Ayats Found (5)
Surah 2 : Ayat 286
لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا ٱكْتَسَبَتْۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَآ إِن نَّسِينَآ أَوْ أَخْطَأْنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَآ إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ مِن قَبْلِنَاۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِۦۖ وَٱعْفُ عَنَّا وَٱغْفِرْ لَنَا وَٱرْحَمْنَآۚ أَنتَ مَوْلَـٰنَا فَٱنصُرْنَا عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْكَـٰفِرِينَ
اللہ کسی متنفس پر اُس کی مقدرت سے بڑھ کر ذمہ داری کا بوجھ نہیں ڈالتا1 ہر شخص نے جو نیکی کمائی ہے، اس کا پھل اسی کے لیے ہے اور جو بدی سمیٹی ہے، اس کا وبال اسی پر ہے2 (ایمان لانے والو! تم یوں دعا کیا کرو) اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے 3پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ،4 ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر5
5 | اس دُعا کی پوری رُوح کو سمجھنے کے لیے یہ بات پیشِ نظر رہنی چاہیے کہ یہ آیات ہجرت سے تقریباً ایک سال پہلے معراج کے موقع پر نازل ہوئی تھیں ، جبکہ مکّے میں کُفر و اسلام کی کشمکش اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی، مسلمانوں پر مصائب و مشکلات کے پہاڑ ٹُوٹ رہے تھے، اور صرف مکّہ ہی نہیں ، بلکہ سرزمینِ عرب پر کوئی جگہ ایسی نہ تھی جہاں کسی بندہٴ خدا نے دینِ حق کی پیروی اختیار کی ہو اور اس کے لیے خدا کی سرزمین پر سانس لینا دشوار نہ کر دیا گیا ہو۔ ان حالات میں مسلمانوں کو تلقین کی گئی کہ اپنے مالک سے اس طرح دعا مانگا کرو۔ ظاہر ہے کہ دینے والا خود ہی جب مانگنے کا ڈھنگ بتائے، تو ملنے کا یقین آپ سے آپ پیدا ہوتا ہے۔ اس لیے یہ دعا اس وقت مسلمانوں کے لیے غیر معمُولی تسکینِ قلب کی موجب ہوئی۔ علاوہ بریں اس دعا میں صمنًا مسلمانوں کو یہ بھی تلقین کر دی گئی کہ وہ اپنے جذبات کو کسی نا مناسب رُخ پر نہ بہنے دیں، بلکہ انہیں اس دُعا کے سانچے میں ڈھال لیں۔ ایک طرف اُن روح فرسا مظالم کو دیکھیے ، جو محض حق پرستی کے جرم میں اُن لوگوں پر توڑے جارہے تھے ، اور دُوسری طرف اِ س دُعا کو دیکھیے، جس میں دشمنوں کے خلاف کسی تلخی کا شائبہ تک نہیں۔ ایک طرف اُس جسمانی تکلیفوں اور مالی نقصانات کو دیکھیے ، جن میں یہ لوگ مُبتلا تھے، اور دُوسری طرف اُس دُعا کی دیکھیے جس میں کسی دُنیوی مفاد کی طلب کا ادنٰی نشان تک نہیں ہے ۔ ایک طرف اِن حق پرستوں کی انتہائی خستہ حالی کو دیکھیے، اور دُوسری طرف ان بلند اور پاکیزہ جذبات کو دیکھیے، جن سے یہ دُعا لبریز ہے۔ اس تقابل ہی سے صحیح اندازہ ہو سکتا ہے کہ اُس وقت اہلِ ایمان کو کس طرز کی اخلاقی و رُوحانی تربیت دی جا رہی تھی |
4 | یعنی مشکلات کا اتنا ہی بار ہم پر ڈال ، جسے ہم سہار لے جائیں۔ آزمائشیں بس اتنی ہی بھیج کہ ان میں ہم پُورے اُتر جائیں۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری قوتِ برداشت سے بڑھ کر سختیاں ہم پر نازل ہوں اور ہمارے قدم راہَ حق سے ڈگمگا جائیں |
3 | یعنی ہمارے پیش رووں کو تیری راہ میں جو آزمائشیں پیش آئیں ، جن زبردست ابتلا ؤ ں سے وہ گزرے، جن مشکلات سے انہیں سابقہ پڑا، اُن سے ہمیں بچا۔ اگرچہ اللہ کی سنت یہی رہی ہے کہ جس نے بھی حق و صداقت کی پیروی کا عزم کیا ہے ، اُسے سخت ازمائشوں اور فتنوں سے دوچار ہونا پڑا ہے۔ اورجب آزمائشیں پیش آئیں تو مومن کا کام یہی ہے کہ پورے استقلال سے ان کا مقابلہ کرے۔ لیکن بہرحال مومن کو اللہ سے دُعا یہی کرنی چاہیے کہ وہ اس کے لیے حق پرستی کی راہ آسان کر دے |
