Ayats Found (8)
Surah 17 : Ayat 81
وَقُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَزَهَقَ ٱلْبَـٰطِلُۚ إِنَّ ٱلْبَـٰطِلَ كَانَ زَهُوقًا
اور اعلان کر دو کہ 1"حق آ گیا اور باطل مٹ گیا، باطل تو مٹنے ہی والا ہے"
1 | یہ اعلان اس وقت کیا گیا تھا جبکہ مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد مکہ چھوڑ کر حبش میں پناہ گزین تھی، اور باقی مسلمان سخت بے کسی و مظلومی کی حالت میں مکہ اور اطراف مکہ میں زندگی بسر کر رہے تھے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہر وقت خطرے میں تھی۔ اس وقت بظاہر باطل ہی کا غلبہ تھا اور غلبہ حق کے آثار کہیں دور دور نظر نہ آتے تھے۔ مگر اسی حالت میں نبی ؐ کو حکم دے دیا گیا کہ تم صاف صاف ان باطل پرستوں کو سنا دو کہ حق آگیا اور باطل مٹ گیا۔ ایسے وقت میں یہ عجیب اعلان لوگوں کو محض زبان کا پھاگ محسوس ہوا او ر انہوں نے اسے ٹھٹھوں میں اُڑادیا۔ مگر اس پر نو برس ہی گزرے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسی شہر مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوئے اور آپ نے کعبے میں جا کر اس باطل کو مٹادیا جو تین سو ساٹھ بتوں کی صورت میں وہاں سجا رکھا تھا۔ بخاری میں حضرت عبداللہ بن مسعود کا بیان ہے کہ فتح مکہ کے دن حضور ؐ کعبے کے بتوں پر ضرب لگا رہے تھے اور آپ کی زبان پر یہ الفاظ جاری تھے کہ” جآء الحق وزھق الباطل ان الباطل کان زھوقا۔ جآء الحق ومایُبدئُ الباطل ومایُعید“ |
Surah 21 : Ayat 42
قُلْ مَن يَكْلَؤُكُم بِٱلَّيْلِ وَٱلنَّهَارِ مِنَ ٱلرَّحْمَـٰنِۗ بَلْ هُمْ عَن ذِكْرِ رَبِّهِم مُّعْرِضُونَ
اے محمدؐ، اِن سے کہو، 1"کون ہے جو رات کو یا دن کو تمہیں رحمان سے بچا سکتا ہو؟" مگر یہ اپنے رب کی نصیحت سے منہ موڑ رہے ہیں
1 | یعنی اگر اچانک دن کو یا رات کو کسی وقت خدا کا زبردست ہاتھ تم پر پڑ جائے تو آخر وہ کون سا زور آور حامی و ناصر ہے جو اس کی پکڑ سے تم کو بچا لے گا ؟ |
Surah 21 : Ayat 44
بَلْ مَتَّعْنَا هَـٰٓؤُلَآءِ وَءَابَآءَهُمْ حَتَّىٰ طَالَ عَلَيْهِمُ ٱلْعُمُرُۗ أَفَلَا يَرَوْنَ أَنَّا نَأْتِى ٱلْأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَآۚ أَفَهُمُ ٱلْغَـٰلِبُونَ
اصل بات یہ ہے کہ اِن لوگوں کو اور اِن کے آباء و اجداد کو ہم زندگی کا سر و سامان دیے چلے گئے یہاں تک کہ اِن کو دن لگ گئے1 مگر کیا اِنہیں نظر نہیں آتا کہ ہم زمین کو مختلف سمتوں سے گھٹاتے چلے آ رہے ہیں؟2 پھر کیا یہ غالب آ جائیں گے؟3
3 | یعنی جب کہ ان کے تمام وسائل زندگی ہمارے ہاتھ میں ہیں ، جس چیز کو چاہیں گھٹا دیں اور جسے چاہیں روک لیں ، تو کیا یہ اتنا بل بوتا رکھتے ہیں کہ ہمارے مقابلے میں غالب آ جائیں اور ہماری پکڑ سے بچ نکلیں ؟ کیا یہ آثار ان کو یہی اطمینان دلا رہے ہیں کہ تمہاری طاقت لازوال اور تمہارا عیش غیر فانی ہے اور کوئی تمہیں پکڑ نے والا نہیں ہے |
