Ayats Found (8)
Surah 3 : Ayat 135
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُواْ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے
Surah 4 : Ayat 19
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا يَحِلُّ لَكُمْ أَن تَرِثُواْ ٱلنِّسَآءَ كَرْهًاۖ وَلَا تَعْضُلُوهُنَّ لِتَذْهَبُواْ بِبَعْضِ مَآ ءَاتَيْتُمُوهُنَّ إِلَّآ أَن يَأْتِينَ بِفَـٰحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِۚ فَإِن كَرِهْتُمُوهُنَّ فَعَسَىٰٓ أَن تَكْرَهُواْ شَيْــًٔا وَيَجْعَلَ ٱللَّهُ فِيهِ خَيْرًا كَثِيرًا
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تمہارے لیے یہ حلال نہیں ہے کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن بیٹھو1 اور نہ یہ حلال ہے کہ انہیں تنگ کر کے اُس مہر کا کچھ حصہ اڑا لینے کی کوشش کرو جو تم انہیں دے چکے ہو ہاں اگر وہ کسی صریح بد چلنی کی مرتکب ہو ں (تو ضرور تمہیں تنگ کرنے کا حق ہے)2 ان کے ساتھ بھلے طریقہ سے زندگی بسر کرو اگر وہ تمہیں ناپسند ہوں تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں پسند نہ ہو مگر اللہ نے اُسی میں بہت کچھ بھلائی رکھ دی ہو3
3 | یعنی اگر عورت خوبصورت نہ ہو، یا اس میں کوئی ایسا نقص ہو جس کی بنا پر شوہر کو پسند نہ آئے، تو یہ مناسب نہیں ہے کہ شوہر فوراً دل برداشتہ ہو کر اسے چھوڑ دینے پر آمادہ ہو جائے۔ حتی الامکان اسے صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے۔ بسا اوقات ایسا ہوتا ہے کہ ایک عورت خوبصورت نہیں ہوتی مگر اس میں بعض دُوسری خوبیاں ایسی ہوتی ہیں جو ازدواجی زندگی میں حُسنِ صُورت سے زیادہ اہمیت رکھتی ہیں۔ اگر اُسے اپنی اُن خوبیوں کے اظہار کا موقع ملے تو وہی شوہر جو ابتداءً محض اس کی صُورت کی خرابی سے دل برداشتہ ہو رہا تھا، اس کے حسنِ سیرت پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ اسی طرح بعض اوقات ازدواجی زندگی کی ابتداء میں عورت کی بعض باتیں شوہر کو ناگوار محسُوس ہوتی ہیں اور وہ اس سے بد دل ہو جاتا ہے ، لیکن اگر وہ صبر سے کام لے اور عورت کے تمام امکانات کو برُوئے کار آنے کا موقع دے تو اس پر خود ثابت ہو جاتا ہے کہ اس کی بیوی بُرائیوں سے بڑھ کر خوبیاں رکھتی ہے۔ لہٰذا یہ بات پسندیدہ نہیں ہے کہ آدمی ازدواجی تعلق کو منقطع کرنے میں جلد بازی سے کام لے۔ طلاق بالکل آخری چارہٴ کار ہے جس کو ناگزیر حالات ہی میں استعمال کرنا چاہیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ابغض الحلال الی اللہ الطلاق ، یعنی طلاق اگرچہ جائز ہے مگر تمام جائز کاموں میں اللہ کو سب سے زیادہ ناپسند اگر کوئی چیز ہے تو وہ طلاق ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ آپ ؐ نے فرمایا تزوجوا وال تطلقو فان اللہ لا یحب الذواقین و الذواقات، یعنی نکاح کرو اور طلاق نہ دو کیونکہ اللہ ایسے مردوں اور عورتوں کو پسند نہیں کرتا جو بھونرے کی طرح پھول پھول کا مزا چکھتے پھریں |
2 | مال اُڑانے کے لیے نہیں بلکہ بدچلنی کی سزا دینے کے لیے |
1 | اس سے مُراد یہ ہے کہ شوہر کے مرنے کے بعد اس کے خاندان والے اس کی بیوہ کو میّت کی میراث سمجھ کر اس کے ولی وارث نہ بن بیٹھیں۔ عورت کا شوہر جب مر گیا تو وہ آزاد ہے۔ عدّت گزار کر جہاں چاہے جائے اور جس سے چاہے نکاح کر لے |
Surah 4 : Ayat 22
وَلَا تَنكِحُواْ مَا نَكَحَ ءَابَآؤُكُم مِّنَ ٱلنِّسَآءِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَۚ إِنَّهُۥ كَانَ فَـٰحِشَةً وَمَقْتًا وَسَآءَ سَبِيلاً
اور جن عورتوں سے تمہارے باپ نکاح کر چکے ہوں اُن سے ہرگز نکاح نہ کرو، مگر جو پہلے ہو چکا سو ہو چکا1 در حقیقت یہ ایک بے حیائی کا فعل ہے، ناپسندیدہ ہے اور برا چلن ہے2
2 | اسلامی قانون میں یہ فعل فوجداری جُرم ہے اور قابل دست اندازیِ پولیس ہے۔ ابوداؤد، نَسائی اور مسندِ احمد میں یہ روایات ملتی ہیں کہ نبی صلی علیہ وسلم نے اس جرم کا ارتکاب کرنے والو ں کو موت اور ضبطی جائداد کی سزا دی ہے۔ اور ابنِ ماجہ نے ابنِ عباس سے جو روایت نقل کی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت نے یہ قاعدہ ٴ کلیہ ارشاد فرمایا تھا کہ من وقع علی ذات محرم فاقتلوہ ۔” جو شخص محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کرے اُسے قتل کر دو۔“ فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اختلاف ہے۔ امام احمد تو اسی بات کے قائل ہیں کہ ایسے شخص کو قتل کیا جائے اور اس کامال ضبط کر لیا جائے ۔ امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی کی رائے یہ ہے کہ اگر اس نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کی ہو تو اس پر حدِّ زنا جاری ہوگی، اور اگر نکاح کیا ہو تو اسے سخت عبرتناک سزا دی جائے گی |
1 | تمدّنی اور معاشرتی مسائل میں جاہلیت کے غلط طریقوں کو حرام قرار دیتے ہوئے بالعمُوم قرآن مجید میں یہ بات ضرور فرمائی جاتی ہے کہ ”جو ہو چکا سو ہو چکا“۔ اِس کے دو مطلب ہیں: ایک یہ کہ بے علمی اور نادانی کے زمانہ میں جو غلطیاں تم لوگ کرتے رہے ہو ان پر گرفت نہیں کی جائے گی، بشرطیکہ اب حکم آجانے کے بعد اپنے طرزِ عمل کی اصلاح کر لو اور جو غلط کام ہیں انہیں چھوڑ دو۔ دوسرے یہ کہ زمانہ ٴ سابق کےکسی طریقے کو اب اگر حرام ٹھیرا یا گیا ہے تو اس سے یہ نتیجہ نکالنا صحیح نہیں ہے کہ پچھلے قانون یا رسم و رواج کے مطابق جو کام پہلے کیے جا چکے ہیں ان کو کالعدم، اور ان سے پیدا شدہ نتائج کو ناجائز، اور عائد شدہ ذمّہ داریوں کو لازماًً ساقط بھی کیا جا رہا ہے۔ مثلاً اگر سوتیلی ماں سے نکاح کو آج حرام کیا گیا ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اب تک جتنے لوگوں نے ایسے نکاح کیے تھے ان کی اولاد حرامی قرار دی جا رہی ہے اور اپنے باپوں کے مال میں ان کا حقِ وراثت ساقط کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح اگر لین دین کے کسی طریقے کو حرام کیا گیا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے جتنے معاملات اس طریقے پر ہوئے ہیں انہیں بھی کالعدم ٹھیرا دیا گیا ہے اور اب وہ سب دولت جو اس طریقے سے کسی نے کمائی ہو اس سے واپس لی جائے گی یا مال حرام ٹھیرائی جائے گی |
Surah 4 : Ayat 25
وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلاً أَن يَنكِحَ ٱلْمُحْصَنَـٰتِ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُكُم مِّن فَتَيَـٰتِكُمُ ٱلْمُؤْمِنَـٰتِۚ وَٱللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَـٰنِكُمۚ بَعْضُكُم مِّنۢ بَعْضٍۚ فَٱنكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَءَاتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِٱلْمَعْرُوفِ مُحْصَنَـٰتٍ غَيْرَ مُسَـٰفِحَـٰتٍ وَلَا مُتَّخِذَٲتِ أَخْدَانٍۚ فَإِذَآ أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَـٰحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى ٱلْمُحْصَنَـٰتِ مِنَ ٱلْعَذَابِۚ ذَٲلِكَ لِمَنْ خَشِىَ ٱلْعَنَتَ مِنكُمْۚ وَأَن تَصْبِرُواْ خَيْرٌ لَّكُمْۗ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں (محصنات) سے نکاح کر سکے اسے چاہیے کہ تمہاری اُن لونڈیوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں اللہ تمہارے ایمانوں کا حال خوب جانتا ہے، تم سب ایک ہی گروہ کے لوگ ہو1، لہٰذا اُن کے سرپرستوں کی اجازت سے اُن کے ساتھ نکاح کر لو اور معروف طریقہ سے اُن کے مہر ادا کر دو، تاکہ وہ حصار نکاح میں محفوظ (محصنات) ہو کر رہیں، آزاد شہوت رانی کرتی پھریں اور نہ چوری چھپے آشنائیاں کریں پھر جب وہ حصار نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو ان پر اُس سز ا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں (محصنات) کے لیے مقرر ہے2 یہ سہولت3 تم میں سے اُن لوگوں کے لیے پیدا کی گئی ہے جن کو شادی نہ کرنے سے بند تقویٰ کے ٹوٹ جانے کا اندیشہ ہو لیکن اگر تم صبر کرو تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے، اور اللہ بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
