Ayats Found (3)
Surah 10 : Ayat 19
وَمَا كَانَ ٱلنَّاسُ إِلَّآ أُمَّةً وَٲحِدَةً فَٱخْتَلَفُواْۚ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِن رَّبِّكَ لَقُضِىَ بَيْنَهُمْ فِيمَا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ
ابتداءً سارے انسان ایک ہی امّت تھے، بعد میں انہوں نے مختلف عقیدے اور مسلک بنا لیے1، اور اگر تیرے رب کی طرف سے پہلے ہی ایک بات طے نہ کر لی گئی ہوتی تو جس چیز میں وہ باہم اختلاف کر رہے ہیں اس کا فیصلہ کر دیا جاتا2
2 | یعنی اگر اللہ تعالٰی نے پہلے ہی یہ فیصلہ نہ کر لیا ہوتا کہ حقیقت کو انسانوں کے حواس سے پوشیدہ رکھ کر ان کی عقل و فہم اور ضمیر و وجدان کو آزمائش میں ڈالا جائے گا،اور جو اس آزمائش میں ناکام ہو کر غلط راہ پر جانا چاہیں گے انہیں ا س راہ پر جانے اور چلنے کا موقع دیا جائے گا ، تو حقیقت کو آج ہی بے نقاب کر کے سارے اختلافات کا فیصلہ کیا جا سکتا تھا۔ یہاں یہ بات ایک بڑی غلط فہمی کو رفع کرنے کے لیے بیان کی گئی ہے۔ عام طور پر آج بھی لوگ اس اُلجھن میں ہیں اور نزول ِ قرآن کے وقت بھی تھے کہ دنیا میں بہت سے مذہب پائے جاتے ہیں اور ہر مذہب والا اپنے ہی مذہب کو حق سمجھتا ہے۔ ایسی حالت میں آخر اس فیصلے کی صورت کیا ہے کہ کون حق پر ہے اور کون نہیں۔ اس کے متعلق فرمایا جا رہا ہے کہ یہ اختلاف ِ مذاہب دراصل بعد کی پیداوار ہے۔ ابتداء میں تمام نوعِ انسانی کا مذہب ایک تھا اور وہی مذہب حق تھا۔ پھر اس حق میں اختلاف کر کے لوگ مختلف عقیدے اور مذہب بناتے چلے گئے۔ اب اگر اس ہنگامۂ مذاہب کا فیصلہ تمہارے نزدیک عقل و شعور کے صحیح استعمال کے بجائے صرف اسی طرح ہوسکتا ہے کہ خدا خود حق کو بے نقاب کر کے سامنے لے آئے تو یہ موجودہ دنیوی زندگی میں نہیں ہو گا۔ دنیا کی یہ زندگی تو ہے ہی امتحان کے لیے، اور یہاں سارا امتحان اِسی بات کا ہے کہ تم حق کو دیکھے بغیر عقل و شعور سے پہچانتے ہو یا نہیں۔ |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو سورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۲۳۰، الانعام، حاشیہ نمرب ۲۴ |
Surah 11 : Ayat 118
وَلَوْ شَآءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ ٱلنَّاسَ أُمَّةً وَٲحِدَةًۖ وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ
بے شک تیرا رب اگر چاہتا تو تمام انسانوں کو ایک گروہ بنا سکتا تھا، مگر اب تو وہ مختلف طریقوں ہی پر چلتے رہیں گے
Surah 11 : Ayat 119
إِلَّا مَن رَّحِمَ رَبُّكَۚ وَلِذَٲلِكَ خَلَقَهُمْۗ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ ٱلْجِنَّةِ وَٱلنَّاسِ أَجْمَعِينَ
اور بے راہ رویوں سے صرف وہ لوگ بچیں گے جن پر تیرے رب کی رحمت ہے اِسی (آزادی انتخاب و اختیار) کے لیے ہی تو اس نے انہیں پیدا کیا تھا1 اور تیرے رب کی وہ بات پوری ہو گئی جو اس نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جن اور انسان، سب سے بھر دوں گا
