Ayats Found (8)
Surah 6 : Ayat 69
وَمَا عَلَى ٱلَّذِينَ يَتَّقُونَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَىْءٍ وَلَـٰكِن ذِكْرَىٰ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اُن کے حساب میں سے کسی چیز کی ذمہ داری پرہیز گار لوگوں پر نہیں ہے، البتہ نصیحت کرنا اُن کا فرض ہے شاید کہ وہ غلط روی سے بچ جائیں1
1 | مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا کی نا فرمانی سے خود بچ کر کام کرتے ہیں ان پر نافرمانوں کے کسی عمل کی ذمہ داری نہیں ہے، پھر وہ کیوں خواہ مخواہ اس بات کو اپنے اوپر فرض کر لیں کہ ان نافرمانوں سے بحث و مناظرہ کر کے ضرور انہیں قائل کر کے ہی چھوڑیں گے، اور ان کے ہر لغو و مہمل اعتراض کا جواب ضرور ہی دیں گے ، اور اگر وہ نہ مانتےہوں تو کسی نہ کسی طرح منوا کر ہی رہیں گے۔ ان کا فرض بس اتنا ہے کہ جنہیں گمراہی میں بھٹکتے دیکھ رہے ہوں انہیں نصیحت کریں اور حق بات ان کے سامنے پیش کر دیں ۔ پھر اگر وہ نہ مانیں اور جھگڑے اور بحث اور حجت بازیوں پر اُتر آئیں تو اہلِ حق کا یہ کام نہیں ہے کہ ان کے ساتھ دماغی کُشتیاں لڑنے میں اپنا وقت اور اپنی قوتیں ضائع کرتے پھریں۔ ضلالت پسند لوگوں کے بجائے انہیں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کو اُن لوگوں کی تعلیم و تربیت اور اصلاح و تلقین پر صرف کرنی چاہیے جو خود طالبِ حق ہوں |
Surah 6 : Ayat 70
وَذَرِ ٱلَّذِينَ ٱتَّخَذُواْ دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَاۚ وَذَكِّرْ بِهِۦٓ أَن تُبْسَلَ نَفْسُۢ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِىٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَآۗ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ أُبْسِلُواْ بِمَا كَسَبُواْۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمُۢ بِمَا كَانُواْ يَكْفُرُونَ
چھوڑو اُن لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل اور تماشا بنا رکھا ہے اور جنہیں دنیا کی زندگی فریب میں مبتلا کیے ہوئے ہے ہاں مگر یہ قرآن سنا کر نصیحت اور تنبیہ کرتے رہو کہ کہیں کوئی شخص اپنے کیے کرتوتوں کے وبال میں گرفتار نہ ہو جائے، اور گرفتار بھی اِس حال میں ہو کہ اللہ سے بچانے والا کوئی حامی و مدد گار اور کوئی سفارشی اس کے لیے نہ ہو، اور گر وہ ہر ممکن چیز فدیہ میں دے کر چھوٹنا چاہے تو وہ بھی اس سے قبول نہ کی جائے، کیونکہ ایسے لوگ تو خود اپنی کمائی کے نتیجہ میں پکڑے جائیں گے، ان کو تو اپنے انکار حق کے معاوضہ میں کھولتا ہوا پانی پینے کو اور درد ناک عذاب بھگتنے کو ملے گا
Surah 50 : Ayat 45
نَّحْنُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُونَۖ وَمَآ أَنتَ عَلَيْهِم بِجَبَّارٍۖ فَذَكِّرْ بِٱلْقُرْءَانِ مَن يَخَافُ وَعِيدِ
اے نبیؐ، جو باتیں یہ لوگ بنا رہے ہیں انہیں ہم خوب جانتے ہیں1، اور تمہارا کام ان سے جبراً بات منوانا نہیں ہے بس تم اِس قرآن کے ذریعہ سے ہر اُس شخص کو نصیحت کر دو جو میری تنبیہ سے ڈرے2
