Ayats Found (15)
Surah 2 : Ayat 26
۞ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَسْتَحْىِۦٓ أَن يَضْرِبَ مَثَلاً مَّا بَعُوضَةً فَمَا فَوْقَهَاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ ٱلْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْۖ وَأَمَّا ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ فَيَقُولُونَ مَاذَآ أَرَادَ ٱللَّهُ بِهَـٰذَا مَثَلاًۘ يُضِلُّ بِهِۦ كَثِيرًا وَيَهْدِى بِهِۦ كَثِيرًاۚ وَمَا يُضِلُّ بِهِۦٓ إِلَّا ٱلْفَـٰسِقِينَ
ہاں، اللہ اس سے ہرگز نہیں شرماتا کہ مچھر یا اس سے بھی حقیر تر کسی چیز کی تمثیلیں دے جو لوگ حق بات کو قبول کرنے والے ہیں، وہ انہی تمثیلوں کو دیکھ کر جان لیتے ہیں کہ یہ حق ہے جو ان کے رب ہی کی طرف سے آیا ہے، اور جو ماننے والے نہیں ہیں، وہ انہیں سن کر کہنے لگتے ہیں کہ ایسی تمثیلوں سے اللہ کو کیا سروکار؟ اس طرح اللہ ایک ہی بات سے بہتوں کو گمراہی میں مبتلا کر دیتا ہے اور بہتوں کو راہ راست دکھا دیتا ہے اور گمراہی میں وہ انہی کو مبتلا کرتا ہے، جو فاسق ہیں3
3 | فاسق: نافرمان، اطاعت کی حد سے نِکل جانے والا |
Surah 2 : Ayat 165
وَمِنَ ٱلنَّاسِ مَن يَتَّخِذُ مِن دُونِ ٱللَّهِ أَندَادًا يُحِبُّونَهُمْ كَحُبِّ ٱللَّهِۖ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَشَدُّ حُبًّا لِّلَّهِۗ وَلَوْ يَرَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُوٓاْ إِذْ يَرَوْنَ ٱلْعَذَابَ أَنَّ ٱلْقُوَّةَ لِلَّهِ جَمِيعًا وَأَنَّ ٱللَّهَ شَدِيدُ ٱلْعَذَابِ
(مگر وحدت خداوندی پر دلالت کرنے والے اِن کھلے کھلے آثار کے ہوتے ہوئے بھی) کچھ لوگ ایسے ہیں جو اللہ کے سوا دوسروں کو اس کا ہمسر اور مدمقابل بناتے ہیں1 اور اُن کے ایسے گرویدہ ہیں جیسے اللہ کے ساتھ گرویدگی ہونی چاہیے حالانکہ ایمان رکھنے والے لوگ سب سے بڑھ کر اللہ کو محبوب رکھتے ہیں2 کاش، جو کچھ عذاب کو سامنے دیکھ کر انہیں سُوجھنے والا ہے وہ آج ہی اِن ظالموں کو سوجھ جائے کہ ساری طاقتیں اور سارے اختیارات اللہ ہی کے قبضے میں ہیں اور یہ کہ اللہ سزا دینے میں بھی بہت سخت ہے
2 | یعنی ایمان کا اقتضا یہ ہے کہ آدمی کے لیے اللہ کی رضا ہر دُوسرے کی رضا پر مقدم ہو اور کسی چیز کی محبت بھی انسان کے دل میں یہ مرتبہ اور مقام حاصل نہ کرلے کہ وہ اللہ کی محبت پر اسے قربان نہ کر سکتا ہو |
1 | یعنی خدائی کی جو صفات اللہ کے لیے خاص ہیں اُن میں سے بعض کو دُوسروں کی طرف منسُوب کرتے ہیں ، اور خدا ہونے کی حیثیت سے بندوں پر اللہ تعالٰی کے جو حقوق ہیں، وہ سب یا اُن میں سے بعض حقوق یہ لوگ اُن دُوسرے بناوٹی معبُودوں کو ادا کرتے ہیں۔ مثلاً سلسلہء اسباب پر حکمرانی ، حاجت روائی، مشکل کشائی، فریاد رسی، دُعائیں سُننا اور غیب و شہادت پر چیز سے واقف ہونا، یہ سب اللہ کی مخصُوص صفات ہیں۔ اور یہ صرف اللہ ہی کا حق ہے کہ بندے اُسی کو مقتدرِ اعلٰی مانیں، اُسی کے آگے اعترافِ بندگی میں سَر جُھکائیں، اُسی کی طرف اپنی حاجتوں میں رجُوع کریں، اُسی کو مدد کے لیے پکاریں، اُسی پر بھروسہ کریں، اُسی سے اُمیدیں وابستہ کریں اور اُسی سے ظاہر و باطن میں ڈریں۔ اِسی طرح مالک الملک ہونے کی حیثیت سے یہ منصب بھی اللہ ہی کا ہے کہ اپنی رعیّت کے لیے حلال و حرام کے حدُود مقرر کرے ، ان کے فرائض و حقوق معیّن کرے، ان کو امر ونہی کے احکام دے، اور انھیں یہ بتائے کہ اس کی دی ہوئی قوتوں اور اس کے بخشے ہوئے وسائل کو وہ کس طرح کِن کاموں میں کن مقاصد کے لیے استعمال کریں۔ اور یہ صرف اللہ کا حق ہے کہ بندے اس کی حاکمیّت تسلیم کریں، اس کے حکم کو منبعِ قانون مانیں، اسی کو امر و نہی کا مختا ر سمجھیں، اپنی زندگی کے معاملات میں اس کے فرمان کو فیصلہ کُن قرار دیں، اور ہدایت و رہنمائی کے لیے اُسی کی طرف رُجوع کریں۔ جو شخص خدا کی اِن صفات میں سے کسی صِفْت کو بھی کسی دُوسرے کی طرف منسُوب کرتا ہے ، اور اُس کے اِن حقوق میں سے کوئی ایک حق بھی کسی دُوسرے کو دیتا ہے وہ دراصل اُسے خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بناتا ہے۔ اور اسی طرح جو شخص یا جو ادارہ اِن صفات میں سے کسی صِفْت کا مدّعی ہو اور ان حقوق میں سے کسی حق کا انسانوں سے مطالبہ کرتا ہو، وہ بھی دراصل خدا کا مدِّ مقابل اور ہمسر بنتا ہے خواہ زبان سے خدائی کا دعویٰ کرے یا نہ کرے |
Surah 2 : Ayat 285
ءَامَنَ ٱلرَّسُولُ بِمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِۦ وَٱلْمُؤْمِنُونَۚ كُلٌّ ءَامَنَ بِٱللَّهِ وَمَلَـٰٓئِكَتِهِۦ وَكُتُبِهِۦ وَرُسُلِهِۦ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِۦۚ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ ٱلْمَصِيرُ
رسول اُس ہدایت پر ایمان لایا ہے جو اس کے رب کی طرف سے اس پر نازل ہوئی ہے اور جو لوگ اِس رسول کے ماننے والے ہیں، انہوں نے بھی اس ہدایت کو دل سے تسلیم کر لیا ہے یہ سب اللہ اور اس کے فرشتوں اوراس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کو مانتے ہیں اور ان کا قول یہ ہے کہ: 1"ہم اللہ کے رسولوں کو ایک دوسرے سے الگ نہیں کرتے، ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی مالک! ہم تجھ سے خطا بخشی کے طالب ہیں اور ہمیں تیری ہی طرف پلٹنا ہے"
1 | اس آیت میں تفصیلات سے قطع نظر کر کے اسلام کے عقائد اور اسلامی طرزِ عمل کا خلاصہ بیان کر دیا گیا ہے اور وہ یہ ہے : اللہ کو، اس کے فرشتوں کو، اور اس کی کتابوں کو ماننا۔ اس کے تمام رسولوں کو تسلیم کرنا بغیر اس کے کہ ان کے درمیان فرق کیا جائے ( یعنی کسی کو مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے)۔ اور اس امر کو تسلیم کرنا کہ آخر کار ہمیں اس کے حضور میں حاضر ہونا ہے۔ یہ پانچ امور اسلام کے بنیادی عقائد ہیں۔ اِن عقائد کو قبول کرنے کے بعد ایک مسلمان کے لیے صحیح طرزِ عمل یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو حکم پہنچے، اُسے وہ بسر و چشم قبول کرے، اس کی اطاعت کرے، اور اپنے حسنِ عمل پر غرّہ نہ کرے، بلکہ اللہ سے عفو و درگزر کی درخواست کرتا رہے |
Surah 8 : Ayat 2
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ إِذَا ذُكِرَ ٱللَّهُ وَجِلَتْ قُلُوبُهُمْ وَإِذَا تُلِيَتْ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتُهُۥ زَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
سچّے اہل ایمان تو وہ لوگ ہیں جن کے دل اللہ کا ذکر سُن کر لرز جاتے ہیں اور جب اللہ کی آیات ان کے سامنے پڑھی جاتی ہیں تو ان کا ایمان بڑھ جاتا ہے1 اور وہ اپنے رب پر اعتماد رکھتے ہیں
1 | یعنی ہر ایسے موقع پر جب کہ کوئی حکمِ الہٰی آدمی کے سامنے آئے اور وہ اس کی تصدیمق کر کے سر اطاعت جھکا دے، آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ ہر اس موقع پر جب کہ کوئی چیز آدمی کی مرضی کے خلاف ، اس کی محبتوں اور دوستیوں کے خلاف اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی ہدایت میں ملے اور آدمی اس کو مان کر فرمانِ خدا و ررسول کو بدلنے کے بجائے اپنے آپ کو بدل ڈالے اور اس کی قبولیت میں تکلیف انگیز کر ے تو اس سے آدمی کے ایمن کو بالیدگی نصیب ہوتی ہے۔ اس کے بر عکس اگر ایسا کرنے میں آدمی دریغ کرے تو اس کے ایمان کی جان نکلنی شروع ہوجاتی ہے۔ پس معلوم ہوا کہ ایمان کوئی ساکن و جامد چیز نہیں ہے، اور تصدیق و عدم تصدیق کا بس ایک ہی ایک مرتبہ نہیں ہے کہ اگر آدمی نے نہ مانا تو وہ بس ایک ہی نہ ماننا رہا، اور اگر اس نے مان لیا تو وہ بھی بس ایک ہی مان لینا ہوا۔نہیں بلکہ تصدیق اور انکار دونوں میں انحطاط اور نشونما کی صلاحیت ہے۔ ہر انکار کی کیفیت گھٹ بھی سکتی ہے اور بڑھ بھی سکتی ہے۔ اور اس طرح ہر اقرار و تصدیق میں ارتقاء بھی ہو سکتا ہے ار تنزل بھی۔ البتہ فقی احکام کے اعتبار سے نظام تمدن میں حقوق اور حیثیات کا تعین جب کیا جائے گا تو تصدیق اور عدم تصدیق دونوں کے بس ایک ہی مرتبے کا اعتبار کیا جائے گا۔ اسلامی سوسائٹی میں تمام ماننے والوں کے آئینی حقوق و داجبات یکساں ہوں گے خواہ ان کے درمیان ماننے کے مراتب میں کتنا ہی تفاوت ہو۔ اور سب نہ ماننے والے ایک ہی مرتبے میں دی یا حربی یا معاہدومسالم قرار دیے جائیں گے خواہ ان میں کفر کے اعتبار سے مراتب کا کتنا ہی فرق ہو |
Surah 8 : Ayat 4
أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّاۚ لَّهُمْ دَرَجَـٰتٌ عِندَ رَبِّهِمْ وَمَغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
ایسے ہی لوگ حقیقی مومن ہیں ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑے درجے ہیں قصوروں سے درگزر ہے1 اور بہترین رزق ہے
1 | تصور بڑے سےبڑے اور بہتر سے بہتر اہل ایمان سے بھی سرزد ہو سکتے ہیں اور ہوئے ہیں ، اور جب تک انسان انسان ہے یہ محال ہے کہ اس کا نامہ اعمال سراسر معیاری کارناموں ہی پر مشتمل ہواور لغزش ، کوتا ہی، خامی سے بالکل خالی رہے۔ مگر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں میں سے یہ بھی ایک بڑی رحمت ہے کہ جب انسان بندگی کی لازمی شرائط پوری کردیتا ہے تو اللہ اس کی کوتاہییوں سے چشم پوشی فرماتا ہے اور اس کی خدمات جس صلے کی مستحق ہوتی ہیں اس سے کچھ زیادہ صلہ اپنے فضل سے عطا کرتا ہے۔ ورنہ اگر قاعدہ یہ مقرر کیا جاتا کہ ہر قصور کی سزا اور ہر خدمت کی جزا الگ الگ دی جائے تو کوئی بڑے سے بڑا صالح بھی سزا سے نہ بچ سکتا |
Surah 8 : Ayat 74
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَهَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ وَٱلَّذِينَ ءَاوَواْ وَّنَصَرُوٓاْ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ حَقًّاۚ لَّهُم مَّغْفِرَةٌ وَرِزْقٌ كَرِيمٌ
جو لوگ ایمان لائے اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں گھر بار چھوڑے اور جدوجہد کی اور جنہوں نے پناہ دی اور مدد کی وہی سچے مومن ہیں ان کے لیے خطاؤں سے درگزر ہے اور بہترین رزق ہے
Surah 9 : Ayat 124
وَإِذَا مَآ أُنزِلَتْ سُورَةٌ فَمِنْهُم مَّن يَقُولُ أَيُّكُمْ زَادَتْهُ هَـٰذِهِۦٓ إِيمَـٰنًاۚ فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فَزَادَتْهُمْ إِيمَـٰنًا وَهُمْ يَسْتَبْشِرُونَ
جب کوئی نئی سورت نازل ہوتی ہے تو ان میں سے بعض لوگ (مذاق کے طور پر مسلمانوں سے) پوچھتے ہیں کہ "کہو، تم میں سے کس کے ایمان میں اس سے اضافہ ہوا؟" (اس کا جواب یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لائے ہیں ان کے ایمان میں تو فی الواقع (ہر نازل ہونے والی سورت نے) اضافہ ہی کیا ہے اور وہ اس سے دلشاد ہیں
Surah 24 : Ayat 51
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
Surah 24 : Ayat 62
