Ayats Found (5)
Surah 35 : Ayat 11
وَٱللَّهُ خَلَقَكُم مِّن تُرَابٍ ثُمَّ مِن نُّطْفَةٍ ثُمَّ جَعَلَكُمْ أَزْوَٲجًاۚ وَمَا تَحْمِلُ مِنْ أُنثَىٰ وَلَا تَضَعُ إِلَّا بِعِلْمِهِۚۦ وَمَا يُعَمَّرُ مِن مُّعَمَّرٍ وَلَا يُنقَصُ مِنْ عُمُرِهِۦٓ إِلَّا فِى كِتَـٰبٍۚ إِنَّ ذَٲلِكَ عَلَى ٱللَّهِ يَسِيرٌ
اللہ نے1 تم کو مٹی سے پیدا کیا، پھر نطفہ سے2، پھر تمہارے جوڑے بنا دیے (یعنی مرد اور عورت) کوئی عورت حاملہ نہیں ہوتی اور نہ بچہ جنتی ہے مگر یہ سب کچھ اللہ کے علم میں ہوتا ہے کوئی عمر پانے والا عمر نہیں پاتا اور نہ کسی کی عمر میں کچھ کمی ہوتی ہے مگر یہ سب کچھ ایک کتاب میں لکھا ہوتا ہے3 اللہ کے لیے یہ بہت آسان کام ہے4
4 | یعنی اتنی بے شمار مخلوق کے بارے میں اتنا تفصیلی علم اور فرد فرد کے بارے میں اتنے مفصل احکام اور فیصلے کرنا اللہ کے لیے کوئی دشوار کام نہیں ہے۔ |
3 | یعنی جو شخص بھی دنیا میں پیدا ہوتا ہے اس کے متعلق پہلے ہی یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اسے دنیا میں کتنی عمر پانی ہے۔ کسی کی عمر دراز ہوتی ہے تو اللہ کے حکم سے ہوتی ہے، اور چھوٹی ہوتی ہے تو وہ بھی اللہ ہی کے فیصلے کی بنا پر ہوتی ہے۔بعض نادان لوگ اس کے جواب میں یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ پہلے نو زائیدہ بچوں کی موتیں بکثرت واقع ہوتی تھیں اور اب علم طب کی ترقی نے ان اموات کو روک دیا ہے۔ اور پہلے لوگ کم عمر پاتے تھے، اب وسائل علاج بڑھ جانے کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ عمریں طویل ہوتی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ دلیل قرآن مجید کے اس بیان کی تردید میں صرف اس وقت پیش کی جا سکتی تھی جبکہ کسی ذریعہ سے ہم کو یہ معلوم ہو جاتا کہ اللہ تعالٰی نے تو فلاں شخص کی عمر مثلاً دو سال لکھی تھی اور ہمارے طبی وسائل نے اس میں ایک دن کا اضافہ کر دیا۔ اس طرح کا کوئی علم اگر کسی کے پاس نہیں ہے تو وہ کسی معقول بنیاد پر قرآن کے اس ارشاد کا معارضہ نہیں کر سکتا۔ محض یہ بات کہ اعداد و شمار کی رو سے اب بچوں کی شرح اموات گھٹ گئی ہے، یا پہلے کے مقابلہ میں اب لوگ زیادہ عمر پا رہے ہیں، اس امر کی دلیل نہیں ہے کہ انسان اب اللہ تعالٰی کے فیصلوں کو بدلنے پر قادر ہو گیا ہے۔ آخر اس میں کیا عقلی استبعاد ہے کہ اللہ تعالٰی نے مختلف زمانوں میں پیدا ہونے والے انسانوں کی عمریں مختلف طور پر فرمائی ہوں، اور یہ بھی اللہ عزوجل ہی کا فیصلہ ہو کہ فلاں زمانے میں انسان کو فلاں امراض کے علاج کی قدرت عطا کی جائے گی اور فلاں دور میں انسان کو بقائے حیات کے فلاں ذرائع بخشے جائیں گے۔ |
2 | عنی انسان کی آفرینش پہلے براہ راست مٹی سے کی گئی، پھر اس کی نسل نطفے سے چلائی گئی |
1 | یہاں سے پھر روئے سخن عوام الناس کی طرف پھرتا ہے |
Surah 39 : Ayat 6
خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَٲحِدَةٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا وَأَنزَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْأَنْعَـٰمِ ثَمَـٰنِيَةَ أَزْوَٲجٍۚ يَخْلُقُكُمْ فِى بُطُونِ أُمَّهَـٰتِكُمْ خَلْقًا مِّنۢ بَعْدِ خَلْقٍ فِى ظُلُمَـٰتٍ ثَلَـٰثٍۚ ذَٲلِكُمُ ٱللَّهُ رَبُّكُمْ لَهُ ٱلْمُلْكُۖ لَآ إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَۖ فَأَنَّىٰ تُصْرَفُونَ
اُسی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر وہی ہے جس نے اُس جان سے اس کا جوڑا بنایا 1اور اسی نے تمہارے لیے مویشیوں میں سے آٹھ نر و مادہ پیدا کیے2 وہ تمہاری ماؤں کے پیٹوں میں تین تین تاریک پردوں کے اندر تمہیں ایک کے بعد ایک شکل دیتا چلا جاتا ہے3 یہی اللہ (جس کے یہ کام ہیں) تمہارا رب ہے4، بادشاہی اسی کی ہے5، کوئی معبود اس کے سوا نہیں ہے6، پھر تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو؟7
7 | یہ الفاظ قابلِ غور ہیں۔ یہ نہیں فرمایا کہ تم کدھر پھرے جا رہے ہو۔ ارشاد یہ ہوا ہے کہ تم کدھر سے پھرائے جا رہے ہو۔ یعنی کوئی دوسرا ہے جو تم کو اُلٹی پٹی پڑھا رہا ہے اور تم اس کے بہکائے میں آ کر ایسی سیدھی سی عقل کی بات بھی نہیں سمجھ رہے ہو۔ دوسری بات جو اس اندازِ بیان سے خود مترشح ہو رہی ہے وہ یہ ہے کہ تم کا خطاب پھرانے والوں سے نہیں بلکہ ان لوگوں سے ہے جو ان کے اثر میں آ کر پھر رہے تھے۔ اس میں ایک لطیف مضمون ہے جو ذرا سے غور فکر سے بآسانی سمجھ میں آجاتا ہے۔ پھرانے والے اسی معاشرے میں سب کے سامنے موجود تھے اور ہر طرف اپنا کام علانیہ کر رہے تھے، اس لیے ان کا نام لینے کی حاجت نہ تھی۔ ان کو خطاب کرنا بھی بیکار تھا، کیونکہ وہ اپنی اغراض کے لیے لوگوں کو خدائے واحد کی بندگی سے پھیرنے اور دوسروں کی بندگی میں پھانسنے اور پھانسے رکھنے کی کوششیں کر رہے تھے۔ ایسے لوگ ظاہر ہے کہ سمجھانے سے سمجھنے والے نہ تھے، کیونکہ نہ سمجھنے ہی سے ان کا مفاد وابستہ تھا، اور سمجھنے کے بعد بھی وہ اپنے مفاد کو قربان کرنے کے لیے مشکل ہی سے تیار ہو سکتے تھے۔ البتہ رحم کے قابل ان عوام کی حالت تھی جو ان کے چکمے میں آ رہے تھے۔ اُن کی کوئی غرض اس کاروبار سے وابستہ نہ تھی، اس لیے وہ سمجھانے سے سمجھ سکتے تھے۔ اور ذرا سی آنکھیں کھُل جانے کے بعد وہ یہ بھی دیکھ سکتے تھے کہ جو لوگ انہیں خدا کے آستانے سے ہٹا کر دوسرے آستانوں کا راستہ دکھاتے ہیں وہ اپنے اس کاروبار کا فائدہ کیا اُٹھاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گمراہ کرنے والے چند آدمیوں سے رُخ پھیر کر گمراہ ہونے والے عوام کو مخاطب کیا جا رہا ہے۔ |
6 | دوسرے الفاظ میں استدلال یہ ہے کہ جب وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی ساری بادشاہی ہے تو پھر لازماً تمہارا اِلٰہ (معبود) بھی وہی ہے۔دوسرا کوئی اِلٰہ کیسے ہو سکتا ہے جبکہ نہ پروردگاری میں اس کا کوئی حصّہ نہ بادشاہی میں اس کا کوئی دخل۔ آخر تمہاری عقل میں یہ بات کیسے سماتی ہے کہ زمین و آسمان کا پیدا کرنے والا تو ہو اللہ۔ سورج اور چاند کو مسخّر کرنے والا اور رات کے بعد دن اور دن کے بعد رات لانے والا بھی ہو اللہ۔ تمہارا اپنا اور تمام حیوانات کا خالق و رب بھی ہو اللہ۔ اور تمہارے معبود بن جائیں اس کے سوا دوسرے۔ |
