Ayats Found (6)
Surah 5 : Ayat 67
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلرَّسُولُ بَلِّغْ مَآ أُنزِلَ إِلَيْكَ مِن رَّبِّكَۖ وَإِن لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهُۥۚ وَٱللَّهُ يَعْصِمُكَ مِنَ ٱلنَّاسِۗ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَهْدِى ٱلْقَوْمَ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اے پیغمبرؐ! جو کچھ تمہارے رب کی طرف سے تم پر نازل کیا گیا ہے وہ لوگوں تک پہنچا دو اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اس کی پیغمبری کا حق ادا نہ کیا اللہ تم کو لوگوں کے شر سے بچانے والا ہے یقین رکھو کہ وہ کافروں کو (تمہارے مقابلہ میں) کامیابی کی راہ ہرگز نہ دکھائے گا
Surah 15 : Ayat 94
فَٱصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ ٱلْمُشْرِكِينَ
پس اے نبیؐ، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جا رہا ہے، اُسے ہانکے پکارے کہہ دو اور شرک کرنے والوں کی ذرا پروا نہ کرو
Surah 16 : Ayat 125
ٱدْعُ إِلَىٰ سَبِيلِ رَبِّكَ بِٱلْحِكْمَةِ وَٱلْمَوْعِظَةِ ٱلْحَسَنَةِۖ وَجَـٰدِلْهُم بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُۚ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ أَعْلَمُ بِمَن ضَلَّ عَن سَبِيلِهِۦۖ وَهُوَ أَعْلَمُ بِٱلْمُهْتَدِينَ
اے نبیؐ، اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دو حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ1، اور لوگوں سے مباحثہ کرو ایسے طریقہ پر جو بہترین ہو2 تمہارا رب ہی زیادہ بہتر جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون راہ راست پر ہے
2 | یعنی اس کی نوعیت محض مناظرہ بازی اور عقلی کُشتی اور ذہنی دنگل کی نہ ہو۔ اس میں کج بحثیاں اور الزام تراشیاں اور چوٹیں اورپھبتیاں نہ ہوں۔ اس کا مقصود حریفِ مقابل کو چپ کر دینا اور اپنی زبان آوری کے ڈنکے بجا دینا نہ ہو۔ بلکہ اس میں شیریں کلامی ہو۔ اعلیٰ درجہ کا شریفانہ اخلاق ہو۔ معقول اور دل لگتے دلائل ہوں۔ مخاطب کے اندر ضد اور بات کی پچ اور ہٹ دھرمی پیدا نہ ہونے دی جائے۔ سیدھے سیدھے طریقے سے اس کو بات سمجھانے کی کوشش کی جائے اور جب محسوس ہو کہ وہ کج بحثی پر اتر آیا ہے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے تاکہ وہ گمراہی میں اور زیادہ دُور نہ نکل جائے۔ |
1 | یعنی دعوت میں دو چیزیں ملحوظ رہنی چاہیں۔ ایک حکمت۔ دوسرے عمدہ نصیحت۔ حکمت کا مطلب یہ ہے کہ بے وقوفوں کی طرح اندھا دھند تبلیغ نہ کی جائے، بلکہ دانائی کے ساتھ مخاطب کی ذہنیت استعداد اور حالات کو سمجھ کر، نیز موقع و محل کو دیکھ کر بات کی جائے۔ ہر طرح کے لوگوں کو ایک ہی لکڑی سے ہانکا جائے، جس شخص یا گروہ سے سابقہ پیش آئے، پہلے اس کے مرض کی تشخیص کی جائے، پھر ایسے دلائل سے اس کا علاج کیا جائے جو اس کے دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کے مرض کی جڑ نکال سکتے ہوں۔ عمدہ نصیحت کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ مخاطب کو صرف دلائل ہی سے مطمئن کرنے پراکتفا کیا جائے بلکہ اس کے جذبات کو بھی اپیل کیا جائے۔ برائیوں اور گمراہیوں کا محض عقلی حیثیت ہی سے ابطال نہ کیا جائے بلکہ انسان کی فطرت میں اُن کے لیے جو پیدائشی نفرت پائی جاتی ہے اسے بھی اُبھارا جائے اور ان کے بُرے نتائج کا خوف دلایا جائے۔ ہدایت اور عمل صالح کی محض صحت اور خوبی ہی عقلًا ثابت نہ کی جائے بلکہ ان کی طرف رغبت اور شوق بھی پیدا کیا جائے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ نصیحت ایسے طریقہ سے کی جائے جس سے دل سوزی اور خیر خواہی ٹپکتی ہو۔ مخاطب یہ نہ سمجھے کہ ناصح اسے حقیر سمجھ رہا ہے اور اپنی بلندی کے احساس سے لذت لے رہا ہے۔ بلکہ اسے یہ محسوس ہو کہ ناصح کے دل میں اس کی اصلاح کے لیے ایک تڑپ موجود ہے اور وہ حقیقت میں اس کی بھلائی چاہتا ہے۔ |
Surah 22 : Ayat 67
لِّكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا هُمْ نَاسِكُوهُۖ فَلَا يُنَـٰزِعُنَّكَ فِى ٱلْأَمْرِۚ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ إِنَّكَ لَعَلَىٰ هُدًى مُّسْتَقِيمٍ
ہر امت کے لیے1 ہم نے ایک طریق عبادت مقرر کیا ہے2 جس کی وہ پیروی کرتی ہے، پس اے محمدؐ، وہ اِس معاملہ میں تم سے جھگڑا نہ کریں3 تم اپنے رب کی طرف دعوت دو، یقیناً تم سیدھے راستے پر ہو4
4 | یہ فقرہ اس مطلب کو پوری طرح واضح کر رہا ہے جو پچھلے فقرے کی تفسیر میں ابھی ہم بیان کر آئے ہیں |
3 | یعنی جس طرح پہلے انبیاء اپنے اپنے دور کی امتوں کے لیے ایک ’’منسک‘‘ لائے تھے ، اسی طرح اس دور کی امت کے لیے تم ایک منسک لائے ہو۔ اب کسی کو تم سے نزاع کرنے کا حق حاصل نہیں ہے ، کیونکہ اس دور کے لیے یہی منسک حق ہے۔ سورہ جاثیہ میں اس مضمون کو یوں بیان فرمایا گیا ہے : ثَمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَالْاَمْرِفَاتَّبِعْھا وَلَاتَتَّبِعْ اَھْوَآءَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (آیت 18) ’’ پھر(انبیاء بنی اسرائیل کے بعد ) اسے محمد ہم نے تم کو دین کے معملے میں ایک شریعت (طریقے ) پر قائم کیا ، پس تم اسی کی پیروی کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کی پیروی نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ‘‘۔ (مفصل تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد چہارم، الشوریٰ، حاشیہ 20) |
2 | یہاں مَنْسَک کا لفظ قربانی کے معنی میں نہیں بلکہ پورے نظام عبادت کے معنی میں ہے۔ اس سے پہلے اسی لفظ کا ترجمہ’’ قربانی کا قاعدہ‘‘ کیا گیا تھا، کیونکہ وہاں بعد کا فقرہ ’’ تاکہ لوگ ان جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے ان کو بخشے ہیں ‘‘ اس کے وسیع معانی میں سے صرف قربانی مراد ہونے کے تصریح کر رہا تھا۔ لیکن یہاں اسے محض’’ قربانی‘‘ کے معنی میں لینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔بلکہ عبادت کو بھی اگر’’ پستش‘‘ کے بجاۓ ’’ بندگی‘‘ کے وسیع تر مفہوم میں لیا جائے تو مدعا سے قریب تر ہو گا۔اس طرح منسک (طریق بندگی ) کے وہی معنی ہو جائیں گے جو شریعت اور منہاج کے معنی ہیں ، اور یہ اسی مضمون کا اعادہ ہو گا جو سورہ مائدہ میں فرمایا گیا ہے کہ : لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّ مِنْھَاجاً، ’’ ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی‘‘ (آیت 48) |
Surah 28 : Ayat 87
وَلَا يَصُدُّنَّكَ عَنْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ بَعْدَ إِذْ أُنزِلَتْ إِلَيْكَۖ وَٱدْعُ إِلَىٰ رَبِّكَۖ وَلَا تَكُونَنَّ مِنَ ٱلْمُشْرِكِينَ
اور ایسا کبھی نہ ہونے پائے کہ اللہ کی آیات جب تم پر نازل ہوں تو کفّار تمہیں اُن سے باز رکھیں1 اپنے رب کی طرف دعوت دو اور ہرگز مشرکوں میں شامل نہ ہو
1 | یعنی اُن کی تبلیغ واشاعت سے اوران کےمطابق عمل کرنےسے۔ |
Surah 42 : Ayat 15
فَلِذَٲلِكَ فَٱدْعُۖ وَٱسْتَقِمْ كَمَآ أُمِرْتَۖ وَلَا تَتَّبِعْ أَهْوَآءَهُمْۖ وَقُلْ ءَامَنتُ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ مِن كِتَـٰبٍۖ وَأُمِرْتُ لِأَعْدِلَ بَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْۖ لَنَآ أَعْمَـٰلُنَا وَلَكُمْ أَعْمَـٰلُكُمْۖ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمُۖ ٱللَّهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَاۖ وَإِلَيْهِ ٱلْمَصِيرُ
چونکہ یہ حالت پیدا ہو چکی ہے اس لیے اے محمدؐ، اب تم اُسی دین کی طرف دعوت دو، اور جس طرح تمہیں حکم دیا گیا ہے اُس پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو جاؤ، اور اِن لوگو ں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو1، اور اِن سے کہہ دو کہ: 2"اللہ نے جو کتاب بھی نازل کی ہے میں اُس پر ایمان لایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمہارے درمیان انصاف کروں3 اللہ ہی ہمارا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے4 ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں5 اللہ ایک روز ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے"
5 | یعنی معقول دلائل سے بات سمجھانے کا جو حق تھا وہ ہم نے ادا کر دیا اب خواہ مخواہ تو تو میں میں کرنے سے کیا حاصل۔ تم اگر جھگڑا کرو بھی تو ہم تم سے جھگڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں |
4 | یعنی ہم میں سے ہر ایک اپنے اپنے عمل کا خود ذمہ دار و جوابدہ ہے۔ تم اگر نیکی کرو گے تو اس کا پھل ہمیں نہیں پہنچ جاۓ گا، بلکہ تم ہی اس سے متمتّع ہو گے۔ اور ہم اگر برائی کریں گے تو اس کی پاداش میں تم نہیں پکڑے جاؤ گے ، بلکہ ہمیں خود ہی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ یہی بات سورہ بقرہ ، آیت 139، سورہ یونس، آیت 41 ، سورہ ہود، آیت 35، اور سورہ قصص ، آیت 55 میں اس سے پہلے ارشاد ہو چکی ہے (ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد اول ، ص 117، جلد دوم یونس حاشیہ ۴۹ ہود حاشیہ ۱۳۹ القصص حاشیہ ۷۷ |
3 | اس جامع فقرے کے کئی مطلب ہیں : ایک مطلب یہ ہے کہ میں ان ساری گروہ بندیوں سے الگ رہ کر بے لاگ انصاف پسندی اختیار کرنے پر مامور ہوں۔ میرا کام یہ نہیں ہے کہ کسی گروہ کے حق میں اور کسی کے خلاف تعصب بروں۔ میرا سب انسانوں سے یکساں تعلق ہے ، اور وہ ہے سراسر عدل و انصاف کا تعلق۔ جس کی جو بات حق ہے میں اس کا ساتھی ہوں ، خواہ وہ غیروں کا غیر ہی کیوں نہ ہو۔ اور جس کی جو بات حق کے خلاف ہے میں اس کا مخالف ہوں ، خواہ وہ میرا قریب ترین رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ میں جس حق کو تمہارے سامنے پیش کرنے پر مامور ہوں اس میں کسی کے لیے بھی کوئی امتیاز نہیں ہے ، بلکہ وہ سب کے لیے یکساں ہے۔ اس میں اپنے اور غیر ، بڑے اور چھوٹے ، غریب اور امیر ، شریف اور کمین کے لیے الگ الگ حقوق نہیں ہیں ، بلکہ جو کچھ ہے وہ سب کے لیے حق ہے ، جو گناہ ہے وہ سب کے لیے گناہ ہے ، جو حرام ہے وہ سب کے لیے حرام ہے ، اور جو جرم ہے وہ سب کے لیے جرم ہے۔ اس بے لاگ ضابطے میں میری اپنی ذات کے لیے بھی کوئی استثناء نہیں۔ تیسرا مطلب یہ ہے کہ میں دنیا میں عدل قائم کرنے پر مامور ہوں۔ میرے سپرد یہ کام کیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے درمیان انصاف کروں ، اور ان نے اعتدالیوں اور بے انصافیوں کا خاتمہ کر دوں جو تمہاری زندگیوں میں اور تمہارے معاشرے میں پائی جاتی ہیں۔ ان تین مطالب کے علاوہ اس فقرے کا ایک چوتھا مطلب بھی ہے جو مکہ معظمہ میں نہ کھلا تھا مگر ہجرت کے بعد کھل گیا ، اور وہ یہ ہے کہ میں خدا کا مقرر کیا ہوا قاضی اور جج ہوں ،تمہارے درمیان انصاف کرنا میری ذمہ داری ہے |
2 | بالفاظ دیگر، میں ان تفرقہ پرواز لوگوں کی طرح نہیں ہوں جو خدا کی بھیجی ہوئی بعض کتابوں کو مانتے ہیں اور بعض کو نہیں مانتے۔ میں ہر اس کتاب کو مانتا ہوں جسے خدا نے بھیجا ہے |
1 | یعنی انکو راضی کرنے کے لیے اس دین کے اندر کوئی رد و بدل اور کمی بیشی نہ کرو۔ کچھ لو اور کچھ دو کے اصول پر ان گمراہ لوگوں سے کوئی مصالحت نہ کرو۔ ان کے اوہام اور تعصبات اور جاہلانہ طور طریقوں کے لیے دین میں کوئی گنجائش محض اس لالچ میں آ کر نہ نکالو کہ کسی نہ کسی طرح یہ دائرہ اسلام میں آ جائیں۔ جس کو ماننا ہے خدا کے اصلی اور خالص دین کو جیسا کہ اس نے بھیجا ہے سیدھی طرح مان لے ورنہ جس جہنم میں جا کر گرنا چاہے گر جاۓ۔ خدا کا دین لوگوں کی خاطر نہیں بدلا جا سکتا۔ لوگ اگر اپنی فلاح چاہتے ہیں تو خود اپنے آپ کو بدل کر اس کے مطابق بنائیں |