2 | “یہ اللہ کے قانونِ مجازات کا دُوسرا قاعدہٴ کلیہ ہے۔ ہر آدمی انعام اُسی خدمت پر پائے گا۔ جو اس نے خود انجام دی ہو۔ یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک شخص کی خدمات پر دُوسرا انعام پائے۔ اور اسی طرح ہر شخص اسی قصُور میں پکڑا جائے گا جس کا وہ خود مرتکب ہوا ہو۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک کے قصُور میں دُوسرا پکڑا جائے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ ایک آدمی نے کسی نیک کام کی بنا رکھی ہو اور دنیا میں ہزاروں سال تک اس کام کے اثرات چلتے رہیں اور یہ سب اس کے کارنامے میں لکھے جائیں ۔ اور ایک دُوسرے شخص نے کسی بُرائی کی بنیاد رکھی ہو اور صدیوں تک دنیا میں اس کا اثر جاری رہے اور وہ اس ظالمِ اوّل کے حساب میں درج ہوتا رہے۔ لیکن یہ اچھا یا بُرا، جو کچھ بھی پھل ہوگا، اسی کی سعی اور اسی کے کسب کا نتیجہ ہو گا۔ بہر حال یہ ممکن نہیں ہے کہ جس بِھلائی یا جس بُرائی میں آدمی کی نیت اور سعی و عمل کا کوئی حصّہ نہ ہو، اس کی جزا یا سزا اسے مِل جائے۔ مکافاتِ عمل کو ئی قابل انتقال چیز نہیں ہے |
1 | یعنی اللہ کے ہاں انسان کی ذمہ داری اس کی مقدرت کے لحاظ سے ہے۔ ایسا ہر گز نہ ہوگا کہ بندہ ایک کام کرنے کی قدرت نہ رکھتا ہو اور اللہ اس سے باز پرس کرے کہ تُو نے فلاں کام کیوں نہ کیا۔ یا ایک چیز سے بچنا فی الحقیقت اس کی مقدرت سے باہر ہو اور اللہ اس سے موٴ اخذہ کرے کہ تُو نے اس سے پرہیز کیوں نہ کیا۔ لیکن یہ یاد رہے کہ اپنی مقدرت کا فیصلہ کرنے والا انسان خود نہیں ہے۔ اس کا فیصلہ اللہ ہی کر سکتا ہے کہ ایک شخص فی الحقیقت کس چیز کی قدرت رکھتا تھا اور کس چیز کی نہ رکھتا تھا |
Surah 65 : Ayat 7
لِيُنفِقْ ذُو سَعَةٍ مِّن سَعَتِهِۦۖ وَمَن قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُهُۥ فَلْيُنفِقْ مِمَّآ ءَاتَـٰهُ ٱللَّهُۚ لَا يُكَلِّفُ ٱللَّهُ نَفْسًا إِلَّا مَآ ءَاتَـٰهَاۚ سَيَجْعَلُ ٱللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا
خوشحال آدمی اپنی خوشحالی کے مطابق نفقہ دے، اور جس کو رزق کم دیا گیا ہو وہ اُسی مال میں سے خرچ کرے جو اللہ نے اسے دیا ہے اللہ نے جس کو جتنا کچھ دیا ہے اس سے زیادہ کا وہ اُسے مکلف نہیں کرتا بعید نہیں کہ اللہ تنگ دستی کے بعد فراخ دستی بھی عطا فرما دے
Surah 6 : Ayat 152
وَلَا تَقْرَبُواْ مَالَ ٱلْيَتِيمِ إِلَّا بِٱلَّتِى هِىَ أَحْسَنُ حَتَّىٰ يَبْلُغَ أَشُدَّهُۥۖ وَأَوْفُواْ ٱلْكَيْلَ وَٱلْمِيزَانَ بِٱلْقِسْطِۖ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَإِذَا قُلْتُمْ فَٱعْدِلُواْ وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۖ وَبِعَهْدِ ٱللَّهِ أَوْفُواْۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور یہ کہ یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ مگر ایسے طریقہ سے جو بہترین ہو1، یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد کو پہنچ جائے اور ناپ تول میں پورا انصاف کرو، ہم ہر شخص پر ذمہ داری کا اتنا ہی بار رکھتے ہیں جتنا اس کے امکان میں ہے2، اور جب بات کہو انصاف کی کہو خواہ معاملہ اپنے رشتہ دار ہی کا کیوں نہ ہو، اور اللہ کے عہد کو پورا کرو3 ان باتوں کی ہدایت اللہ نے تمہیں کی ہے شاید کہ تم نصیحت قبول کرو
