Ayats Found (20)
Surah 2 : Ayat 90
بِئْسَمَا ٱشْتَرَوْاْ بِهِۦٓ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُواْ بِمَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ ٱللَّهُ مِن فَضْلِهِۦ عَلَىٰ مَن يَشَآءُ مِنْ عِبَادِهِۦۖ فَبَآءُو بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍۚ وَلِلْكَـٰفِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
کیسا برا ذریعہ ہے جس سے یہ اپنے نفس کی تسلی حاصل کرتے ہیں کہ جو ہدایت اللہ نے نازل کی ہے، اس کو قبول کرنے سے صرف اِس ضد کی بنا پر انکار کر رہے ہیں کہ اللہ نے اپنے فضل (وحی و رسالت) سے اپنے جس بندے کو خود چاہا، نواز دیا1! لہٰذا اب یہ غضب بالائے غضب کے مستحق ہوگئے ہیں اور ایسے کافروں کے لیے سخت آمیز سزا مقرر ہے
2 | یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے |
1 | یہ لوگ چاہتے تھے کہ آنے والانبی ان کی قوم میں پیدا ہو۔ مگر جب وہ ایک دُوسری قوم میں پیدا ہوا ، جسے وہ اپنے مقابلےمیں ہیچ سمجھتے تھے، تو وہ اس کے انکار پر آمادہ ہوگئے۔ گویا ان کا مطلب یہ تھا کہ اللہ ان سے پوچھ کر نبی بھیجتا جب اس نے ان سے نہ پُوچھا اور اپنےفضل سے خود جسے چاہا ، نواز دیا ، تو وہ بگڑ بیٹھے |
Surah 2 : Ayat 173
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ بِهِۦ لِغَيْرِ ٱللَّهِۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَآ إِثْمَ عَلَيْهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اللہ کی طرف سے اگر کوئی پابندی تم پر ہے تو وہ یہ ہے کہ مُردار نہ کھاؤ، خون سے اور سور کے گوشت سے پرہیز کرو اور کوئی چیز نہ کھاؤ جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو1 ہاں جو شخص مجبوری کی حالت میں ہو اور وہ ان میں سے کوئی چیز کھا لے بغیر اس کے کہ وہ قانون شکنی کا ارادہ رکھتا ہو یا ضرورت کی حد سے تجاوز کر ے، تو اس پر کچھ گناہ نہیں، اللہ بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے2
2 | اس آیت میں حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت تین شرطوں کے ساتھ دی گئی ہے۔ ایک یہ کہ واقعی مجبُوری کی حالت ہو۔ مثلاً بھُوک یا پیاس سے جان پر بن گئی ہو، یا بیماری کی وجہ سے جان کا خطرہ ہو اور اس حالت میں حرام چیز کے سوا اور کوئی چیز میسّر نہ ہو۔ دوسرے یہ کہ خدا کے قانون کو توڑنے کی خواہش دل میں موجود نہ ہو۔ تیسرے یہ کہ ضرورت کی حد سے تجاوز نہ کیا جائے، مثلاً حرام چیز کے چند لقمے یا چند قطرے یا چند گھونٹ اگر جان پچا سکتے ہوں تو ان سے زیادہ اس چیز کا استعمال نہ ہونے پائے |
1 | اس کا اطلاق اُس جانور کے گوشت پر بھی ہوتا ہے جسے خدا کے سوا کسی اَور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو اور اُس کھانے پر بھی ہوتا ہے جو اللہ کے سواکِسی اَور کے نام پر بطور نذر کے پکایا جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ جانور ہو یا غلّہ یا اور کوئی کھانے کی چیز ، دراصل اس کا مالک اللہ تعالٰی ہی ہے اور اللہ ہی نے وہ چیز ہم کو عطا کی ہے۔ لہٰذا اعترافِ نعمت صدقہ و نذر و نیاز کے طور پر اگر کسی کا نام ان چیزوں پر لیا جا سکتا ہے تو وہ صرف اللہ ہی کا نام ہے۔ اس کے سوا کسی دُوسرے کا نام لینا یہ معنی رکھتا ہے کہ ہم خدا کے بجائے یا خدا کے ساتھ اس کی بالاتری بھی تسلیم کر رہے ہیں اور اس کو بھی مُنعِم سمجھتے ہیں |
Surah 6 : Ayat 145
قُل لَّآ أَجِدُ فِى مَآ أُوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُۥٓ إِلَّآ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُۥ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو1 پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یہ مضمون سُورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سُورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے، اور آگے سُورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے۔ سُورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اُس حکم کی تشریح ہے۔ اِسی طرح سُورۂ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حُرمت کا بھی ذکر ملتا ہے، یعنی وہ جانور جو گلا گھُونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑ ا ہو۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں۔ فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا۔ لیکن متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچیلوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدُود نہیں مانتے بلکہ دُوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حِلّت و حُرمت میں فقہاء لء درمیان اختلاف ہوا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض دُوسرے فقہا کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مُردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں۔ لَیث کے نزدیک بِلّی حلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوّا اور بجّو دونوں حلال ہیں۔ اسی طرح حنفیہ تما م حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔ ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حُرمت اُن چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دُوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حُرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعتِ الہٰی کسی کو مجبُور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کر ے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ نا پسند کرتا ہے |
Surah 16 : Ayat 115
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةَ وَٱلدَّمَ وَلَحْمَ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦۖ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اللہ نے جو کچھ تم پر حرام کیا ہے وہ ہے مُردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جانور جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو البتہ بھوک سے مجبور ہو کر اگر کوئی اِن چیزوں کو کھا لے، بغیر اس کے کہ وہ قانون الٰہی کی خلاف ورزی کا خواہش مند ہو، یا حد ضرورت سے تجاوز کا مرتکب ہو، تو یقیناً اللہ معاف کرنے اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یہ حکم سورۂ بقرہ آیت نمبر ۳، سورۂ مائدہ آیت نمبر ۱۷۳ اور سورۂ انعام آیت نمبر ۳۵ میں بھی گزر چکا ہے۔ |
Surah 2 : Ayat 213
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٲحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُواْ فِيهِۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ بَغْيَۢا بَيْنَهُمْۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَا ٱخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے1 پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے2
2 | اُوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پُوری داستان کی داستان ہے، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سُورتوں میں ( جو سُورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیا ؑ جب کبھی دُنیا میں آئے، انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھُولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے |
1 | ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بُنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دُنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اُس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہےاور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدّت تک نسلِ آدم راہِ راست پر قائم رہی اور ایک اُمّت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شرُوع کیا۔ یہ انبیا ؑ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی اُمّت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہِ حق کو واضح کر کے اُنھیں پھر سے ایک اُمّت بنا دیں |
Surah 3 : Ayat 19
إِنَّ ٱلدِّينَ عِندَ ٱللَّهِ ٱلْإِسْلَـٰمُۗ وَمَا ٱخْتَلَفَ ٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ إِلَّا مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ ٱلْعِلْمُ بَغْيَۢا بَيْنَهُمْۗ وَمَن يَكْفُرْ بِـَٔـايَـٰتِ ٱللَّهِ فَإِنَّ ٱللَّهَ سَرِيعُ ٱلْحِسَابِ
اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے1 اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے اُن لوگوں نے اختیار کیے، جنہیں کتاب دی گئی تھی، اُن کے اِس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انہوں نے علم آ جانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا2 اور جو کوئی اللہ کے احکام و ہدایات کی اطاعت سے انکار کر دے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی ہے
2 | مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دُنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دُنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوعِ انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصِل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اُصُول اور احکام میں ردّو بدل کر ڈالا |
1 | یعنی اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظامِ زندگی اور ایک ہی طریقہٴ حیات صحیح و درست ہے، اوروہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبُود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپر د کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے، بلکہ اُس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے۔ اسی طرزِ فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اِس اسلام کے سوا کسی دُوسرے طرزِ عمل کو جائز تسلیم نہ کرے۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بُت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نِری بغاوت ہے |
Surah 6 : Ayat 146
وَعَلَى ٱلَّذِينَ هَادُواْ حَرَّمْنَا كُلَّ ذِى ظُفُرٍۖ وَمِنَ ٱلْبَقَرِ وَٱلْغَنَمِ حَرَّمْنَا عَلَيْهِمْ شُحُومَهُمَآ إِلَّا مَا حَمَلَتْ ظُهُورُهُمَآ أَوِ ٱلْحَوَايَآ أَوْ مَا ٱخْتَلَطَ بِعَظْمٍۚ ذَٲلِكَ جَزَيْنَـٰهُم بِبَغْيِهِمْۖ وَإِنَّا لَصَـٰدِقُونَ
اور جن لوگوں نے یہودیت اختیار کی ان پر ہم نے سب ناخن والے جانور حرام کر دیے تھے، اور گائے اور بکری کی چربی بھی بجز اُس کے جو اُن کی پیٹھ یا اُن کی آنتوں سے لگی ہوئی ہو یا ہڈی سے لگی رہ جائے یہ ہم نے ان کی سرکشی کی سزا اُنہیں دی تھی1 اور یہ جو کچھ ہم کہہ رہے ہیں بالکل سچ کہہ رہے ہیں
1 | یہ مضمون قرآن مجید میں تین مقامات پر بیان ہوا ہے ۔ سُورۂ آلِ عمران میں فرمایا”کھانے کی یہ ساری چیزیں (جو شریعت محمدی میں حلال ہیں)بنی اسرائیل کے لیے بھی حلال تھیں ، البتہ بعض چیزیں ایسی تھیں جنھیں توراۃ کے نازل کیے جانے سے پہلے اسرائیل نے خود اپنے اوپر حرام کر لیا تھا۔ ان سے کہو لاؤ توراۃ اور پیش کروا س کی کوئی عبارت اگر تم(اپنے اعتراض میں) سچے ہو“۔(آیت ۹۳)۔ پھر سُورہ ٔ نساء میں فرمایا کہ بنی اسرائیل کے جرائم کی بنا پر ”ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں“۔(آیت ۱۶۰)۔ اور یہاں ارشاد ہوا ہے کہ ان کی سرکشیوں کی پاداش میں ہم نے ان پر تمام ناخن والے جانور حرام کیے اور بکری اور گائے کی چربی بھی ان کے لیے حرام ٹھیرا دی۔ اِن تینون آیتوں کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ شریعت محمدی ؐ اور یہُودی فقہ کے درمیان حیوانی غذاؤں کی حِلّت و حُرمت کے معاملہ میں جو فرق پایا جاتا ہے وہ دو وجوہ پر مَبنی ہے : ایک یہ کہ نزولِ توراۃ سے صدیوں پہلے حضرت یعقوب ؑ (اسرائیل) علیہ السّلام نے بعض چیزوں کا استعمال چھوڑ دیا تھا اور ان کے بعد ان کی اولاد بھی ان چیزوں کی تارک رہی، حتٰی کہ یہُودی فقہاء نے ان کو باقاعدہ حرام سمجھ لیا اور ان کی حُرمت توراۃ میں لکھ لی۔ اِن اشیاء میں اُونٹ اور خرگوش اور سافان شامل ہیں۔ آج بائیبل میں توراۃ کے جو اجزاء ہم کو ملتے ہیں اُن میں ان تینوں چیزوں کی حرمت کا ذکر ہے(احبار ۴:۱۱ – ۶ – استثناء ۷:۱۴ )۔ لیکن قرآن مجید میں یہودیوں کو جو چیلنج دیا گیا تھا کہ لاؤ توراۃ اور دکھاؤ یہ چیزیں کہاں حرام لکھی ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ توراۃ میں ان احکام کا اضافہ اس کے بعد کیا گیا ہے۔ کیونکہ اگر اس وقت توراۃ میں یہ احکام موجود ہوتے تو بنی اسرائیل فوراً لا کر پیش کر دیتے۔ دُوسرا فرق اس وجہ پر مبنی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نازل کی ہوئی شریعت سے جب یہودیوں نے بغاوت کی اور آپ اپنے شارع بن بیٹھے تو انہوں نے بہت سے پاک چیزوں کو اپنی موشگافیوں سے خود حرام کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے سزا کے طور پر انھیں اس غلط فہمی میں مبتلا رہنے دیا۔ ان اشیاء میں ایت تو ناخن والے جانور شامل ہیں ، یعنی شتر مُرغ ، قاز، بط وغیرہ۔ دُوسرے گائے اور بکری کی چربی۔ بائیبل میں ان دونوں قسم کی حرمتوں کو احکامِ توراۃ میں داخل کر دیا گیا ہے۔ (احبار ۱۶:۱۱ – ۱۸ – استثناء ۱۴:۱۴ – ۱۵ – ۱۶ – احبار ۱۷:۳ و ۲۲:۷ - ۲۳)۔ لیکن سُورہ ٔ نساء سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں توراۃ میں حرام نہ تھیں بلکہ حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد حرام ہوئی ہیں ، اور تاریخ بھی شہادت دیتی ہے کہ موجودہ یہودی شریعت کی تدوین دُوسری صدی عیسوی کے آخر میں رَبّی یہوداہ کے ہاتھوں مکمل ہوئی ہے۔ رہا یہ سوال کہ پھر ان چیزوں کے متعلق یہاں اور سُورۂ نساء میں اللہ تعالیٰ نے حَرَّمْنَا (ہم نے حرام کیا) کا لفظ کیوں استعمال کیا تو اس کا جواب یہ ہے کہ خدائی تحریم کی صرف یہی ایک صُورت نہیں ہے کہ وہ کسی پیغمبر اور کتاب کے ذریعہ سے کسی چیز کو حرام کرے۔ بلکہ اس کی صورت یہ بھی ہے کہ وہ اپنے باغی بندوں پر بناوٹی شارعوں اور جعلی قانون سازوں کو مسلّط کر دے اور وہ ان پر طیّبات کو حرام کر دیں۔ پہلی قسم کی تحریم خدا کی طرف سے رحمت کے طور پر ہوتی ہے اور یہ دُوسری قسم کی تحریم اس کی پھِٹکار اور سزا کی حیثیت سے ہوا کرتی ہے |
Surah 7 : Ayat 33
قُلْ إِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّىَ ٱلْفَوَٲحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَٱلْإِثْمَ وَٱلْبَغْىَ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّ وَأَن تُشْرِكُواْ بِٱللَّهِ مَا لَمْ يُنَزِّلْ بِهِۦ سُلْطَـٰنًا وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے1 اور گناہ2 اور حق کے خلاف زیادتی3 اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے
3 | یعنی اپنی حد سے تجاوز کرکے ایسے حدود میں قدم رکھنا جن کے اندر داخل ہونے کا آدمی کو حق نہ ہو۔ اس تعریف کی رو سے وہ لوگ بھی باغی قرار پاتے ہیں جو بندگی کی حد سے نکل کر خدا کے ملک میں خود مختیارانہ رویّہ اختیار کرتے ہیں، اور وہ بھی جو خد ا کی خدائی میں اپنی کبریائی کے ڈنکے بجاتے ہیں، اور وہ بھی جو بندگانِ خدا کے حقوق پردست درازی کرتے ہیں |
2 | اصل میں لفظ اِثْمٌ استعمال ہوا ہے جس کے اصل معنی کوتا ہی کے ہیں۔ اٰثِمَہ اُس اونٹنی کو کہتے ہیں جو تیز چل سکتی ہو مگر جان بوجھ کو سُست چلے۔ اسی سے اس لفظ میں گناہ کا مفہوم پیدا ہوا ہے، یعنی انسان کا اپنے رب کی اطاعت و فرماں بر دا ری میں قدرت و استطاعت کے باوجود ، کوتاہی کرنا اور اس کی رضا کو پہنچنے میں جان بوجھ کر قصور دکھانا |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورہ انعام ، حواشی ١۲۷و١۳١ |
Surah 10 : Ayat 23
فَلَمَّآ أَنجَـٰهُمْ إِذَا هُمْ يَبْغُونَ فِى ٱلْأَرْضِ بِغَيْرِ ٱلْحَقِّۗ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّاسُ إِنَّمَا بَغْيُكُمْ عَلَىٰٓ أَنفُسِكُمۖ مَّتَـٰعَ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ ثُمَّ إِلَيْنَا مَرْجِعُكُمْ فَنُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
مگر جب وہ ان کو بچا لیتا ہے تو پھر وہی لوگ حق سے منحرف ہو کر زمین میں بغاوت کرنے لگتے ہیں لوگو، تمہاری یہ بغاوت اُلٹی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے دنیا کے چند روزہ مزے ہیں (لُوٹ لو)، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے، اُس وقت ہم تمہیں بتا دیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو
Surah 10 : Ayat 90
۞ وَجَـٰوَزْنَا بِبَنِىٓ إِسْرَٲٓءِيلَ ٱلْبَحْرَ فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ وَجُنُودُهُۥ بَغْيًا وَعَدْوًاۖ حَتَّىٰٓ إِذَآ أَدْرَكَهُ ٱلْغَرَقُ قَالَ ءَامَنتُ أَنَّهُۥ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا ٱلَّذِىٓ ءَامَنَتْ بِهِۦ بَنُوٓاْ إِسْرَٲٓءِيلَ وَأَنَا۟ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
اور ہم بنی اسرائیل کو سمندر سے گزار لے گئے پھر فرعون اور اس کے لشکر ظلم اور زیادتی کی غرض سے ان کے پیچھے چلے حتیٰ کہ جب فرعون ڈوبنے لگا تو بول اٹھا "میں نے مان لیا کہ خداوند حقیقی اُس کے سوا کوئی نہیں ہے جس پر بنی اسرائیل ایمان لائے، اور میں بھی سر اطاعت جھکا دینے والوں میں سے ہوں"