Ayats Found (43)
Surah 2 : Ayat 85
ثُمَّ أَنتُمْ هَـٰٓؤُلَآءِ تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقًا مِّنكُم مِّن دِيَـٰرِهِمْ تَظَـٰهَرُونَ عَلَيْهِم بِٱلْإِثْمِ وَٱلْعُدْوَٲنِ وَإِن يَأْتُوكُمْ أُسَـٰرَىٰ تُفَـٰدُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْۚ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ ٱلْكِتَـٰبِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍۚ فَمَا جَزَآءُ مَن يَفْعَلُ ذَٲلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْىٌ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَيَوْمَ ٱلْقِيَـٰمَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰٓ أَشَدِّ ٱلْعَذَابِۗ وَمَا ٱللَّهُ بِغَـٰفِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ
مگر آج وہی تم ہو کہ اپنے بھائی بندوں کو قتل کرتے ہو، اپنی برادری کے کچھ لوگوں کو بے خانماں کر دیتے ہو، ظلم و زیادتی کے ساتھ ان کے خلاف جتھے بندیاں کرتے ہو، اور جب وہ لڑائی میں پکڑے ہوئے تمہارے پاس آتے ہیں، تو ان کی رہائی کے لیے فدیہ کا لین دین کرتے ہو، حالانکہ انہیں ان کے گھروں سے نکالنا ہی سرے سے تم پر حرام تھا تو کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو1 پھر تم میں سے جو لوگ ایسا کریں، ان کی سزا اس کے سوا اور کیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں ذلیل و خوار ہو کر رہیں اور آخرت میں شدید ترین عذاب کی طرف پھیر دیے جائیں؟ اللہ ان حرکات سے بے خبر نہیں ہے، جو تم کر رہے ہو
1 | نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد سے پہلے مدینے کے اطراف کے یہودی قبائل نے اپنے ہمسایہ عرب قبیلوں (اَوْس اور خَزْرَج) سے حلیفانہ تعلقات قائم کر رکھے تھے۔ جب ایک عرب قبیلہ دُوسرے قبیلے سے برسرِ جنگ ہوتا، تو دونوں کے حلیف یہُودی قبیلے بھی اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور ایک دُوسرے کے مقابلے میں نبرد آزما ہوجاتے تھے۔ یہ فعل صریح طور پر کتاب اللہ کے خلاف تھا اور وہ جانتے بُوجھتے کتاب اللہ کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ مگر لڑائی کے بعد جب ایک یہُودی قبیلے کے اسیرانِ جنگ دُوسرے یہُودی قبیلے کے ہاتھ آتے تھے، تو غالب قبیلہ فدیہ لے کر انہیں چھوڑتا اور مغلوب قبیلہ فدیہ دے کر انہیں چھُڑاتا تھا، اور اس فدیے کے لیے دین کو جائز ٹھہرانے کے لیے کتاب اللہ سے استدلال کیا جاتا تھا۔ گویا وہ کتاب اللہ کی اِس اجازت کو تو سر آنکھوں پر رکھتے تھے کہ اسیرانِ جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑا جائے ، مگر اس حکم کو ٹھکرا دیتے تھے کہ آپس میں جنگ ہی نہ کی جائے |
Surah 2 : Ayat 180
كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا ٱلْوَصِيَّةُ لِلْوَٲلِدَيْنِ وَٱلْأَقْرَبِينَ بِٱلْمَعْرُوفِۖ حَقًّا عَلَى ٱلْمُتَّقِينَ
