَىٰ مَن كَذَّبَ
ہم کو وحی سے بتایا گیا ہے کہ عذاب ہے اُس کے لیے جو جھُٹلائے اور منہ موڑے1"
1 | اس واقعے کو بائیبل اور تلمود میں جس طرح بیان کیا گیا ہے اسے بھی ایک نظر دیکھ لیجیے تاکہ اندازہ ہو کہ قرآن مجید انبیاء علیہم السلام کا ذکر کس شان سے کرتا ہے اور بنی اسرائیل کی روایات میں ان کی کیسی تصویر پیش کی گئی ہے۔ بائیبل کا بیان ہے کہ پہلی مرتبہ جب خدا نے موسیٰ سے کہا کہ ’’اب میں تجھے فرعون کے پاس بھیجتا ہوں کہ تو میری قوم بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاۓ‘‘ تو حضرت موسیٰ نے جواب میں کہا ’’میں کون ہوں جو فرعون کے پاس جاؤں اور بنی اسرائیل کو مصر سے نکال لاؤں‘‘۔ پھر خدا نے حضرت موسیٰ کو بہت کچھ سمجھایا، ان کی ڈھارس بندھائی، معجزے عطا کیے، مگر حضرت موسیٰ نے پھر کہا تو یہی کہا کہ اے خداوند، میں تیری منت کرتا ہوں کسی اور کے ہاتھ سے جسے تو چاہے یہ پیغام بھیج‘‘(خروج 4)۔ تلمود کی روایت اس سے بھی چند قدم آگے جاتی ہے۔ اس کا بیان یہ ہے کہ اللہ تعالٰی اور حضرت موسیٰ کے درمیان سات دن تک اسی بات پر رد و کد ہوتی رہی۔ اللہ کہتا رہا کہ نبی بن، مگر موسیٰ کہتے رہے کہ میری زبان ہی نہیں کھلتی تو میں نبی کیسے بن جاؤں۔ آخر اللہ تعالٰی نے کہا میری خوشی یہ ہے کہ تو ہی نبی بن۔ اس پر حضرت موسیٰ نے کہا کہ لوط کو بچانے کے لیے آپ نے فرشتے بھیجے، ہاجرہ جب سارہ کے گھر سے نکلی تو اس کے لیے پانچ فرشتے بھیجے، اور اب اپنے خاص بچوں (بنی اسرائیل) کو مصر سے نکلوانے کے لیے آپ مجھے بھیج رہے ہیں۔اس پر خدا ناراض ہو گیا اور اس نے رسالت میں ان کے ساتھ ہارون کو شریک کر دیا اور موسیٰ کی اولاد کو محروم کر کے کہانت کا منصب ہارون کی اولاد کو دے دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ کتابیں ہیں جن کے متعلق بے شرم لوگ کہتے ہیں کہ ارآن میں ان سے یہ قصے نقل کر لیے گۓ ہیں۔ |
Surah 38 : Ayat 12
كَذَّبَتْ قَبْلَهُمْ قَوْمُ نُوحٍ وَعَادٌ وَفِرْعَوْنُ ذُو ٱلْأَوْتَادِ
اِن سے پہلے نوحؑ کی قوم، اور عاد، اور میخوں والا فرعون1
1 | فرعون کے لیے ’’ذی الا وتاد‘‘ (میخوں والا) یا تو اس معنی میں استعمال کیا گیا ہے کہ اس کی سلطنت ایسی مضبوط تھی گویا میخ پر ٹھکی ہوئی ہو۔یا اس بنا پر کہ اس کے کثیر التعداد لشکر جہاں ٹھیرتے تھے وہاں ہر طرف خیموں کی میخیں ہی میخیں ٹھکی نظر آتی تھیں۔یا اس بنا پر کہ وہ جس سے ناراض ہوتا تھا اسے میخیں ٹھنک کرعذاب دیا کرتا تھا۔اور ممکن ہے کہ میخوں سے مراد اہرام مصر ہوں جو زمین کے اندر میخ کی طرح ٹھکے ہوئے ہیں۔ |
Surah 38 : Ayat 14
إِن كُلٌّ إِلَّا كَذَّبَ ٱلرُّسُلَ فَحَقَّ عِقَابِ
ان میں سے ہر ایک نے رسولوں کو جھٹلایا اور میری عقوبت کا فیصلہ اس پر چسپاں ہو کر رہا