Ayats Found (6)
Surah 2 : Ayat 169
إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلْفَحْشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں1
1 | یعنی ان وہمی رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ خیال کہ یہ سب مذہبی اُمور ہیں جو خدا کی طرف سے تعلیم کیے گئے ہیں، دراصل شیطانی اِغوا کا کرشمہ ہے۔ اس لیے کہ فی الواقع ان کے مِن جانب اللہ ہونے کی کوئی سَنَد موجود نہیں ہے |
Surah 2 : Ayat 268
ٱلشَّيْطَـٰنُ يَعِدُكُمُ ٱلْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُم بِٱلْفَحْشَآءِۖ وَٱللَّهُ يَعِدُكُم مَّغْفِرَةً مِّنْهُ وَفَضْلاًۗ وَٱللَّهُ وَٲسِعٌ عَلِيمٌ
شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرز عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی امید دلاتا ہے اللہ بڑا فراخ دست اور دانا ہے
Surah 3 : Ayat 135
وَٱلَّذِينَ إِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً أَوْ ظَلَمُوٓاْ أَنفُسَهُمْ ذَكَرُواْ ٱللَّهَ فَٱسْتَغْفَرُواْ لِذُنُوبِهِمْ وَمَن يَغْفِرُ ٱلذُّنُوبَ إِلَّا ٱللَّهُ وَلَمْ يُصِرُّواْ عَلَىٰ مَا فَعَلُواْ وَهُمْ يَعْلَمُونَ
اور جن کا حال یہ ہے کہ اگر کبھی کوئی فحش کام ان سے سرزد ہو جاتا ہے یا کسی گناہ کا ارتکاب کر کے وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو معاً اللہ انہیں یاد آ جاتا ہے اور اس سے وہ اپنے قصوروں کی معافی چاہتے ہیں کیونکہ اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کرسکتا ہو او ر وہ دیدہ و دانستہ اپنے کیے پر اصرار نہیں کرتے
Surah 7 : Ayat 28
وَإِذَا فَعَلُواْ فَـٰحِشَةً قَالُواْ وَجَدْنَا عَلَيْهَآ ءَابَآءَنَا وَٱللَّهُ أَمَرَنَا بِهَاۗ قُلْ إِنَّ ٱللَّهَ لَا يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِۖ أَتَقُولُونَ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
یہ لوگ جب کوئی شرمناک کام کرتے ہیں تو کہتے ہیں ہم نے اپنے باپ دادا کو اسی طریقہ پر پایا ہے اور اللہ ہی نے ہمیں ایسا کرنے کا حکم دیا 1ہے اِن سے کہو اللہ بے حیائی کا حکم کبھی نہیں دیا کرتا2 کیا تم اللہ کا نام لے کر وہ باتیں کہتے ہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے (وہ اللہ کی طرف سے ہیں)؟
2 | بظاہر یہ ایک بہت ہی مختصر سا جملہ ہے مگر درحقیقت اس میں قرآن مجید نے ان لوگوں کے جا ہلانہ عقائد کے خلاف ایک بہت بڑی دلیل پیش کی ہے۔ اس طرزِ استدلال کو سمجھنے کے لیے دو باتیں بظور مقدمہ کے پہلے سمجھ لینی چاہییں: ایک یہ کہ اہل عرب اگرچہ اپنی بعض مذہبی رسموں میں برہنگی اختیار کرتے تھےاور اسےایک مقدس مذہبی فعل سمجھتے تھے، لیکن بر ہنگی کا بجائے خود ایک شرمناک فعل ہونا خود ان کے نزدیک بھی مسلَّم تھا، چناچہ کوئی شریف اور ذی عزت عرب اس بات کو پسند نہ کرتا تھا کہ کسی مہذب مجلس میں ، یا بازار میں ، یا اپنے اعزّہ اور اقربا کے درمیان برہنہ ہو۔ دوسرے یہ کہ وہ لوگ برہنگی کو شرمنا ک جاننے کے باوجود ایک مذہبی رسم کی حیثیت سے اپنی عبادت کے موقع پر اختیار کرتے تھے اور چونکہ اپنے مذہب کو خدا کی طرف سے سمجھتے تھے اس لیے کہ ان کا دعویٰ تھا کہ یہ رسم بھی خدا ہی کی طرف سے مقرر کی ہوئی ہے۔ اس پر قرآن مجید یہ استد لال کرتا ہے کہ جو کام فحش ہے اور جسے تم خود بھی جانتے اور مانتے ہو کہ فحش ہے اس کے متعلق تم یہ کیسے باور کر لیتے ہو کہ خدا نے اس کا حکم دیا ہوگا۔ کسی فحش کا م کا حکم خدا کی طرف سے ہر گز نہیں ہو سکتا، اور اگر تمہارے مذہب میں ایسا حکم پایا جاتا ہے تو یہ اس بات کی صریح علامت ہے کہ تمہارا مذہب خدا کی طرف سے نہیں ہے |
