Ayats Found (4)
Surah 6 : Ayat 126
وَهَـٰذَا صِرَٲطُ رَبِّكَ مُسْتَقِيمًاۗ قَدْ فَصَّلْنَا ٱلْأَيَـٰتِ لِقَوْمٍ يَذَّكَّرُونَ
حالانکہ یہ راستہ تمہارے رب کا سیدھا راستہ ہے اور اس کے نشانات اُن لوگوں کے لیے واضح کر دیے گئے ہیں جو نصیحت قبول کرتے ہیں
Surah 6 : Ayat 151
۞ قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْۖ أَلَّا تُشْرِكُواْ بِهِۦ شَيْــًٔاۖ وَبِٱلْوَٲلِدَيْنِ إِحْسَـٰنًاۖ وَلَا تَقْتُلُوٓاْ أَوْلَـٰدَكُم مِّنْ إِمْلَـٰقٍۖ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْۖ وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلْفَوَٲحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَۖ وَلَا تَقْتُلُواْ ٱلنَّفْسَ ٱلَّتِى حَرَّمَ ٱللَّهُ إِلَّا بِٱلْحَقِّۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ آؤ میں تمہیں سناؤں تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں1: یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو2، اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو3، اور اپنی اولاد کو مفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ا ن کو بھی دیں گے اور بے شرمی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاؤ 4خواہ وہ کھلی ہوں یا چھپی اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ5 یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو
5 | یعنی انسانی جان، جو فی الاصل خدا کی طرف سے حرام ٹھیرائی گئی ہے ، ہلاک نہ کی جائے گی مگر حق کے ساتھ۔ اب رہا یہ سوال کہ ”حق کے ساتھ“ کا کیا مفہُوم ہے، تو اس کی تین صُورتیں قرآن میں بیان کی گئی ہیں، اور دوصُورتیں اس پر زائد، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں۔ قرآن کی بیان کردہ صُورتیں یہ ہیں: (۱) انسان کسی دُوسرے انسان کے قتل ِ عمد کا مجرم ہو اور اس پر قصاص کا حق قائم ہو گیا ہو۔ (۲) دینِ حق کے قیام کی راہ میں مزاحم ہو اور اس سے جنگ کیے بغیر چارہ نہ رہا ہو۔ (۳) دار الاسلام کے حُدُود میں بد امنی پھیلائے یا اسلامی نظامِ حکومت کو اُلٹنے کی سعی کرے۔ باقی دو صُورتیں جو حدیث میں ارشاد ہوئی ہیں ، یہ ہیں: (۴) شادی شدہ ہونے کے باوجود زنا کرے۔ (۵) ارتداد اور خروج از جماعت کا مرتکب ہو۔ اِن پانچ صُورتوں کے سوا کسی صُورت میں انسان کا قتل انسان کے لیے حلال نہیں ہے ، خواہ وہ مومن ہو یا ذمّی یا عام کافر |
4 | اصل میں لفظ”فواحش“ استعمال ہوا ہے جس کا اطلاق اُن تمام افعال پر ہوتا ہے جن کی بُرائی بالکل واضح ہے۔ قرآن میں زنا ، عمل ِ قومِ لوط ، برہنگی، جھُوٹی تُہمت، اور باپ کی منکوحہ سے نکاح کرنے کو فحش افعال میں شمار کیا گیا ہے۔ حدیث میں چوری اور شراب نوشی اور بھیک مانگنے کو مِن جملۂ فواحش کہا گیا ہے ۔ اِسی طرح دُوسرے تمام شرمناک افعال بھی فواحش میں داخل ہیں اور ارشادِ الہٰی یہ ہے کہ اس قسم کے افعال نہ علانیہ کیے جائیں نہ چھُپ کر |
3 | نیک سلوک میں ادب ، تعظیم، اطاعت، رضا جوئی، خدمت ، سب داخل ہیں۔ والدین کے اس حق کو قرآن میں ہر جگہ توحید کے حکم کے بعد بیان فرمایا گیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ خدا کے بعد بندوں کے حقوق میں سب سے مقدم حق انسان پر اس کے والدین کا ہے |
2 | یعنی نہ خدا کی ذات میں کسی کو اس کا شریک ٹھیراؤ ، نہ اس کی صفات میں ، نہ اس کے اختیارات میں، اور نہ اس کے حقوق میں۔ ذات میں شرک یہ ہے کہ جو ہرِ اُلُوہیّت میں کسی کو حصّہ دار قرار دیا جائے۔ مثلاً نصاریٰ کا عقیدۂ تثلیث ، مشرکین عرب کا فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دینا، اور دُوسرے مشرکین کا اپنے دیوتاؤں اور دیویوں کو اور اپنے شاہی خاندانوں کو جنسِ آلہہ کے افراد قرار دینا۔ یہ سب شرک فی الذّات ہیں۔ صفات میں شرک یہ ہے کہ خدائی صفات جیسی کہ وہ خدا کے لیے ہیں، ویسا ہی اُن کو یا اُن میں سے کسی صفت کو کسی دُوسرے کے لیے قرار دینا ۔ مثلاً کسی کے متعلق یہ سمجھنا کہ اس پر غیب کی ساری حقیقتیں روشن ہیں، یا وہ سب کچھ سُنتا اور دیکھتا ہے، یا وہ تمام نقائص اور تمام کمزوریوں سے منزَّہ اور بالکل بے خطا ہے۔ اختیارات میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے جو اختیارات صرف اللہ کے لیے خاص ہیں اُن کو یا ان میں سے کسی کو اللہ کے سوا کسی اور کے لیے تسلیم کیا جائے۔ مثلاً فوق الفطری طریقے سے نفع و ضرر پہنچانا ، حاجت روائی و دستگیری کرنا ، محافظت و نگہبانی کرنا، دُعائیں سُننا اور قسمتوں کو بنانا اور بگاڑنا ۔ نیز حرام و حلال اور جائز و ناجائز کی حُدُود مقرر کرنا اور انسانی زندگی کے لیے قانون و شرع تجویز کرنا۔ یہ سب خدا وندی کے مخصُوص اختیارات ہیں جن میں سے کسی کو غیر اللہ کے لیے تسلیم کرنا شرک ہے۔ حقوق میں شرک یہ ہے کہ خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر خدا کےجو مخصوص حقوق ہیں وہ یا ان میں سے کوئی حق خدا کے سوا کسی اور کے لیے مانا جائے ۔ مثلاً رکوع و سجود، دست بستہ قیام، سلامی وآستانہ بوسی، شکرِ نعمت یا اعترافِ برتری کے لیے نذر و نیاز اور قربانی ، قضائے حاجات اور رفع مشکلات کے لیے مَنّت، مصائب و مشکلات میں مدد کے لیے پکارا جانا، اور ایسی ہی پرستش و تعظیم و تمجید کی دُوسری تمام صُورتیں اللہ کے مخصُوص حقوق میں سے ہیں۔ اسی طرح ایسا محبُوب ہونا کہ اس کی محبت پر دُوسری سب محبتیں قربان کی جائیں ، اور ایسا مستحق تقویٰ و خشیت ہونا کہ غیب و شہادت میں اس کی ناراضی اور اس کے حکم کی خلاف ورزی سے ڈرا جائے، یہ بھی صرف اللہ کا حق ہے۔ اور یہ بھی اللہ ہی کا حق ہے کہ اس کی غیر مشروط اطاعت کی جائے ، اور اس کی ہدایت کو صحیح و غلط کا معیار مانا جائے ، اور کسی ایسی اطاعت کا حلقہ اپنی گردن میں نہ ڈالا جائے جو اللہ کی اطاعت سے آزاد ایک مستقل اطاعت ہو اور جس کے حکم کے لیے اللہ کے حکم کی سند نہ ہو۔ ان حقوق میں سے جو حق بھی دُوسرے کو دیا جائے گا وہ اللہ کا شریک ٹھیرے گا خوا ہ اس کو خدائی ناموں سے کوئی نام دیا جائے یا نہ دیا جائے |
