Ayats Found (12)
Surah 2 : Ayat 59
فَبَدَّلَ ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيْرَ ٱلَّذِى قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزًا مِّنَ ٱلسَّمَآءِ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
مگر جو بات کہی گئی تھی، ظالموں نے اُسے بدل کر کچھ اور کر دیا آخر کار ہم نے ظلم کرنے والوں پر آسمان سے عذاب نازل کیا یہ سزا تھی ان نافرمانیوں کی، جو وہ کر رہے تھے
Surah 3 : Ayat 82
فَمَن تَوَلَّىٰ بَعْدَ ذَٲلِكَ فَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ
اس کے بعد جو اپنے عہد سے پھر جائے وہی فاسق ہے1"
1 | اِس ارشاد سے مقصُود اہلِ کتاب کو متنبہ کرنا ہے کہ تم اللہ کے عہد کو توڑ رہے ہو ، محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار اور ان کی مخالفت کر کے اُس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہو، جو تمہارے انبیاء سے لیا گیا تھا، لہٰذا اب تم فاسق ہو چکے ہو، یعنی اللہ کی اطاعت سے نِکل گئے ہو |
Surah 3 : Ayat 110
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِۗ وَلَوْ ءَامَنَ أَهْلُ ٱلْكِتَـٰبِ لَكَانَ خَيْرًا لَّهُمۚ مِّنْهُمُ ٱلْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ ٱلْفَـٰسِقُونَ
اب دنیا میں وہ بہترین گروہ تم ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے1 تم نیکی کا حکم دیتے ہو، بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو یہ اہل کتاب2 ایمان لاتے تو انہی کے حق میں بہتر تھا اگرچہ ان میں کچھ لوگ ایمان دار بھی پائے جاتے ہیں مگر اِن کے بیشتر افراد نافرمان ہیں
2 | یہاں اہلِ کتاب سے مراد بنی اسرائیل ہیں |
1 | یہ وہی مضمون جو سورہ ٴ بقرہ کے سترھویں رکوع میں بیان ہو چکا ہے ۔ نبی ِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے متبعین کو بتایا جا رہا ہے کہ دُنیا کی امامت و رہنمائی کے جس منصب سے بنی اسرائیل اپنی نا اہلی کے باعث معزول کیے جا چکے ہیں اس پر اب تم مامور کیے گئے ہو۔ اس لیے کے اخلاق و اعمال کے لحاظ سے اب تم دنیا میں سب سے بہتر انسانی گروہ بن گئے ہو اور تم میں وہ صفات پیدا ہو گئی ہیں جو امامتِ عادلہ کے لیے ضروری ہیں ، یعنی نیکی کو قائم کرنے اور بدی کو مٹانے کا جذبہ و عمل اور اللہ وحدہ لاشریک کو اعتقاداً و عملاً اپنا الٰہ اور ربّ تسلیم کرنا۔ لہٰذا اب یہ کام تمہارے سپرد کیا گیا ہے اور تمہیں لازم ہے کہ اپنی ذمّہ داریوں کو سمجھو اور اُن غلطیوں سے بچو جو تمہارے پیش رو کر چکے ہیں۔ (ملاحظہ ہو سُورہٴ بقرہ حاشیہ نمبر ١۲۳ و نمبر ١۴۴) |
Surah 5 : Ayat 25
قَالَ رَبِّ إِنِّى لَآ أَمْلِكُ إِلَّا نَفْسِى وَأَخِىۖ فَٱفْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ ٱلْقَوْمِ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اس پر موسیٰؑ نے کہا "اے میرے رب، میرے اختیار میں کوئی نہیں مگر یا میری اپنی ذات یا میرا بھائی، پس تو ہمیں اِن نافرمان لوگوں سے الگ کر دے"
Surah 5 : Ayat 26
قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْۛ أَرْبَعِينَ سَنَةًۛ يَتِيهُونَ فِى ٱلْأَرْضِۚ فَلَا تَأْسَ عَلَى ٱلْقَوْمِ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اللہ نے جواب دیا 1"اچھا تو وہ ملک چالیس سال تک اِن پر حرام ہے، یہ زمین میں مارے مارے پھریں گے، اِن نافرمانوں کی حالت پر ہرگز ترس نہ کھاؤ2"
2 | یہاں اس واقعہ کا حوالہ دینے کی غرض سلسلۂ بیان پر غور کرنے سے صاف سمجھ میں آجاتی ہے۔ قصہ کے پیرایہ میں دراصل بنی اسرائیل کو یہ جتانا مقصُود ہے کہ موسیٰ کے زمانہ میں نافرمانی ، انحراف اور پست ہمتی سے کام لے کر جو سزا تم نے پائی تھی ، اب اس سے بہت زیادہ سزا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلہ میں باغیانہ روش اختیار کر کے پاؤ گے |
1 | سُوْرَةُ الْمَآىِٕدَة حاشیہ نمبر:47: : |
Surah 5 : Ayat 59
قُلْ يَـٰٓأَهْلَ ٱلْكِتَـٰبِ هَلْ تَنقِمُونَ مِنَّآ إِلَّآ أَنْ ءَامَنَّا بِٱللَّهِ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَآ أُنزِلَ مِن قَبْلُ وَأَنَّ أَكْثَرَكُمْ فَـٰسِقُونَ
اِن سے کہو، "اے اہل کتاب! تم جس بات پر ہم سے بگڑے ہو وہ اس کے سوا اور کیا ہے کہ ہم اللہ پر اور دین کی اُس تعلیم پر ایمان لے آئے ہیں جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور ہم سے پہلے بھی نازل ہوئی تھی، اور تم میں سے اکثر لوگ فاسق ہیں؟"
Surah 5 : Ayat 81
وَلَوْ كَانُواْ يُؤْمِنُونَ بِٱللَّهِ وَٱلنَّبِىِّ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْهِ مَا ٱتَّخَذُوهُمْ أَوْلِيَآءَ وَلَـٰكِنَّ كَثِيرًا مِّنْهُمْ فَـٰسِقُونَ
اگر فی الواقع یہ لوگ اللہ اور پیغمبرؐ اور اُس چیز کے ماننے والے ہوتے جو پیغمبر پر نازل ہوئی تھی تو کبھی (اہل ایمان کے مقابلے میں) کافروں کو اپنا رفیق نہ بناتے1 مگر ان میں سے تو بیشتر لوگ خدا کی اطاعت سے نکل چکے ہیں
1 | مطلب یہ ہے کہ جو لوگ خدا اور نبی اور کتاب کے ماننے والے ہوتے ہیں انہیں فطرۃً مشرکین کے مقابلہ میں اُن لوگوں کے ساتھ زیادہ ہمدردی ہوتی ہے جو مذہب میں خواہ ان سے اختلاف ہی رکھتے ہوں ، مگر بہرحال انہی کی طرح خدا اور سلسلہء وحی و رسالت کو مانتے ہوں۔ لیکن یہ یہُودی عجیب قسم کے اہلِ کتاب ہیں کہ توحید اور شرک کی جنگ میں کھُلم کھُلا مشرکین کا ساتھ دے رہے ہیں ، اقرارِ نبوّت اور انکارِ نبوّت کے لڑائی میں علانیہ ان کی ہمدردیاں منکرینِ نبوّت کے ساتھ ہیں، اور پھر بھی وہ بلا کسی شرم و حیا کے یہ دعویٰ رکھتے ہیں کہ ہم خدا اور پیغمبروں اور کتابوں کے ماننے والے ہیں |
Surah 7 : Ayat 163
وَسْــَٔلْهُمْ عَنِ ٱلْقَرْيَةِ ٱلَّتِى كَانَتْ حَاضِرَةَ ٱلْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِى ٱلسَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَۙ لَا تَأْتِيهِمْۚ كَذَٲلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
اور ذرا اِن سے اُ س بستی کا حال بھی پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی1 اِنہیں یاد دلاؤ وہ واقعہ کہ وہاں کے لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے اور یہ کہ مچھلیاں سبت ہی کے دن ابھر ابھر کر سطح پر اُن کے سامنے آتی تھیں2 اور سبت کے سوا باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں یہ اس لیے ہوتا تھا کہ ہم ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے ان کو آزمائش میں ڈال رہے تھے3
3 | اللہ تعالیٰ بندوں کی آزمائش کے لیے جو طریقے اختیار فرماتا ہے ان میں سے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ جب کسی شخص یا گروہ کے اندر فرماں برداری سے انحراف اور نا فرمانی کی جانب میلان بڑھنے لگتا ہے تو اس کے سامنے نا فرمانی کے مواقع کا دروازہ کھول دیا جاتا ہے تاکہ اس کے وہ میلانات جو اندر چھپے ہوئے ہیں کھل کر پوری طرح نمایاں ہو جائیں اور جن جرائم سے وہ اپنے دامن کو خود داغ دار کرنا چاہتا ہے ان سے وہ صرف اس لیے باز نہ رہ جائے کہ ان کے ارتکاب کے مواقع اُسے نہ مل رہے ہوں |