1 | اشارہ ہے اہل عرب کے برہنہ طواف کی طرف ، جس کا ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں۔ وہ لوگ اس کو ایک مذہبی فعل سمجھ کر کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ خدا نے یہ حکم دیا ہے |
Surah 12 : Ayat 24
وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِۦۖ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَآ أَن رَّءَا بُرْهَـٰنَ رَبِّهِۦۚ كَذَٲلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ ٱلسُّوٓءَ وَٱلْفَحْشَآءَۚ إِنَّهُۥ مِنْ عِبَادِنَا ٱلْمُخْلَصِينَ
وہ اُس کی طرف بڑھی اور یوسفؑ بھی اس کی طرف بڑھتا اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا 1ایسا ہوا، تاکہ ہم اس سے بدی اور بے حیائی کو دور کر دیں2، در حقیقت وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں میں سے تھا
2 | اس ارشاد کے دو مطلب ہوسکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اس کا دلیلِ رب کو دیکھنا اور گناہ سے بچ جانا ہماری توفیق و ہدایت سے ہُوا کیونکہ ہم اپنے اس منتخب بندے سے بدی اور بے حیائی کو دور کرنا چاہتے تھے۔ دوسرا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے، اور یہ زیادہ گہرا مطلب ہے کہ یوسف ؑ کو یہ معاملہ جو پیش آیا تو یہ بھی دراصل ان کی تربیت کے سلسلہ میں ایک ضروری مرحلہ تھا۔ ان کوبدی اور بے حیائی سے اپک کرنے اور ان کی طہارتِ نفس کو درجہٴ کمال پر پہنچانے کے لیے مصلحتِ الہٰی میں یہ ناگزیر تھا کہ ان کے سامنے معصیت کا ایک ایسا نازک موقع پیش آئے اور اس آزمائش کے وقت وہ اپنے ارادے کی پوری طاقت پرہیز گاری و تقویٰ کے پلڑے میں ڈال کر اپنے نفس کے بُرے میلانات کو ہمیشہ کے لیے قطعی طور پر شکست دے دیں۔ خصوصیت کے ساتھ اس مخصوص طریقہٴ تربیت کے اختیار کرنے کی مصلحت اور اہمیت اُس اخلاقی ماحول کو نگاہ میں رکھنے سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے جو اُس وقت کی مصری سوسائٹی میں پایا جاتا تھا۔ آگے رکوع ۴ میں اس ماحول کی جو ایک ذراسی جھلک دکھائی گئی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کے ”مہذب مصر“ میں بالعموم اور اُس کے اونچے طبقے میں بالخصوص صنفی آزادی قریب قریب اسی پیمانے پر تھی جس پر ہم اپنے زمانے کے اہل مغرب اور مغرب زدہ طبقوں کو ”فائز“ پارہے ہیں۔ حضرت یوسف ؑ کے ایسے بگڑے ہوئے لوگوں میں رہ کر کام کرنا تھا، اور کام بھی ایک معمولی آدمی کی حیثیت سے نہیں بلکہ فرمانروائے ملک کی حیثیت سے کرنا تھا۔ اب یہ ظاہر ہے کہ جو خواتینِ کرام ایک حَسین غلام کے آگے بچھی جارہی تھیں، وہ ایک جوان اور خوبصورت فرمانروا کو پھانسنے اور بگاڑنے کے لیے کیا نہ کر گزرتیں۔ اسی کی پیش بندی اللہ تعالیٰ نے اس طرح فرمائی کہ ایک طرف تو ابتدا ہی میں اِس آزمائش سے گزار کر حضرت یوسف ؑ کو پختہ کردیا، اور دوسری طرف خود خواتین مصر کو بھی ان سے مایوس کرکے ان کے سارے فتنوں کا دروازہ بند کردیا |
