Ayats Found (1)
Surah 91 : Ayat 8
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَٮٰهَا
پھر اُس کی بدی اور اُس کی پرہیز گاری اس پر الہام کر دی1
1 | الہام کا لفظ’’ لَہْمَ ‘‘ سے ہے جس کے معنی نگلنے کے ہیں۔ ’’ لَھَمَ الْشَّیََٔ وَ الْتَھَمَہٗ ‘‘ کے معنی ہیں فلاں شخص نے اس چیز کو نگل لیا۔ اور’’ اَلْھَمْتُہُ الْشَّیََٔ ‘‘ کے معنی ہیں میں نے فلاں چیز اس کو نگلوا دی یا اس کے حلق سے اتار دی ۔ اسی بنیادی مفہوم کے لحاظ سے الہام کا لفظ اصلاحاً اللہ تعالی کی طرف سے کسی تصور یا کس خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ نفسِ انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیز گاری الہام کر دینے کے دو مطلب ہیں۔ ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلات رکھ دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالی نے یہ تصورات و دیعت کر دیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے ا ور کوئی چیز برائی، اچھے ا خلاق و اعمال اور برے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بد کر داری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (برائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز۔ یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اس کی فطرت ان سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائی طور پر اس کو عطا کر دی ہے۔ یہی بات سورہ بلد میں فرمائی گئی ہے کہ ’’ وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ ‘‘ ’’اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے‘‘(آیت 10)۔ اسی کو سورہ دھر میں یوں بیان کیا گیا ہے: ’’ إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا‘‘’’ہم نے اس کو راستہ دکھایا خواہ شاکر بن کر رہے یا کافر‘‘(آیت 3)۔ اور اسی بات کو سورہ قیامہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ انسان کے اندر ایک نفس لوامہ (ضمیر) موجود ہے جو برائٍ کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے (آیت 2) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (آیات 14۔15)۔ اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیےکہ فطری الہام اللہ تعالی نے ہر مخلوق پر اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سورہ طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ ’’ الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ‘‘ ’’جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی‘‘۔ (آیت 50) مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا ، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آ جاتا ہے۔ انسان کو بھی اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے اس کی ایک نمایں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔ اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔ اس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے در پے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ ان ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاہد ہی کوئی ایسی جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آ گئی اور اس کی بدولت اس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کر لی۔ ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالی نے اسے خیر و شر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔ اس چیز کا ہر مانے ہر جگہ اور ہر مرحلہ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونےکا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالقِ حکیم و دانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندی نہیں کی جا سکتی |