3 | اللہ کے عہد سے مراد وہ عہد بھی ہے جو انسان اپنے خدا سے کرے، اور وہ بھی جو خدا کا نام لے کر بندوں سے کرے، اور وہ بھی جو انسان اور خدا، اور انسان اور انسان کے درمیان اُسی وقت آپ سے آپ بندھ جاتا ہے جس وقت ایک شخص خدا کی زمین میں ایک انسانی سوسائیٹی کے اندر پیدا ہوتا ہے
پہلے دونوں عہد شعوری وارادی ہیں، اور یہ تیسرا عہد اہک فطری عہد (Natural Contract) ہے جس کے باندھنے میں اگرچہ انسان مکے ارادے کا کوئی دخل نہیں ہے، لیکن واجب الاحترم ہونے میں یہ پہلے دونوں عہدوں سے کسی طرح کم نہیں ہے۔ کسی شخص کا خدا کے بخشے ہوئے وجود سے، اس کی عطا کی ہوئی جسمانی و نفسانی قوتوں سے، اس کے دیے ہوئے جسمانی آلات سے، اور اس کی پیدا کی ہوئی زمین اور رزق اور ذرائع سے فائدہ اُٹھانا، اور اُن مواقع زندگی سے متمتع ہونا قوانین قدرت کی بدولت فراہم ہوتے ہیں، خود بخود فطرۃ خدا کے کچھ حقوق اس پر عائد کر دیتا ہے۔ اور اسی طرح آدمی کا ایک ماں کے پیٹ میں اس کے خون سے پرورش پانا، ایک باپ کی مختوں سے بسے ہوئے گھر میں پیدا ہونا، اور ایک اجتماعی زندگی کے بے شمار اداروں سے مختلف صُورتوں میں متمتع ہونا علی قدر مراتب اس کے ذمہ بہ سے افراد اور اجتماعی اداروں کے حقوق بھی عائد کر دیتا ہے۔ انسان کا خدا سے اور انسان کا سوسائیٹی سے یہ عہد کسی کاغذ پر نہیں لکھا گیا، مگر اس کے رونگٹے رونگٹے پرثبت ہے۔ انسان نے اسے شعُورو ارادہ کے ساتھ نہیں باندھا، مگر اس کا پورا وجود اسی عہد کا رہین منت ہے۔ اسی عہد کی سُورہ بقرہ آیت ۲۷ میں اشارہ کیا گیا ہے کہ فاسق وہ ہیں جو، اللہ کے عہد کو اس کی استواری کے بعد توڑتے ہیں، اور جسے اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے اسے کاٹتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں۔ اور اسی کا ذکر آگے چل کر سُورہ اعراف ۱۷۲ میں آتا ہے کہ اللہ نے ازل میں آدم کی پیٹھوں سے ان کی ذریت کو نکال کر ان سے شہادت کو نکال کر ان سے شہادت طلب کی تھی کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اورانہوں نے اقرار کیا تھا کہ ہاں ہم گواہ ہیں۔ |
2 | یہ اگرچہ شریعتِ الہٰی کا ایک مستقل اُصُول ہے ، لیکن یہاں اس کے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جو شخص اپنی حد تک تاپ تول اور لین دین کے معاملات میں راستی و انصاف سے کام لینے کی کوشش کرے وہ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جائے گا۔ بھُول چوک یا نادانستہ کمی وہ بیشی ہو جانے پر اس سے باز پُرس نہ ہوگی |
1 | یعنی ایسا طریقہ جو زیادہ سے زیادہ بے غرضی، نیک نیتی اور یتیم کی خیر خواہی پر مبنی ہو، اور جس پر خدا اور خلق کسی کی طرف سے بھی تم اعتراض کے مستحق نہ ہو |
Surah 7 : Ayat 42
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَنَّةِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
بخلاف اس کے جن لوگوں نے ہماری آیات کو مان لیا ہے اور اچھے کام کیے ہیں اور اس باب میں ہم ہر ایک کو اس کی استطاعت ہی کے مطابق ذمہ دار ٹھیراتے ہیں وہ اہل جنت ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
Surah 23 : Ayat 62
وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاۖ وَلَدَيْنَا كِتَـٰبٌ يَنطِقُ بِٱلْحَقِّۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