5 | یعنی تمام اختیارات کا مالک وہی ہے اور ساری کائنات میں اسی کا حکم چل رہا ہے |
4 | یعنی مالک، حاکم اور پروردگار۔ |
3 | تین پردوں سے مراد ہے پیٹ، رحم اور مَشِیْمَہ (وہ جھلّی جس میں بچہ لپٹا ہوا ہوتا ہے)۔ |
2 | مویشی سے مراد ہیں اُونٹ، گائے، بھیڑ اور بکری۔ ان کے چار نر اور چار مادہ مل کر آٹھ نر و مادہ ہوتے ہیں۔ |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ پہلے حضرت آدم سے انسانوں کو پیدا کر دیا اور پھر ان کی بیوی حضرت حوّا کو پیدا کیا۔ بلکہ یہاں کلام میں ترتیبِ زمان کے بجائے ترتیبِ بیان ہے جس کی مثالیں ہر زبان میں پائی جاتی ہیں۔مثلاً ہم کہتے ہیں تم نے آج جو کچھ کیا وہ مجھے معلوم ہے، پھر جو کچھ تم کل کر چکے ہو اس سے بھی میں باخبر ہوں۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہو سکتا کہ کل کا واقعہ آج کے بعد ہوا ہے۔ |
Surah 43 : Ayat 12
وَٱلَّذِى خَلَقَ ٱلْأَزْوَٲجَ كُلَّهَا وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْفُلْكِ وَٱلْأَنْعَـٰمِ مَا تَرْكَبُونَ
وہی جس نے یہ تمام جوڑے پیدا کیے1، اور جس نے تمہارے لیے کشتیوں اور جانوروں کو سواری بنایا تاکہ تم اُن کی پشت پر چڑھو
1 | جوڑوں سے مراد صرف نوع انسانی کے زن و مرد ، اور حیوانات و نباتات کے نر و مادہ ہی نہیں ہیں، بلکہ دوسری بے شمار چیزیں بھی ہیں جن کو خالق نے ایک دوسرے کا جوڑ بنایا ہے اور جن کے اختلاط یا امتزاج سے دنیا میں نئی نئی چیزیں وجود میں آتی ہیں۔ مثلاً عناصر میں بعض سے جوڑ لگتا ہے اور بعض کا بعض سے نہیں لگتا ۔جن کا جوڑ ایک دوسرے سے لگتا ہے ، ان ہی کے ملنے سے طرح طرح کی ترکیبیں واقع ہو رہی ہیں۔ یا مثلاً بجلی میں منفی اور مثبت بجلیاں ایک دوسرے کا جوڑ ہیں اور ان کی باہمی کشش ہی دنیا میں عجیب عجیب کرشموں کی موجب بن رہی ہے ۔ یہ اور دوسرے ان گنت جوڑ ے جو قسم قسم کی مخلوقات کے اندر اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں ، ان کی ساخت ، اور انکی باہمی مناسبتوں اور ان کے تعامل کی گوناگوں شکلوں، اور ان کے ملنے سے پیدا ہونے والے نتائج پر اگر انسان غور کرے تو اس کا دل یہ گواہی دیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ یہ سارا کارخانہ عالم کسی ایک ہی زبردست صانع حکیم کا بنا یا ہوا ہے ، اور اسی کی تدبیر سے یہ چل رہا ہے ۔ صرف ایک عقل کا اندھا ہی یہ فرض کر سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی حکیم کے بغیر ہوا اور ہو رہا ہے ، یا اس میں ایک سے زیادہ خداؤں کی دخیل کاری کا کوئی امکان ہے |
Surah 51 : Ayat 49
وَمِن كُلِّ شَىْءٍ خَلَقْنَا زَوْجَيْنِ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ
اور ہر چیز کے ہم نے جوڑے بنائے ہیں1، شاید کہ تم اس سے سبق لو2