تم پر فرض کیا گیا ہے کہ جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آئے اور وہ اپنے پیچھے مال چھوڑ رہا ہو، تو والدین اور رشتہ داروں کے لیے معروف طریقے سے وصیت کرے یہ حق ہے متقی لوگوں پر1
1 | یہ حکم اُس زمانے میں دیا گیا تھا ، جبکہ وراثت کی تقسیم کے لیے ابھی کوئی قانون مقرر نہیں ہوا تھا۔ اُس وقت ہر شخص پر لازم کیا گیا کہ وہ اپنے وارثوں کے حصّے بذریعہء وصیّت مقرر کر جائے تاکہ اس کے مرنے کے بعد نہ تو خاندان میں جھگڑے ہوں اور نہ کسی حق دار کی حق تلفی ہونے پائے۔ بعد میں جب تقسیمِ وراثت کے لیے اللہ تعالٰی نے خود ایک ضابطہ بنا دیا ( جو آگے سُورہٴ نساء میں آنے والا ہے)، تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے احکامِ میراث کی توضیح میں حسبِ ذیل دو قادعے بیان فرمائے: ایک یہ کہ اب کوئی شخص کسی وارث کے حق میں وصیّت نہیں کر سکتا، یعنی جن رشتے داروں کے حصّے قرآن میں مقرر کر دیے گئے ہیں، ان کے حصّوں میں نہ تو وصیّت کے ذریعے سے کوئی کمی یا پیشی کی جاسکتی ہے، نہ کسی وارث کو میراث سے محرُوم کیا جا سکتا ہے اور نہ کسی وارث کو اس کے قانونی حصّے کے علاوہ کوئی چیز بذریعہء وصیّت دی جا سکتی ہے۔ دُوسرے یہ کہ وصیّت کُل جائداد کے صرف ایک تہائی حصّے کی حد تک کی جا سکتی ہے۔ اِن دو تشریحی ہدایات کے بعد اب اس آیت کا منشا یہ قرار پاتا ہے کہ آدمی اپنا کم از کم دو تہائی مال تو اس لیے چھوڑ دے کہ اس کے مرنے کے بعد وہ حسبِ قاعدہ اس کے وارثوں میں تقسیم ہو جائے اور زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال کی حد تک اسے اپنے اُن غیر وارث رشتہ داروں کے حق میں وصیّت کرنی چاہیے ، جو اس کے اپنے گھر میں یا اس کے خاندان میں مدد کے مستحق ہوں، یا جنہیں وہ خاندان کے باہر محتاجِ اعانت پاتا ہو، یا رفاہِ عام کے کاموں میں سے جس کی بھی وہ مدد کرنا چاہے۔ بعد کے لوگوں نے وصیّت کے اس حکم کو محض ایک سفارشی حکم قرار دے دیا یہاں تک کہ بالعمُوم وصیّت کا طریقہ منسُوخ ہی ہو کر رہ گیا۔ لیکن قرآن مجید میں اسے ایک حق قرار دیا گیا ہے، جو خدا کی طرف سے متقی لوگوں پر عائد ہوتا ہے ۔ اگر اس حق کو ادا کرنا شروع کر دیا جائے، تو بہت سے وہ سوالات خود ہی حل ہو جائیں ، جو میراث کے بارے میں لوگوں کو اُلجھن میں ڈالتے ہیں۔ مثلاً اُن پوتوں اور نواسوں کا معاملہ جن کے ماں باپ دادا اور نانا کی زندگی میں مر جاتے ہیں |
Surah 2 : Ayat 181
فَمَنۢ بَدَّلَهُۥ بَعْدَمَا سَمِعَهُۥ فَإِنَّمَآ إِثْمُهُۥ عَلَى ٱلَّذِينَ يُبَدِّلُونَهُۥٓۚ إِنَّ ٱللَّهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
پھر جنہوں نے وصیت سنی اور بعد میں اُسے بدل ڈالا، توا س کا گناہ ان بدلنے والوں پر ہوگا اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے
Surah 2 : Ayat 188
وَلَا تَأْكُلُوٓاْ أَمْوَٲلَكُم بَيْنَكُم بِٱلْبَـٰطِلِ وَتُدْلُواْ بِهَآ إِلَى ٱلْحُكَّامِ لِتَأْكُلُواْ فَرِيقًا مِّنْ أَمْوَٲلِ ٱلنَّاسِ بِٱلْإِثْمِ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ
اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے1
1 | اس آیت کا ایک مفہُوم تو یہ ہے کہ حا کموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اُٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دُوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دُوسرے شخص کا ہے، تو محض اس لیے کہ اس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھا سکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جا ؤ ۔ ہو سکتا ہے کہ حاکمِ عدالت روداد مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دِلوا دے۔ مگر حاکم کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہو گا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کر لینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جا ؤ گے۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انما ان بشر و انتم تختصمون الی و لعل بعضکم یکون الحنَ بحجتہ من بعض، فا قضی لہ علی نحو ما اسمع منہ۔ فمن قضیت لہ بشی ء من حق اخیہ، فا نما ا قضی لہ قطعۃ من النار۔ یعنی میں بہر حال ایک انسان ہی تو ہوں ۔ ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لا ؤ اور تم سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سُن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلہ کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کر و گے |
Surah 2 : Ayat 219
۞ يَسْــَٔلُونَكَ عَنِ ٱلْخَمْرِ وَٱلْمَيْسِرِۖ قُلْ فِيهِمَآ إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَـٰفِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَاۗ وَيَسْــَٔلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ ٱلْعَفْوَۗ كَذَٲلِكَ يُبَيِّنُ ٱللَّهُ لَكُمُ ٱلْأَيَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ
پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے1 پوچھتے ہیں: ہم راہ خدا میں کیا خرچ کریں؟ کہو: جو کچھ تمہاری ضرورت سے زیادہ ہو اس طرح اللہ تمہارے لیے صاف صاف احکام بیان کرتا ہے، شاید کہ تم دنیا اور آخرت دونوں کی فکر کرو
1 | (یہ شراب اور جُوے کے متعلق پہلا حکم ہے، جس میں صرف اظہار ِ ناپسندیدگی کر کے چھوڑ دیا گیا ہے، تاکہ ذہن ان کی حرمت قبول کرنے کے لیے تیار ہو جائیں۔ بعد میں شراب پی کر نماز پڑھنے کی ممانعت آئی۔ پھر شراب اور جُوے اور اس نوعیت کی تمام چیزوں کو قطعی حرام کر دیا گیا۔(ملاحظہ ہو سُورہٴ نساء، آیت ۴۳ و سُورہٴ مائدہ، آیت ۹۰) |
Surah 2 : Ayat 276
يَمْحَقُ ٱللَّهُ ٱلرِّبَوٲاْ وَيُرْبِى ٱلصَّدَقَـٰتِۗ وَٱللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ أَثِيمٍ
اللہ سود کا مٹھ مار دیتا ہے اور صدقات کو نشو و نما دیتا ہے1 اور اللہ کسی ناشکرے بد عمل انسان کو پسند نہیں کرتا2
