Ayats Found (1)
Surah 22 : Ayat 78
وَجَـٰهِدُواْ فِى ٱللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِۦۚ هُوَ ٱجْتَبَـٰكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِى ٱلدِّينِ مِنْ حَرَجٍۚ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَٲهِيمَۚ هُوَ سَمَّـٰكُمُ ٱلْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِى هَـٰذَا لِيَكُونَ ٱلرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُواْ شُهَدَآءَ عَلَى ٱلنَّاسِۚ فَأَقِيمُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتُواْ ٱلزَّكَوٲةَ وَٱعْتَصِمُواْ بِٱللَّهِ هُوَ مَوْلَـٰكُمْۖ فَنِعْمَ ٱلْمَوْلَىٰ وَنِعْمَ ٱلنَّصِيرُ
اللہ کی راہ میں جہاد کرو جیسا کہ جہاد کرنے کا حق ہے1 اُس نے تمہیں اپنے کام کے لیے چن لیا ہے2 اور دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی3 قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر4 اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام 5"مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ6 پس نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ سے وابستہ ہو جاؤ7 وہ ہے تمہارا مولیٰ، بہت ہی اچھا ہے وہ مولیٰ اور بہت ہی اچھا ہے وہ مددگار
7 | یا دوسرے الفاظ میں اللہ کا دامن مضبوطی کے ساتھ تھام لو۔ ہدایت اور قانون زندگی بھی اسی سے لو، اطاعت بھی اسی کی کرو ، خوف بھی اسی کا رکھو، امیدیں بھی اسی سے وابستہ کرو، مدد کے لیے بھی اسی کے آگے ہاتھ پھیلاؤ، اور اپنے توکل و اعتماد کا سہارا بھی اسی کی ذات کو بناؤ |
6 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول ، البقرہ ، حاشیہ 144۔ اس سے زیادہ شرح و بسط کے ساتھ اس مضمون پر ہم نے اپنے رسالہ ’’ شہادت حق‘‘ میں روشنی ڈالی ہے |
5 | ’’تمہارا‘‘ کا خطاب مخصوص طور پر صرف ان ہی اہل یمان کی طرف نہیں ہے جوق اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے ، یا اس کے بعد اہل ایمان کی صف میں داخل ہوئے، بلکہ اس کے مخاطب تمام وہ لوگ ہیں جو آغاز تاریخ انسانی سے توحید، آخرت ، رسالت اور کتب الہٰی کے ماننے والے رہے ہیں۔ مدعا یہ ہے کہ اس ملت حق کے ماننے والے پہلے بھی ’’ نوحی‘‘، ’’ ابراہیمی‘‘ ،‘‘موسوی‘‘،’’مسیحی‘‘ وغیرہ نہیں کہلاتے تھے بلکہ انکا نام ’’ مسلم‘‘ (اللہ کے تابع فرمان ) تھا ، اور آج بھی وہ ’’محمدی‘‘ نہیں بلکہ ’’ مسلم‘‘ ہیں۔ اس بات کو نہ سمجھنے کی وجہ سے لوگوں کے لیے یہ سوال معما بن گیا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے پیروؤں کا نام قرآن سے پہلے کس کتاب میں مسلم رکھا گیا تھا |
4 | اگرچہ سلام کو ملت نوح ، موسیٰ ، ملت عیسیٰ بھی اسی طرح کہا جا سکتا ہے جس طرح ملت ابراہیم۔ لیکن قرآن مجید میں اس کو بار بار ملت ابراہیم کہہ کر اس کے اتباع کی دعوت تین وجوہ سے دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ قرآن کے اولین مخاطب اہل عرب تھے اور وہ حضرت ابراہیم سے جس طرح مانوس تھے کسی اور سے نہ تھے۔ ان کی تاریخ، روایات اور معتقدات میں جس شخصیت کا رسوخ و اثر رچا ہوا تھا وہ حضرت ابراہیم ہی کی شخصیت تھی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ہی وہ شخص تھے جن کی بزرگی پر یہودی، عیسائی، مسلمان ، مشرکین عرب ، اور شرق اوسط کے صابئ، سب متفق تھے۔ انبیاء میں کوئی دوسرا ایسا نہ تھا اور نہ ہے جس پر سب کا اتفاق ہو۔ تیسری وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیم ان سب ملتوں کی پیدائش سے پہلے گزرے ہیں۔ یہودیت ، عیسائیت اور صائبیت کے متعلق تو معلوم ہی ہے کہ سب بعد کی پیداوار ہیں۔ رہے مشرکین عرب ، تو وہ بھی یہ مانتے تھے کہ ان کے ہاں بت پرستی کا رواج عمر و بن لُحَیّ سے شروع ہوا جو بنی خزاعہ کا سردار تھا اور مَآب (موآب) کے علاقہ سے ہُبل نامی بت لے آیا تھا۔ اس کا زمانہ زیادہ سے زیادہ پانچ چھ سو سال قبل مسیح کا ہے۔ لہٰذا یہ ملت بھی حضرت ابراہیم کے صدیوں بعد پیدا ہوئی۔ اس صورت حال میں قرآن جب کہتا ہے کہ ان ملتوں کے بجائے ملت ابراہیمؑ کو اختیار کرو، تو وہ در اصل اس حقیقت پر متنبہ کرتا ہے کہ اگر حضرت ابراہیم بر حق اور بر سر ہدایت تھے ، اور ان ملتوں میں سے کسی کے پیرو نہ تھے ، تو لامحالہ پھر وہی ملت اصل ملت حق ہے نہ کہ یہ بعد کی ملتیں ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت اسی ملت کی طرف ہے۔ مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن جلد اول، البقرہ ، حواشی 134۔ 135۔ آل عمران، حواشی 58۔ 79۔ جلد دوم، النحل، حاشیہ 120 |
