Ayats Found (3)
Surah 41 : Ayat 30
إِنَّ ٱلَّذِينَ قَالُواْ رَبُّنَا ٱللَّهُ ثُمَّ ٱسْتَقَـٰمُواْ تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ ٱلْمَلَـٰٓئِكَةُ أَلَّا تَخَافُواْ وَلَا تَحْزَنُواْ وَأَبْشِرُواْ بِٱلْجَنَّةِ ٱلَّتِى كُنتُمْ تُوعَدُونَ
جن لوگوں نے کہا1 کہ اللہ ہمارا رب ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے2، یقیناً اُن پر فرشتے نازل ہوتے ہیں3 اور ان سے کہتے ہیں کہ 4"نہ ڈرو، نہ غم کرو، اور خوش ہو جاؤ اُس جنت کی بشارت سے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے
4 | یہ بڑے جامع الفاظ ہیں جو دنیا سے لے کر آخرت تک ہر مرحلے میں اہل ایمان کے لیے تسکین کا ایک نیا مضمون اپنے اندر رکھتے ہیں ۔ اس دنیا میں فرشتوں کی اس تلقین کا مطلب یہ ہے کہ باطل کی طاقتیں خواہ کتنی ہی بالا دست اور چیرہ دست ہوں، ان سے ہر گز خوف زدہ نہ ہو اور حق پرستی کی وجہ سے جو تکلیفیں اور محرومیاں بھی تمہیں سہنی پڑیں ، ان پر کوئی رنج نہ کرو، کیونکہ آگے تمہارے لیے وہ کچھ ہے جس کے مقابلے میں دنیا کی ہر نعمت ہیچ ہے۔ یہی کلمات جب موت کے وقت فرشتے کہتے ہیں تو ان کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ آگے جس منزل کی طرف تم جا رہے ہو وہاں تمہارے لیے کوئی خوف کا مقام نہیں ، کیونکہ وہاں جنت تمہاری منتظر ہے، اور دنیا میں جن کو تم چھوڑ کر جا رہے ہو ان کے لیے تمہیں رنجیدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ، کیونکہ یہاں ہم تمہارے لیے چین ہی چین ہے، دنیا کی زندگی میں جو حالات تم پر گزرے ان کا گم نہ کرو اور آخرت میں جو کچھ پیش آنے والا ہے اس کا خوف نہ کھاؤ، اس لیے کہ ہم تمہیں اس جنت کی بشارت دے رہے ہیں جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا رہا ہے |
3 | فرشتوں کا یہ نزول ضروری نہیں ہے کہ کسی محسوس صورت میں ہو اور اہل ایمان انہیں آنکھوں سے دیکھیں یا ان کی آواز کانوں سے سنیں ۔ اگر چہ اللہ جل شانہٗ جس کے لیے چاہے فرشتوں کو علانیہ بھی بھیج دیتا ہے، لیکن بالعموم اہل ایمان پر، خصوصاً سخت وقتوں میں جبکہ دشمنان حق کے ہاتھوں وہ بہت تنگ ہو رہے ہوں ، ان کا نزول غیر محسوس طریقہ سے ہوتا ہے، اور ان کی باتیں کان کے پردوں سے ٹکرانے کے بجاۓ دل کی گہرائیوں میں سکینت و اطمینان قلب بن کر اترتی ہیں ۔ بعض مفسرین نے فرشتوں کے اس نزول کو موت کے وقت، یا قبر، یا میدان حشر کے لیے مخصوص سمجھا ہے۔ لیکن اگر ان حالات پر غور کیا جاۓ جن میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں ، تو اس میں کچھ شک نہیں رہتا کہ یہاں اس معاملہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد اس زندگی میں دین حق کی سر بلندی کے لیے جانیں لڑانے والوں پر فرشتوں کے نزول کا ذکر کرنا ہے، تاکہ انہیں تسکین حاصل ہو، اور ان کی ہمت بندھے، اور ان کے دل اس احساس سے مطمئن ہو جائیں کہ وہ بے یار و مدد گار نہیں ہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ان کے ساتھ ہیں ۔ اگرچہ فرشتے موت کے وقت بھی اہل ایمان کا استقبال کرنے آتے ہیں ، اور قبر (عالم برزخ) میں بھی وہ ان کی پذیرائی کرتے ہیں ، اور جس روز قیامت قائم ہو گی اس روز بھی ابتداۓ حشر سے جنت میں پہنچنے تک وہ برابر ان کے ساتھ لگے رہیں گے، لیکن ان کی یہ معیّت اسی عالم کے لیے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی وہ جاری ہے۔ سلسلہ کلام صاف بتا رہا ہے کہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح باطل پرستوں کے ساتھی شیاطین و اشرار ہوتے ہیں اسی طرح اہل ایمان کے ساتھی فرشتے ہوا کرتے ہیں ۔ ایک طرف باطل پرستوں کو ان کے ساتھی ان کے کرتوت خوشنما بنا کر دکھاتے ہیں اور انہیں یقین دلاتے ہیں کہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے جو ظلم و ستم اور بے ایمانیاں تم کر رہے ہو، یہی تمہاری کامیابی کے ذرائع ہیں اور انہی سے دنیا میں تمہارے سرداری محفوظ رہے گی۔ دوسرے طرف حق پرستوں کے پاس اللہ کے فرشتے آ کر وہ پیغام دیتے ہیں جو آگے کے فقروں میں ارشاد ہو رہا ہے |
2 | یعنی محض اتفاقاً کبھی اللہ کو اپنا رب کہتے بھی جائیں اور ساتھ ساتھ دوسروں کو اپنا رب بناتے بھی جائیں ، بلکہ ایک مرتبہ یہ عقیدہ قبول کر لینے کے بعد پھر ساری عمر اس پر قائم رہے، اس کے خلاف کوئی دوسرا عقیدہ اختیار نہ کیا، نہ اس عقیدے کے ساتھ کسی باطل عقیدے کی آمیزش کی، اور اپنی عملی زندگی میں بھی عقیدہ توحید کے تقاضوں کو پورا کرتے رہے۔ توحید پراستقامت کا مفہوم کیا ہے، اس کی تشریح نبی صلی اللہ علیہ و سلم، اور اکابر صحابہؓ نے اس طرح کی ہے:حضرت انسؓ کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا قد قا لھا ا لناس ثم کفر اکثر حم، فمن مات علیھا فھو ممن استقام ۔ بہت سے لوگوں نے اللہ کو اپنا رب کہا، مگر ان میں سے اکثر کافر ہو گۓ۔ ثابت قدم وہ شخص ہے جو مرتے دم تک اسی عقیدے پر جما رہا (ابن جریر، نسائی ابن ابی حتم)۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں :لم یشرکو ا باللہ شیئاً، لَمْ عَلتفتواالٰی الٰہٍ غیرہ۔ پھر اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ بنایا، اس کے سوا کسی دوسرے معبود کی طرف توجہ نہ کی‘‘(ابن جریر)۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک مرتبہ منبر پر یہ آیت تلاوت کی اور فرمایا،’’ خدا کی قسم، استقامت اختیار کرنے والے وہ ہیں جو اللہ کی اطاعت پر مضبوطی کے ساتھ قائم ہو گئے، لومڑیوں کی طرح ادھر سے اِدھر سے اُدھر سے اُدھر سے اِدھر دوڑتے نہ پھرے (ابن جریر) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اپنے عمل کو اللہ کے لیے خالص کر لیا (کشاف) حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اللہ کے عقائد کردہ فرائض فرمانبرداری کے ساتھ ادا کرتے رہے(کشاف ) |
1 | یہاں تک کفار کو ان کی ہٹ دھرمی اور مخالفت تحقق کے نتائج پر متنبہ کرنے کے بعد اب اہل ایمان اور نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی طرف روۓ سخن مڑتا ہے |
Surah 41 : Ayat 31
نَحْنُ أَوْلِيَآؤُكُمْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَفِى ٱلْأَخِرَةِۖ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِىٓ أَنفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ
ہم اِس دنیا کی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی ہیں اور آخرت میں بھی، وہاں جو کچھ تم چاہو گے تمہیں ملے گا اور ہر چیز جس کی تم تمنا کرو گے وہ تمہاری ہوگی
Surah 41 : Ayat 32
نُزُلاً مِّنْ غَفُورٍ رَّحِيمٍ
یہ ہے سامان ضیافت اُس ہستی کی طرف سے جو غفور اور رحیم ہے"