2 | اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و سلم جبراً لوگوں سے اپنی بات منوانا چاہتے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس سے روک دیا۔ بلکہ در اصل یہ بات حضورؐ کو مخاطب کر کے کفار کو سنائی جا رہی ہے۔ گویا ان سے یہ کہا جا رہا ہے کہ ہمارا نبی تم پر جبار بنا کر نہیں بھیجا گیا ہے۔اس کا کام زبردستی تمہیں مومن بنانا نہیں کہ تم نہ ماننا چاہو اور وہ جبراً تم سے منواۓ۔ اس کی ذمہ داری تو بس اتنی ہے کہ جو متنبہ کرنے سے ہوش میں آ جاۓ اسے قرآن سنا کر حقیقت سمجھا دے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تو نبی تم سے نہیں نمٹے گا بلکہ ہم تم سے نمٹیں گے |
1 | اس فقرے میں رسول اللہ صلی اللہ و سلم کے لیے تسلی بھی ہے اور کفار کے لیے دھمکی بھی۔ حضورؐ کو مخاطب کر کے فرمایا جا رہا ہے کہ تم پر جو باتیں یہ لوگ بنا ہے ہیں ان کی قطعاً پروانہ کرو، ہم سب کچھ سن رہے ہیں اور ان نمٹنا ہمارا کام ہے۔ کفار کو متنبہ کیا جا رہا ہے کہ ہمارے نبی پر جو فقرے تم کس رہے ہو وہ تمہیں بہت مہنگے پڑیں گے۔ ہم خود ایک ایک بات سن رہے ہیں اور اس کا خمیازہ تمہیں بھگتنا پڑے گا |
Surah 51 : Ayat 55
وَذَكِّرْ فَإِنَّ ٱلذِّكْرَىٰ تَنفَعُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
البتہ نصیحت کرتے رہو، کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کے لیے نافع1 ہے
1 | اس آیت میں تبلیغ کا دوسرا کا دوسرا قاعدہ بیان کیا گیا ہے۔ دعوت حق کا اصل مقصد ان سعید روحوں تک ایمان کی نعمت پہنچانا ہے جو اس نعمت کی قدر شناس ہوں اور اسے خود حاصل کرنا چاہیں۔ مگر داعی کو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ انسانی معاشرے کے ہزاروں لاکھوں افراد میں وہ سعید روحیں کہاں ہیں۔ اس لیے اس کا کام یہ ہے کہ اپنی دعوت عام کا سلسلہ برابر جاری رکھے تا کہ جہاں جہاں بھی ایمان قبول کرنے والے افراد موجود ہوں وہاں اس کی آواز پہنچ جاۓ۔ یہی لوگ اس کی اصل دولت ہیں۔ انہی کی تلاش اس کا اصل کام ہے۔ اور انہی کو سمیٹ سمیٹ کر خدا کے راستے پر لا کھڑا کرنا اس کے پیش نظر ہونا چاہیے۔ بیچ میں اولاد آدم کا جو فضول عنصر اس کو ملے اس کی طرف بس اسی وقت تک داعی کو توجہ کرنی چاہیے جب تک اسے تجربے سے یہ معلوم نہ ہو جاۓ کہ یہ جنس کا سد ہے۔ اس کے کساد و فساد کا تجربہ ہو جانے کے بعد اسے پھر اپنا قیمتی وقت اس جنس کے لوگوں پر ضائع نہ کرنا چاہیے، کیونکہ یہ اس کی تذکیر سے نفع اٹھانے والے ہیں |
Surah 52 : Ayat 29
فَذَكِّرْ فَمَآ أَنتَ بِنِعْمَتِ رَبِّكَ بِكَاهِنٍ وَلَا مَجْنُونٍ
پس اے نبیؐ، تم نصیحت کیے جاؤ، اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ مجنون1
1 | اوپر آخرت کی تصویر پیش کرنے کے بعد اب تقریر کا رخ کفار مکہ کی ان ہٹ دھرمیوں کی طرف پھر رہا ہے جس سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت کا مقابلہ کر رہے تھے ۔ یہاں خطاب بظاہر تو آں حضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ہے مگر دراصل آپ کے واسطے سے یہ باتیں کفار مکہ کو سنائی مقصود ہیں ۔ ان کے سامنے جب آپ قیامت، اور حش و نشر، اور حساب و کتاب، اور جزا و سزاء اور جنت و جہنم کی باتیں کرتے تھے ، اور ان مضامین پر مشتمل قرآن مجید کی آیات اس دعوے کے ساتھ ان کو سناتے تھے کہ یہ خبریں اللہ کی طرف سے میرے پاس آئی ہیں اور یہ اللہ کا کلام ہے جو مجھ پر وحی کے ذریعہ سے نازل ہوا ہے ، تو ان کے سردار اور مذہبی پیشوا اور اَوباش لوگ آپ کی ان باتوں پر سنجیدگی کے ساتھ نہ خود غور کرتے تھے ، نہ یہ چاہتے تھے کہ عوام ان کی طرف توجہ کریں ۔ اس لیے وہ آپ کے اوپر کبھی یہ فقرہ کستے تھے کہ آپ کاہن ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ مجنون ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ شاعر ہیں ، اور کبھی یہ کہ آپ خود اپنے دل سے یہ نرالی باتیں گھڑتے ہیں اور محض اپنا رنگ جمانے کے لیے انہیں خدا کی نازل کردہ وحی کہہ کر پیش کرتے ہیں ۔ ان کا خیال یہ تھا کہ اس طرح کے فقرے کس کر وہ لوگوں کو آپ کی طرف سے بدگمان کر دیں گے اور آپ کی ساری باتیں ہوا میں اڑ جائیں گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اے نبی، واقعی حقیقت تو وہی کچھ ہے جو سورۃ کے آغاز سے یہاں تک بیان کی گئی ہے ۔ اب اگر یہ لوگ ان باتوں پر تمہیں کاہن اور مجنون کہتے ہیں تو پروا نہ کرو اور بندگان خدا کو غفلت سے چونکانے اور حقیقت سے خبردار کرنے کا کام کرتے چلے جاؤ، کیونکہ خدا کے فضل سے نہ تم کاہن ہو نہ مجنون۔ ’’کاہن‘‘ عربی زبان میں جوتشی، غیب گو اور سیانے کے معنی میں بولا جاتا تھا۔ زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا۔ کاہنوں کا دعویٰ تھا، اس ان کے بارے میں ضعیف الاعتقاد لوگ بھی یہ سمجھتے تھے کہ وہ ستارہ شناس ہیں ، یا ارواح اور شیاطین اور جنوں سے ان کا خاص تعلق ہے جس کی بدولت وہ غیب کی خبریں معلوم کر سکتے ہیں ۔کوئی چیز کھوئی جاۓ تو وہ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں پڑی ہوئی ہے ۔ کسی کے ہاں چوری ہو جاۓ تو وہ بتا سکتے ہیں کہ چور کون ہے ۔ کوئی اپنی قسمت پوچھے تو وہ بتا سکتے ہیں کہ اس کی قسمت میں کیا لکھا ہے ۔ انہی اغراض کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے ۔اور وہ کچھ نذر نیاز لے کر انہیں غیب کی باتیں بتایا کرتے تھے ۔ وہ خود بھی بسا اوقات بستیوں میں آواز لگاتے پھرتے تھے تاکہ لوگ ان کی طرف رجوع کریں ان کی ایک خاص وضع قطع ہوتی تھی جس سے وہ الگ پہچانے جاتے تھے ۔ ان کی زبان بھی عام بول چال سے مختلف ہوتی تھی وہ مقفّیٰ اور مسجّع فقرے خاص لہجے میں ذرا ترنم کے ساتھ بولتے تھے اور بالعموم ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن سے ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے ۔ قریش کے سرداروں نے عوام کو فریب دینے کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر کاہن ہونے کا الزام صرف اس بنا پر لگا دیا کہ آپ ان حقائق کی خبر دے رہے تھے جو لوگوں کی نگاہ سے پوشیدہ ہیں ، اور آپ کا دعویٰ یہ تھا کہ خدا کی طرف سے ایک فرشتہ آ کر آپ پر وحی نازل کرتا ہے ، اور خدا کا جو کلام آپ پیش کر رہے تھے وہ بھی مقفّیٰ تھا۔ لیکن عرب میں کوئی شخص بھی ان کے اس الزام سے دھوکا نہ کھا سکتا تھا۔ اس لیے کہ کاہنوں کے پیشے اور ان کی وضع قطع اور ان کی زبان اور ان کے کاروبار سے کوئی بھی نا واقف نہ تھا۔ سب جانتے تھے کہ وہ کیا کام کرتے ہیں ، اور کن مضامین پر وہ مشتمل ہوتے ہیں ۔پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ کسی کاہن کا سرے سے یہ کام ہی نہیں ہو سکتا تھا کہ قوم کے رائج الوقت عقائد کے خلاف ایک عقیدہ لے کر اٹھتا اور شب و روز اس کی تبلیغ میں اپنی جان کھپاتا اور اس کی خاطر سری قوم کی دشمنی مول لیتا۔ اس لیے رسل اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ کہانت کا یہ الزام براۓ نام بھی کوئی مناسبت نہ رکھتا تھا کہ یہ پھبتی آپ پر چسپاں ہو سکتی اور عرب کا کوئی کند ذہن سے کند ذہن آدمی بھی اس سے دھوکا کھا جاتا۔ اسی طرح آپ پر جنون کا الزام بھی کفار مکہ محض اپنے دل کی تسلی کے لیے لگاتے تھے جیسے موجودہ زمانے کے بعض بے شرم مغربی مصنفین اسلام کے خلاف اپنے بغض کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے یہ دعوے کرتے ہیں کہ معاذ اللہ حضور پر صرع (Epilepsy) کے دورے پڑتے تھے اور انہی دوروں کی حالت میں جو کچھ آپ کی زبان سے نکلتا تھا اسے لوگ وحی سمجھتے تھے ۔ ایسے بیہودہ الزامات کو کسی صاحب عقل آدمی نے نہ اس زمانے میں قابل اعتنا سمجھا تھا، نہ آج کوئی شخص قرآن کو پڑھ کر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی قیادت و رہنمائی کے حیرت انگیز کارنامے دیکھ کر یہ باور کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرع کے دوروں کا کرشمہ ہے |
Surah 87 : Ayat 9
فَذَكِّرْ إِن نَّفَعَتِ ٱلذِّكْرَىٰ
لہٰذا تم نصیحت کرو اگر نصیحت نافع ہو1
1 | عام طور پر مفسرین نے ان دو فقروں کو الگ الگ سمجھا ہے۔ پہلے فقرے کا مطلب انہوں نے یہ لیا ہے کہ ہم تمہیں ایک آسان شریعت دے رہے ہیں جس پر عمل کرنا سہل ہے، اور دوسرے فقرے کا یہ مطلب لیا ہے کہ نصیحت کرو اگر وہ نافع ہو۔ لیکن ہمارے نزدیک فذکر کا لفظ دونوں فقروں کو باہم مربوط کرتا ہے اور بعد کے فقرے کا مضمون پہلے فقرے کے مضمون پر مترتب ہوتا ہے۔ اس لیے ہم اس ارشاد الہی کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ اے نبی، ہم تبلیغ دین کے معاملہ میں تم کو کسی مشکل میں نہیں ڈالنا چاہتے کہ تم بہروں کو سناؤ اور ا ندھوں کو راہ دکھاؤ، بلکہ ایک آسان طریقہ تمہارےلیے میسر کیے دیتے ہیں، اور وہ یہ ہے کہ نصیحت کرو جہاں تمہیں یہ محسوس ہو کہ کوئی اس سے فائدہ اٹھانے کےلیے تیار ہے۔ اب رہی یہ بات کہ کون اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے تیار ہے اور کون نہیں ہے، تو ظاہر ہے کہاس کا قتہ تبلیغ عام ہی سے چل سکتا ہے اس لیے عام تبلیغ تو جاری رکھنی چاہیے، مگر اس سے تمہارا مقصود یہ ہونا چاہیے کہ اللہ کے بندوں میں سے ان لوگوں کو تلاش کرو جو اس سے فائدہ اٹھا کر راہ راست اختیار کر لیں۔ یہی لوگ تمہاری نگاہ ا لتفات کے مستحق ہیں اور انہی کی تعلیم و تربیت پر تمہیں توجہ صرف کرنی چاہیے۔ ان کو چھوڑ کر ایسےلوگوں کے پیچھے پڑنے کی تمہیں کوئی ضرورت نہیں ہے جن کے متعلق تجربے سے تمہیں معلوم ہو جائے کہ وہ کوئی نصیحت قبول نہیں کرنا چاہتے۔ یہ قریب قریب وہی مضمون ہے جو سورۃ عبس میں دوسرے طریقے سے یوں بیان فرمایا گیا ہے کہ ’’جو شخص بے پروائی برتتا ہے اس کی طرف تو تم توجہ کرتے ہو، حالانکہ اگر وہ نہ سدھرے تو تم پر اس کی کیا ذمہ دا ری ہے؟ اور جو خود تمہارے پاس دوڑا آتا ہے اور وہ ڈر رہا ہوتا ہے اس سے تم بے رخی برتتے ہو۔ ہر گز نہیں یہ تو ایک نصیحت ہے ، جس کا جی چاہے اسے قبول کرے‘‘ (آیات 5 تا 12) |
Surah 87 : Ayat 10
سَيَذَّكَّرُ مَن يَخْشَىٰ
جو شخص ڈرتا ہے وہ نصیحت قبول کر لے گا1
1 | یعنی جس شخص کے دل میں خدا کا خوف اور انجام بد کا اندیشہ ہو گا اسی کو یہ فکر ہو گی کہ کہیں میں غلط راستے پر تو نہیں جا رہا ہوں، اور وہی اللہ کے اس بندے کی نصیحت کو توجہ سے سنے گا جو ا سے ہدایت اور گمراہی کا فرق اور فلاح و سعادت کا راستہ بتا رہا ہو |
Surah 88 : Ayat 21
فَذَكِّرْ إِنَّمَآ أَنتَ مُذَكِّرٌ
اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو