Ayats Found (6)
Surah 6 : Ayat 71
قُلْ أَنَدْعُواْ مِن دُونِ ٱللَّهِ مَا لَا يَنفَعُنَا وَلَا يَضُرُّنَا وَنُرَدُّ عَلَىٰٓ أَعْقَابِنَا بَعْدَ إِذْ هَدَٮٰنَا ٱللَّهُ كَٱلَّذِى ٱسْتَهْوَتْهُ ٱلشَّيَـٰطِينُ فِى ٱلْأَرْضِ حَيْرَانَ لَهُۥٓ أَصْحَـٰبٌ يَدْعُونَهُۥٓ إِلَى ٱلْهُدَى ٱئْتِنَاۗ قُلْ إِنَّ هُدَى ٱللَّهِ هُوَ ٱلْهُدَىٰۖ وَأُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ ٱلْعَـٰلَمِينَ
اے محمدؐ! ان سے پو چھو کیا ہم اللہ کو چھوڑ کر اُن کو پکاریں جو نہ ہمیں نفع دے سکتے ہیں نہ نقصان؟ اور جبکہ اللہ ہمیں سیدھا راستہ دکھا چکا ہے تو کیا اب ہم الٹے پاؤں پھر جائیں؟ کیا ہم اپنا حال اُس شخص کا سا کر لیں جسے شیطانوں نے صحرا میں بھٹکا دیا ہو اور وہ حیران و سرگرداں پھر رہا ہو درآں حالیکہ اس کے ساتھی اسے پکار رہے ہوں کہ اِدھر آ یہ سیدھی راہ موجود ہے؟کہو، حقیقت میں صحیح رہنمائی تو صرف اللہ ہی کی رہنمائی ہے اور اس کی طرف سے ہمیں یہ حکم ملا ہے کہ مالک کائنات کے آگے سر اطاعت خم کر دو
Surah 22 : Ayat 34
وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلْنَا مَنسَكًا لِّيَذْكُرُواْ ٱسْمَ ٱللَّهِ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّنۢ بَهِيمَةِ ٱلْأَنْعَـٰمِۗ فَإِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَٲحِدٌ فَلَهُۥٓ أَسْلِمُواْۗ وَبَشِّرِ ٱلْمُخْبِتِينَ
ہر امّت کے لیے ہم نے قربانی کا ایک قاعدہ مقرر کر دیا ہے تاکہ (اُس امّت کے لوگ) اُن جانوروں پر اللہ کا نام لیں جو اُس نے اُن کو بخشے ہیں1 (اِن مختلف طریقوں کے اندر مقصد ایک ہی ہے) پس تمہارا خدا ایک ہی خدا ہے اور اُسی کے تم مطیع فرمان بنو اور اے نبیؐ، بشارت دے دے عاجزانہ رَوش اختیار کرنے والوں کو2
2 | اصل میں لفظ ’’مُخْبِتِین‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مفہوم کسی ایک لفظ سے پوری طرح ادا نہیں ہوتا۔ اس میں تین مفہومات شامل ہیں اِستکبار اور غرور نفس چھوڑ کر اللہ کے مقابلے میں عجز اختیار کرنا۔ اس کی بندگی و غلامی پر مطمئن ہو جانا اس کے فیصلوں پر راضی ہو جانا |
1 | اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں۔ ایک یہ کہ قربانی تمام شرائع الہٰیہ کے نظام عبادت کا ایک لازمی جز رہی ہے۔ توحید فی العبادت کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ انسان نے جن جن صورتوں سے غیر اللہ کی بندگی کی ہے ان سب کو غیر اللہ کے لیے ممنوع کر کے صرف اللہ کے لیے مختص کر دیا جائے۔ مثلاً انسان نے غیر اللہ کے آگے رکوع و سجود کیا ہے۔ شرائع الہٰیہ نے اسے اللہ کے یے خاص کر دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے آگے مالی نذرانے پیش کیے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں ممنوع کر کے زکوٰۃ و صدقہ اللہ کے لیے واجب کر دیا۔ انسان نے معبود ان باطل کی تیرتھ یاترا کی ہے۔ شرائع الٰہیہ نے کسی نہ کسی مقام کو مقدس یا بیت اللہ قرار دے کر اس کی زیارت اور طواف کا حکم دے دیا۔ انسان نے غیر اللہ کے نام کے روزے رکھے ہیں۔ شرائع الٰہیہ نے انہیں بھی اللہ کے لیے مختص کر دیا۔ ٹھیک اسی طرح انسان اپنے خود ساختہ معبودوں کے لیے جانوروں کی قربانیاں بھی کرتا رہا ہے اور شرائع الٰہیہ نے ان کو بھی غیر کے لیے قطعاً حرام اور اللہ کے یے واجب کر دیا۔ دوسری بات اس آیت سے یہ معلوم ہوئی کہ اصل چیز اللہ کے نام پر قربانی ہے نہ کہ اس قاعدے کی یہ تفصیلات کہ قربانی کب کی جائے اور کہاں کی جائے اور کس طرح کی جائے۔ ان تفصیلات میں مختلف زمانوں اور مختلف قوموں اور ملکوں کے انبیاء کی شریعتوں میں حالات کے لحاظ سے اختلافات رہے ہیں ، مگر سب کی روح اور سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے |
Surah 27 : Ayat 91
إِنَّمَآ أُمِرْتُ أَنْ أَعْبُدَ رَبَّ هَـٰذِهِ ٱلْبَلْدَةِ ٱلَّذِى حَرَّمَهَا وَلَهُۥ كُلُّ شَىْءٍۖ وَأُمِرْتُ أَنْ أَكُونَ مِنَ ٱلْمُسْلِمِينَ
(اے محمدؐ، اِن سے کہو) "مجھے تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ اِس شہر کے رب کی بندگی کروں جس نے اِسے حرم بنایا ہے اور جو ہر چیز کا مالک ہے1 مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مسلم بن کر رہوں
1 | یہ سورۃ چونکہ زمانے میںنازل ہوئی تھی جبکہ اسلام کی دعوت ابھی صرف مکہ معظمہ تک محدود تھی اورمخاطب صرف اس شہر کے لوگ تھے، اس لیے فرمایا’’ مجھے اس شہر کےرب کی بندگی کاحکم دیاگیا ہے‘‘ اس کے ساتھ رب کی خصوصیت یہ بیان کی گئی کہ اس نے اسےحرام بنایا ہے۔ اس سے کفارمکہ کومتنبہ کرنا مقصود ہے کہ جس خدا کاتم پریہ احسان عظیم ہے کہ اس نے عرب کی انتہائی بدامی اورفساد خونریزی سےلبریزسرزمین مین تمہارے اس شہر کوامن کاگہوارہ بنارکھا ہے، اور جس کےفضل سے تمہارا یہ شہر پورے ملک عرب کا مرکز عقیدت بناہُوا ہے، تم اس کی ناشکری کرنا چاہو تو کرتے رہو، مگر مجھے تویہی حکم دیا گیا ہے کہ میں اس کا شکر گزار بندہ بنوں اوراسی کے آگے سرنیاز جھکاؤں ۔ تم جنہیں معبود بنائے بیٹھے ہوان میں سے کسی کی یہ طاقت نہ تھی کہ اس شہر کوحرم بنادیتا اورعرب جنگجو اورغارت گر قبیلوں سے اس کا احترام کرسکتا۔ میرےلیے تویہ ممکن نہیں ہے کہ اصل محسن کو چھوڑ کراُن کے آگے جھکوں جن کاکوئی ذرہ برابر بھی احسان مجھ پرنہیں ہے۔ |
Surah 30 : Ayat 30
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًاۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَاۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِۚ ذَٲلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَـٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
پس1 (اے نبیؐ، اور نبیؐ کے پیروؤں) یک سُو ہو کر اپنا رُخ اِس دین2 کی سمت میں جما دو3، قائم ہو جاؤ اُس فطرت پر جس پر اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو پیدا کیا ہے4، اللہ کی بنائی ہوئی ساخت بدلی نہیں جا سکتی5، یہی بالکل راست اور درست دین ہے6، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں
6 | یعنی فطرتِ سلیمہ پرقائم رہنا ہی سیدھااورصحیح طریقہ ہے۔ |
5 | یعنی خدانے انسان کو اپنابندہ بنایاہےاوراپنی ہی بندگی کے لیے پیداکیا ہے۔یہ ساخت کسی کے بدلے نہیں بدل سکتی۔نہ آدمی بندہ سے غیر بندہ بن سکتاہے،نہ کسی غیرخداکوخدابنالینے سےوہ حقیقت میں اس کا خدا بن سکتاہے۔انسان خواہ اپنے کتنے ہی معبود بنابیٹھے،لیکن یہ امرِواقعہ اپنی جگہ اٹل ہے کہ وہ ایک خداکےسوا کسی کابندہ نہیں ہے۔انسان اپنی حماقت اورجہالت کی بنا پرجس کو چاہے خدائی صفات واختیارات کاحامل قراردے لےاورجسےبھی چاہے اپنی قسمت کابنانے اوربگاڑنے والاسمجھ بیٹھے،مگرحقیقتِ نفس الامری یہی ہے کہ نہ الوہیت کی صفات اللہ تعالٰی کے سواکسی کوحاصل ہیں نہ اس کے اختیارات،اورنہ کسی دوسرے کےپاس یہ طاقت ہےکہ انسان کی قسمت بناسکےیابگاڑسکے۔ایک دوسراترجمہ اس آیت کایہ بھی ہوسکتاہے کہ’’اللہ کی بنائی ہوئی ساخت میں تبدیلی نہ کی جائے‘‘۔یعنی اللہ نے جس فطرت پرانسان کوپیداکیاہے اس کو بگاڑنااورمسخ کرنادرست نہیں ہے۔ |
4 | یعنی تمام انسان اِس فطرت پرپیداکیے گئے ہیں کہ ان کاکوئی خالق اورکوئی رب اورکوئی معبود اورمُطاعِ حقیقی ایک اللہ کے سوانہیں ہے۔اسی فطرت پرتم کوقائم ہوجاناچاہیے۔اگرخود مختاری کارویہ اختیارکروگےتب بھی فطرت کے خلاف چلوگےاوراگربندگئ غیر کاطوق اپنے گلےمیں ڈالوگےتب بھی اپنی فطرت کےخلاف کام کروگے۔اس مضمون کو متعدداحادیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح فرمایاہے۔بخاری ومسلم میں ہے کہ حضورؐ نے فرمایا مامن مولود یولدالا علی الفطرۃ فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجانہ کماتنتج البھیمتہ بھیمتتہ جمعاء ھل تحسون فیھامن جدعاء۔یعنی ہربچہ جوکسی ماں کے پیٹ سےپیداہوتاہے،اصل انسانی فطرت پرپیداہوتاہے۔یہ ماں باپ ہیں جواسےبعد میں عیسائی یا یہودی یامجوسی وغیرہ بناڈالتےہیں۔اس کی مثال ایسی ہےجیسےہرجانورکے پیٹ سےپوراکا پورا صحیح وسالم جانوربرآمد ہوتاہے،کوئی بچہ بھی کٹے ہوئے کان لے کرنہیں آتا، بعد میں مشرکین اپنے اوہام جاہلیت کی بناپراس کے کان کاٹتے ہیں۔مُسنداحمد اورنسائی میں ایک اورحدیث ہےکہ ایک جنگ میں مسلمانوں نے دشمنوں کے بچوں تک کو قتل کردیا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو خبرہوئی توسخت ناراض ہوئے اورفرمایا مابال اقوام جاوزھم القتل الیوم حتٰی قتلواالذُّریّتہ،’’لوگوں کوکیا ہوگیا کہ آج وہ حد سےگزرگئےاوربچوں تک کو قتل کرڈالا‘‘۔ایک شخص نے عرض کیا کیا یہ مشرکین کےبچے نہ تھے؟فرمایا انما خیارکم ابناءالمشرکین،’’تمہارے بہترین لوگ مشرکین ہی کی تواولاد ہیں‘‘۔پھرفرمایا کل نسمتہ تولد علی الفطرۃ حتی یعرب عنہ لسانھا فابواھا یھودانھااو ینصرانھا،’’ہر متنفس فطرت پرپیداہوتاہے،یہاں تک کہ جب اس کی زبان کھلنے پرآتی ہے توماں باپ اسےیہودی یانصرانی بنالیتے ہیں‘‘۔