1 | یعنی تمہارے ربّ کے عائد کی ہوئی پابندیاں وہ نہیں ہیں جن میں تم گرفتار ہو، بلکہ اصل پابندیاں یہ ہیں جو اللہ نے انسانی زندگی کو منضبط کرنے کے لیے عائد کی ہیں اور جو ہمیشہ سے شرائع الٰہیہ کی اصل الاُصُول رہی ہیں۔ (تقابل کے لیے ملاحظہ ہو بائیبل کی کتاب خروج ، باب ۲۰) |
Surah 6 : Ayat 153
وَأَنَّ هَـٰذَا صِرَٲطِى مُسْتَقِيمًا فَٱتَّبِعُوهُۖ وَلَا تَتَّبِعُواْ ٱلسُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَن سَبِيلِهِۦۚ ذَٲلِكُمْ وَصَّـٰكُم بِهِۦ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ
نیز اس کی ہدایت یہ ہے کہ یہی میرا سیدھا راستہ ہے لہٰذا تم اسی پر چلو اور دوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ اس کے راستے سے ہٹا کر تمہیں پراگندہ کر دیں گے1 یہ ہے وہ ہدایت جو تمہارے رب نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم کج روی سے بچو
1 | اوپر جس فطری عہد کا ذکر ہوا ، یہ اس عہد کا لازمی اقتضا ہے کہ انسان اپنے رب کے بتائے ہوئے راستہ پر چلے، کیونکہ اس کے امر کی پیروی سے منہ موڑنا اور خود سری و خود مختاری یا بندگیِ غیر کی جانب قدم بڑھانا انسان کی طرف سے اُس عہد کی اوّلین خلاف ورزی ہے جس کے بعد ہر قدم پر اس کی دفعات ٹوٹتی چلی جاتی ہیں ۔ علاوہ بریں اس نہایت نازک، نہایت وسیع اور نہایت پیچیدہ عہد کی ذمہ داریوں سے انسان ہر گز عہدہ برآ نہیں ہو سکتا جب تک وہ خدا کی رہنمائی کو قبول کر کے اس کے بتائے ہوئے راستہ پر زندگی بسر نہ کرے۔ اس کو قبول نہ کرنے کے دو زبردست نقصان ہیں۔ ایک یہ کہ ہر دُوسرے راستہ کی پیروی لازماً انسان کو اس راہ سے ہٹا دیتی ہے جو خدا کے قرب اور اس کی رضا تک پہنچنے کی ایک ہی راہ ہے۔ دُوسرے یہ کہ اس راہ سے ہٹتے ہی بے شمار پگڈنڈیاں سامنے آجاتی ہیں جن میں بھٹک کر پُوری نوعِ انسانی پراگندہ ہو جاتی ہےاور اس پراگندگی کے ساتھ ہی اس کے بلوغ و ارتقاء کا خواب بھی پریشان ہو کر رہ جاتا ہے ۔ انہی دونوں نقصانات کو اس فقرے میں بیان کیا گیا ہے کہ ”دُوسرے راستوں پر نہ چلو کہ وہ تمہیں اس کے راستہ سے ہٹا کر پراگندہ کر دیں گے“۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ مائدہ ، حاشیہ نمبر ۳۵) |
Surah 4 : Ayat 125
وَمَنْ أَحْسَنُ دِينًا مِّمَّنْ أَسْلَمَ وَجْهَهُۥ لِلَّهِ وَهُوَ مُحْسِنٌ وَٱتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَٲهِيمَ حَنِيفًاۗ وَٱتَّخَذَ ٱللَّهُ إِبْرَٲهِيمَ خَلِيلاً
اُس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہوسکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سر تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اُس ابراہیمؑ کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا