Ayats Found (1)
Surah 91 : Ayat 10
وَقَدْ خَابَ مَن دَسَّـٰهَا
اور نامراد ہوا وہ جس نے اُس کو دبا دیا1
1 | یہ ہے وہ بات جس پر ان چیزوں کی قسم کھائی گئی ہے جو اوپر کی آیات میں مذکور ہوئی ہیں۔ اب غور کیجئے کہ وہ چیزیں اس پر کس طرح دلالت کرتی ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالی کا قاعدہ یہ ہے کہ جن حقائق کو وہ انسان کے ذہن نشین کرانا چاہتا ہے، ان کی شہادت میں وہ سامنے کی چند ایسی نمایاں ترین چیزوں کو پیش کرتا ہے جو ہر آدمی کو اپنے گردوپیش کی دنیا میں، یا خود اپنے وجود میں نظر آتی ہیں۔ اسی قاعدے کے مطابق یہاں دو چیزوں کو ایک دوسرے کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے جو ایک دوسرسے سے متضاد ہیں اس لیے ان کے آثار اور نتائج بھی یکساں نہیں ہیں بلکہ لازماً ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ایک طرف سورج ہے اور دوسری طرف چاند۔ سورج کی روشنی نہایت نیز ہے اور اس میں گرمی بھی ہے۔ اس کے مقابلہ میں چاند اپنی کوئی روشنی نہیں رکھتا۔ سورج کی موجودگی میں وہ آسمان پر موجود بھی ہو تو بے نور ہوتا ہے۔ وہ اس وقت چمکتا ہے جب سورج چھپ جائے، اور اس وقت بھی اس کی روشنی نہ اتنی تیز ہوتی ہے کہ رات کو دن بنا دے، نہ اس میں کوئی گرمی ہوتی ہے کہ وہ کام کر سکے جو سورج کی گرمی کرتی ہے۔ لیکن اس کے اپنے کچھ اثرات ہیں جو سورج کے اثرات سے بالکل مختلف ہوتے ہیں۔ اسی طرح ایک طرف دن ہے اور دوسری طرف رات۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں کے اثرات اور نتائج باہم اس قدر مختلف ہیں کہ کوئی ان کو یکساں نہیں کہہ سکتا حتی کہ ایک بے وقوف سے بے وقوف آدمی کے لیے بھی یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ رات ہوئی تو کیا اور دن ہوا تو کیا، کسی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسی طرح ایک طرف آسمان ہے جسے خالق نے بلند اٹھایا ہے ا ور دوسری طرف زمین ہے جسے پیدا کرنے والے نے آسمان کے نیچے فرش کی طرح بچھا دیا ہے۔ دونوں اگرچہ ایک ہی کائنات اور اس کے نظام اور اس کی مصلحتوں کی خدمت کر رہے ہیں، لیکن دونوں کے کام اور ان کے اثرات و نتائج میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ ان ِآفاقی شہادتوں کو پیش کرنے کے بعد خود انسان کے اپنے نفس کو لیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ اسے اعضا اور حواس اور ذہنی قوتوں کے متناسب امتزاج سے ہموار کر کے خالق نے اس کے اندر بھلائی اور برائی، دونوں کے میلانات ، رجحانات اور محرکات رکھ دیے ہیں جو ایک دوسرے کی ضد ہیں اور الہامی طور پر اسے ان دونوں کا فرق سمجھا دیا ہے کہ ایک فجور ہے اور وہ بری چز ہے، اور دوسراتقوی ہے، اور وہ اچھی چیز۔ اب اگر سورج اور چاند ، دن اور رات، زمین اورآسمان یکساں نہیں ہیں بلکہ انکے اثرات اور نتائج ایک دوسرے سے لازماً مختلف ہیں، تو نفس کافجور اورتقوی دونوں ایک دوسرے کی ضد ہونے کے باوجود یکساں کیسے ہو سکتے ہیں۔ انسان خود اس دنیا میں بھی نیکی اور بدی کو یکساں نہیں سمجھتا اور نہیں مانتا۔ خواہ اس نے اپنے بنائے ہوئے فلسفوں کی رو سے خیر و شر کے کچھ بھی معیار تجویز کر لیے ہوں، بہر حال جس چیز کو بھی وہ نیکی سمجھتا ہے اس کے متعلق وہ یہ رائے رکھتا ہے کہ وہ قابل قدر ہے، تعریف اور صلے ا ور انعام کی مستحق ہے۔ بخلاف اس کے جس چیز کو بھی وہ بدی سمجھتا ہے اس کے بارے میں اس کی اپنی بے لاگ رائے یہ ہے کہ وہ مذمت اور سزا کی مستحق ہے۔ لیکن اصل فیصلہ انسان کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ اس خالق کے ہاتھ میں ہے جس نے انسان کا فجور ا ور تقوی اس پر الہام کیا ہے۔ فجور وہی ہے جو خالق کے نزدیک فجور ہے اور تقوی وہی ہے جو اس کے نزدیک تقوی ہے۔ اور خالق کے ہاں ا ن دونوں کے دو الگ نتائج ہیں۔ ایک کا نتیجہ یہے کہ جو اپنے نفس کا تزکیہ کرے وہ فلاح پائے، اور دوسرے کا نتیجہ یہ ہے کہ جو اپنے نفس کو دبا دے وہ نا مراد ہو۔ تزکیہ کے معنی ہیں پاک کرنا، ابھارنا اور نشو نما دینا۔ سیاق و سباق سے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جو ا پنے نفس کو فجور سے پاک کرے، اس کو ابھار کر تقوی کی بلندی پر لے جائے اور اس کے اندر بھلائی کو نشونما دے وہ فلاح پائے گا۔ اس کے مقابلہ میں ’’ دَسَّاهَا‘‘ کا لفاظ استعمال کیا گیا ہے جس کا مصدر تدسیہ ہے۔ تدسیہ کے معنی دبانے، چھپانے ، اغوا کرنے اور گمراہ کر دینے کے ہیں۔ سیاق و سباق سے اس کا مطلب بھی واضح ہو جاتا ہے کہ وہ شخص نامراد ہو گا جو اپنے نفس کے ا ندرپائے جانے والے نیکی کے رحجانات کو ابھارنے ا ور نشو نما دینے کے بجائے ان کو د با دے، اس کو بہکا کر برائی کے رجحانات کی طرف لے جائے، اور فجور کو اس پر اتنا غالب کر دے کہ تقوی اس کے نیچے اس طرح چھپ کر رہ جائے جیسے ایک لاش قبر پر مٹی ڈال دینے کے بعد چھپ جاتی ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت کے معنی یہ بیان کیے ہیں کہ ’’ قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکَّی اللہُ نَفْسَہٗ وَ قَدْ خَابَ مَنْ دَسَّی اللہُ نَفْسَہٗ‘‘ ، یعنی فلاح پا گیا وہ جس کے نفس کو اللہ نے پاک کر دیا،اور نامراد ہوا وہ جس کے نفس کو اللہ نے دبا دیا۔ لیکن یہ تفسیر اول تو زبان کے لحاظ سے قرآن کے طرز بیان کے خلاف ہے، کیونکہ ا گر اللہ تعالی کو یہی بات کہنی مقصود ہوتی تو وہ یوں فرماتا کہ ’’قَدْ اَفْلَحَتْ مَنْ زَکّٰھَا اللہُ وَقَدْ خَابَتْ مَنْ دَسّٰھَا اللہُ‘‘ (فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ نے پاک کر دیا اور نامراد ہو گیا وہ نفس جس کو اللہ نے دبا دیا)۔ دوسرے یہ تفسیر اسی موضوع پر قرآن کے دوسرے بیانات سے ٹکراتی ہے۔ سورہ اعلی میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے ’’ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ‘‘ ، ’’فلاح پا گیا وہ جس نے پاکیزگی اختیار کی‘‘ (آیت 14)۔