Ayats Found (3)
Surah 8 : Ayat 26
وَٱذْكُرُوٓاْ إِذْ أَنتُمْ قَلِيلٌ مُّسْتَضْعَفُونَ فِى ٱلْأَرْضِ تَخَافُونَ أَن يَتَخَطَّفَكُمُ ٱلنَّاسُ فَـَٔـاوَٮٰكُمْ وَأَيَّدَكُم بِنَصْرِهِۦ وَرَزَقَكُم مِّنَ ٱلطَّيِّبَـٰتِ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ
یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تھوڑے تھے، زمین میں تم کو بے زور سمجھا جاتا تھا، تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں پھر اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی، اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبُوط کیے اور تمہیں اچھا رزق پہنچایا، شاید کہ تم شکر گزار بنو1
1 | یہاں شکر گزاری کا لفظ غور کے قابل ہے ۔ اوپر کے سلسلہ تقریر کو نظر میں رکھا جائے تو صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ اس موقع پر شکر گزاری کا مفہوم صرف اتنا ہی نہیں ہے کہ لوگ اللہ کے اس احسان کو مانیں کہ اس نے ا س کمزوری کی حالت سے انہیں نکا لا اور مکہ کی پر خطر زندگی سے بچا کر امن کی جگہ لے آیا جہاں طیبات رزق میسر ہو رہے ہیں، بلکہ اس کے ساتھ یہ بات بھی اسی شکر گزاری کےمفہوم میں داخل ہے کہ مسلمان اُس خدا کی اور اُس کے رسول کی اطاعت کریں جس نے یہ احسانات ان پر کیے ہیں، اور رسول کے مشن میں اخلاص و جاں نثاری کے ساتھ کام کریں، اور اس کام میں جو خطرات و مہالک اور مصائب پیش آئیں ان کا مردانہ وار مقابلہ اُسی خدا کے بھروسے پر کرتے چلے جائیں جس نے اس سے پہلے ان کو خطرات سے بعافیت نکالا ہے، اور یقین رکھیں کہ جب وہ خدا کا کام اخلاص کے ساتھ کریں گے تو خدا ضرور ان کا وکیل و کفیل ہوگا۔ پس شکر گزاری محض اعترافی نوعیت ہی کی مطلوب نہیں ہے بلکہ عملی نوعیت کی بھی مطلوب ہے۔ احسان کا اعتراف کرنے کے باوجود محسن کی رضا جوئی کے لیے سعی نہ کرنا اور اس کی خدمت میں مخلص نہ ہونا اور اس کے بارے میں یہ شک رکھنا کہ نہ معلوم آئندہ بھی وہ احسان کریگا یا نہیں، ہر گز شکر گزاری نہیں ہے بلکہ اُلٹی نا شکری ہے |
Surah 30 : Ayat 47
وَلَقَدْ أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ رُسُلاً إِلَىٰ قَوْمِهِمْ فَجَآءُوهُم بِٱلْبَيِّنَـٰتِ فَٱنتَقَمْنَا مِنَ ٱلَّذِينَ أَجْرَمُواْۖ وَكَانَ حَقًّا عَلَيْنَا نَصْرُ ٱلْمُؤْمِنِينَ
اور ہم نے تم سے پہلے رسُولوں کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے پاس روشن نشانیاں لے کر آئے1، پھر جنہوں نے جرم کیا2 اُن سے ہم نے انتقام لیا اور ہم پر یہ حق تھا کہ ہم مومنوں کی مدد کریں
2 | یعنی جولوگ ان دونوں نشانیوں کی طرف سےاندھے بن کرتوحیدسےانکارپرجمےرہےاورخداسےبغاوت ہی کیےچلےگئے۔ |
1 | یعنی ایک قسم کی نشانیاں تووہ ہیں جوکائناتِ فطرت میں ہرطرف پھیلی ہوئی ہیں،جن سےانسان کواپنی زندگی میں ہرآن سابقہ پیش آتاہے،جن میں سےایک ہواؤں کی گردش کایہ نظام ہےجس کااوپرکی آیت میں ذکرکیا گیاہے۔اوردوسری قسم کی نشانیاں وہ ہیں جوانبیاءعلیہ السلام معجزات کی صورت میں،کلامِ الٰہی کی صورت میں،اپنی غیرمعمولی پاکیزہ سیرت کی شکل میں،اورانسانی معاشرے پراپنی حیات بخش تاثیرات کی شکل میں لےکرآئے۔یہ دونوں قسم کی نشانیاں ایک ہی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہیں،اوروہ یہ ہےکہ جس توحیدکی تعلیم انبیاءدےرہےہیں وہی برحق ہے۔ان میں سے ہرنشانی دوسری کی موٴیّد ہے۔کائنات کی نشانیاں انبیاء کےبیان کی صداقت پرشہادت دیتی ہیں اورانبیاءکی لائی ہوئی نشانیاں اُس حقیقت کوکھولتی ہیں جس کی طرف کائنات کی نشانیاں اشارے کررہی ہیں۔ |
Surah 40 : Ayat 51
إِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ فِى ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَا وَيَوْمَ يَقُومُ ٱلْأَشْهَـٰدُ
یقین جانو کہ ہم اپنے رسولوں اور ایمان لانے والوں کی مدد اِس دنیا کی زندگی میں بھی لازماً کرتے ہیں1، اور اُس روز بھی کریں گے جب گواہ کھڑے ہوں گے2،
2 | یعنی جب اللہ کی عدالت قائم ہو گی اور اس کے حضور گواہ پیش کیے جائیں گے |
1 | تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، الصافّات، حاشیہ نمبر 93 |