3 | یعنی خاندانی عورت سے نکاح کرنے کی استطاعت نہ ہو تو کسی لونڈی سے اس کے مالکوں کی اجازت لے کر نکاح کر لینے کی سہولت |
2 | سرسری نگاہ میں یہاں ایک پیچیدگی واقع ہوتی ہے جس سے خوارج اور اُن دُوسرے لوگوں نے فائدہ اُٹھایا ہے جو رجم کے منکر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ”اگر آزاد شادی شدہ عورت کے لیے شریعتِ اسلام میں زنا کی سزا رجم ہے تو اس کی نصف سزا کیا ہوسکتی ہے جو لونڈی کے دی جائے؟ لہٰذا یہ آیت اس بات پر دلیل قاطع ہے کہ اسلام میں رجم کی سزا ہے ہی نہیں۔“ لیکن ان لوگوں نے قرآن کے الفاظ پر غور نہیں کیا۔ اس رکوع میں لفظ مُحْصَنٰتُ (محفوظ عورتیں) دو مختلف معنوں میں استعمال کیا گیا ہے۔ ایک ”شادی شدہ عورتیں“ جن کو شوہر کی حفاظت حاصل ہو۔ دُوسرے”خاندانی عورتیں“ جن کو خاندان کی حفاظت حاصل ہو، اگرچہ وہ شادی شدہ نہ ہوں۔ آیتِ زیر بحث میں ”محصَنات“ کا لفظ لونڈی کے بالمقابل خاندانی عورتوں کے لیے دُسرے معنی میں استعمال ہوا ہے نہ کہ پہلے معنی میں، جیسا کہ آیت کے مضمون سے صاف ظاہر ہے۔ بخلاف اس کے لونڈیوں کے لیے مُحصنات کا لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے اور صاف الفاظ میں فرمایا ہے کہ جب انہیں نکاح کی حفاظت حاصل ہو جائے(فَاِذَآ اُحْصِنَّ) تب ان کے لیے زنا کے ارتکاب پر وہ سزا ہے جو مذکور ہوئی۔ اب اگر غائر نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ خاندانی عورت کو دو حفاظتیں حاصل ہوتی ہیں۔ ایک خاندان کی حفاظت جس کی بنا پر وہ شادی کے بغیر بھی مُحْصَنہ ہوتی ہے۔ دُوسری شوہر کی حفاظت جس کی وجہ سے اس کے لیے خاندان کی حفاظت پر ایک اور حفاظت کا اضافہ ہو جاتا ہے۔ بخلاف اس کے لونڈی جب تک لونڈی ہے مُحصَنہ نہیں ہے، کیونکہ اس کو کسی خاندان کی حفاظت حاصل نہیں ہے۔ البتہ نکاح ہونے پر اس کو صرف شوہر کی حفاظت حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی اَدھُوری ، کیونکہ شوہر کی حفاظت میں آنے کے بعد بھی نہ تو وہ ان لوگوں کی بندگی سے آزاد ہوتی ہے جن کی ملک میں وہ تھی، اور نہ اُسے معاشرت میں وہ مرتبہ حاصل ہوتا ہے جو خاندانی عورت کو نصیب ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا اسے جو سزا دی جائے گی وہ غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے آدھی ہوگی نہ کہ شادی شدہ خاندانی عورتوں کی سزا سے۔ نیز یہیں سے یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ سُورہٴ نُور کی دُوسری آیت میں زنا کی جس سزا کا ذکر ہے وہ صرف غیر شادی شدہ خاندانی عورتوں کے لیے ہے جن کے مقابلہ میں یہاں شادی شدہ لونڈی کی سزا نصف بیان کی گئی ہے۔ رہیں شادی شدہ خاندانی عورتیں، تو وہ غیر شادی شدہ محصَنات سے زیادہ سخت سزا کی مستحق ہیں کیونکہ وہ دوہری حفاظت کو توڑتی ہیں۔ اگر چہ قرآن ان کے لیے سزا ے رجم کی تصریح نہیں کرتا ، لیکن نہایت لطیف طریقہ سے اس کی طرف اشارہ کرتا ہے جو بلید الذہن لوگوں سے مخفی رہ جائے تو رہ جائے ، نبی کے ذہن رسا سے مخفی نہیں رہ سکتا تھا |
1 | یعنی معاشرت میں لوگوں کے درمیان جو فرقِ مراتب ہے وہ محض ایک اعتباری چیز ہے، ورنہ دراصل سب مسلمان یکساں ہیں، اور اگر کوئی حقیقی وجہِ امتیاز ان کے درمیان ہے تو وہ ایمان ہے جو محض اُونچے گھرانوں ہی کا حصّہ نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ایک لونڈی ایمان و اخلاق میں ایک خاندانی عورت سے بہتر ہو |
Surah 7 : Ayat 28
وَإِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَاۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِۖ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا 1ہے اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا2 کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (وہ اللہ کی طرف سے ہیں)؟
2 | بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جا ہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھےاور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چناچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمنا ک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استد لال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کا م کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے |
1 | اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے |
Surah 17 : Ayat 32
وَلَا تَقْرَبُواْ ٱلزِّنَىٰٓۖ إِنَّهُۥ كَانَ فَـٰحِشَةً وَسَآءَ سَبِيلاً
زنا کے قریب نہ پھٹکو وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ1
1 | ’’زنا کے قریب نہ پھٹکو“، اس کے حکم کے مخاطب افراد بھی ہیں، اور معاشرہ بحیثیت مجموعی بھی۔ افراد کے لیے اس حکم کے معنی یہ ہیں کہ وہ محض فعل زنا ہی سے بچنے پر اکتفا نہ کریں، بلکہ زنا کے مقدمات اور اس کے اُن ابتدائی محرکات سے بھی دور رہیں جو اس راستے کی طرف لےجاتے ہیں۔ رہا معاشرہ، تو اس حکم کی رو سے اس کا فرض یہ ہے کہ وہ اجتماعی زندگی میں زنا، اور محرکاتِ زنا، اور اسبابِ زنا کا سدِ باب کرے، اور اس غرض کےلیے قانون سے، تعلیم و تربیت سے، اجتماعی ماحول کی اصلاح سے، معاشرتی زندگی کی مناسب تشکیل سے، اور دوسری تمام موثر تدابیر سے کام لے۔ یہ دفعہ آخرکار اسلامی نظام ِ زندگی کے ایک وسیع باب کی بنیادبنی۔ اس کے منشا کے مطابق زنا اور تہمتِ زنا کو فوجداری جرم قرار دیاگیا، پردے کے احکام جاری کیے گئے، فواحش کی اشاعت کو سختی کےساتھ روک دیا گیا، شراب اور موسیقی اور رقص اور تصاویر پر (جو زنا کے قریب ترین رشتہ دار ہیں)بندشیں لگائی گئیں، اور ایک ایسا ازدواجی قانون بنایا گیا جس سے نکاح آسان ہو گیا اور زنا کے معاشرتی اسباب کی جڑ کٹ گئی۔ |
Surah 24 : Ayat 19
إِنَّ ٱلَّذِينَ يُحِبُّونَ أَن تَشِيعَ ٱلْفَـٰحِشَةُ فِى ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ فِى ٱلدُّنْيَا وَٱلْأَخِرَةِۚ وَٱللَّهُ يَعْلَمُ وَأَنتُمْ لَا تَعْلَمُونَ
جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحش پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں1، اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے2
2 | یعنی تم لوگ نہیں جانتے کہ اس طرح کی ایک ایک حرکت کے اثرات معاشرے میں کہاں کہاں تک پہنچتے ہیں ، کتنے افراد کو متاثر کرتے ہیں اور مجموعی طور پر ان کا کس قدر نقصان اجتماعی زندگی کو اٹھانا پڑتا ہے۔ اس چیز کو اللہ ہی خوب جانتا ہے۔ لہٰذا اللہ پر اعتماد کرو اور جن برائیوں کی وہ نشان دہی کر رہا ہے انہیں پوری قوت سے مٹانے اور دبانے کی کوشش کرو۔ یہ چھوٹی چھوٹی باتیں نہیں ہیں جن کے ساتھ رواداری برتی جاۓ۔ در اصل یہ بڑی باتیں ہیں جن کا ارتکاب کرنے والوں کو سخت سزا ملنی چاہیے |