3 | یعنی تمہاری زندگی کو ان تمام بے جا قیود سے آزاد کر دی گیا ہے جو پچھلی امتوں کے فقیہوں اور فریسیوں اور پاپاؤں نے عائد کر دی تھیں۔ نہ یہاں فکر و خیال پر وہ پابندیاں ہیں جو علمی ترقی میں مانع ہوں اور نہ عملی زندگی پر وہ پابندیاں ہیں جو تمدن اور معاشرے کی ترقی میں رکاوٹ بنیں۔ ایک سادہ اور سہل عقیدہ و قانون تم کو دیا گیا ہے جس کو لے کر تم جتنا آگے چاہو بڑھ سکتے ہو۔ یہاں جس مضمون کو ثبوتی و ایجابی انداز میں بیان کیا گیا ہے وہی ایک دوسری جگہ سلبی انداز میں ارشاد ہوا ہے کہ : یَأ مُرُھُمْ بِالْمَعْرُ وْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِالْمُنْکَرِوَیْحِلَّ لَہُمْ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْھِمُ الْخَبٰئِثَ وَیَضَعُ عَنْ ھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْ لٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ، ’’ یہ رسول ان کو جانی پہچانی نیکیوں کو حکم دیتا ہے ، اور ان برائیوں سے روکتا ہے جن سے فطرت انسانی انکار کرتی ہے ، اور وہ چیزیں حلال کرتا ہے جو پاکیزہ ہیں اور وہ چیزیں حرام کرتا ہے جو گندی ہیں اور ان پر سے وہ بھاری بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ زنجیریں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے ‘‘ (اعراف۔آیت 157) |
2 | یعنی تمام نوع انسانی میں سے تم لوگ اس خدمت کے لیے منتخب کر لیے گۓ ہو جس کا اوپر ذکر کیا گیا ہے۔ اس مضمون کو قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف طریقوں سے بیان فرمایا گیا ہے۔مثلاً سورہ بقرہ میں فرمایا : جَعَلْنٰکُمْ اُمَّۃً وَّ سَطاً (آیت 143)۔ اور سورہ آل عمران میں فرمایا :کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اخْرِجَتْ لِنَّاسِ (آیت 110)۔ یہاں اس امر پر بھی متنبہ کر دینا مناسب معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت منجملہ ان آیات کے ہے جو صحابہ کرام کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں اور ان لوگوں کی غلطی ثابت کرتی ہیں جو صحابہ پر زبان طعن دراز کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس آیت کے براہ راست مخاطب صحابہ ہی ہیں۔ دوسرے لوگوں کو اس کا خطاب بالتبع پہنچتا ہے |
1 | جہاد سے مراد محض’’قتال‘‘(جنگ) نہیں ہے ، بلکہ یہ لفظ جد و جہد اور کشمکش اور انتہائی سعی و کوشش کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ پھر جہاد اور مجاہد میں یہ مفہوم بھی شامل ہے کہ مزاحمت کرنے والی کچھ طاقتیں ہیں جن کے مقابلے میں یہ جدو جہد مطلوب ہے۔ اور اس کے ساتھ فی اللہ کی قید یہ متعین کر دیتی ہے کہ مزاحمت کرنے والی طاقتیں وہ ہیں جو اللہ کی بندگی اور اس کی رضا جوئی میں ، اور اس کی راہ پر چلنے میں مانع ہیں ، اور جدو جہد کا مقصود یہ ہے کہ ان کی مزاحمت کو شکست دے کر آدمی خود بھی اللہ کی ٹھیک ٹھیک بندگی کرے اور دنیا میں بھی اس کا کلمہ بلند اور کفر و الحاد کے کلمے پست کر دینے کے لیے جان لڑا دے۔ اس مجاہدے کا اولین ہدف آدمی کا اپنا نفس امّارہ ہے جو ہر وقت خدا سے بغاوت کرنے کے لیے زور لگاتا رہتا ہے اور آدمی کو ایمان و طاعت کی راہ سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔ جب تک اس کو مسخر نہ کر لیا جائے، باہر کسی مجادہے کا امکان نہیں ہے۔ اسی لیے ایک جنگ سے واپس آنے والے غازیوں سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : قد متم خیر مقدم من الجھاد الصغر الی الجھاد الاکبر۔ ’’ تم چھوٹے جہاد سے بڑے جہاد کی طرف واپس آگۓہو‘‘۔ عرض کیا گیا وہ بڑا جہاد کیا ہے َ فرمایا مجاھدۃ العبد ھواہ۔ ’’ آدمی کی خود اپنی خواہش نفس کے خلاف جد و جہد ‘‘۔ اس کے بعد جہاد کا وسیع تر میدان پوری دنیا ہے جس میں کام کرنے والی تمام بغاوت کیش اور بغاوت آموز اور بغاوت انگیز طاقتوں کے خلاف دل اور دماغ اور جسم اور مال کی ساری قوتوں کے ساتھ سعی و جہد کرنا وہ حق جہاد ہے جسے ادا کرنے کا یہاں مطالبہ کیا جا رہا ہے |