إِنَّمَا ٱلْمُؤْمِنُونَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ وَإِذَا كَانُواْ مَعَهُۥ عَلَىٰٓ أَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ يَذْهَبُواْ حَتَّىٰ يَسْتَــْٔذِنُوهُۚ إِنَّ ٱلَّذِينَ يَسْتَــْٔذِنُونَكَ أُوْلَـٰٓئِكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦۚ فَإِذَا ٱسْتَــْٔذَنُوكَ لِبَعْضِ شَأْنِهِمْ فَأْذَن لِّمَن شِئْتَ مِنْهُمْ وَٱسْتَغْفِرْ لَهُمُ ٱللَّهَۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
مومن1 تو اصل میں وہی ہیں جو اللہ اور اُس کے رسول کو دل سے مانیں اور جب کسی اجتماعی کام کے موقع پر رسولؐ کے ساتھ ہوں تو اُس سے اجازت لیے بغیر نہ جائیں2 جو لوگ تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی اللہ اور رسول کے ماننے والے ہیں، پس جب وہ اپنے کسی کام سے اجازت مانگیں تو جسے تم چاہو اجازت دے دیا کرو 3اور ایسے لوگوں کے حق میں اللہ سے دعائے مغفرت کیا کرو4، اللہ یقیناً غفور و رحیم ہے
4 | اس میں پھر تنبیہ ہے کہ اجازت طلب کرنے میں اگر ذرا سی بہانہ بازی کا بھی دخل ہو، یا اجتماعی ضروریات پر انفرادی ضروریات کو مقدم رکھنے کا جذبہ کار فرما ہو تو یہ ایک گناہ ہے۔ لہٰذا رسول اور اس کے جانشین کو صرف اجازت دینے ہی پر اکتفا نہ کرنا چاہیے بلکہ جسے بھی اجازت دے ، ساتھ کے ساتھ یہ بھی کہہ دے کہ خدا تمہیں معاف کرے۔ |
3 | یعنی ضرورت بیان کرنے پر بھی اجازت دینا یا نہ دینا رسول کی ، اور رسول کے بعد امیر جماعت کی مرضی پر موقوف ہے اگر وہ سمجھتا ہو کہ اجتماعی ضرورت اس شخص کی انفرادی ضرورت کی بہ نسبت زیادہ اہم ہے تو وہ پورا حق رکھتا ہے کہ اجازت نہ دے ، اور اس صورت میں ایک مومن کو اس سے کوئی شکایت نہیں ہونی چاہیے |
2 | اس میں یہ تنبیہ ہے کہ کسی واقعی ضرورت کے بغیر اجازت طلب کرنا تو سے سے ہی نا جائز ہے۔ جواز کا پہلو صرف اس صورت میں نکلتا ہے جبکہ جانے کے لیے کوئی حقیقی ضرورت لاحق ہو |
1 | یہی حکم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد آپ کے جانشینوں اور اسلامی نظام جماعت کے امراء کا بھی ہے۔ جب کسی اجتماعی مقصد کے لیے مسلمانوں کو جمع کیا جاۓ ، قطع نظر اس سے کہ جنگ کا موقع ہو یا حالت امن کا ، بہر حال ان کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ امیر کی اجازت کے بغیر واپس چلے جائیں یا منتشر ہو جائیں۔ |
Surah 31 : Ayat 4
ٱلَّذِينَ يُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَهُم بِٱلْأَخِرَةِ هُمْ يُوقِنُونَ
جو نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور آخرت پر یقین رکھتے ہیں1
1 | یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں۔ دراصل پہلے’’نیکو کار‘‘ کا عام لفظ اِستعمال کر کے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن’’نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طور پر ذکر کیا گیا جس سے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارومدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، جس سے ایثاروقربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے، متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چھُوٹا پھر رہا ہو، بلکہ اس انسان کی طرح ہو جاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختار نہیں ہوں، کسی آقا کا بندہ ہوں اوراپنی ساری کار گزاریوں پر اپنےآقا کے سامنے جواب دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہ یہ’’نیکوکار‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاً نیکی سرزد ہو جاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر واخلا ق پیدا کر دیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر واخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔ |