Ayats Found (2)
Surah 10 : Ayat 47
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولٌۖ فَإِذَا جَآءَ رَسُولُهُمْ قُضِىَ بَيْنَهُم بِٱلْقِسْطِ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ہر امّت کے لیے ایک رسُول ہے1 پھر جب کسی امّت کے پاس اُس کا رسُول آ جاتا ہے تو اس کا فیصلہ پُورے انصاف کے ساتھ چکا دیا جاتا ہے اور اس پر ذرہ برابر ظلم نہیں کیا جاتا2
2 | اسرائیل کے معنی ہیں عبد اللہ یا بندہ ٴ خدا ۔ یہ حضرت یعقوب ؑ کا لقب تھا، جو اُن کو اللہ تعالی ٰ کی طرف سے عطا ہوا تھا۔ وہ حضرت اسحٰا ق ؑ کے بیٹے اور حضرت ابراہیم ؑ کے پوتے تھے۔ انہی کی نسل کو بنی اسرائیل کہتے ہیں۔ پچھلے چار رکوعوں میں تمہیدی تقریر تھی، جس کا خطاب تمام انسانوں کی طرف عام تھا۔ اب یہاں سے چودھویں رکوع تک مسلسل ایک تقریر اِس قوم کو خطاب کرتے ہوئے چلتی ہے جس میں کہیں کہیں عیسائیوں اور مشرکینِ عرب کی طرف بھی کلام کا رُخ پھر گیا مطلب یہ ہے کہ رسول کی دعوت کا کسی گروہ انسانی تک پہنچنا گویا اُس گروہ پر اللہ کی حجت کا پورا ہو جانا ہے۔ اس کے بعد صرف فیصلہ ہی باقی رہ جاتا ہے ، کسی مزید اتمام حجت کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ اور یہ فیصلہ غایت درجہ انصاف کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جو لوگ رسول کی بات مان لیں اور اپنا رویہ درست کر لیں وہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پاتے ہیں ۔ اور جو اس کی بات نہ مانیں و ہ عذاب کے مستحق ہو جاتے ہیں ، خواہ وہ عذاب ِ دنیا اور آخرت دونوں میں دیا جائے یا صرف آخرت میں |
1 | ”اُمت“ کا لفظ یہاں محض قوم کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ ایک رسول کی آمد کے بعد اس کی دعوت جن جن لوگوں تک پہنچے وہ سب اس کی اُمت ہیں۔ نیزاس کے لیے یہ بھی ضروری نہیں ہے کہ رسول ان کے درمیان زندہ موجود ہو، بلکہ رسول کے بعد بھی جب تک اس کی تعلیم موجود رہے اور ہر شخص کے لیے یہ معلوم کرنا ممکن ہو کہ وہ درحقیقت کس چیز کی تعلیم دیتا تھا، اس وقت تک دنیا کے سب لوگ اس کی امت ہی قرار پائیں گے اور ان پر وہ حکم ثابت ہو گا جو آگے بیان کیا جا رہا ہے۔ اس لحاظ سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد تمام دنیا کے انسان آپ کی امت ہیں اور اس وقت تک رہیں گے جب تک قرآن اپنی خالص صورت میں شائع ہوتا رہے گا۔ اسی وجہ سے آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ”ہر قوم میں ایک رسول ہے‘‘بلکہ ارشاد ہو اکہ”ہرامت کے لیے ایک رسول ہے“۔ |
Surah 17 : Ayat 15
مَّنِ ٱهْتَدَىٰ فَإِنَّمَا يَهْتَدِى لِنَفْسِهِۦۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَاۚ وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَىٰۗ وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّىٰ نَبْعَثَ رَسُولاً
جو کوئی راہ راست اختیار کرے اس کی راست روی اس کے اپنے ہی لیے مفید ہے، اور جو گمراہ ہو اس کی گمراہی کا وبا ل اُسی پر ہے1 کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہ اٹھائے گا2 اور ہم عذاب دینے والے نہیں ہیں جب تک کہ (لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کے لیے) ایک پیغام بر نہ بھیج دیں3
