Ayats Found (1)
Surah 33 : Ayat 36
وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضَى ٱللَّهُ وَرَسُولُهُۥٓ أَمْرًا أَن يَكُونَ لَهُمُ ٱلْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْۗ وَمَن يَعْصِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ ضَلَّ ضَلَـٰلاً مُّبِينًا
کسی1 مومن مرد اور کسی1 مومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسولؐ کسی1 معاملے کا فیصلہ کر دے تو پھر اسے اپنے اُس معاملے میں خود فیصلہ کرنے کا اختیار حاصل رہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے تو وہ صریح گمراہی میں پڑ گیا2
2 | ابن عباس، مجاہد، قَتادہ، عِکْرِمَہ اور مُقاتِل بن حَیّان کہتے ہیں کہ یہ آیت اُس وقت نازل ہوئی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرت زیدؓ کے لیے حضرت زینبؓ کے ساتھ نکاح کا پیغام دیا تھا اور حضرت زینبؓ اور ان کے رشتہ داروں نے اسے نامنظور کر دیا تھا۔ ابن عباسؓ کی روایت ہے کہ جب حضورؐ نے یہ پیغام دیا تو حضرت زینبؓ نے کہا، انا خیر منہ نسباً، ’’میں اُس سے نسب میں بہتر ہوں‘‘۔ ابن سعد کا بیان ہے کہ انہوں نے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ لاارصاہ لنفسی وانا ایّم قریش’’۔ میں اُسے اپنے لیے پسند نہیں کرتی ، میں قریش کی شریف زادی ہوں‘‘۔اسی طرح کا اظہارِ نا رضا مندی اُن کے بھائی عبداللہ بن جَحْش رضی اللہ عنہ نے بھی کیا تھا۔ اس لیے کہ حضرت زید نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام تھے اور حضرت زینبؓ حضورؐ کی پھوپھی(اُمَیْمہَ بنت عبدالمطلب) کی صاحبزادی تھیں۔ ان لوگوں کو یہ بات سخت ناگوار تھی کہ اتنے اونچے گھرانے کی لڑکی، اور وہ بھی کوئی غیر نہیں بلکہ حضورؐ کی اپنی پھوپھی زاد بہن ہے، اور اس کا پیغام آپؐ اپنے آزاد کردہ غلام کے لیے دے رہے ہیں۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی، اور اسے سنتے ہی حضرت زینبؓ اور ان کے سب خاندان والوں نے بلا تامّل سرِ اطاعت خم کر دیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کا نکاح پڑھایا، خود حضرت زیدؓ کی طرف سے دس دینار اور ۶۰ درہم مہر ادا کیا، چڑھاوے کے کپڑے دیے، اور کچھ سامان خوراک گھر کے خرچ کے لیے بھجوا دیا۔ یہ آیت اگر چہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ہے، مگر جو حکم اس میں بیان کیا گیا ہے وہ اسلامی آئین کا اصل الاصول ہے اور اس کا اطلاق پورے اسلامی نظامِ زندگی پر ہوتا ہے، اس کی رو سے کسی مسلمان فرد، یا قوم، یا ادارے، یا عدالت، یا پارلیمنٹ، یا ریاست کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ جس معاملہ میں اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے کوئی حکم ثابت ہو اُس میں وہ خود اپنی آزادیِ رائے استعمال کرے۔ مسلمان ہونے کے معنی ہی خدا اور رسولؐ کے آگے اپنے آزادانہ اختیار سے دستبردار ہو جانے کے ہیں۔ کسی شخص یا قوم کا مسلمان ہونا اور اپنے لیے اس اختیار کو محفوظ بھی رکھنا، دونوں ایک دوسرے کی نفی کرتے ہیں۔ کوئی ذی عقل انسان ان دونوں رویّوں کو جمع کرنے کا تصور نہیں کر سکتا جسے مسلمان رہنا ہو اس کو لازماً حکمِ خدا و رسول کے آگے جھک جانا ہو گا۔ اور جسے نہ جھکنا ہو اس کو سیدھی طرح ماننا پڑے گا کہ وہ مسلمان نہیں ہے۔ نہ مانے گا تو چاہے اپنے مسلمان ہونے کا وہ کتنا ہی ڈھول پیٹے، خدا اور خلق دونوں کی نگاہ میں وہ منافق ہی قرار پائے گا۔ |
1 | یہاں سے وہ آیات شروع ہوتی ہیں جو حضرت زینب سے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے نکاح کے سلسلے میں نازل ہوئی تھیں |