2 | مطلب یہ ہے کہ ساری کائنات کا تزویج کے اصول پر بنا یا جانا، اور دنیا کی تمام اشیاء کا زَوج زَوج ہونا ایک ایسی حقیقت ہے جو آخرت کے وجوب پر صریح شہادت دے رہی ہے۔ اگر تم غور کرو تو اس سے خود تمہاری عقل یہ نتیجہ اخذ کر سکتی ہے کہ جب دنیا کی ہر چیز کا ایک جوڑا ہے، اور کوئی چیز اپنے جوڑے سے ملے بغیر نتیجہ خیز نہیں ہوتی، تو دنیا کی یہ زندگی کیسے بے جوڑ ہو سکتی ہے؟ اس کا جوڑا لازماً آخرت ہے۔ وہ نہ ہو تو یہ قطعاً بے نتیجہ ہو کر رہ جاۓ۔ آگے مضمون کو سمجھنے کے لیے اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ اگر چہ یہاں تک ساری بحث آخرت کے موضوع پر چلی آ رہی ہے، لیکن اسی بحث اور انہی دلائل سے توحید کا ثبوت بھی ملتا ہے۔ بارش کا انتظام، زمین کی ساخت، آسمان کی تخلیق، انسان کا اپنا وجود، کائنات میں قانون تزویج کی حیرت انگیز کار فرمائی، یہ ساری چیزیں جس طرح آخرت کے امکان و وجوب پر گواہ ہیں اسی طرح یہی اس بات کی شہادت بھی دے رہی ہیں کہ یہ کائنات نہ بے خدا ہے اور نہ اس کے بہت سے خدا ہیں، بلکہ ایک خداۓ حکیم و قادر مطلق ہی اس کا خالق اور مالک اور مدبر ہے۔ اس لیے آگے انہی دلائل کی بنیاد پر توحید کی دعوت پیش کی جا رہی ہے۔ علاوہ بریں آخرت کو ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان خدا سے بغاوت کا رویہ چھوڑ کر اطاعت و بندگی کی راہ اختیار کرے۔ وہ خدا سے اسی وقت تک پِھرا رہتا ہے جب تک وہ اس غفلت میں مبتلا رہتا ہے کہ میں کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہوں اور اپنی دنیوی زندگی کے اعمال کا کوئی حساب مجھے کسی کو دینا نہیں ہے۔ یہ غلط فہمی جس وقت بھی رفع ہو جاۓ، اس کے ساتھ ہی فوراً آدمی کے ضمیر میں یہ احساس ابھر آتا ہے کہ اپنے آپ کو غیر ذمہ دار سمجھ کر وہ بڑی باری غلطی کر رہا تھا اور یہ احساس اسے خدا کی طرف پلٹنے پر مجبور کر دیتا ہے۔اسی بنا پر آخرت کے دلائل ختم کرتے ہی معاً بعد یہ فرمایا گیا ’’پس دوڑو اللہ کی طرف |
1 | یعنی دنیا کی تمام اشیاء تزویج کے اصول کے اصول پر بنائی گئی ہیں۔ یہ سارا کارخانہ علام اس قاعدے پر چل رہا ہے کہ بعض چیزوں کا بعض چیزوں سے جوڑا لگتا ہے اور پھر ان کا جوڑ لگنے ہی سے طرح طرح کی ترکیبات وجود میں آتی ہیں۔ یہاں کوئی شے بھی ایسی منفرد نہیں ہے کہ دوسری کوئی شے اس کا جوڑ نہ ہو، بلکہ ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر ہی نتیجہ خیز ہوتی ہے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، یٰس، حاشیہ 31۔ الزخرف، حاشیہ 12) |
Surah 78 : Ayat 8
وَخَلَقْنَـٰكُمْ أَزْوَٲجًا
اور تمہیں (مَردوں اور عورتوں کے) جوڑوں کی شکل میں پیدا کیا1
1 | انسان کو مردوں اور عورتوں کے جوڑوں کی شکل میں پیدا کرنا اپنے اندر جو عظیم حکمتیں رکھتا ہے ان کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد سوم، الفرقان ، حاشیہ 69، الروم، حواشی 28 تا 30۔ جلد چہارم، یسین، حاشیہ 31۔ الشوری، حاشیہ 77۔ الزخرف۔ حاشیہ 12۔ جلد ششم، القیامہ، حاشیہ 25 |