سورہ عبس میں ا للہ تعالی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو خطاب کر کے فرمایا ’’ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ‘‘ ، ’’اور تم پر کیا ذمہ داری ہے اگر وہ پاکیزگی نہ اختیار کرے‘‘۔ ان دونوں آیتوں میں پاکیزگی اختیار کرنا بندے کا فعل قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن میں ج گہ جگہ یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ اس دنیا میں انسان کا امتحان لیا جا رہا ہے۔ مثلاً سورہ دہر میں فرمایا ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کی آزمائش کریں اسی لیے اسے ہم نے سمیع و بصیر بنایا‘‘ ۔ (آیت 2)۔ اور سورہ ملک میں فرمایا ’’جس نے موت اور زندگی کو ایجاد کیا تکہ تمہیں آزمائے کون تم میں بہتر عمل کرنے والا ہے‘‘۔ (آیت 2)۔ اب یہ ظاہر ہے کہ ا متحان سرے سے ہی بے معنی ہو جاتا ہے اگر امتحان لینے والا پہلے ہی ایک ا میدوار کو ابھار دے اورر دوسرے کو دبا دے۔ اس لیے صحیح تفسیر وہی ہے جو قتادہ ، عکرمہ، مجاہد اور سعید بن جبیر نے بیان کی ہے کہ ’’ زَكَّاهَا‘‘ اور ’’ دَسَّاهَا‘‘ کا فاعل بندہ ہے نہ کہ خدا۔ رہی وہ حدیث جو ابن ا بی حاتم نے عن جو یبر بن سعید عن الضحاک عن ابن عباس کی سند سے نقل کی ہے کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس آیت کا مطلب یہ بیان فرمایا کہ ’’ اَفْلَحَتْ نَفْسٌٌ نَکَّا ھَا اللہُ عَزَّوَ جَلْ ‘‘ (فلاح پا گیا وہ نفس جس کو اللہ عزو جل نے پاک کر دیا)، تو یہ ارشاد درحقیقت حضور سے ثابت نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں جو یبر متروک الحدیث ہے اور ابن عباس سے ضحاک کی ملاقات نہیں ہوئی ہے۔ البتہ وہ حدیث صحیح ہے جو امام احمد ، مسلم، نسائی اور ابن بی شیبہ نے حضر ت زید بن ارقم سے روایت کی ہے کہ حضورؐ یہ دعا مانگا کرتے تھے ’’ اَلّٰھُمَّ اٰتِ نَفْسِیْ تَقْوَاھَا وَ زَکَّھَا اَنْتَ خَیْرُ مَنْ ذَکَّا ھَا، اَنْتَ وَ لِیُّھَا وَ مَوْلَاھَا‘‘ ’’خدایا میرے نفس کو اس کا تقوی عطا کر اور اس کو پاکیز کر، تو ہی وہ بہتر ہستی ہے جو اس کو پاکیزہ کرے، تو ہی اس کا سرپرست اور مولی ہے‘‘۔ اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں حضورؐ کی یہ دعا حضرت عبداللہ بن عباس سے طبرانی ، ابن مردویہ اور ابن المندر نے اور حضرت عائشہ سے امام احمد نے نقل کی ہے۔ اس کا مطلب درحقیقت یہ ہے کہ بندہ تو صرف تقوی اور تزکیہ کی خواہش اور طلب ہی کر سکتا ہے، رہا اس کا نصیب ہو جانا، تو بہرحال اللہ ہی کی توفیق پر منحصر ہے۔ اور یہی حال تدسیہ کا بھی ہے کہ اللہ زبردستی کسی کے نفس کو نہیں دباتا، مگر جب بندہ اس تل جائے تو اللہ تعالی اسے تقوی اور تزکیہ کی توفیق سے محروم کر دیتا ہے اور اسے چھوڑ دیتا ہے کہ اپنے نفس کو جس گندگی کے ڈھیر میں دبانا چاہے دبا دے |