1 | برہان کے معنی ہیں دلیل اور حجت کے۔ رب کی برہان سے مراد خدا کی سُجھائی ہوئی وہ دلیل ہے جس کی بنا پر حضرت یوسفؑ کے ضمیر نے اُن کے نفس کو اس بات کا قائل کیا کہ اس عورت کی دعوت عیش قبول کرنا تجھے زیبا نہیں ہے۔ اور دلیل تھی کیا؟ اسے پچلے فقرے میں بیان کیا جا چکا ہے، یعنی یہ کہ میرے رب نے مجھے یہ منزلت بخشی اور میں ایسا بُرا کام کروں، ایسے ظالموں کو فلاح نصیب نہیں ہوا کرتی ۔ یہی وہ برہانِ حق تھی جس نے سیّد نا یوسفؑ بھی اس کی طرف اگر اپنے رب کی برہان نہ دیکھ لیتا تو اس سے عصمت انبیاء کی حقیقت سے باز رکھا۔ نبی کی معصومیت کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس سے گناہ اور لغزش و خطا کی قوت داستعداد سلب کر لی گئی ہے حتیٰ کہ گناہ کا صدور اس کے امکان ہی میں نہیں رہا ہے۔ بلکہ اس کے معنی یہ ہیں کہ نبی اگرچہ گناہ کرنے پر قادر ہوتا ہے لیکن بشریت کی تمام صفات سے متصف ہونے کے باوجود، اور جملہ انسانی جزبات، احساسات اور خواہشات رکھتے ہوئے بھی وہ ایسا نیک نفس اور خدا ترس ہوتا ہے کہ جان بوجھ کر کبھی گناہ کا قصد نہیں کرتا۔ وہ اپنے ضمیر میں اپنے رب کی ایسی ایسی زبردست حجتیں اور دلیلیں رکھتا ہے جن کے مقابلہ میں خواہش نفس کبھی کامیاب نہیں ہونے پاتی۔ اور اگر نادانستہ اس سے کوئی لغزش نہیں ہے، ایک پوری اُمت کی لغزش ہے۔ وہ راہِ راست سے بال برابر ہٹ جائے تو دنیا گمراہی میں میلوں دُور نکل جائے۔ |
Surah 24 : Ayat 21
۞ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لَا تَتَّبِعُواْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِۚ وَمَن يَتَّبِعْ خُطُوَٲتِ ٱلشَّيْطَـٰنِ فَإِنَّهُۥ يَأْمُرُ بِٱلْفَحْشَآءِ وَٱلْمُنكَرِۚ وَلَوْلَا فَضْلُ ٱللَّهِ عَلَيْكُمْ وَرَحْمَتُهُۥ مَا زَكَىٰ مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ أَبَدًا وَلَـٰكِنَّ ٱللَّهَ يُزَكِّى مَن يَشَآءُۗ وَٱللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو اس کی پیروی کوئی کرے گا تو وہ اسے فحش اور بدی ہی کا حکم دے گا اگر اللہ کا فضل اور اس کا رحم و کرم تم پر نہ ہوتا تو تم میں سے کوئی شخص پاک نہ ہوسکتا1 مگر اللہ ہی جسے چاہتا ہے پاک کر دیتا ہے، اور اللہ سننے والا اور جاننے والا ہے2
2 | یعنی اللہ کی یہ مشیت کہ وہ کسے پاکیزگی بخشے ، اندھا دھند نہیں ہے بلکہ علم کی بنا پر ہے۔ اللہ جانتا ہے کہ کس میں بھلائی کی طلب موجود اور کون برائی کی رغبت رکھتا ہے۔ ہر شخص اپنی خلوتوں میں جو باتیں کرتا ہے انہیں اللہ سن رہا ہوتا ہے۔ ہر شخص اپنے دل میں بھی جو کچھ سوچا کرتا ہے ، اللہ اس سے بے خبر نہیں رہتا۔ اسی براہ راست علم کی بنا پر اللہ فیصلہ کرتا ہے کہ کسے پاکیزگی بخشے اور کسے نہ بخشے |
1 | یعنی شیطان تو تمہیں برائی کی نجاستوں میں آلودہ کرنے کے لیے اس طرح تُلا بیٹھا ہے کہ اگر اللہ اپنے فضل و کرم سے تم کو نیک و بد کی تمیز نہ سمجھاۓ اور تم کو اصلاح کی تعلیم و توفیق سے نہ نوازے تو تم میں سے کوئی شخص بھی اپنے بل بوتے پر پاک نہ ہو سکے |