1 | موقع و محل کے لحاظ سے تو آیت کا براہ راست مفہوم یہ ہے کہ جو لوگ اس طرح کے الزامات گھڑ کر اور انہیں اشاعت دے کر مسلم معاشرے میں بد اخلاقی پھیلانے اور امت مسلمہ کے اخلاق پر دھبہ لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں وہ سزا کے مستحق ہیں۔ لیکن آیت کے الفاظ فحش پھیلانے کی تمام صورتوں پر حاوی ہیں۔ ان کا اطلاق عملاً بد کاری کے اڈے قائم کرنے پر بھی ہوتا ہے اور بد اخلاقی کی ترغیب دینے والے اور اس کے لیے جذبات کو اکسانے والے قصوں ، اشعار، گانوں ، تصویروں اور کھیل تماشوں پربھی۔ نیز وہ کلب اور ہوٹل اور دوسرے ادارے بھی ان کی زد میں آ جاتے ہیں جن میں مخلوط رقص اور مخلوط تفریحات کا انتظام کیا جاتا ہے۔ قرآن صاف کہ ہ رہا ہے کہ یہ سب لوگ مجرم ہیں۔ صرف آخرت ہی میں نہیں دنیا میں بھی ان کو سزا ملنی چاہیے۔ لہٰذا ایک اسلامی حکومت کا فرض ہے کہ اشاعت فحش کے ان تمام ذرائع و وسائل کا سد باب کرے۔ اس کے قانون تعزیرات میں ان تمام افعال کو مستلزم سزا، قابل دست اندازی پولیس ہونا چاہیے جن کو قرآن یہاں پبلک کے خلاف جرائم قرار دے رہا ہے اور فیصلہ کر رہا ہے کہ ان کا ارتکاب کرنے والے سزا کے مستحق ہیں |
Surah 65 : Ayat 1
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ ٱلنِّسَآءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُواْ ٱلْعِدَّةَۖ وَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ رَبَّكُمْۖ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِنۢ بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّآ أَن يَأْتِينَ بِفَـٰحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍۚ وَتِلْكَ حُدُودُ ٱللَّهِۚ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ ٱللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُۥۚ لَا تَدْرِى لَعَلَّ ٱللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَٲلِكَ أَمْرًا
اے نبیؐ، جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو تو اُنہیں اُن کی عدت کے لیے طلاق دیا کرو1 اور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو2، اور اللہ سے ڈرو جو تمہارا رب ہے (زمانہ عدت میں) نہ تم اُنہیں اُن کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں3، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں 4یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں، اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا تم نہیں جانتے، شاید اس کے بعد اللہ (موافقت کی) کوئی صورت پیدا کر دے5
5 | یہ دونوں فقرے ان لوگوں کے خیال کی بھی تردید کرتے ہیں جو اس بات کے قائل ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے یا بیک وقت تین طلاق دے دینے سے کوئی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی، اور ان لوگوں کی راۓ کو بھی غلط ثابت کر دیتے ہیں جن کا خیال یہ ہے کہ بیک وقت تین طلاق ایک ہی طلاق کے حکم میں ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر بدعی طلاق واقع ہی نہیں ہوتی یا تین طلاق ایک ہی طلاق رجعی کے حکم میں ہیں، تو یہ کہنے کی آخر ضرورت ہی کیا رہ جاتی ہے کہ جو اللہ کی حدود، یعنی سنت کے بتاۓ ہوۓ طریقے کی خلاف ورزی کرے گا وہ اپنے نفس پر ظلم کرے گا، اور تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے؟ یہ دونوں باتیں تو اسی صورت میں با معنی ہو سکتی ہیں جبکہ سنت کے خلاف طلاق دینے سے واقعی کوئی نقصان ہوتا ہو جس پر آدمی کو پچھتانا پڑے، اور تین طلاق بیک وقت دے بیٹھنے سے رجوع کا کوئی امکان باقی نہ رہتا ہو۔ ورنہ ظاہر ہے کہ جو طلاق واقع ہی نہ ہو اس سے حدود اللہ پر کوئی تعدی نہیں ہوتی جو اپنے نفس پر ظلم قرار پاۓ، اور جو طلاق بہر حال رجعی ہی ہو اس کے بعد تو لازماً موافقت کی صورت باقی رہتی ہے، پھر یہ کہنے کی کوئی حاجت نہیں ہے کہ شاید اس کے بعد اللہ موافقت کی کوئی صورت پیدا کر دے۔ اس مقام پر ایک مرتبہ پھر سورہ بقرہ کی آیات 228 تا 230 اور سورہ طلاق کی زیر بحث آیات کے باہمی تعلق کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے۔ سورہ بقرہ میں طلاق کا نصاب تین کا نصاب تین بتایا گیا ہے، جن میں سے دو کے بعد رجوع کا حق، اور عدت گزر جانے کے بعد بلا تحلیل دوبارہ نکاح کر لینے کا حق باقی رہتا ہے، اور تیسری طلاق دے دینے سے یہ دونوں حق ساقط ہو جاتے ہیں۔ سور طلاق کی یہ آیات اس حکم میں کسی ترمیم و تنسیخ کے لیے نازل نہیں ہوئی ہیں، بلکہ یہ بتانے کے لیے نازل ہوئی ہیں کہ بیویوں کو طلاق دینے کے جو اختیارات مردوں کو دیے گۓ ہیں ان کو استعمال کرنے کی دانشمندانہ صورت کیا ہے جس کی پیروی اگر کی جاۓ تو گھر بگڑنے سے بچ سکتے ہیں، طلاق دے کر پچھتانے کی نوبت پیش نہیں آسکتی، موافقت پیدا ہونے کے زیادہ سے زیادہ مواقع باقی رہتے ہیں، اور اگر بالآخر علیٰحدگی ہو بھی جاۓ تو یہ آخری چارہ کار کھلا رہتا ہے کہ پھر مل جانا چاہیں تو دوبارہ نکاح کر لیں۔ لیکن اگر کوئی شخص نادانی کے ساتھ اپنے ان اختیارات کو غلط طریقے سے استعمال کر بیٹھے تو وہ اپنے اوپر خود ظلم کرے گا اور تلافی کے تمام مواقع کھو بیٹھے گا۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے ایک باپ اپنے بیٹے کو تین سو روپے دے اور کہے کہ یہ تمہاری ملکیت ہیں، ان کو تم اپنی مرضی سے خرچ کرنے کے مختار ہو۔ پھر وہ اسے نصیحت کرے کہ اپنے اس مال کو جو میں نے تمہیں دے دیا ہے، اس طرح احتیاط کے ساتھ بر محل اور بتدریج استعمال کرنا تاکہ تم اس سے صحیح فائدہ اٹھا سکو، ورنہ میری نصیحت کے خلاف تم بے احتیاطی کے ساتھ اسے بے موقع خرچ کرو گے یا ساری رقم بیک وقت خرچ کر بیٹھو گے تو نقصان اٹھاؤ گے اور پھر مزید کوئی رقم میں تمہیں برباد کرنے کے لیے نہیں دوں گا۔ یہ ساری نصیحت ایسی صورت میں بے معنی ہو جاتی ہے جب کہ باپ نے پوری رقم سرے سے اس کے ہاتھ میں چھوڑی ہی نہ ہو، وہ بے موقع خرچ کرنا چاہے تو رقم اس کی جیب سے نکلے ہی نہیں، یا پورے تین سو خرچ کر ڈالنے پر بھی ایک سو ہی اس کے ہاتھ سے نکلیں اور دو سو بہر حال اس کی جیب میں پڑے رہیں۔ صورت معاملہ اگر یہی ہو تو اس نصیحت کی آخر حاجت کیا ہے |
4 | اس کے متعدد مطلب مختلف فقہاء نے بیان کیے ہیں۔ حضرت حسن بصری، عامر شعبی، زید بن اسلم، ضحاک، مجاہد، عکرمہ، ابن زید، حما د اور لیث کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد کاری ہے۔ ابن عباس کہتے ہیں کہ اس سے مراد بد زبانی ہے، یعنی یہ کہ طلاق کے بعد بھی عورت کا مزاج درستی پر نہ آۓ، بلکہ وہ عدت کے زمانے میں شوہر اور اس کے خاندان والوں سے جھگڑتی اور بد زبانی کرتی رہے۔ قتادہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد نشوز ہے، یعنی عورت کو نشوز کی بنا پر طلاق دی گئی ہو اور عدت کے زمانے میں بھی وہ شوہر کے مقابلے پر سرکشی کرنے سے باز نہ آۓ۔ عبد اللہؓ بن عم، سدی، ابن السائب، اور ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ اس سے مراد عورت کا گھر سے نکل جانا ہے ، یعنی ان کی راۓ میں طلاق کے بعد عدت کے زمانہ میں عورت کا گھر چھوڑ کر نکل جانا بجاۓ خود فاحشۃ مبینۃ(صریح برائی کا ارتکاب)ہے، اور یہ ارشاد کہ ’’ وہ نہ خود نکلیں الّا یہ کہ صریح برائی کی مرتکب ہوں‘‘ کچھ اس طرح کا کلام ہے جیسے کوئی کہے کہ ’’ تم کسی کو گالی نہ دو الّا یہ کہ بد تمیز بنو‘‘ ان چار اقوال میں سے پہلے تین قولوں کے مطابق ’’ الّا یہ‘‘ کا تعلق ’’ان کو گھروں سے نہ نکالو‘‘ کے ساتھ ہے اور اس فقرے کا مطلب یہ ہے کہ اگر وہ بد چلنی یا بد زبانی یا نشوز کی مرتکب ہوں تو انہیں نکال دینا جائز ہو گا۔ اور چوتھے قول کی رو سے اس کا تعلق’’ اور نہ وہ خود نکلیں‘‘ کے ساتھ ہے اور مطلب یہ ہے کہ اگر وہ نکلیں گی تو صریح برائی کی مرتکب ہوں گی |
