Ayats Found (46)
Surah 2 : Ayat 25
وَبَشِّرِ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أَنَّ لَهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُۖ كُلَّمَا رُزِقُواْ مِنْهَا مِن ثَمَرَةٍ رِّزْقًاۙ قَالُواْ هَـٰذَا ٱلَّذِى رُزِقْنَا مِن قَبْلُۖ وَأُتُواْ بِهِۦ مُتَشَـٰبِهًاۖ وَلَهُمْ فِيهَآ أَزْوَٲجٌ مُّطَهَّرَةٌۖ وَهُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور اے پیغمبرؐ، جو لوگ اس کتاب پر ایمان لے آئیں اور (اس کے مطابق) اپنے عمل درست کر لیں، انہیں خوش خبری دے دو کہ اُن کے لیے ایسے باغ ہیں، جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان باغوں کے پھل صورت میں دنیا کے پھلوں سے ملتے جلتے ہونگے جب کوئی پھل انہیں کھانے کو دیا جائے گا، تو وہ کہیں گے کہ ایسے ہی پھل اس سے پہلے دنیا میں ہم کو دیے جاتے تھے1 ان کے لیے وہاں پاکیزہ بیویاں ہونگی2، اور وہ وہاں ہمیشہ رہیں گے
2 | عربی متن میں ازدواج کا لفظ استعمال ہوا ہے ، جس کے معنی ہیں”جوڑے“۔ اور یہ لفظ شوہر اور بیوی دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ شوہر کے لیے بیوی ”زوج “ ہے اور بیوی کے شوہر”زوج“۔ مگر وہاں یہ ازدواج پاکیزگی کی صفت کے ساتھ ہوں گے۔ اگر دُنیا میں کوئی مرد نیک ہے اور اس کی بیوی نیک نہیں ہے ، تو آخرت میں ان کا رشتہ کٹ جائے گا اور اس نیک مرد کو کوئی دُوسری نیک بیوی دے دی جائے گی۔ اگر یہاں کوئی عورت نیک ہے اور اس کا شوہر بد، تو وہاں وہ اِس بُرے شوہر کی صحبت سے خلاصی پا جائے گی اور کوئی نیک مرد اس کا شریکِ زندگی بنا دیا جائے گا۔ اور اگر یہاں کوئی شوہر اور بیوی دونوں نیک ہیں، تو وہاں ان کا یہی رشتہ ابدی و سرمدی ہو جائے گا |
1 | یعنی نِرالے اور اجنبی پَھل نہ ہوں گے، جِن سے وہ نا مانوس ہوں۔ شکل میں اُنہی پَھلوں سے ملتے جُلتے ہوں گے جن سے وہ دُنیا میں آشنا تھے۔ البتہ لذّت میں وہ ان سے بدرجہا زیادہ بڑھے ہوئے ہوں گے۔ دیکھنے میں مثلاً آم اور انار اور سنترے ہی ہوں گے۔ اہل جنّت ہر پھل کو دیکھ کر پہچان لیں گے کہ یہ آم ہے اور یہ انار ہے اور یہ سنترا۔ مگر مزے میں دُنیا کے آموں اور اناروں اور سنتروں کو ان سے کوئی نسبت نہ ہوگی |
Surah 2 : Ayat 82
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جو لوگ ایمان لائیں گے اور نیک عمل کریں گے وہی جنتی ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے
Surah 4 : Ayat 57
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ لَّهُمْ فِيهَآ أَزْوَٲجٌ مُّطَهَّرَةٌۖ وَنُدْخِلُهُمْ ظِلاًّ ظَلِيلاً
اور جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا اور نیک عمل کیے اُن کو ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، جہاں وہ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اور اُن کو پاکیزہ بیویاں ملیں گی اور انہیں ہم گھنی چھاؤں میں رکھیں گے
Surah 4 : Ayat 122
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ سَنُدْخِلُهُمْ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ وَعْدَ ٱللَّهِ حَقًّاۚ وَمَنْ أَصْدَقُ مِنَ ٱللَّهِ قِيلاً