2 | یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 41 میں گزر چکا ہے اور وہاں ہم اس کی تشریح بھی کر چکے ہیں (ملاحظہ ہو حاشیہ 60 ) ۔ یہاں اس سیاق و سباق میں یہ ایک اور معنی بھی دے رہا ہے ۔ وہ یہ کہ زمین میں ہر طرف ایک غالب طاقت کی کار فرمائی کے یہ آثار نظر آتے ہیں کہ اچانک کبھی قحط کی شکل میں ، کبھی وبا کی شکل میں ، کبھی سیلاب کی شکل میں ، کبھی زلزلے کی شکل میں ، کبھی سردی یا گرمی کی شکل میں ، اور کبھی کسی اور شکل میں کوئی بلا ایسی آ جاتی ہے جو انسان کے سب کیے دھرے پر پانی پھیر دیتی ہے ۔ ہزاروں لاکھوں آدمی مر جاتے ہیں ۔ بستیاں تباہ ہو جاتی ہیں ۔ لہلہا تی کھیتیاں غارت ہو جاتی ہیں ۔ پیداوار گھٹ جاتی ہے تجارتوں میں کساد بازاری آنے لگتی ہے غرض انسان کے وسائل میں کبھی کسی طرف سے کمی واقعہ ہوجاتی ہےاور کبھی کسی طرف سے ۔ اور انسان اپنا سارا زور لگا کر بھی ان نقصانات کو نہیں روک سکتا ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو، تفہیم القرآن ، جلد 4 ، السجدہ ، حاشیہ 33 ) |
1 | یعنی ہماری اس مہربانی اور پرورش سے یہ اس غلط فہمی میں پڑ گئے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کا کوئی ذاتی استحقاق ہے جس کا چھیننے والا کوئی نہیں ۔ اپنی خوشحالیوں اور سرداریوں کو یہ لا زوال سمجھنے لگے ہیں اور ایسے سرمست ہو گئے ہیں کہ انہیں کبھی یہ خیال تک نہیں آتا کہ اوپر کوئی خدا بھی ہے جو ان کی قسمتیں بنانے اور بگاڑنے کی قدرت رکھتا ہے |
Surah 34 : Ayat 48
قُلْ إِنَّ رَبِّى يَقْذِفُ بِٱلْحَقِّ عَلَّـٰمُ ٱلْغُيُوبِ
ان سے کہو 1"میرا رب (مجھ پر) حق کا القا کرتا ہے اور وہ تمام پوشیدہ حقیقتوں کا جاننے والا ہے"
1 | اصل الفاظ ہیں یَقْذِفُ بَا لْحَقِّ۔ اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ وحی کے ذریعہ سے وہ عِلم حق میرے اوپر القا کرتا ہے اور دوسرے معنی یہ ہیں کہ وہ حق کو غالب کر رہا ہے، باطل کے سر پر حق کی ضرب لگا رہا ہے |
Surah 34 : Ayat 49
قُلْ جَآءَ ٱلْحَقُّ وَمَا يُبْدِئُ ٱلْبَـٰطِلُ وَمَا يُعِيدُ
کہو "حق آگیا ہے اور اب باطل کے کیے کچھ نہیں ہو سکتا"
Surah 35 : Ayat 10
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًاۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُۚۥ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌۖ وَمَكْرُ أُوْلَـٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے1 اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے2 رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں3، اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے
3 | یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بری سے بُری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے |
2 | یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔ |
1 | یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑو گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔ |
Surah 61 : Ayat 8