2 | ظاہر ہے کہ سُود پر روپیہ وُہی شخص چلا سکتا ہے جس کو دولت کی تقسیم میں اس کی حقیقی ضرورت سے زیادہ حصّہ ملا ہو۔ یہ ضرورت سے زیادہ حصّہ ، جو ایک شخص کو ملتا ہے، قرآن کے نقطہء نظر سے دراصل اللہ کا فضل ہے۔ اور اللہ کے فضل کا صحیح شکر یہ ہے کہ جس طرح اللہ نے اپنے بندے پر فضل فرمایا ہے، اسی طرح بندہ بھی اللہ کے دُوسرے بندوں پر فضل کرے۔ اگر وہ ایسا نہیں کرتا، بلکہ اس کے برعکس اللہ کے فضل کو اس غرض کے لیے استعمال کرتا ہے کہ جو بندے دولت کی تقسیم میں اپنی ضرورت سے کم حصّہ پا رہے ہیں، ان کے قلیل حصّے میں سے بھی وہ اپنی دولت کے زور پر ایک جز اپنی طرف کھینچ لے، تو حقیقت میں وہ ناشکرا بھی ہے اور ظالم، جفا کار اور بدعمل بھی |
1 | ”اِ س آیت میں ایک ایسی صداقت بیان کی گئ ہے ، جو اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے بھی سراسر حق ہے اور معاشی و تمدنی حیثیت سے بھی۔ اگرچہ بظاہر سُود سے دولت بڑھتی نظر آتی ہے اور صدقات سے گھٹتی ہوئی محسوس ہوتی ہے، لیکن درحقیقت معاملہ اس کے برعکس ہے۔ خدا کا قانونِ فطرت یہی ہے کہ سُود اخلاقی و رُوحانی اور معاشی و تمدّنی ترقی میں نہ صرف مانع ہوتا ہے بلکہ تنزّل کا ذریعہ بنتا ہے۔ اور اس کے برعکس صدقات سے (جن میں قرضِ حسن بھی شامل ہے) اخلاق و رُوحانیت اور تمدّن و معیشت ہر چیز کو نشونما نصیب ہوتا ہے۔ اخلاقی و رُوحانی حیثیت سے دیکھیے ، تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ سُود دراصل خود غرضی، بخل ، تنگ دلی اور سنگ دلی جیسی صفات کا نتیجہ ہے اور وہ اِنہی صفات کو انسان میں نشونما بھی دیتا ہے۔ اس کے برعکس صدقات نتیجہ ہیں فیّاضی، ہمدردی ، فراخ دِلی اور عالی ظرفی جیسی صفات کا، اور صدقات پر عمل کرتے رہنے سے یہی صفات انسان کے اندر پرورش پاتی ہیں۔ کون ہے جو اخلاقی صفات کے ان دونوں مجموعوں میں سے پہلے مجموُ عے کو بدترین اور دُوسرے کو بہترین نہ مانتا ہو؟ تمدّنی حیثیت سے دیکھیے، تو بادنٰی تامّل یہ بات ہر شخص کی سمجھ میں آجائے گی کہ جس سوسائیٹی میں افراد ایک دُوسرے کے ساتھ خود غرضی کا معاملہ کریں ، کوئی شخص اپنی ذاتی غرض اور اپنے ذاتی فائدے کے بغیر کسی کے کام نہ آئے ، ایک آدمی کی حاجت مندی کو دُوسرا آدمی اپنے لیے نفع اندوزی کا موقع سمجھے اور اس کا پورا فائدہ اُٹھائے ، اور مالدار طبقوں کا مفاد عامُة الناس کے مفاد کی ضد ہو جائے، ایسی سوسا ئیٹی کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اس کے افراد میں آپس کی محبت کے بجائے باہمی بغض و حسد اور بے دردی و بے تعلقی نشو نما پائے گی۔ اس کے اجزا ہمیشہ انتشار و پراگندگی کی طرف مائل رہیں گے۔ اور اگر دُوسرے اسباب بھی اِس صورت ِ حال کے لیے مددگار ہو جائیں، تو ایسی سوسائیٹی کے اجزا کا باہم متصادم ہو جانا بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔ اس کے برعکس جس سوسائیٹی کا اجتماعی نظام آپس کی ہمدردی پر مبنی ہو، جس کے افراد ایک دُوسرے کے ساتھ فیاضی کا معاملہ کریں ، جس میں ہر شخص دُوسرے کی حاجت کے موقع پر فارخ دلی کے ساتھ مدد کا ہاتھ بڑھائے، اور جس میں با وسیلہ لوگ بے وسیلہ لوگوں سے ہمدردانہ اعانت یا کم از کم منصفانہ تعاون کا طریقہ برتیں ، ایسی سوسائیٹی میں آپس کی محبت ، خیر خواہی اور دلچسپی نشونما پائے گی۔ اس کے اجزا ایک دُوسرے کے ساتھ پیوست اور ایک دُوسرے کے پشتیبان ہوں گے۔ اس میں اندرونی نزاع و تصادم کو راہ پانے کا موقع نہ مل سکے گا ۔ اس میں باہمی تعاون اور خیر خواہی کی وجہ سے ترقی کی رفتار پہلی قسم کی سوسائیٹی کی بہ نسبت بہت زیادہ تیز ہوگی۔ اب معاشی حیثیت سے دیکھیے۔ معاشیات کے نقطہ ء نظر سے سُودی قرض کی دو قسمیں ہیں׃ایک وہ قرض جو اپنی ذاتی ضروریات پر خرچ کر نے کے لیے مجبُور اور حاجت مند لوگ لیتے ہیں۔ دوسرا وہ قرض جو تجارت و صنعت و حرفت اور زراعت وغیرہ کے کاموں پر لگانے کے لیے پیشہ ور لوگ لیتے ہیں۔ ان میں سے پہلی قسم کے قرض کو تو ایک دُنیا جانتی ہے کہ اس پر سُود وصول کرنے کا طریقہ نہایت تباہ کُن ہے ۔ دُنیا کا کوئی ملک ایسا نہیں ہے جس میں مہاجن افراد اور مہاجنی ادارے اس ذریعے سے غریب مزدُور وں کا ، کاشتکاروں اور قلیل المعاش عوام کا خون نہ چُوس رہے ہوں۔ سوک کی وجہ سے اس قسم کا قرض ادا کرنا ان لوگوں کے لیے سخت مشکل، بلکہ بسا اوقات نا ممکن ہو جا تا ہے۔ پھر ایک قرض کو ادا کرنے کے لیے وہ دُوسرا اور تیسرا قرض لیتے چلے جاتے ہیں۔ اصل رقم سے کئی کئی گنا سُود دے چکنے پر بھی اصل رقم جُوں کی تُوں باقی رہتی ہے۔ محنت پیشہ آدمی کی آمدنی کا پیشتر حصّہ مہاجن لے جاتا ہے اور اس غریب کی اپنی کمائی میں سے اس کے پاس اپنا اور اپنے بچّوں کا پیٹ پانے لیے بھی کافی روپیہ نہیں بچتا۔ یہ چیز رفتہ رفتہ اپنے کام سے کارکنوں کی دلچسپی ختم کر دیتی ہے۔ کیونکہ جب ان کی محنت کا پھل دُوسرا لے اُڑے تو وہ کبھی دِل لگا کر محنت نہیں کر سکتے۔ پھر سُودی قرض کے جال میں پھنسے ہوئے لوگوں کو ہر وقت کی فکر اور پریشانی اس قدر گھُلا دیتی ہے ، اور تنگ دستی کی وجہ سے ان کے لیے صحیح غذا اور علاج اس قدر مشکل ہو جاتا ہے ، کہ ان کی صحتیں کبھی درُست نہیں رہ سکتیں۔ اس طرح سُودی قرض کا حاصل یہ ہوتا ہے کہ چند افراد تو لاکھوں آدمیوں کا خون چُوس چُوس کر موٹے ہوتے رہتے ہیں، مگر بحیثیت مجموعی پوری قوم کی پیدائشِ دولت اپنے امکانی معیار کی بہ نسبت بہت گھٹ جاتی ہے، اور مآلِ کار میں خود وہ خون چوسنے والے افراد بھی اس کے نقصانات سے نہیں بچ سکتے کیونکہ ان کی اس کو خود غرضی سے غریب عوام کو جو تکلیفیں پہنچتی ہیں ان کی بدولت مال دار لوگوں کے خلاف غصّے اور نفرت کا ایک طوفان دلوں میں اُٹھتا اور گھُٹتا رہتا ہے، اور کسی انقلابی ہیجان کے موقع پر جب یہ آتش فشاں پھٹتا ہے تو ان ظالم مالداروں کو اپنے مال کے ساتھ اپنی جان اور آبرو تک سے ہاتھ دھونا پڑ جاتا ہے۔ رہا دُوسری قسم کا قرض جو کاروبار میں لگانے کے لیے لیا جاتا ہے ، تو اس پر ایک مقرر شرحِ سُود کے عائد ہونے سے جو بے شمار نقصانات پہنچتے ہیں ان میں سے چند نمایاں ترین یہ ہیں : (١) جو کام رائج الوقت شرحِ سُود کے برابر نفع نہ لا سکتے ہوں ، چاہے ملک اور قوم کے لیے کتنے ہی ضروری اور مفید ہوں، ان پر لگانے کے لیے روپیہ نہیں ملتا اور ملک کے تمام مالی وسائل کا بہا ؤ ایسے کاموں کی طرف ہو جاتا ہے ، جو بازار کی شرحِ سُود کے برابر یا اس سے زیادہ نفع لاسکتے ہوں ، چاہے اجتماعی حیثیت سے ان کی ضرورت اور ان کافائدہ بہت کم ہو یا کچھ بھی نہ ہو۔ (۲) جن کاموں کے لیے سُود پر سرمایہ ملتا ہے، خواہ وہ تجارتی کام ہوں یا صنعتی یا زراعتی ، ان میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے ، جس میں اس امر کی ضمانت موجود ہو کہ ہمیشہ تمام حالات میں اس کا منافع ایک مقرر معیاد ، مثلاً پانچ، چھ یا دس فیصدی تک یا اس سے اُوپر اُوپر ہی رہے گا اور کبھی اس سے نیچے نہیں گرے گا۔ اِس کی ضمانت ہو نا تو درکنار ، کسی کاروبار میں سرے سے اِسی بات کی کوئی ضمانت موجود نہیں ہے کہ اس میں ضرور منافع ہی ہو گا، نقصان کبھی نہ ہوگا۔ لہٰذا کسی کاروبار میں ایسے سرمایے کا لگنا جس پر سرمایہ دار کو ایک مقرر شرح کے مطابق منافع دینے کی ضمانت دی گئی ہو، نقصان اور خطرے کے پہلو ؤ ں سے کبھی خالی نہیں ہو سکتا۔ (۳) چونکہ سرمایہ دینے والا کاروبار کے نفع و نقصان میں شریک نہیں ہوتا بلکہ صرف منافع اور وہ بھی ایک مقرر شرحِ منافع کی ضمانت پر روپیہ دیتا ہے ، اس وجہ سے کاروبار کی بھلائی اور بُرائی سے اس کو کسی قسم کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ انتہائی خٰود غرضی کے ساتھ صرف اپنے منافع پر نگاہ رکھتا ہے، اور جب کبھی اسے ذرا سا اندیشہ لاحق ہوجاتا ہے کہ منڈی پر کساد بازاری کا حملہ ہونے والا ہے ، تو وہ سب سے پہلے اپنا روپیہ کھینچنے کی فکر کرتا ہے۔ اِس طرح کبھی تو محض اس کے خود غرضانہ اندیشوں ہی کی بدولت دنیا پر کساد بازاری کا واقعی حملہ ہو جاتا ہے ، او ر کبھی اگر دُوسرے اسباب سے کساد بازاری آگئی ہو تو سرمایہ دار کی خود غرضی اس کو بڑھا کر انتہائی تباہ کُن حد تک پہنچا دیتی ہے۔ سُود کے یہ تین نقصانات تو ایسے صریح ہیں کہ کوئی شخص جو علم المعیشت سے تھوڑا سا مَس بھی رکھتا ہو ان کا انکار نہیں کر سکتا۔ اس کے بعد یہ مانے بغیر کیا چارہ ہے کہ فی الواقع اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کی رُو سے سود معاشی دولت کو بڑھاتا نہیں بلکہ گھٹاتا ہے۔ اب ایک نظر صدقات کے معاشی اثرات و نتائج کو بھی دیکھ لیجیے۔ اگر سوسائیٹی کے خوشحال افراد کا طریقِ کار یہ ہو کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق پُوری فراخ دلی کے ساتھ اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات خریدیں، پھر جو روپیہ ان کے پاس ان کی ضروریات سے زیادہ بچے اسے غریبوں میں بانٹ دیں تاکہ وہ بھی اپنی ضروریات خرید سکیں، پھر اس پر بھی جو روپیہ بچ جائے اسے یا تو کاروباری لوگوں کو بلا سُود قرض دیں، یا شرکت کے اُصُول پر ان کے ساتھ نفع و نقصان میں حصّہ دار بن جائیں، یا حکومت کے پاس جمع کردیں کہ وہ اجتماعی خدمات کے لیے ان کو استعمال کرے، تو ہر شخص تھوڑے سے غور و فکر ہی سے اندازہ کر سکتا ہے کہ ایسی سوسائیٹی میں تجارت اور صنعت اور زراعت، ہر چیز کو بے انتہا فروغ حاصل ہوگا۔ اُس کے عام افراد کی خوشحالی کا معیار بلند ہوتا چلا جائے گا اور اس میں بحیثیت ِ مجموعی دولت کی پیداوار اُس سوسائیٹی کی بہ نسبت بدرجہا زیادہ ہوگی جس کے اندر سُود کا رواج ہو |
Surah 2 : Ayat 283
۞ وَإِن كُنتُمْ عَلَىٰ سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ كَاتِبًا فَرِهَـٰنٌ مَّقْبُوضَةٌۖ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُكُم بَعْضًا فَلْيُؤَدِّ ٱلَّذِى ٱؤْتُمِنَ أَمَـٰنَتَهُۥ وَلْيَتَّقِ ٱللَّهَ رَبَّهُۥۗ وَلَا تَكْتُمُواْ ٱلشَّهَـٰدَةَۚ وَمَن يَكْتُمْهَا فَإِنَّهُۥٓ ءَاثِمٌ قَلْبُهُۥۗ وَٱللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِيمٌ
اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور دستاویز لکھنے کے لیے کوئی کاتب نہ ملے، تو رہن بالقبض پر معاملہ کرو1 اگر تم میں سے کوئی شخص دوسرے پر بھروسہ کر کے اس کے ساتھ کوئی معاملہ کرے، تو جس پر بھروسہ کیا گیا ہے، اسے چاہیے کہ امانت ادا کرے اور اللہ، اپنے رب سے ڈرے اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ2 جو شہادت چھپاتا ہے، اس کا دل گناہ میں آلودہ ہے اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے3
3 | یہ خاتمہء کلام ہے۔ اس لیے جس طرح سورت کا آغاز دین کی بنیادی تعلیمات سے کیا گیا تھا، اسی طرح سورت کو ختم کرتے ہوئے بھی اُن تمام اُصُولی اُمور کو بیان کر دیا گیا ہے جن پر دینِ اسلام کی اساس قائم ہے۔ تقابل کے لیے اس سورہ کے پہلے رکوع کو سامنے رکھ لیا جائے تو زیادہ مفید ہوگا |
2 | شہادت دینے سے گریز کرنا، یا شہادت میں صحیح واقعات کے اظہار سے پرہیز کرنا، دونو ں پر ”شہادت چھپانے“ کا اطلاق ہوتا ہے |
1 | یہ مطلب نہیں ہے کہ رہن کا معاملہ صرف سفر ہی میں ہو سکتا ہے، بلکہ ایسی صورت چونکہ زیادہ تر سفر میں پیش آتی ہے، اس لیے خاص طور پر اس کا ذکر کر دیا گیا ہے۔ نیز معاملہٴ رہن کے لیے یہ شرط بھی نہیں ہے کہ جب دستاویز لکھنا ممکن نہ ہو، صرف اسی صورت میں رہن کا معاملہ کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جب محض دستاویز لکھنے پر کوئی قرض دینے کے لیے آمادہ نہ ہو، تو قرض کا طالب اپنی کوئی چیز رہن رکھ کر روپیہ لے لے۔ لیکن قرآن مجید چونکہ اپنے پیرووں کو فیاضی کی تعلیم دینا چاہتا ہے ، اور یہ بات بلند اخلاق سے فروتر ہے کہ ایک شخص مال رکھتا ہو اور وہ ایک ضرورت مند آدمی کو اس کی کو ئی چیز رہن رکھے بغیر قرض نہ دے، اس لیے قرآن نے قصداً اِس دوسری صورت کا ذکر نہیں کیا۔ اس سلسلے میں یہ بھی معلوم ہونا چاہیے کہ رہن بالقبض کا مقصد صرف یہ ہے کہ قرض دینے والے کو اپنے قرض کی واپسی کا اطمینان ہو جائے ۔ اسے اپنے دیے ہوئے مال کے معاوضے میں شے مرہونہ سے فائدہ اُٹھانے کا حق نہیں ہے ۔ اگر کوئی شخص رہن لیے ہوئے مکان میں خود رہتا ہے یا اس کا کرایہ کھاتا ہے ، تو دراصل سود کھاتا ہے ۔ قرض پر براہِ راست سُود لینے اور رہن لی ہوئی چیز سے فائدہ اُٹھانے میں اُصُولاً کوئی فرق نہیں ہے۔ البتہ اگر کوئی جانور رہن لیا گیا ہو تو اس کا دُودھ استعمال کیا جا سکتا ہے ، اور اس سے سواری و بار برداری کی خدمت لی جا سکتی ہے ، کیونکہ یہ دراصل اُس چارے کا معاوضہ ہے جو مرتہن اس جانور کو کھلاتا ہے |