3 | یہ ایک اور اصولی حقیقت ہے جسے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے انسان کے ذہن میں بٹھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی تشریح یہ ہے کہ اللہ تعالٰی کے نظام ِعدالت میں پیغمبر ایک بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ پیغمبر اور اس کا لایا ہوا پیغام ہی بندوں پر خدا کی حجت ہے۔ یہ حجت قائم نہ ہوں تو بندوں کو عذاب دینا خلافِ انصاف ہوگا، کیونکہ اس صورت میں وہ یہ عذر پیش کر سکیں گے کہ ہمیں آگاہ کیا ہی نہ گیا تھا پھراب ہم پر یہ گرفت کیسی۔ مگر جب یہ حجت قائم ہو جائے تو اس کے بعد انصاف کا تقاضا یہی ہے کہ اُن لوگوں کو سزا دی جائے جنہوں نے خدا کے بھیجے ہوئے پیغام سے منہ موڑا ہو، یا اسے پا کر پھر اس سے انحراف کیا ہو۔ بے وقوف لوگ اس طرح کی آیات پڑھ کر اس سوال پر غور کرنے لگتے ہیں کہ جن لوگوں کے پاس کسی نبی کا پیغام نہیں پہنچا ان کی پوزیشن کیا ہوگی۔ حالانکہ ایک عقلمند آدمی کو غور اس بات پر کرنا چاہیے کہ تیرے پاس تو پیغام پہنچ چکا ہے۔ اب تیری اپنی پوزیشن کیا ہے۔ رہے دوسرے لوگ، تو یہ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ کس کے پاس، کب، کس طرح اور کس حد تک اس کا پیغام پہنچا اور اس نے اس کے معاملے میں کیا رویہ اختیار کیا اور کیوں کیا۔ عالم الغیب کے سوا کوئی بھی یہ نہیں جان سکتا کہ کس پر اللہ کی حجت پوری ہوئی ہے اور کس پر نہیں ہوئی۔ |
2 | یہ ایک نہایت اہم اصولی حقیقت ہے جسے قرآن مجید میں جگہ جگہ ذہن نشین کرانے کی کوشش کی گئی ہے، کیونکہ اسے سمجھے بغیر انسان کا طرز عمل کبھی درست نہیں ہو سکتا۔ اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان اپنی ایک مستقل اخلاقی ذمہ داری رکھتا ہے اور اپنی شخصی حیثیت میں اللہ تعالٰی کے سامنے جواب دہ ہے۔ اس ذاتی ذمہ داری میں کوئی دوسرا شخص اس کے ساتھ شریک نہیں ہے۔ دنیا میں خواہ کتنے ہی آدمی، کتنی ہی قومیں اور کتنی ہی نسلیں اور پشتیں ایک کام یا ایک طریق عمل میں شریک ہوں، بہرحال خدا کی آخری عدالت میں اُس مشرک عمل کا تجزیہ کر کے ایک ایک انسان کی ذاتی زمہ داری الگ مشخص کر لی جائے گی اور اس کو جو کچھ بھی جزا یا سزا ملے گی، اس عمل کی ملے گی جس کا وہ خود اپنی انفرادی حیثیت میں ذمہ دار ثابت ہوگا۔اس انصاف کی میزان میں نہ یہ ممکن ہوگا کہ دوسروں کے کیے کا وبال اس پر ڈال دیا جائے، اور نہ یہی ممکن ہوگا کہ اس کے کرتوتوں کا بارِ گناہ کسی اور پر پڑجائے۔ اس لیے ایک دانش مند آدمی کو یہ نہ دیکھنا چاہیے کہ دوسرے کیا کر رہے ہیں، بلکہ اسے ہر وقت اس بات پر نگاہ رکھنی چاہیے کہ وہ خود کیا کر رہا ہے۔ اگر اسے اپنی ذاتی ذمہ دار کا صحیح احساس ہو تو دوسرے خواہ کچھ کر رہے ہوں، وہ بہرحال اُسی طرزِ عمل پر ثابت قدم رہےگا جس کی جواب دہی خدا کے حضور وہ کامیابی کے ساتھ کر سکتاہو۔ |
1 | یعنی راہ راست اختیار کر کے کوئی شخص خدا پر، یا رسول پر، یا اصلاح کی کوشش کرنے والوں پر کوئی احسان نہیں کرتا بلکہ خود اپنے ہی حق میں بھلا کرتا ہے۔ اور اسی طرح گمراہی اختیار کرکے یا اس پر اصرار کر کے وہ کسی کا کچھ نہیں بگاڑتا، اپنا ہی نقصان کرتا ہے۔ خدا اور رسول اور داعیانِ حق انسان کو غلط راستوں سے بچانے اور صحیح راہ دکھانے کی جو کوشش کرتے ہیں وہ اپنی کسی غرض کے لیے نہیں بلکہ انسان کی خیر خواہی کے لیے کرتےہیں۔ ایک عقلمند آدمی کا کام یہ ہے کہ جب دلیل سے اس کے سامنے حق کا حق ہونا اور باطل کا باطل ہونا واضح کر دیا جائے تو وہ تعصبات اور مفاد پرستیوں کو چھوڑ کر سیدھی طرح باطل سے باز آجائے او ر حق اختیار کر لے۔ تعصب یا مفاد پرستی سے کام لےگا تو وہ اپنا آپ ہی بدخواہ ہوگا۔ |