يُرِيدُونَ لِيُطْفِــُٔواْ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٲهِهِمْ وَٱللَّهُ مُتِمُّ نُورِهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَـٰفِرُونَ
یہ لوگ اپنے منہ کی پھونکوں سے اللہ کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ کا فیصلہ یہ ہے کہ وہ اپنے نور کو پوا پھیلا کر رہے گا خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو1
1 | یہ بات نگاہ میں رہے کہ یہ آیات ۳ ہجری میں جنگ اُحُد کے بعد نازل ہوئی تھیں جبکہ اسلام صرف شہر مدینہ تک محدود تھا، مسلمانوں کی تعداد چند ہزار سے زیادہ نہ تھی، اور سارا عرب اس دین کو مٹا دینے پر تُلا ہوا تھا۔ اُحُد کے معرکے میں جو زک مسلمانوں کو پینچتی تھی، اس کی وجہ سے اُن کی ہوا اجھڑ گئی تھی، اور گردوپیش کے قبائل اُن پر شیر ہو گئے تھے۔ ان حالات میں فرمایا گیا کہ اللہ کا یہ نور کسی کے بُجھائے بجھ نہ سکے گا بلکہ پُوری طرح روشن ہو کر اور دنیا بھر میں پھیل کر رہے گا۔ یہ ایک صریح پیشنگوئی ہے جو حرف بحرف صحیح ثابت ہوئی۔ اللہ کے سوا اُس وقت اور کون یہ جان سکتا تھا کہ اسلام کا مستقبل کیا ہے؟ انسانی نگاہیں تو اُس وقت یہ دیکھ رہی تھیں کہ یہ ایک ٹمٹماتا ہوا چراغ ہے جسے بجھا دینے کے لیے بڑے زور کی اندھیاں چل رہی ہیں۔ |
Surah 61 : Ayat 9
هُوَ ٱلَّذِىٓ أَرْسَلَ رَسُولَهُۥ بِٱلْهُدَىٰ وَدِينِ ٱلْحَقِّ لِيُظْهِرَهُۥ عَلَى ٱلدِّينِ كُلِّهِۦ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْمُشْرِكُونَ
وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پورے کے پورے دین پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو1
1 | مشرکین‘‘ کو ناگوار ہو، یعنی ان لوگوں کو جو اللہ کی بندگی کے ساتھ دوسروں کی بندگیاں ملاتے ہیں ، اور اللہ کے دین میں دوسرے دینوں کی آمیزش کرتے ہیں ۔ جو اس بات پر راضی نہیں ہیں کہ پورا کا پورا نظام زندگی صرف ایک خدا کی اطاعت اور ہدایت پر قائم ہو۔ جنہیں اس بات پر اصرار ہے کہ جس جس معبود کی چاہیں گے بندگی کریں گے ، اور جن جن فلسفوں اور نظریات پر چاہیں گے اپنے عقائد و اخلاق اور تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھیں گے ۔ ایسے سب لوگوں کے علی الرغم یہ فرمایا جا رہا ہے کہ اللہ کا رسول ان کے ساتھ مصالحت کرنے کے لیے نہیں بھیجا گیا ہے بلکہ اس لیے بھیجا گیا ہے کہ جو ہدایت اور دین حق وہ اللہ کی طرف سے لایا ہے اسے پورے دین، یعنی نظام زندگی کے ہر شعبے پر غالب کر دے ۔ یہ کام اسے بہر حال کر کے رہنا ہے ۔ کافر اور مشرک مان لیں تو، اور نہ مانیں تو اور مزاحمت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیں تو، رسول کا یہ مشن ہر حالت میں پورا ہو کر رہے گا۔ یہ اعلان اس سے پہلے قرآن میں دو جگہ ہو چکا ہے ۔ایک، سورہ توبہ آیت 33 میں ۔ دوسرے ، سورہ فتح آیت 28 میں ۔ اب تیسری مرتبہ اسے یہاں دہرایا جا رہا ہے ۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، التوبہ، حاشیہ 32۔ جلد پنجم، الفتح، حاشیہ 51 ) |