Surah 3 : Ayat 178
وَلَا يَحْسَبَنَّ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ خَيْرٌ لِّأَنفُسِهِمْۚ إِنَّمَا نُمْلِى لَهُمْ لِيَزْدَادُوٓاْ إِثْمًاۚ وَلَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ
یہ ڈھیل جو ہم انہیں دیے جاتے ہیں اس کو یہ کافر اپنے حق میں بہتری نہ سمجھیں، ہم تو انہیں اس لیے ڈھیل دے رہے ہیں کہ یہ خوب بار گناہ سمیٹ لیں، پھر اُن کے لیے سخت ذلیل کرنے والی سزا ہے
Surah 5 : Ayat 106
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ شَهَـٰدَةُ بَيْنِكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ ٱلْمَوْتُ حِينَ ٱلْوَصِيَّةِ ٱثْنَانِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ أَوْ ءَاخَرَانِ مِنْ غَيْرِكُمْ إِنْ أَنتُمْ ضَرَبْتُمْ فِى ٱلْأَرْضِ فَأَصَـٰبَتْكُم مُّصِيبَةُ ٱلْمَوْتِۚ تَحْبِسُونَهُمَا مِنۢ بَعْدِ ٱلصَّلَوٲةِ فَيُقْسِمَانِ بِٱللَّهِ إِنِ ٱرْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِى بِهِۦ ثَمَنًا وَلَوْ كَانَ ذَا قُرْبَىٰۙ وَلَا نَكْتُمُ شَهَـٰدَةَ ٱللَّهِ إِنَّآ إِذًا لَّمِنَ ٱلْأَثِمِينَ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم میں سے کسی کی موت کا وقت آ جائے اور وہ وصیت کر رہا ہو تو اس کے لیے شہادت کا نصاب یہ ہے کہ تمہاری جماعت میں سے دو صاحب عدل آدمی1 گواہ بنائے جائیں، یا اگر تم سفر کی حالت میں ہو اور وہاں موت کی مصیبت پیش آ جائے تو غیر مسلموں ہی میں سے دو گواہ لے لیے جائں 2پھر اگر کوئی شک پڑ جائے تو نماز کے بعد دونوں گواہوں کو (مسجد میں) روک لیا جائے اور وہ خدا کی قسم کھا کر کہیں کہ "ہم کسی ذاتی فائدے کے عوض شہادت بیچنے والے نہیں ہیں، اور خواہ کوئی ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو (ہم اس کی رعایت کرنے والے نہیں) اور نہ خدا واسطے کی گواہی کو ہم چھپانے والے ہیں، اگر ہم نے یسا کیا تو گناہ گاروں میں شمار ہوں گے"
2 | اس سے معلوم ہوا کہ مسلمانوں کے معاملات میں غیر مسلم کو شاہد بنانا صرف اُس حالت میں درست ہے جبکہ کوئی مسلمان گواہ بننے کے لیے میسّر نہ آسکے |
1 | یعنی دیندار ، راست باز اور قابلِ اعتماد مسلمان |
Surah 4 : Ayat 20
وَإِنْ أَرَدتُّمُ ٱسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَءَاتَيْتُمْ إِحْدَٮٰهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُواْ مِنْهُ شَيْــًٔاۚ أَتَأْخُذُونَهُۥ بُهْتَـٰنًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کی جگہ دوسری بیوی لے آنے کا ارادہ ہی کر لو تو خواہ تم نے اُسے ڈھیر سا مال ہی کیوں نہ دیا ہو، اس میں سے کچھ واپس نہ لینا کیا تم اُسے بہتان لگا کر اور صریح ظلم کر کے واپس لو گے؟