1 | یہ اس شبہہ کاجواب ہے جوبالعموم ایسے مواقع پرتقدیم کے نام سے پیش کیاجاتا ہے۔ اوپراقوام گرشتہ کی تباہی کاجوسبب بیان کیاگیا ہےاس پریہ اعتراض کیاجاسکتا تھا کہ ان میں اہل خیر کاموجود نہ رہنایا بہت کم پایا جانا بھی توآخر اللہ کی مشیت ہی سے تھا، پھر اس کاالزام ان قوموں پرکیوں نہ اللہ نے ان کے اندر بہت سے اہل خیر پیدا کردیے؟اس کے جواب میںیہ حقیقت حال صاف صاف بیان کردی گئی ہے کہ اللہ کی مشیت انسان کےبارے میں یہ ہےہی نہیں کہ حیوانات اورنباتات اورایسی دوسری مخلوقات کی طرح اُس کوبھ جبلی طور پرایک لگے بندھے راستے کاپابند بنادیا جائے جس سے ہٹ کر وہ چل ہی نہ سکے۔ اگر یہ اس کی مشیت ہوتی توپھر دعوت ایمان، بعثت انبیاء اورتنزیل کتب کی ضرورت ہی کیاتھی، سارے انسان مسلم ومومن ہی پیدا ہوتے اورکفرو عصیان کاسرے سے کوئی امکان ہی نہ ہوتا۔ لیکن اللہ نےانسان کے بارے میںجومشیت فرمائی ہے وہ دراصل یہ ہے کہ اس کوانتخاب واختیار کی آزادی بخشی جائے،اسے اپنی پشندکے مطابق مختلف راہوں پرچلنے کی قدرت دی جائے، اس کے سامنے جنت اوردوزخ دونوں کی راہیں کھول دی جائیں اورپھر ہرانسان اورہرانسانی گروہ کوموقع دیاجائے کہ وہ ان میں سے جس راہ کوبھی اپنے لیے پسند کرے اس پر چل سکے تاکہ ہرایک جوکچھ بھی پائے اپنی وکسب کےنتیجہ میں پائے پس جب وہ اسکیم جس کےتحت انسان پیداکیا گیا ہےہ، آزادی انتخاب اوراختیاری کفروایمان کےاصول پرمبنی ہے تویہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی قوم خود توبڑھنا چاہے بدی کی راہ پراوراللہ زبردستی اس کوخیر پرموڑ دے۔ کوئی قوم خود اپنے انتخاب سے توانسان سازی کے وہ کارخانے بنائے جوایک سے ایک بڑھ کر بدکار اورظالم اورفاسق آدمی ڈھال ڈھال کرنکالیں، اوراللہ اپنی براہ راست مداخلت سے اس کو وہ پیدائشی نیک انسان مہیا کردے جواس کےبگڑے پوئے سانچوں کوٹھیک کردیں۔اس قسم کی مداخلت خدا کےدستور میںنہیں ہے۔ نیک ہوں یابد، دونوں قسم کے آدمی ہر قوم کوخود ہی مہیا کرنے ہوں گے۔جو قوم بحیثیت مجموعی بدی کی راہ کوپسند کرے گی ، جس میں سے کوئی معتد بہ گروہ ایسا نہ اٹھے گا جونیکی کاجھنڈا بلند کرے، اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںاس امر کی گنجائش ہی نہ چھوڑی ہوگی کہ اصلاح کی کوششیں اس کے اندر پھل پھول سکیں، خداکو کیاپڑی ہے کہ اس کو بزور نیک بنائے۔ وہ تواس کواس انجام کی طرف دھکیل دے گا جواس نے خود اپنے لیے انتخاب کیا ہے البتہ خدا کی رحمت کی مستحق اگر کوئی قوم ہوسکتی ہے توصرف وہ جس میں بہت سےافراد ایسے نکلیں جوخود دعوت خیر کولبیک کہنے والے ہوں اورجس نے اپنے اجتماعی نظام میںیہ صلاحیت باقی رہنے دی ہوکہ اصلاح کی کوشش کرنے والے اس کے اندر کام کرسکیں۔ (مزید تشریح کےلیے ملاحظہ ہوالانعام ،حاشیہ ۲۴)۔ |