3 | یعنی نہ مرد غصے میں آ کر عورت کو گھر سے نکال دے، اور نہ عورت خود ہی بگڑ کر گھر چھوڑ دے ۔ عدت تک گھر اس کا ہے۔ اسی گھر میں دونوں کو رہنا چاہیے، تاکہ باہم موافقت کی کوئی صورت اگر نکل سکتی ہو تو اس ے فائدہ اٹھایا جا سکے۔ طلاق اگر رجعی ہو تو کسی وقت بھی شوہر کی طبیعت بیوی کی طرف مائل ہو سکتی ہے، اور بیوی بھی اختلاف کے اسباب کو دور کر کے شوہر کو راضی کرنے کی کوشش کر سکتی ہے۔ دونوں ایک گھر میں موجود رہیں گے تو تین مہینے تک، یا تین حیض آنے تک، یا حمل کی صورت میں وضع حمل تک اس کے مواقع بارہا پیش آ سکتے ہیں۔ لیکن اگر مرد جلد بازی کر کے اسے نکال دے، یا عورت نا سمجھی سے کام لے کر میکے جا بیٹھے تو اس صورت میں رجوع کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں اور بالعموم طلاق کا انجام آخر کار مستقل علیٰحدگی ہو کر رہتا ہے ۔ اسی لیے فقہاء نے یہاں تک کہا ہے کہ طلاق رجعی کی صورت میں جو عورت عدت گزار رہی ہو اسے بناؤ سنگھار کرنا چاہیے تاکہ شوہر اس کی طرف مائل ہو (ہدایہ۔ الانصاف)۔ فقہاء کے درمیان اس امر میں اتفاق ہے کہ مطلقہ رجعیہ کو عدت کے زمانے میں سکونت اور نفقہ کا حق ہے، اور عورت کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے جاۓ، اور مرد کے لیے بھی یہ جائز نہیں ہے کہ اسے گھر سے نکالے۔ اگر مرد اسے نکالے گا تو گناہ گار ہو گا، اور عورت اگر خود نکلے گی تو گناہ گار بھی ہو گی اور نفقہ و سکونت کے حق سے بھی محروم ہو جاۓ گی |
2 | اس حکم کا خطاب مروں سے بھی ہے اور عورتوں سے بھی اور ان کے خاندان والوں سے بھی۔ مطلب یہ ہے کہ طلاق کو کھیل نہ سمجھ بیٹھو کہ طلاق کا اہم معاملہ پیش آنے کے بعد یہ بھی یاد نہ رکھا جاۓ کہ کب طلاق دی گئی ہے، کب عدت شروع ہوئی اور کب اس کو ختم ہونا ہے۔ طلاق ایک نہایت نازک معاملہ ہے جس سے عورت اور مرد اور ان کی اولاد اور ان کے خاندان کے لیے بہت سے قانونی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اس لیے جب طلاق دی جاۓ تو اس کے وقت اور تاریخ کو یاد رکھا جاۓ، اور یہ بھی یاد رکھا جاۓ کہ کس حالت میں عورت کو طلاق دی گئی ہے، اور حساب لگا کر دیکھا جاۓ کہ عدت کا آغاز کب ہوا ہے، کب تک وہ باقی ہے ، اور کب وہ ختم ہو گئی۔ اسی حساب پر ان امور کا فیصلہ موقوف ہے کہ شوہر کوکب تک رجوع کا حق ہے۔ کب تک اسے عورت کو گھر میں رکھنا ہے، کب تک اس کا نفقہ دینا ہے، کب تک وہ عورت کا وارث ہو گا اور عورت اس کی وارث ہو گی، کب عورت اس سے جدا ہو جاۓ گی اور اسے دوسرا نکاح کر لینے کا حق حاصل ہو جاۓ گا۔ اور اگر یہ معاملہ کسی مقدمہ کی صورت اختیار کر جاۓ تو عدالت کو بھی صحیح فیصلہ کرنے کے لیے طلاق کی صحیح تاریخ اور وقت اور عورت کی حالت معلوم ہونے کی ضرورت ہو گی، کیونکہ اس کے بغیر وہ مدخولہ اور غیر مدخولہ، حاملہ اور غیر حاملہ، بے حیض اور با حیض، رجعیہ اور غیر رجعیہ عورتوں کے معاملہ میں طلاق سے پیدا شدہ مسائل کا صحیح فیصلہ نہیں کر سکتی |
1 | یعنی تم لوگ طلاق دینے کے معاملہ میں یہ جلد بازی نہ کیا کرو کہ جونہی میاں بیوی میں کوئی جھگڑا ہوا، فوراً ہی غصّے میں آکر طلاق دے ڈالی، اور نکاح کا جھٹکا اس طرح کیا کہ رجوع کی گنجائش بھی نہ چھوڑی۔ بلکہ جب تمہیں بیویوں کو طلاق دینا ہو تو ان کی عدت کے لیے دیا کرو۔ عدت کے لیے طلاق دینے کے دو مطلب ہیں اور دونوں ہی یہاں مراد بھی ہیں: ایک مطلب اس کا یہ ہے کہ عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دو، یا بالفاظ دیگر اس وقت طلاق دو جس سے دن کی عدت شروع ہوتی ہو۔ یہ بات سورہ بقرہ آیت 228 میں بتائی جا چکی ہے کہ جس مدخولہ عورت کو حیض آتا ہو اس کی عدت طلاق کے بعد تین مرتبہ حیض آنا ہے۔ اس حکم کو نگاہ میں رکھ کر دیکھا جاۓ تو عدت کا آغاز کرنے کے لیے طلاق دینے کی صورت لازماً یہی ہو سکتی ہے کہ عورت کو حالت حیض میں طلاق نہ دی جاۓ ، کیوں کہ اس کی عدت اس حیض سسے شروع نہیں ہو سکتی جس میں اسے طلاق دی گئی ہو، اور اس حالت میں طلاق دینے کے معنی یہ ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے حکم کے خلاف عورت کی عدت تین حیض کے بجاۓ چار حیض بن جاۓ ۔ مزید براں اس حکم کا تقاضا یہ بھی ہے کہ عورت کو اس طُہر میں طلاق نہ دی جاۓ جس میں شوہر اس سے مباشرت کر چکا ہو، کیونکہ اس صورت میں طلاق دیتے وقت شوہر اور بیوی دونوں میں سے کسی کو بھی یہ معلوم نہیں ہو سکتا کہ آیا مباشرت کے نتیجے میں کوئی حمل قرار پا گیا ہے یا نہیں، اس وجہ سے عدت کا آغاز نہ اس مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ عدت آئندہ حیضوں کے اعتبار سے ہو گی اور نہ اسی مفروضے پر کیا جا سکتا ہے کہ یہ حاملہ عورت کی عدت ہو گی۔ پس یہ حکم بیک وقت دو باتوں کا مقتضی ہے ۔ ایک یہ کہ حیض کی حالت میں طلاق نہ دی جاۓ ۔ دوسرے یہ کہ طلاق یا تو اس طُہر میں دی جاۓ جس میں مباشرت نہ کی گئی ہو، یا پھر اس حالت میں دی جاۓ جبکہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو۔ غور کیا جاۓ تو محسوس ہو گا کہ طلاق پر یہ قیدیں لگانے میں بہت بڑی مصلحتیں ہیں۔ حیض کی حالت میں طلاق نہ دینے کی مصلحت یہ ہے کہ یہ وہ حالت ہوتی ہے جس میں عورت اور مرد کے درمیان مباشرت ممنوع ہونے کی وجہ سے ایک طرح کا بُعد پیدا ہو جاتا ہے، اور طبی حیثیت سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ اس حالت میں عورت کا مزاج معمول پر نہیں رہتا۔ اس لیے اگر اس وقت دونوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو جاۓ تو عورت اور مرد دونوں اسے رفع کرنے کے معاملہ میں ایک حد تک بے بس ہوتے ہیں، اور جھگڑے سے طلاق تک نوبت پہنچانے کے بجاۓ اگر عورت کے حیض سے فارغ ہونے تک انتظار کر لیا جاۓ تو اس امر کا کافی امکان ہوتا ہے کہ عورت کا مزاج بھی معمول پر آ جاۓ اور دونوں کے درمیان فطرت نے جو طبعی کشش رکھی ہے وہ بھی اپنا کام کر کے دونوں کو پھر سے جوڑ دے ۔ اسی طرح جس طہر میں مباشرت کی جا چکی ہو اس میں طلاق کے ممنوع ہونے کی مصلحت یہ ہے کہ اس زمانے میں اگر حمل قرار پا جاۓ تو مرد اور عورت، دونوں میں سے کسی کو بھی اس کا علم نہیں ہو سکتا۔ اس لیے وہ وقت طلاق دینے کے لیے موزوں نہیں ہے۔ حمل کا علم ہو جانے کی صورت میں تو مرد بھی دس مرتبہ سوچے گا کہ جس عورت کے پیٹ میں اس کا بچہ پرورش پا رہا ہے اسے طلاق دے یا نہ دے، اور عورت بھی اپنے اور اپنے بچے کے مستقبل کا خیال کر کے شوہر کی ناراضگی کے اسباب دور کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔ لیکن اندھیرے میں بے سوچے سمجھے تیر چلا بیٹھنے کے بعد اگر معلوم ہو کہ حمل قرار پا چکا تھا، تو دونوں کو پچھتانا پڑے گا۔ یہ تو ہے ’’ عدت کے لیے ‘‘ طلاق دینے پہلا مطلب، جس کا اطلاق صرف ان مدخولہ عورتوں پر ہوتا ہے جن کو حیض ٓآتا ہو اور جن کے حاملہ ہونے کا امکان ہو۔ اب رہا اس کا دوسرا مطلب، تو وہ یہ ہے کہ طلاق دینا ہو تو عدت تک کے لیے طلاق دو، یعنی بیک وقت تین طلاق دے کر ہمیشہ کی علیٰحدگی کے لیے طلاق نہ دے بیٹھو، بلکہ ایک، یا حد سے حد دو طلاقیں دے کر عدت تک انتظار کرو تا کہ اس مدت میں ہر وقت تمہارے لیے رجوع کی گنجائش باقی رہے۔ اس مطلب کے لحاظ سے یہ حکم ان مدخولہ عورتوں کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آتا ہو اور ان کے معاملہ میں بھی مفید ہے جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا جنہیں ابھی حیض آنا شروع نہ ہوا ہو، یا جن کا طلاق کے وقت حاملہ ہونا معلوم ہو، اس فرمان الہٰی کی پیروی کی جاۓ تو کسی شخص کو بھی طلاق دے کر پچھتانا نہ پڑے ، کیونکہ اس طرح طلاق دینے سے عدت کے اندر رجوع بھی ہو سکتا ہے، اور عدت گزر جانے کے بعد بھی یہ ممکن رہتا ہے کہ سابق میاں بیوی پھر باہم رشتہ جوڑنا چاہیں تو از سر نو نکاح کر لیں۔ طَلِّقُوْ ھُنَّ لِعِدَّ تِھِنَّ کے یہی معنی اکابر مفسرین نے بیان کیے ہیں۔ ابن عباسؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’ طلاق حیض کی حالت میں نہ دے، اور نہ اس طہر میں دے جس کے اندر شوہر مباشرت کر چکا ہو، بلکہ اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ حیض سے فارغ ہو کر وہ طاہر ہو جاۓ ۔ پھر اسے ایک طلاق دے دے ۔ اس صورت میں اگر وہ رجوع نہ بھی کرے اور عدت گزر جاۓ تو وہ صرف ایک ہی طلاق سے جدا ہو گی‘‘(ابن جریر)۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ فرماتے ہیں ’’ عدت کے لیے طلاق یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جاۓ ‘‘۔ یہی تفسیر حضرت عبداللہ بن عمر، مجاہد، میمون بن مہران، مقاتِل بن حَیان، اور ضحاک رحمہم اللہ سے مروی ہے (ابن کثیر) عکرمہ اس کا مطلب بیان کرتے ہیں ’’ طلاق اس حالت میں دے کہ عورت کا حاملہ ہونا معلوم ہو، اور اس حالت میں نہ دے کہ وہ اس سے مباشرت کر چکا ہو اور کچھ پتہ نہ ہو کہ وہ حاملہ ہو گئی ہے یا نہیں ‘‘ (ابن کثیر)۔ حضرت حسن بصری اور ابن سیرین، دونوں کہتے ہیں ’’ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دی جاۓ، یا پھر اس حالت میں دی جاۓ جبکہ حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘ (ابن جریر)۔ اس آیت کے منشا کو بہترین طریقہ سے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس موقع پر واضح فرمایا تھا جب حضرت عبداللہ بن عمر نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دے دی تھی۔ اس واقعہ کی تفصیلات قریب قریب حدیث کی تمام کتابوں میں نقل ہوئی ہیں، اور وہی در حقیقت اس معاملہ میں قانون کی ماخذ ہیں۔ قصہ اس کا یہ ہے کہ جب حضرت عبداللہ نے اپنی بیوی کو حیض کی حالت میں طلاق دی تو حضرت عمرؓ نے جا کر حضورؐ سے اس کا ذکر کیا۔ آپ سن کر سخت ناراض ہوۓ اور فرمایا کہ ’’ اس کو حکم دو کہ بیوی سے رجوع کر لے اور اسے اپنی زوجیت میں روکے رکھے یہاں تک کہ وہ طاہر ہو، پھر اسے حیض آۓ اور اس سے بھی فارغ ہو کر وہ پاک ہو جاۓ ، اس کے بعد اگر وہ اسے طلاق دینا چاہے تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ۔ یہی وہ عدت ہے جس کے لیے طلاق دینے کا اللہ عزو جل نے حکم دیا ہے ‘‘۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’ یا تو طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر طلاق دے ، یا پھر ایسی حالت میں دے جبکہ اس کا حمل ظاہر ہو چکا ہو‘‘ اس آیت کے منشا پر مزید روشنی چند اور احادیث بھی ڈالتی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اور اکابر صحابہ سے منقول ہیں۔ نسائی میں روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو اطلاع دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ حضورؐ یہ سن کر غصے میں کھڑے ہوگۓ اور فرمایا’’ اَیُلْعَبُ بکتابِ اللہِ وَانَا بَیْنَ اظہر کم؟‘‘ کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں؟‘‘ اس حرکت پر حضورؐ کے غصے کی کیفیت دیکھ کر ایک شخص نے پوچھا کیا میں اسے قتل نہ کر دوں؟ عبدالرزاق نے حضرت عبادہ بن الصامت کے متعلق روایت نقل کی ہے کہ ان کے والد نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے ڈالیں۔ انہوں نے جا کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے مسئلہ پوچھا۔ آپ نے فرمایا : بانت منہ بثالث فی معصیۃ اللہ تعالیٰ، و بقی تسع مأ ۃ و سبع و تسعون ظُلْماً و عُدْو اناً، ان شاء اللہ عذَّبہ، وان شاء غفر لہٗ ’’ تین طلاقوں کے ذریعہ سے تو اللہ کی نافرمانی کے ساتھ وہ عورت اس سے جدا ہو گئی، اور 997 ظلم اور عُدوان کے طور پر باقی رہ گۓ جن پر اللہ چاہے تو اسے عذاب دے اور چاہے تو معاف کر دے ‘‘۔ حضرت عبداللہ بن عمر کے قصے کی جو تفصیل وار قطنی اور ابن ابی شیبہ میں روایت ہوئی ہے اس میں ایک بات یہ بھی ہے کہ حضورؐ نے جب حضرت عبداللہ بن عمر کو بیوی سے رجوع کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے پوچھا اگر میں اس کو تین طلاق دے دیتا تو کیا پھر بھی میں رجوع کر سکتا تھا؟ حضورؐ نے جواب دیا : لا، کانت تبین منک و کانت معصیۃً ’’ نہیں، وہ تجھ سے جدا ہو جاتی اور یہ فعل معصیت ہوتا ‘‘۔ ایک روایت میں آپ کے الفاظ یہ ہیں کہ : اذاً قد عصیت ربک و بانت منک امر أتک۔’’ اگر تم ایسا کرتے تو اپنے رب کی نافرمانی کرتے اور تمہاری بیوی تم سے جدا ہو جاتی‘‘۔ صحابہ کرام سے اس بارے میں جو فتاویٰ منقول ہیں وہ بھی حضورؐ کے انہی ارشادات سے مطابقت رکھتے ہیں۔ مُؤطّا میں ہے کہا ایک شخص نے آ کر حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو آٹھ طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا ’’ پھر اس پر تمہیں کیا فتویٰ دیا گیا؟‘‘ اس نے عرض کیا’’ مجھ سے کہا گیا ہے کہ عورت مجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ آپ نے فرمایا صد قوا، ھو مثل ما یقولون،’’ لوگوں نے سچ کہا، مسئلہ یہی ہے جو وہ بیان کرتے ہیں ‘‘۔ عبدالرزاق نے عَلْقَمہ سے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص نے ابن مسعودؓ سے کہا میں نے اپنی بیوی کو 99 طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے فرمایا ثلاث بینھا و سائرھن عدوان۔ ’’تین طلاقیں اسے جدا کرتی ہیں، باقی سب زیادتیاں ہیں‘‘۔ وَکیع بن الجراح نے اپنی سنن میں حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ، دونوں کا یہی مسلک نقل کیا ہے ۔ حضرت عثمانؓ سے ایک شخص نے آ کر عرض کیا کہ میں اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ انہوں نے فرمایا بانت منک بثلاث ‘‘۔ وہ تین طلاقوں سے تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایسا ہی واقعہ حضرت علیؓ کے سامنے پیش ہوا تو انہوں نے جواب دیا : بانت منک بثلاث و ا قسم سائرھن علی نسائک۔’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی طلاقوں کو اپنی دوسری عورتوں پر تقسیم کرتا پھر‘‘۔ ابو داؤد اور ابن جریر نے تھوڑے لفظی فرق کے ساتھ مجاہد کی روایت نقل کی ہے کہ وہ ابن عباسؓ کے پاس بیٹھے تھے ۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے بیٹھا ہوں۔ ابن عباس سن کر خاموش رہے ، حتی کہ میں نے خیال کیا شاید یہ اس کی بیوی کو اس کی طرف پلٹا دینے والے ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا’’ تم میں سے ایک شخص پہلے طلاق دینے میں حماقت کا ارتکاب کر گزرتا ہے، اس کے بعد آ کر کہتا ہے یا ابن عباس، یا ابن عباس۔ حالانکہ اللہ تعالٰی نے فرمایا ہے کہ جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوۓ کام کرے گا اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کا راستہ پیدا کر دے گا، اور تو نے اللہ سے تقویٰ نہیں کیا۔ اب میں تیرے لیے کوئی راستہ نہیں پاتا۔ تو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی‘‘۔ ایک اور روایت جسے مؤطاء اور تفسیر ابن جریر میں کچھ لفظی فرق کے ساتھ مجاہد ہی سے نقل کیا گیا ہے ،اس میں یہ ذکر ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں، پھر ابن عباس سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے جواب دیا ’’ تین طلاقوں سے تو وہ تجھ سے جدا ہو گئی، باقی 97 سے تُو نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تیری بیوی تجھ سے جدا ہو گئی اور تُو نے اللہ کا خوف نہیں کیا کہ وہ تیرے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کرتا ‘‘ امام طحاوِی نے روایت نقل کی ہے کہ ایک شخص ابن عباس کے پاس آیا اور اس نے کہا میرے چچا نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے ڈالی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا : اِنَّ عمک عصی اللہ فَاَثِم و اطاع الشیطان فلم یجعل لہ مخرجاً۔ ’’ تیرے چچا نے اللہ کی نا فرمانی کی اور گناہ کا ارتکاب کیا اور شیطان کی پیروی کی۔ اللہ نے اس کے لیے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رکھا ہے ۔‘‘ ابو داؤد اور مؤطاء میں ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو خلوت سے پہلے تین طلاقیں دے دیں، پھر اس سے دوبارہ نکاح کرنا چاہا اور فتویٰ پوچھنے نکلا۔ حدیث کے راوی محمد بن بکیر کہتے ہیں کہ میں اس کے ساتھ ابن عباس اور ابو ہریرہؓ کے پاس گیا دونوں کا جواب یہ تھا انک ارسلت من یدک ماکان من فضل۔ ’’ تیرے لیے جو گنجائش تھی تو نے اسے اپنے ہاتھ وے چھوڑ دیا‘‘۔ زمْخشری نے کشاف میں بیان کیا ہے کہ حضرت عمرؓ کے پاس جو شخص بھی ایسا آتا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہوں اسے وہ مارتے تھے اور اس کی طلاقوں کو نافذ کر دیتے تھے ۔ سعید بن منصور نے یہی بات صحیح سند کے ساتھ حضرت انس کی روایت سے نقل کی ہے ۔ اس معاملہ میں صحابہ کرام کی عام راۓ، جسے ابن ابی شیبہ اور امام محمد نے ابراہیم نخعیؒ سے نقل کیا ہے، یہ تھی کہ ان الصحابۃ رضی اللہ عنہم کانو یستحبون ان یطلقھا واحد ۃ ثم یتر کھا حتی تحیض ثلاثۃ حیض۔ ’’ صحابہ رجی اللہ عنہیم اسبات کو پسند کرتے تھے کہ آدمی بیوی کو صرف ایک طلاق دے اور اس کو چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آ جائیں‘‘۔ یہ ابن ابی شیبہ کے الفاظ ہیں۔ اور امام محمد کے الفاظ یہ ہیں: کانو ایستحبون ان لا تزید و افی الطلاق علی واحدۃ حتی تنقضی العدّۃ۔ ’’ ان کو پسند یہ طریقہ تھا کہ طلاق کے معاملہ میں ایک سے زیادہ نہ بڑھیں یہاں تک کہ عدت پوری ہو جاۓ ‘‘ ان احادیث و آثار کی مدد سے قرآن مجید کی مذکورہ بالا آیات کا منشا سمجھ کر فقہاۓ اسلام نے جو مفصل قانون مرتب کیا ہے اسے ہم صل میں نقل کرتے ہیں۔ 1)۔ حنفیہ طلاق کی تین قسمیں قرار دیتے ہیں: احسن،ح۔صَن اور بِدْعی۔ احسن طلاق یہ ہے کہ آدمی اپنی بیوی کو ایسے طہر میں جس کے اندر اس نے مجامعت نہ کی ہو، صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دے ۔ حَسَن یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک ایک طلاق دے ۔ اس صورت میں تین طہروں میں تین طلاق دینا بھی سنت کے خلاف نہیں ہے ،۔ اگر چہ بہتر یہی ہے کہ ایک ہی طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ۔ اور طلاق بدعت یہ ہے کہ آدمی بیک وقت تین طلاق دے دے، یا ایک ہی طہر کے اندر الگ الگ اوقات میں تین طلاق دے، یا حیض کی حالت میں طلاق دے، یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں وہ مباشرت کر چکا ہو۔ ان میں سے جو فعل بھی وہ کرے گا گنہگار ہو گا۔ یہ تو ہے حکم ایسی مدخولہ عورت کا جسے حیض آتا ہو۔ رہی غیر مدخولہ عورت تو اسے سنت کے مطابق طہر اور حیض دونوں حالتوں میں طلاق دی جا سکتی ہے۔ اور اگر عورت ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا ابھی آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، تو اسے مباشرت کے بعد بھی طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کے حاملہ ہونے کا امکان نہیں ہے ۔ اور عورت حاملہ ہو تو مباشرت کے بعد اسے بھی طلاق دی جا سکتی ہے، کیونکہ اس کا حاملہ ہونا پہلے ہی معلوم ہے۔ لیکن ان تینوں قسم کی عورتوں کو سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ایک مہینہ بعد طلاق دی جاۓ، اور احسن یہ ہے کہ صرف ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ ۔ (ہدایہ، فتح القدیر، احکام القرآن للجصاص، عمدۃ القاری)۔ امام مالکؒ کے نزدیک بھی طلاق کی تین قسمیں ہیں۔ سُنی، بدعی مکروہ، اور بدعی حرام۔ سنت کے مطابق طلاق یہ ہے کہ مدخولہ عورت کو جسے حیض آتا ہو، طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر ایک طلاق دے کر عدت گزر جانے دی جاۓ ۔ بِدعی مکروہ یہ ہے کہ ایسے طہر کی حالت میں طلاق دی جاۓ جس میں آدمی مباشرت کر چکا ہو، یا مباشرت کیے بغیر ایک طہر میں ایک سے زیادہ طلاقیں دی جائیں، یا عدت کے اندر الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دی جائیں،یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں۔ اور بِد عی حرام یہ ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دی جاۓ ۔ (حاشیہ الدسوقی علیٰ الشرح الکبیر۔ احکام القرآن لابن العربی)۔ امام احمد بن حنبلؒ کا معتبر مذہب یہ ہے جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے : مدخولہ عورت جس کو حیض آتا ہو اسے سنت کے مطابق طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں مباشرت کیے بغیر اسے طلاق دی جاۓ، پھر اسے چھوڑ دیا جاۓ یہاں تک کہ عدت گزر جاۓ ۔ لیکن اگر اسے تین طہروں میں تین الگ الگ طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طہر میں تین طلاقیں دے دی جائیں، یا بیک وقت تین طلاقیں دے ڈالی جائیں، یا حیض کی حالت میں طلاق دی جاۓ، یا ایسے طہر میں طلاق دی جاۓ جس میں مباشرت کی گئی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہو، تو یہ سب طلاق بدعت اور حرام ہیں۔ لیکن اگر عورت غیر مدخولہ ہو، یا ایسی مدخولہ ہو جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو، یا حاملہ ہو، تو اس کے معاملہ میں نہ وقت کے لحاظ سے سنت و بدعت کا کوئی فرق ہے نہ تعداد کے لحاظ سے ۔ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علیٰ مذہب احمد بن حنبلؒ)۔ امام شافعیؒ کے نزدیک طلاق کے معاملہ میں سنت اور بدعت کا فرق کے لحاظ سے ہے نہ کہ تعداد سے َ یعنی مد خو ل عورت جس کو حیض آتا ہو‘ سے حیض کی حالت میں طلا ق دینا‘ یا جو حاملہ ہو سکتی ہو اسے ا یسے طُہر میں طلا ق دینا جس میں مباشرت کی جا چکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظا ہر نہ ہو‘ بدعت اور حرام ہے ۔ رہی طلا قو ں کی تعداد، تو خواہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں، یا ایک ہی طْہر میں دی جائے، یا الگ الگ طُہروں میں دی جائیں، بہر حال یہ سنّت کے خلاف نہیں ہے۔ اور غیر مدخولہ عورت جسے حیض آنا بند ہو گیا ہو، یا حیض آیا ہی نہ ہو، یا جس کا حاملہ ہونا ظاہر ہو،اس کے معاملہ میں سنّت اور بدعت کا کوئی فرق نہیں ہے ۔ (مغنی المحتاج)۔ (2)کسی طلاق کے بدعت، مکروہ، حرام، یا گناہ ہونے کا مطلب ائمۂ اربعہ کے نزدیک یہ نہیں ہے کہ وہ واقع ہی نہ ہو۔ چاروں مذاہب میں طلاق، خواہ حیض کی حالت میں دی گئی ہو، یا بیک وقت تین طلاقیں دے دی گئی، یا ایسے طہر میں طلاق دی گئی ہو جس میں مباشرت کی جاچکی ہو اور عورت کا حاملہ ہونا ظاہر نہ ہوا ہو، یا کسی اور ایسے طریقے سے دی گئی ہو جسے کسی امام نے بدعت قرار دیا ہے، بہر حال واقع ہو جاتی ہے، اگر چہ آدمی گناہ گار ہوتا ہے ۔ لیکن بعض دوسرے مجتہدین نے اس مسئلے میں ائمۂ اربعہ سے اختلاف کیا ہے ۔ سعید بن المستیب اور بعض دوسرے تابعین کہتے ہیں کہ جو شخص سنت کے خلاف حیض کی حالت میں طلاق دے دے اس کی طلاق سرے سے واقع ہی نہیں ہوتی۔ یہی راۓ امامیہ کی ہے ۔ اور اس راۓ کی بنیاد یہ ہے کہ ایسا کرنا چونکہ ممنوع اور بدعت محرمہ ہے اس لیۓ یہ غیر مؤثر ہے ۔ حالانکہ اپر جو احادیث ہم نقل کر آۓ ہیں ان میں یہ بیان ہوا کہ حضرت عبداللہ بن عمر نے جب بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو حضور نے انہیں رجوع کا حکم دیا۔ اگر یہ طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تھی تو رجوع کا حکم دینے کے کیا معنی؟ اور یہ بھی بکثرت احادیث سے ثابت ہے کہ حضور ﷺ نے اور اکابر صحابہ ؓ نے ایک سے زیادہ طلاق دینے والے کو اگر چہ گناہ گار قرار دیا ہے، مگر اس کی طالق کو غیر مؤثر قرار نہیں دیا۔ طاؤس اور عکرمہ کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دی جائیں تو صرف ایک طالق واقع ہوتی ہے ، اور اسی راۓ کو امام ابن تیمیہ ؒ نے اختیار کیا ہے۔ ان کی اس راۓ کا ماخذ یہ روایت ہے کہ ابو الصہباء نے ابن عباس سے پوچھا ‘ کیا آپ کو معلوم نہیں ہے کہ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد میں اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں تین طاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا ‘؟ انہوں نے جواب دیا ہاں (بخاری و مسلم ) اور مسلم، ابو داؤد اور مسند احمد میں ابن عباس کا یہ قول نقل کیا گیا ہے کہ ‘ رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد، اور حضرت عمر ؓ کی خلافت کے ابتدائی دو سوالوں میں تین طلاق کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ پھر حضرت عمر ؓ نے کہا کہ لوگ ایک ایسے معاملہ میں جلد بازی کرنے لگے ہیں جس میں ان کے لیۓ سوچ سمجھ کر کام کرنے کی گنجائش رکھی گئی تھی۔ اب کیوں نہ ہم ان کے اس فعل کر نافذ کر دیں؟ چنانچہ انہوں نے اسے نافذ کر دیا ‘ لیکن یہ رائے کئی و جوہ سے قابل قبول نہیں ہے ۔ اول تو متعدد روایات کے مطابق ابن عباس کا اپنا فتوی اس کے خلاف تھا جیسا کہ ہم اوپر نقل کر چکے ہیں۔ دوسرے یہ بات ان احادیث کے بھی خلاف پڑتی ہے جو نبی ﷺ اور اکابر صحابہ ؓ سے منقول ہوئی ہیں، جن میں بیک وقت تین طلاق دینے والے کے متعلق یہ فتوی دیا گیا ہے کہ اس کی تینوں طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں۔ یہ احادیث بھی ہم نے اوپر نقل کر دی ہیں۔ تیسرے ، خود ابن عباس ؓ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ نے صحابہ ؓ کے مجمع میں تین طاقوں کو نافذ کرنے کا اعلان فرمایا تھا، لیکن نہ اس وقت، نہ اس کے بعد کبھی صحابہ میں سے کسی نے اس سے اختلاف کا اظہار کیا۔ اب کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ حضرت عمر ؓ سنت کے خلاف کسی کام کا فیصلہ کر سکتے تھے؟ اور سارے صحابہ ؓ اس سکوت بھی پر اختیار کر سکتے تھے؟ مزید براں رکا نہ بن عبید یز ید کے قصے میں ابو داؤد، ترمذی، ابن ماجہ، امام شافعی ؒ دارمی اور حاکم نے یہ روایت نقل کی ہے کہ رکا نہ نے جب ایک ہی مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں تو رسول ﷺ نے ان کو حلف دے کر پوچھا کہ ان کی نیت ایک ہی طلاق دینے کی تھی؟ (یعنی باقی دو طلاقیں پہلی طلاق پر زور دینے کے لیۓ ان کی زبان سے نکلی تھیں، تین طلاق دے کر ہمیشہ کے لیۓ جدا کر دینا مقصود نہ تھا ) اور جب انہوں نے یہ حلفیہ بیان دیا تو آپ نے ان کو رجوع کا حق دے دیا۔ اس سے اس معاملہ کی اصل حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ ابتدائی دور میں کسی قسم کی طلاقوں کو ایک کے حکم میں رکھا جاتا تھا۔ اسی بنا پر شارحین حدیث نے ابن عباس کی روایت کا یہ مطلب لیا ہے کہ ابتدائی دور میں چونکہ لوگوں کے اندر دینی معاملات میں خیانت قریب مفقود تھی، اس لیۓ تین طلاقیں محض پہلی طلاق پر زور دینے کے لیۓ اس کی زبان سے نکلی تھیں۔ لیکن حضرت عمر ؓ نے جب دیکھا کہ لوگ پہلے جلد بازی کر کے تین تین طلاقیں دے ڈالتے ہیں اور پھر تاکید کا بہانہ کرتے ہیں تو انہوں نے اس بہانے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ امام نودی اور امام سیکی نے اسے ابن عباس والی روایت کی بہترین تاویل قرار دیا ہے ۔ آخری بات یہ ہے کہ خود ابو الصباء کی ان روایات میں اضطراب پا یا جاتا ہے جو ابن عباس کے قول کے بارے میں ان سے مروی ہیں۔ مسلم اور ابو داؤد اور نسائی نے انہی ابو الصباء سے ایک روایت یہ نقل کی ہے کہ ان کے دریافت کرنے پر ان عباس نے فرمایا ‘ ایک شخص جب خلوت سے پہلے بیوی کو تین طلاقیں دیتا تھا تو رسول ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کے عہد اور حضرت عمر ؓ کے ابتدائی دور میں اس کو ایک طلاق قرار دیا جا تا تھا ‘ اس طرح ایک ہی راوی نے ابن عباس سے دو مختلف مضمونوں کی روایتیں نقل کی ہیں اور یہ اختلاف دونوں روایتوں کو کمزور کر دیتا ہے ۔ (3) حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کو چونکہ رسول ﷺ نے رجوع کا حکم دیا تھا،اس لیۓ فقہا ء کے درمیان یہ سوال پیدا ہوا ہے کہ یہ حکم کس معنی ہے۔ امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد، امام اوزاعی، ابن ابی لیلی، اسحاق بن راہویہ اور ابو ثور کہتے ہیں کہ ایسے شخص کو رجوع کا حکم تو دیا جاۓ گا مگر رجوع پر مجبور نہ کیا جاۓ گا (عمدۃ القاری)۔ ہدایہ ہیں حنفیہ کا مذہب یہ بیان کیا گیا ہے کہ اس صورت میں رجوع کرنا نہ صرف مستحب بلکہ واجب ہے ۔ مغنی المحتاج میں شافعیہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ جس نے حیض میں طلاق دی ہو اور تین نہ دے ڈالی ہوں اس کے لیۓ مسنون یہ ہے کہ وہ رجوع کرے، اور اس کے بعد والے طہر میں طلاق نہ دے بلکہ اس کے گزر نے کے بعد جب دوسری مرتبہ عورت حیض سے فارغ ہو تب طلاق دینا چاہے تو دے، تاکہ حیض میں دی ہوئی طلاق سے رجوع محض کھیل کے طور پر نہ ہو۔ الانصاف میں حنابلہ کا مسلک یہ بیان ہوا ہے کہ اس حالت میں طلاق دینے والے کے لیۓ رجوع کرنا مستحب ہے ۔ لیکن امام مالک ؒ اور ان کے اصحاب کہتے ہیں کہ حیض کی حالت میں طلاق دینا جرم قابل دست اندازیِ پولیس ہے ۔ عورت خواہ مطالبہ کرے یا نہ کرے ، بہر حال حاکم کا یہ فرض ہے کہ جب کسی شخص کا یہ فعل اس کے علم میں آۓ تو وہ اسے رجوع پر مجبور کر ے اور عدت کے آخری وقت تک اس پر دباؤ ڈلتا رہے ۔ اگر وہ انکار کرے تو اسے قید کر دے۔ پھر بھی انکار کرے تو اسے مارے ۔ اس پر نہ مانے تو حاکم خود فیصلہ کر دے کہ ‘میں نے تیری بیوی تجھ پر واپس کر دی ‘ اور حاکم کا یہ فیصلہ رجوع ہو گا جس کے بعد مرد کے لیۓ اس عورت سے مباشرت کرنا جائز ہو گا، خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، کیونکہ حاکم کی نیت کی قائم مقام ہے (حاشیہ الدسوتی) مالکیہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جس شخص نے طوعاً و کرہاً حیض میں دی ہوئی رجوع کر لیا ہو وہ اگر طلاق ہی دینا چاہے تو اس کے لیۓ مستحب طریقہ یہ ہے کہ جس حیض میں اس نے طلاق دی ہے اس کے بعد والے طہر میں سے طلاق نہ دے بلکہ جب دوبارہ حیض آنے کے بعد وہ طاہر ہو اس وقت طلاق دے۔ طلاق سے متصل والے طہر میں طلاق نہ دے نے کا حکم دراصل اس لیۓ دیا گیا ہے کہ حیض کی حالت میں طلاق دینے والے کا رجوع صرف ز بانی کلامی نہ ہو بلکہ اسے طہر کے زمانے میں عورت سے مباشرت کرنی چاہیے پھر جس طہر میں مباشرت کی جاچکی ہو اس میں طلاق دینا چونکہ ممنوع ہے ، لہذا طلاق دینے کا صحیح وقت اس کے والا طہر ہی ہے (حاشیہ الدسوتی)۔ (4) رجوعی طلاق دینے والے کے لیۓ رجوع کا موقع کسی وقت تک ہے؟ اس میں بھی فقہاء کے درمیان سے مراد تین حیض ہیں یا تین طہر؟ امام شافعی ؒ اور امام مالک ؒ کے نزدیک قرء سے مراد حیض ہے اور امام احمد بن حنبل کا معتبر مذہب بھی یہی ہے۔ یہ راۓ چاروں خلفاء راشدین، عبداللہ بن مسعود ؓ عبد اللہ بن عباس ؓ ابی بن کعب، معاز بن جبل، ابو الدردا، عبادہ بن صامت اور ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔ امام محمد نے مؤطا میں شعبی کا قول نقل کیا ہے کہ وہ رسول ﷺ کے 13 صحابیوں سے ملے ہیں، اور ان سب کی راۓ یہی تھی۔ اور یہی بکثرت تابعین نے بھی اختیار کی ہے ۔ اس اختلاف کی بنا شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک تیسرے حیض میں داخل ہوتے ہی عورت کی عدت ختم ہو جاتی ہے ، اور مرد کا حق رجوع ساقط ہو جاتا ہے۔ اور اگر طلاق حیض کی حالت میں دی گئی ہو، اس حیض کا شمار عدت میں نہ ہوگا، بلکہ چو تھے حیض میں داخل ہونے پر عدت ختم ہوگی (مضنی المحتاج أ حاشیہ الدستی) حنفیہ کا مذہب یہ ہے کہ اگر تیسرے حیض میں دس دن گزر نے پر خون بند ہو تو عورت کی عدت ختم نہ ہوگی جب تک عورت غسل نہ کرے، یا ایک نماز کا پورا وقت نہ گزر جاۓ۔ پانی نہ ہونے کی صورت میں امام ابو حنیفہ ؒ اور امام ابو یوسف ؒ کے نزدیک جب عورت تیمم کر کے نماز پڑ ھ لے اس وقت مرد کا حق رجوع ختم ہو گا، اور امام محمد کے نزدیک تیمم کرتے ہی حق رجوع ختم ہو جاۓ گا (ہدایہ ) امام احمد کا معتبر مذہب جس پر جمہور حنابلہ کا اتفاق ہے ، یہ ہے کہ جب تک عورت تیسرے حیض سے فارغ ہو کر غسل نہ کر لے مرد کا حق رجوع باقی رہے گا (لانصاف ) (5) رجوع کس طرح ہوتا ہے اور کس طرح نہیں ہوتا؟ اس مسئلے میں فقہاء کے درمیان یہ امر متفق علیہ ہے کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو رجعی طلاق دی ہو وہ عدت ختم ہونے پہلے چاہے رجوع کر سکتا ہے، خواہ عورت راضی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ قرآن مجید (سورہ بقرہ، آیت 228) میں فرما یا گیا ہے وَبُعُلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ ان کے شوہر اس مدت کے اندر انہیں واپس لے لینے کے پوری طرح حق دار ہیں ‘ اس سے خود بخود یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ عدت گزر نے سے پہلے تک ان کی زوجیت بر قرار رہتی ہے اور وہ انہیں قطعی طور پر چھوڑ دینے سے پہلے واپس لے سکتے ہیں۔ با لفاظ دیگر رجوع کوئی تجدید نکاح نہیں ہے کہ اس کے لیۓ عورت کی رضا ضروری ہو۔ شافعیہ کے نزدیک رجوع صرف قول ہی سے ہو سکتا ہے، عمل سے نہیں ہو سکتا۔ اگر آدمی زبان سے یہ نہ کہے کہ میں نے رجوع کیا تو مباشرت یا اختلاط کا کوئی فعل خواہ رجوع کی نیت ہی سے کیا گیا ہو، رجوع قرار نہیں دیا جا ۓ گا، بلکہ اس صورت میں عورت سے ہر قسم سے کا اتمتاع حرام ہے چاہے وہ بلا شہوت ہی ہو۔ لیکن مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کرنے پر حد نہیں ہے ، کیونکہ علماء کا اس کے حرام ہونے پر اتفاق نہیں ہے۔ البتہ جو اس کے حرام ہونے کا اعتقاد رکھتا ہوا سے تعزیز دی جاۓ گی۔ مزید براں آدمی رجوع بالقول کرے یا نہ کرے (مغنی المحتاج)۔ مالکیہ کہتے ہیں کہ رجوع قول اور فعل، دونوں سے ہو سکتا ہے۔ اگر رجوع بالقول میں آدمی صریح الفاظ استعمال کرے تو خواہ اس کی نیت رجوع کی ہو یا نہ ہو، رجوع ہو جاۓ گا، بلکہ اگر وہ مذاق کے طور پر بھی رجوع قرار دیے جائیں گے جبکہ وہ رجوع کی نیت سے کہے گۓ ہوں۔ رہا رجوع بالفعل تو کوئی فعل خواہ وہ اختلاط ہو، یا مباشرت، اس وقت تک رجوع قرار نہیں دیا جاسکتا جب تک کہ وہ رجوع کی نیت سے نہ کیا گیا ہو (حاشیتہ الدسوتی۔ احکام القرآن لابن العربی ) حنیفہ اور حنابلہ کا مسلک رجوع بالقول کے معاملہ میں وہی جو مالکیہ کا ہے ۔ ربا رجوع بالفعل، تو مالکیہ کے بر عکس ان دونوں مذاہب کا فتوی یہ ہے کہ شوہر اگر عدت کے اندر مطلقہ رجعیہ سے مباشرت کر لے تو وہ آپ سے آپ رجوع ہے، خواہ وہ مباشرت سے کم کسی درجے کا ہو، اور حنابلہ محض اختلاط کو رجوع نہیں مانتے ( ہدایہ، فتح القدیر، عمدۃ القاری، الانصاف ) (6)طلاق سنت اور طلاق بدعت کے نتائج کا فرق یہ ہے کہ ایک طلاق یا دو طلاق دینے کی صورت میں اگر عدت گزر بھی جاۓ تو مطلّقہ عورت اور اس کے سابق شوہر کے درمیان باہمی رضامندی سے پھر نکاح ہو سکتا ہے ۔لیکن اگر آدمی تین طلاق دے چکا ہو تو نہ عدّت کے اندر ر جوع ممکن ہے اور نہ عدّت گزر جانے کے بعد دو بارہ نکاح کیا جا سکتا ہے۔ الّا یہ کہ اُس عورت کا نکاح کسی اور شخص سے ہو، وہ نکاح صحیح نوعیت کاہو، دوسرا شوہر اُس عورت سے مباشرت بھہی کر چکا ہو،پہر یا تو وہ اسے طلاق دے دے یا مر جاۓ ۔اس کے بعد اگر عورت اور اس کا سابق شوہر رضامندی کے ساتھ از سرِ نو نکاح کرنا چاہیں توکر سکتے ہیں۔احادیث کی اکثر کتابوں میں صحیح سند کے ساتھ یہ روایت آئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں، پھر اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا، اور اس دوسرے شوہر کے ساتھ اس کی خلوت بھی ہوئی مگر مباشرت نہیں ہوئی، پھر اس نے اسے طلاق دے دی، اب کیا اس عورت کا اپنے ساق شوہر سے دوبارہ نکاح ہو سکتا ہے؟ حضورؐ نے جواب دیا: لا، حتّٰی یزوق الاٰخر من عسَیْلتھا ما ذاق الاول۔’’ نہیں، جب تک کہ دوسرا شوہر اس سے اسی طرح لطف اندوز نہ ہو چکا ہو جس طرح پہلا شوہر ہوا تھا’’۔ رہ سازشی نکاح، جس میں پہلے سے یہ طے شدہ ہو کہ عورت کو سابق شوہر کے لیے حلال کرنے کی خاطر ایک آدمی اس سے نکاح کرے گا اور مباشرت کرنے کے بعد اسے طلاق دیدے گا، تو امام ابو یوسفؒ کے نزدیک یہ نکاح فاسد ہے ، اور امام ابو حنفیہؒ کے نزدیک اس سے تحلیل تو ہو جاۓ گی، مگر یہ فعل مگر وہ تحریمی ہے ۔ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا لعن اللہ المحلل و المحلل لہ،’’اللہ نے تحلیل کرنے والے اور تحلیل کرانے والے ، دونوں پر لعنت فرمائی ہے ‘‘(ترمذی، نسائی)۔ حضرت عقبہ بن عامر کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ سے پوچھا الا اخبر کم بالتیس المستعار؟ ’’ کیا میں تمہیں نہ بتاؤں کہ کراۓ کا سانڈ کون ہوتا ہے ؟ ’’ صحابہؓ نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں۔ فرمایا حوالمحلل، لعن اللہ المحلل و المحلل لہ۔’’ وہ تحلیل کرنے والا ہے ۔ خدا کی لعنت ہے تحلیل کرنے والے پر بھی اور اس شخص پر بھی جس کے لیے تحلیل کی جاۓ ‘‘(ابن ماجہ۔ دارقطنی) |