ایک اور حدیث جوامام احمدؓ نےعیاض بن حمارالجُاشِعِی سے نقل کی ہےاس میں بیان ہوا ہے کہ ایک روزنبی ﷺنےاپنے خطبہ کے دوران میں فرمایا ان ربی یقول انی خلقت عبادی حنفاء کلہم وانھم اتتھم الشیاطین فاضلتہم عن دینہم وحَرَّمَت علیہم مااحللتُ لھم واَمَرَتھم ان یشرکوابی مالم انزل بہِ سُلطَانًا۔’’میرارب فرماتاہے کہ میں نے اپنے تمام بندوں کو حنیف پیداکیاتھا،پھرشیاطین نے آکرانہیں ان کے دین سےگمراہ کیا،اورجوکچھ میں نے ان کے لیےحلال کیاتھااسے حرام کیا،اورانہیں حکم دیاکہ میرے ساتھ اُن چیزوں کو شریک ٹھہرائیں جن کے شریک ہونے پرمیں نے کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے‘‘۔ |
3 | ’’یک سو ہوکراپنارُخ اِس طرف جمادو‘‘یعنی پھرکسی اورطرف کارُخ نہ کرو۔زندگی کےلیے اِس راہ کو اختیارکرلینے کےبعدپھرکسی دوسرے راستےکی طرف التفات تک نہ ہونے پائے۔پھرتمہاری فکراورسوچ ہوتو مسلمان کی سی اورتمہاری پسنداور ناپسند ہوتومسلمان کی سی۔تمہاری قدریں اورتمہارے معیارہوں تووہ جواسلام تمہیں دیتا ہے،تمہارے اخلاق اورتمہاری سیرت وکردار کاٹھپّہ ہوتواُس طرح کاجواسلام چاہتاہے،اورتمہاری انفرادی و اجتماعی زندگی کےمعاملات چلیں تواُس طریقے پرجواسلام نے تمہیں بتایاہے۔ |
2 | اِس دین سے مراد وہ خاص دین ہے جسے قرآن پیش کررہا ہے،جس میں بندگی،عبادت،اورطاعت کامستحق اللہ وحدہ لاشریک کےسوااورکوئی نہیں ہے،جس میں الُوہیّت اوراس کی صفات واختیارات اوراس کے حقوق میں قطعًا کسی کوبھی اللہ تعالٰی کےساتھ شریک نہیں ٹہرایا جاتا،جس میں انسان اپنی رضاورغبت سے اس بات کی پابندی اختیارکرتاہےکہ وہ اپنی پوری زندگی اللہ کی ہدایت اوراس کے قانون کی پیروی میں بسرکرے گا۔ |
1 | یہ ’’پس‘‘اس معنی میں ہے کہ جب حقیقت تم پرکھل چکی،اورتم کومعلوم ہوگیاکہ اس کائنات کااور خود انسان کاخالق ومالک اورحاکم ذی اختیارایک اللہ کے سوااورکوئی نہیں ہے تواس کے بعد لامحالہ تمہاراطرزِعمل یہ ہوناچاہیے۔ |
Surah 30 : Ayat 43
فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ ٱلْقَيِّمِ مِن قَبْلِ أَن يَأْتِىَ يَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَهُۥ مِنَ ٱللَّهِۖ يَوْمَئِذٍ يَصَّدَّعُونَ
پس (اے نبیؐ) اپنا رُخ مضبوطی کے ساتھ جما دو اِس دین راست کی سمت میں قبل اس کے کہ وہ دن آئے جس کے ٹل جانے کی کوئی صورت اللہ کی طرف سے نہیں ہے1 اُس دن لوگ پھَٹ کر ایک دُوسرے سے الگ ہو جائیں گے
1 | یعنی جس کونہ اللہ تعالٰی خود ٹالے گااورنہ اس نےکسی کےلیے ایسی کسی تدبیرکی کوئی گنجائش چھوڑی ہےکہ وہ اسےٹال سکے۔ |
Surah 39 : Ayat 12
وَأُمِرْتُ لِأَنْ أَكُونَ أَوَّلَ ٱلْمُسْلِمِينَ
اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سب سے پہلے میں خود مسلم بنوں1
1 | یعنی میرا کام صرف دوسروں سے کہنا ہی نہیں ہے،خود کر کے دکھانا بھی ہے۔جس راہ پر لوگوں کو بلاتا ہوں اس پر سب سے پہلے میں خود چلتا ہوں۔ |