Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 31
قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ ٱللَّهَ فَٱتَّبِعُونِى يُحْبِبْكُمُ ٱللَّهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے نبیؐ! لوگوں سے کہہ دو کہ، "اگر تم حقیقت میں اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میر ی پیروی اختیار کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں سے درگزر فرمائے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے"
Surah 3 : Ayat 135
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُواْ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے
Surah 9 : Ayat 102
وَءَاخَرُونَ ٱعْتَرَفُواْ بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُواْ عَمَلاً صَـٰلِحًا وَءَاخَرَ سَيِّئًا عَسَى ٱللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
کچھ اور لوگ ہیں جنہوں نے اپنے قصوروں کا اعتراف کر لیا ہے ان کا عمل مخلوط ہے، کچھ نیک ہے اور کچھ بد، بعید نہیں کہ اللہ ان پر پھر مہربان ہو جائے کیونکہ وہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
Surah 33 : Ayat 70
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ ٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَقُولُواْ قَوْلاً سَدِيدًا
اے ایمان لانے والو، اللہ سے ڈرو اور ٹھیک بات کیا کرو
Surah 33 : Ayat 71
يُصْلِحْ لَكُمْ أَعْمَـٰلَكُمْ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْۗ وَمَن يُطِعِ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا
اللہ تمہارے اعمال درست کر دے گا اور تمہارے قصوروں سے درگزر فرمائے گا جو شخص اللہ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرے اُس نے بڑی کامیابی حاصل کی
Surah 46 : Ayat 31
يَـٰقَوْمَنَآ أَجِيبُواْ دَاعِىَ ٱللَّهِ وَءَامِنُواْ بِهِۦ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ
اے ہماری قوم کے لوگو، اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت قبول کر لو اور اس پر ایمان لے آؤ، اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں عذاب الیم سے بچا دے گا1"
1 | معتبر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے بعد جنوں کے پے درپے وفود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس حاضر ہونے لگے اور آپ سے ان کی رو در رو ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ اس بارے میں جو روایات کتب حدیث میں منقول ہوئی ہیں ان کو جمع کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ہجرت سے پہلے مکہ معظمہ میں کم از کم چھ وفد آۓ تھے۔ ان میں سے ایک وفد کے متعلق حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مکہ میں رات بھر غائب رہے۔ ہم لوگ سخت پریشان تھے کہ کہیں پر کوئی حملہ نہ کر دیا گیا ہو۔ صبح سویرے ہم نے آپ کو حراء کی طرف سے آتے ہوۓ دیکھا۔ پوچھنے پر آپ نے بتایا کہ ایک جن مجھے بلانے آیا تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آ کر یہاں جنوں کے ایک گروہ کو قرآن سنایا۔ (مسلم۔ مسند احمد۔ ترمذی۔ ابوداؤد) حضرت عبداللہ بن مسعود ہی کی ایک اور روایت ہے کہ ایک مرتبہ مکہ میں حضور نے صحابہ سے فرمایا کہ آج رات تم میں سے کون میرے ساتھ جنوں کی ملاقات کے لیے چلتا ہے؟ میں آپ کے ساتھ چلنے کے لیے تیار ہو گیا۔ مکہ کے بالائی حصہ میں ایک جگہ حضور نے لکیر کھینچ کر مجھ سے فرمایا کہ اس سے آگے نہ بڑھنا۔ پھر آپ آگے تشریف لے گۓ اور کھڑے ہو کر قرآن پڑھنا شروع کیا۔میں نے دیکھا کہ بہت سے اشخاص ہیں جنہوں نے آپ کو گھیر رکھا ہے اور وہ میرے اور آپ کے درمیان حائل ہیں۔ )ابن جریر۔ بیہقی۔ دلائل النبوۃ۔ابونعیم اصفہانی، دلائل النبوہ) ایک اور موقع پر بھی رات کے وقت حضرت عبداللہ بن مسعود نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے اور مکہ معظمہ میں حجون کے مقام پر جنوں کے ایک مقدمہ کا آپ نے فیصلہ فرمایا۔ اس کے سالہا سال بعد ابن مسعودؓ نے کوفہ میں جاٹوں کے ایک گروہ کو دیکھ کر کہا حجون کے مقام پر جنوں کے جس گروہ کو میں نے دیکھا تھا وہ ان لوگوں سے بہت مشابہ تھا۔ (ابن جریر) |
Surah 71 : Ayat 2
قَالَ يَـٰقَوْمِ إِنِّى لَكُمْ نَذِيرٌ مُّبِينٌ
ا س نے کہا "اے میری قوم کے لوگو، میں تمہارے لیے ایک صاف صاف خبردار کردینے والا (پیغمبر) ہوں
Surah 71 : Ayat 4
يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرْكُمْ إِلَىٰٓ أَجَلٍ مُّسَمًّىۚ إِنَّ أَجَلَ ٱللَّهِ إِذَا جَآءَ لَا يُؤَخَّرُۖ لَوْ كُنتُمْ تَعْلَمُونَ
اللہ تمہارے گناہوں سے درگزر فرمائے گا اور تمہیں ایک وقت مقرر تک باقی رکھے گا12 حقیقت یہ ہے کہ اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت جب آ جاتا ہے تو پھر ٹالا نہیں3 جاتا کاش تمہیں اِس کا علم ہو4"
4 | یعنی اگر تمہیں یہ بات اچھی طرح معلوم ہو جائے کہ میرے ذریعہ سے اللہ کا پیغام پہنچ جانے کے بعد اب جو وقت گزر رہا ہے۔ یہ دراصل ایک مہلت ہے جو تمہیں ایمان لانے کے لیے دی جا رہی ہے، اور اس مہلت کی مدت ختم ہو جانے کے بعد پھر خدا کے عذاب سے بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے، تو تم ایمان لانے میں جلدی کرو گے اور نزول عذاب کا وقت آنے تک اس کو ٹالتے نہ چلے جاؤ گے |
3 | اس دوسرے وقت سے مراد وہ وقت ہےجو اللہ نے کسی قوم پر عذاب نازل کرنے کے لیے مقرر کر دیا ہو۔ اس کے متعلق متعدد مقامات پر قرآن مجید میں بات بصراحت بیان کی گئی ہے کہ جب کسی قوم کے حق میں نزول عذاب کا فیصلہ صادر ہو جاتا ہے اس کے بعد وہ ایمان بھی لے آئے تو اسے معاف نہیں کیا جاتا |
2 | یہ تین باتیں تھیں جو حضرت نوحؑ نے اپنی رسالت کا آغاز کرتے ہوئے اپنی قوم کے سامنے پیش کیں۔ ایک ، اللہ کی بندگی۔ دوسرے، تقوی۔ تیسرے، رسول کی اطاعت۔ اللہ کی بندگی کا مطلب یہ تھا کہ دوسروں کی بندگی و عبادت چھوڑ کر اور صرف اللہ ہی کو اپنا معبود تسلیم کر کے اسی کی پرستش کرو اور اسی کے احکام بجا لاؤ ۔ تقوی کا مطلب یہ تھا کہ ان کاموں سے پرہیز کرو جو اللہ کی ناراضی اور اس کے غضب کے موجب ہیں، اور اپنی زندگی میں وہ روش اختیار کرو جو خدا ترس لوگوں کو ا ختیار کرنی چاہیے۔ رہی تیسری بات کہ ’’میری اطاعت کرو‘‘، تو اس کا مطلب یہ تھا کہ ان احکام کی ا طاعت کرو جو اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے میں تمہیں د یتا ہوں |
1 | یعنی اگر تم نے یہ تین باتیں مان لیں تو تمہیں دنیا میں اس وقت تک جینے کی مہلت دے دی جائے گی جو اللہ تعالی نے تمہاری طبعی موت کے لیے مقرر کیا ہے |