ہم کسی شخص کو1 اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے2 اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو (ہر ایک کا حال) ٹھیک ٹھیک بتا دینے والی ہے3، اور لوگوں پر ظلم بہرحال نہیں کیا جائے گا4
4 | یعنی نہ تو کسی کے ذمے کوئی ایسا الزام تھوپا جائے گا جس کا وہ در حقیقت قصور وار نہ ہو، نہ کسی کی کوئی ایسی نیکی ماری جائے گی جسکے صلے کا وہ فی الواقع مستحق ہو، نہ کسی کو بیجا سزا دی جائے گی اور نہ کسی کو حق کے مطابق بجا انعام سے محروم رکھا جائے گا |
3 | کتاب سے مراد ہے نامہ اعمال جو ہر ایک شخص کا الگ الگ مرتب ہو رہا ہے ، جس میں اس کی ایک ایک بات ، ایک ایک حرکت، حتیٰ کہ خیالات اور ارادوں تک کی ایک ایک حالت ثبت کی جا رہی ہے۔ اسی کے متعلق سورہ کہف میں فرمایا گیا ہے کہ : وَوُضِعَ الْکِتٰبُ فَتَرَی الْمُجْرِمِیْنَ مُشْفِقِیْنَ مِمَّا فِیْہِ وَیَقُولُوْنَ یٰوَیْلَتَناً مَلِ ھٰذا لْکِتٰبِ لَا یُغَا دِرُصَغِیْرَ ۃً وَّلَا کَبِیْرِۃً اِلَّآ اَحْصٰ ھَا ۔ وَوَجَدُوْ امَا عَمِلُوْ ا حَاضِراً ؕطوَلَا یَظُلِمُ رَبُّکَ اَحَداً۔O، ’’ اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا، پھر تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اس کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہونگے کہ ہائے ہماری کم بختی ، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی یا بڑی حرکت ایسی نہیں رہ گئی جو اس میں درج نہ ہو۔ جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے ، اور تمہارا رب کسی پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ‘‘۔ (آیت 49)۔ بعض لوگوں نے یہاں کتاب سے مراد قرآن لے کر آیت کا مطلب خبط کر دیا ہے |
2 | اس سیاق و سباق میں یہ فقرہ اپنے اندر بڑی گہری معنویت رکھتا ہے جسے اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پچھلی آیتوں میں بتایا گیا ہے کہ بھلائیاں لوٹنے والے اور سبقت کر کے انہیں پا لینے والے در اصل کون لوگ ہیں اور ان کی صفات کیا ہیں۔ اس مضمون کے بعد فوراً ہی یہ فرمایا کہ ہم کسی کو اس کی مقدرت سے زیادہ کی تکلیف نہیں دیتے ، یہ معنی رکھتا ہے کہ یہ سیرت، یہ اخلاق ور یہ کردار کوئی فوق البشری چیز نہیں ہے۔ تم ہی جیسے گوشت پوست کے انسان اس روش پر چل کر دکھا رہے ہیں۔ لہٰذا تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ تم سے کسی ایسی چیز کا مطالبہ کیا جا رہا ہے جو انسانی مقدرت سے باہر ہے۔ انسان کو تو مقدرت اس رویے کی بھی حاصل ہے جس پر تم چل رہے ہو، اور اس کی بھی حاصل ہے جس پر تمہاری اپنی قوم کے چند اہل ایمان چل رہے ہیں۔ اب فیصلہ جس چیز پر ہے وہ صرف یہ ہے ہ ان دونوں امکانی رویوں میں سے کون کس کا انتخاب کرتا ہے۔ اس انتخاب میں غلطی کر کے اگر آج تم اپنی ساری محنتیں اور کوششیں برائیاں سمیٹنے میں صرف کر دیتے ہو اور بھلائیوں سے محروم رہ جاتے ہو، توکل اپنی اس حماقت کا خمیازہ بھگتنے سے تم کو یہ جھوٹی معذرت نہیں بچا سکے گی کہ بھلائیوں تک پہنچنے کا راستہ ہماری مقدرت سے باہر تھا۔ اس وقت یہ عذر پیش کرو گے تو تم سے پوچھا جاۓ گا کہ اگر یہ راستہ انسانی مقدرت سے باہر تھا تو تم ہی جیسے بہت سے انسان اس پر چلنے میں کیسے کامیاب ہو گۓ |
1 | واضح رہے کہ آیت ۶۱ کا ترجمہ آیات ۵۷ سے پہلے کیا جاچکا ہے یہاں سے آیت ۶۲ کا ترجمہ شروع ہوتا ہے |