رہے وہ لوگ جو ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں، توا نہیں ہم ایسے باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور وہ وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ اللہ کا سچا وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر کون اپنی بات میں سچا ہوگا
Surah 4 : Ayat 124
وَمَن يَعْمَلْ مِنَ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَـٰٓئِكَ يَدْخُلُونَ ٱلْجَنَّةَ وَلَا يُظْلَمُونَ نَقِيرًا
اور جو نیک عمل کرے گا، خواہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، تو ایسے ہی لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور اُن کی ذرہ برابر حق تلفی نہ ہونے پائے گی
Surah 7 : Ayat 42
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
Surah 7 : Ayat 43
وَنَزَعْنَا مَا فِى صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ ٱلْأَنْهَـٰرُۖ وَقَالُواْ ٱلْحَمْدُ لِلَّهِ ٱلَّذِى هَدَٮٰنَا لِهَـٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِىَ لَوْلَآ أَنْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُۖ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِٱلْحَقِّۖ وَنُودُوٓاْ أَن تِلْكُمُ ٱلْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
ان کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف جو کچھ کدورت ہوگی اسے ہم نکال دیں گے1 اُن کے نیچے نہریں بہتی ہونگی، اور وہ کہیں گے کہ 2"تعریف خدا ہی کے لیے ہے جس نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، ہم خود راہ نہ پا سکتے تھے اگر خدا ہماری رہنمائی نہ کرتا، ہمارے رب کے بھیجے ہوئے رسول واقعی حق ہی لے کر آئے تھے" اُس وقت ندا آئے گی کہ "یہ جنت جس کے تم وارث بنائے گئے ہو تمہیں اُن اعمال کے بدلے میں ملی ہے جو تم کرتے رہے تھے"
2 | یہ ایک نہایت لطیف معاملہ ہے جو وہاں پیش آئے گا۔ اہلِ جنت اس بات پر نہ بھولیں گے کہ ہم نے کام ہی ایسے کیے تھے جن پر ہمیں جنت ملنی چاہیے تھی بلکہ وہ خدا کی حمد وثناء اور شکر و احسان مندی میں رطب اللسان ہوں گے اور کہیں گے کہ یہ سب ہمارے رب کا فضل ہےورنہ ہم کس لائق تھے۔ دوسری طرف اللہ تعالیٰ ان پر اپنا احسان نہ جتائے گا بلکہ جواب میں ارشاد فرمائے گا کہ تم نے یہ درجہ اپنی خدمات کہ صلہ میں پایا ہے، یہ تمہاری اپنی محنت کی کمائی ہے جو تمہیں دی جارہی ہے ، یہ بھیک کے ٹکڑے نہیں ہیں بلکہ تمہاری سعی کا اجر ہے، تمہارے کام کی مزدوری ہے، اور وہ باعزت روزی ہے جس کا استحقاق تم نے اپنی قوت بازو سے اپنے لیے حاصل کیا ہے۔ پھر یہ مضمون اِس انداز بیان سے اور بھی زیادہ لطیف ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے جواب کا ذکر اس تصریح کے ساتھ نہیں فرماتا کہ ہم یوں کہیں گے بلکہ انتہائی شان کریمی کے ساتھ فرماتا ہے کہ جواب میں یہ ندا آئے گی۔ درحقیقت یہی معاملہ دنیامیں بھی خدا اور اس کے نیک بندوں کے درمیان ہے۔ ظالموں کو جو نعمت دنیا میں ملتی ہے وہ اس پر فخر کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ یہ ہماری قابلیت اور سعی و کوشش کا نتیجہ ہے، اور اسی بنا پر وہ نعمت کےحصول پر اور زیادہ متکبر اور مفسد بنتے چلے جاتےہیں۔ اس کے برعکس صالحین کو جو نعمت بھی ملتی ہے وہ اسے خدا کا فضل سمجھتے ہیں، شکر بجا لاتے ہیں جتنے نوازے جاتے ہیں اتنےہی زیادہ مُتواضع اور رحیم و شفیق اور فیاض ہوتے چلے جاتے ہیں۔ پھر آخرت کے بارے میں بھی وہ اپنے حسنِ عمل پر غرور نہیں کرتے کہ ہم تو یقیناً بخشے ہی جائیں گے۔ بلکہ اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرتےہیں، اپنے عمل کےبجائے خدا کے رحم و فضل سے اُمیدیں وابستہ کرتے ہیں اور ہمیشہ ڈرتے ہی رہتے ہیں کہ کہیں ہمارے حساب میں لینے کے بجائے کچے دینا ہی نہ نکل آئے۔ بخاری و مسلم دونوںمیں روایت موجود ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا اعلمواان احد کم لن ید خلہ عملہ الجنة۔خوب جان لو کہ تم محض اپنے عمل کے بل بوتے پر جنت میں نہ پہنچ جاؤ گے لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا آپ بھی ؟ فرمایا ہاں میں بھی الا ان یتغمد نی اللہ برحمةٍ منہ و فضل ،اِلّا یہ کہ اللہ مجھے اپنء رحمت اور اپنے فضل سے ڈھانک لے |
1 | یعنی دنیا کی زندگی میں ان نیک لوگوں کے درمیان اگر کچھ رنجشیں، بدمزگیاں اور آپس کی غلط فہمیاں رہی ہوں تو آخرت میں وہ سب دور کر دی جائیں گی۔ ان کے دل ایک دوسرے سے صاف ہو جائیں گے۔ وہ مخلص دوستوں کی حیثیت سےجنت میں داخل ہوں گے۔ اُن میں سے کسی کو یہ دیکھ کر تکلیف نہ ہو گی کہ فلاں جو میرا مخالف تھا اور جلا جو مجھ سے لڑاتھا اور فلاں جس نے مجھ پر تنقید کی تھی، آج وہ بھی اس ضیافت میں میرے ساتھ شریک ہے۔ اسی آیت کو پڑھ کر حضرت علیؓ نے فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے اور عثمانؓ اور طلحہ ؓ اور زبیر ؓ کے درمیان بھی صفائی کراوے گا۔ اس آیت کو اگر ہم زیادہ وسیع نظر سے دیکھیں تو یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ صالح انسانوں کے دامن پر اس دنیا کی زندگی میں جو داغ لگ جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ان داغوں سمیت انہیں جنت میں نہ لے جائے گا بلکہ وہاں داخل کرنے سے پہلے اپنے فضل سے انہیں بالکل پاک صاف کردے گا اور وہ بے داغ زندگی لیے ہوئے وہاں جائیں گے |
Surah 10 : Ayat 9
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ يَهْدِيهِمْ رَبُّهُم بِإِيمَـٰنِهِمْۖ تَجْرِى مِن تَحْتِهِمُ ٱلْأَنْهَـٰرُ فِى جَنَّـٰتِ ٱلنَّعِيمِ
اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایمان لائے (یعنی جنہوں نے اُن صداقتوں کو قبول کر لیا جو اس کتاب میں پیش کی گئی ہیں) اور نیک اعمال کرتے رہے انہیں اُن کا رب اُن کے ایمان کی وجہ سے سیدھی راہ چلائے گا، نعمت بھری جنتوں میں ان کے نیچے نہریں بہیں گی1
1 | اس جملے پر سے سرسری طور پر نہ گزر جائیے۔ اس کے مضمون کی ترتیب گہری توجہ کی مستحق ہے: ان لوگوں کو آخرت کی زندگی میں جنت کیوں ملے گی؟ ۔۔۔۔۔۔ اس لیے کہ وہ دنیا کی زندگی میں سیدھی راہ چلے۔ ہر کام میں، ہر شعبہ زندگی میں، ہر انفرادی و اجتماعی معاملے یں انہوں نے برحق طریقہ اختیار کیا اور باطل طریقوں کو چھوڑ دیا۔ یہ ہر ہر قدم پر زندگی کے ہر موڑ اور ہر دوراہے پر، اُن کو صحیح اور غلط، حق اور باطل، راست اور ناراست کی تمیز کیسے حاصل ہوئی؟ اور پھر اس تمیز کے مطابق راست روی پر ثبات اور کج روی سے پرہیز کی طاقت انہیں کہاں سے ملی؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے رب کی طرف سے، کیونکہ وہی علمی رہنمائی اور عملی توفیق کا منبع ہے۔ ان کا رب انہیں یہ ہدایت اور یہ توفیق کیوں دیتا رہا؟ ۔۔۔۔۔۔ ان کے ایمان کی وجہ سے۔ یہ نتائج جو اوپر بیان ہوئے ہیں کس ایمان کےنتائج ہیں؟ ۔۔۔۔۔ اُس پر ایمان کے نہیں جو محض مان لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس ایمان کے جو سیرت و کردار کی روح بن جائے اور جس کی طاقت سے اخلاق و اعمال میں صلاح کا ظہور ہونے لگے۔ اپنی جسمانی زندگی میں آپ خود دیکھتے ہیں کہ بقائے حیات، تندرستی، قوتِ کار، اور لذتِ زندگانی کا حصول صحیح قسم کی غذا پر موقوف ہوتا ہے۔ لیکن یہ نتائج اُس تغذیہ کہ نہیں ہوتے جو محض کھا لینے کے معنی میں ہو، بلکہ اُس تغذیے کے ہوتے ہیں جو ہضم ہو کر خون بنے اور رگ رگ میں پہنچ کر ہر حصہ جسم کو وہ طاقت بخشے جس سےوہ اپنے حصے کا کام ٹھیک ٹھیک کرنے لگے۔ بالکل اسی طرح اخلاقی زندگی میں بھی ہدایت یابی، راست بینی، راست روی اور بالآخر فلاح و کامیابی کا حصول صحیح عقائد پر موقوف ہے، مگر یہ نتائج اُن عقائد کے نہیں جو محض زبان پر جاری ہوں یا دل و دماغ کے کسی گوشے میں بے کار پڑے ہوئے ہوں، بلکہ ان عقائد کے ہیں کو نفس کے اندر جذب و پیوست ہو کر اندازِفک اور مذاقِ طبع اور افتادِ مزاج بن جائیں، اور سیرت و کردار اور رویہ زندگی میں نمایاں ہوں۔ خدا کے قانونِ طبیعی میں وہ شخص جا کھا کر نہ کھانے والے کی طرح رہے، اُن انعامات کا مستحق نہیں ہوتا جو کھا کر ہضم کرنے والے کے لیے رکھے گئے ہیں۔ پھر کیوں توقع کی جائے کہ اُس کے قانونِ اخلاقی میں وہ شخص جو مان کر نہ ماننے والے کی طرح رہے اُن انعامات کا مستحق ہو سکتا ہے جو مان کر صالح بننے والے کے لیے رکھے گئے ہیں؟ |
Surah 11 : Ayat 23
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَأَخْبَتُوٓاْ إِلَىٰ رَبِّهِمْ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
رہے وہ لوگ جو ایمان لائے اور جنہوں نے نیک عمل کیے اور اپنے رب ہی کے ہو کر رہے، تو یقیناً وہ جنتی لوگ ہیں اور جنت میں وہ ہمیشہ رہیں گے1
1 | یہاں عالم آخرت کا بیان ختم ہوا |
Surah 14 : Ayat 23
وَأُدْخِلَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَا بِإِذْنِ رَبِّهِمْۖ تَحِيَّتُهُمْ فِيهَا سَلَـٰمٌ
بخلاف اس کے جو لوگ دنیا میں ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں وہ ایسے باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی وہاں وہ اپنے رب کے اذن سے ہمیشہ رہیں گے، اور وہاں ان کا استقبال سلامتی کی مبارک باد سے ہوگا1
1 | تَحیّہ کے لغوی معنی ہیں دعائے درازی ٔ عمر ۔ مگر اصطلاحًا عربی زبان میں یہ لفظ اس کلمہ ٔ خیر مقدم یا کلمۂ استقبال کے لیے بولا جاتا ہے جو لوگ آمنا سامنا ہونے پر سب سے پہلے ایک دوسرے سے کہتے ہیں۔ اردو میں اس کا ہم معنی لفظ یا تو ”سلام“ ہے، یاپھر علیک سلیک ۔ لیکن پہلا لفظ استعمال کرنے سے ترجمہ ٹھیک نہیں ہوتا اور دوسرا لفظ مبتذل ہے، اس لیے ہم نے اس کا ترجمہ ”استقبال “ کیا ہے۔ تَحِیَّتُھُمْ کے معنی یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کے درمیان آپس میں ایک دوسرے کے استقبال کا طریقہ یہ ہوگا ، اور یہ معنی بھی ہو سکتے ہیں کہ ان کا اس طرح استقبال ہو گا ۔ نیز سلامٌ میں دعائے سلامتی کا مفہوم بھی ہے اور سلامتی کی مبارکباد کا بھی۔ ہم نے موقع کی مناسبت کا لحاظ کرتے ہوئے وہ مفہوم اختیار کیا ہے جو ترجمہ میں درج ہے |