2 | ”سبت“ ہفتہ کے دن کو کہتے ہیں۔ یہ دن بنی اسرائیل کے لیے مقدس قرار دیاگیا تھا اور اللہ تعالیٰ نےاسے اپنے اور اولادِ اسرائیل کے درمیان پشت در پشت تک دائمی عہد کا نشان قرار دیتے ہوئے تاکید کی تھی کہ اس روز کوئی دنیاوی کام نہ کیا جائے، گھروں میں آگ تک نہ جلائی جائے، جانوروں اور لونڈی غلاموں تک سے کوئی خدمت نہ لی جائے اور یہ کہ جو شخص اس ضابطہ کی خلاف ورزی کرے اسے قتل کر دیا جائے۔ لیکن بنی اسرائیل نے آگے چل کر اس قانون کی علانیہ خلاف ورزی شروع کر دی۔ یرمیاہ نبی کے زمانہ میں (جو ٦۲۸ ء اور ۵۸٦ء قبل مسیح کے درمیان گزرے ہیں) خاص یر وشلم کے پھاٹکوں سے لوگ سبت کے دن مال اسباب لے لے کر گزرتے تھے۔ اس پر نبی موصوف نے خدا کی طرف سے یہودیوں کو دھمکی دی کہ اگر تم لوگ شریعت کی اس کھلم کھلا خلاف ورزی سے باز نہ آئے تو یردشلم نذر ِ آتش کردیا جائے گا(یرمیاہ ١۷:۲١۔۲۷)۔ اسی کی شکایت حزقی ایل نبی بھی کرتے ہیں جن کا دور۵۹۵ء اور۵۳٦ ء قبل مسیح کے درمیان گزرا ہے، چنانچہ ان کی کتاب میں سبت کی بے حرمتی کو یہودیوں کے قومی جرائم میں سے ایک بڑا جرم قرار دیا گیا ہے(حزقی ایل۲۰:١۲۔۲۴)۔ ان حوالوں سے یہ گمان کیا جاسکتا ہے کہ قرآن مجید یہاں جس واقعہ کا ذکر کر رہا ہے وہ بھی غالباً اسی دور کا واقعہ ہو گا |
1 | محققین کا غلاب میلان اس طرف ہے کہ یہ مقام اَیلہ یا اَیلات یا اَیلوت تھا جہاں اب اسرائیل کی یہودی ریاست نے اسی نام کی ایک بندرگاہ بنائی ہے اور جس کے قریب ہی اُردن کی مشہور بندرگاہ عَقَبہ واقع ہے۔ اس کی جائے وقوع بحرِ قلزم کی اُس شاخ کے انتہائی سرے پر ہے جو جزیرہ نمائے سینا کے مشرقی اور عرب کے مغربی ساحل کے درمیان ایک لمبی خلیج کی صورت میں نظر آتی ہے ۔ بنی اسرائیل کے زمانہ عروج میں یہ بڑا اہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان نے اپنے بحرِ قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اِسی شہر کو بنایا تھا۔ جس واقعہ کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے اس کے متعلق یہودیوں کی کتب ِ مقدسہ میں کوئی ذکر ہمیں نہیں ملتا اور ان کی تاریخیں بھی اس باب میں خاموش ہیں، مگر قرآن مجید میں جس انداز سے اس واقعہ کو یہاں اور سورہ بقرہ میں بیان کیا گیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نزولِ قرآن کے دور میں بنی اسرائیل بالعموم اس واقعہ سے خوب واقف تھے، اور یہ حقیقت ہے کہ مدینہ کے یہودیوں نے، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے، قرآن کے اس بیان پر قطعاً کوئی اعتراض نہیں کیا |
Surah 7 : Ayat 165
فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِۦٓ أَنجَيْنَا ٱلَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ ٱلسُّوٓءِ وَأَخَذْنَا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابِۭ بَــِٔيسِۭ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا1
1 | اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کر تے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو بر داشت نہ کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ اِن تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا ۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے، لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے ۔ پھر ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا ، بعد میں ان کے شاگرد عِکرِمہ نے ان کو مطمئن کر دیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا ۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیلا ہی صحیح تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا، تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق کے بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام ِ الہٰی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابلِ مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ اُسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حدِ استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہاتھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وَاتَّقُوْ ا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ ا لَّذَینَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَآصَّةً(ڈرو اُس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو)۔ اور اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامة بعمل الخاصة حتٰی یرو االمنکربین ظھر ا ینھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصة و العامة، یعنی ”اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامتہالناس کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ِ ناراضگی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضگی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“۔ مزید برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس (سخت عذاب)فرمایا گیا ہے ، اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے، اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا، و اللہ اعلم بالصواب۔ اِن ا صبتُ فمن اللہ وان ا خطَئْتُ فمن نفسی، واللہ غفورٌ رحیم |
Surah 57 : Ayat 16
۞ أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ ءَامَنُوٓاْ أَن تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ ٱللَّهِ وَمَا نَزَلَ مِنَ ٱلْحَقِّ وَلَا يَكُونُواْ كَٱلَّذِينَ أُوتُواْ ٱلْكِتَـٰبَ مِن قَبْلُ فَطَالَ عَلَيْهِمُ ٱلْأَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ فَـٰسِقُونَ
کیا ایمان لانے والوں کے لیے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ اُن کے دل اللہ کے ذکر سے پگھلیں اور اُس کے نازل کردہ حق کے آگے جھکیں1 اور وہ اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی تھی، پھر ایک لمبی مدت اُن پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہو گئے اور آج ان میں سے اکثر فاسق بنے ہوئے ہیں؟2
2 | یعنی یہود و نصاریٰ تو اپنے انبیاء کے سینکڑوں برس بعد آج تمہیں اس بے حسی اور روح کی مردنی اور اخلاق کی پستی میں مبتلا نظر آ رہے ہیں ۔ کیا تم اتنے گۓ گزرے ہو کہ ابھی رسول تمہارے سامنے موجود ہے ، خدا کی کتاب نازل ہو رہی ہے ، تمہیں ایمان لاۓ کچھ زیادہ زمانہ بھی نہیں گزرا ہے ، اور ابھی سے تمہارا حال وہ ہو رہا ہے جو صدیوں تک خدا کے دین اور اس کی آیات سے کھیلتے رہنے کے بعد یہود و نصاریٰ کا ہوا ہے ؟ |
1 | یہاں پھر ’’ ایمان لانے والوں ‘‘ کے الفاظ تو عام ہیں مگر ان سے مراد تمام مسلمان نہیں بلکہ مسلمانوں کا وہ خاص گروہ ہے جو ایمان کا اقرار کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں میں شامل ہو گیا تھا اور اس کے باوجود اسلام کے درد سے اس کا دل خالی تھا۔ آنکھوں سے دیکھ رہا تھا کہ کفر کی تمام طاقتیں اسلام کو مٹا دینے پر تُلی ہوئی ہیں ، چاروں طرف سے انہوں نے اہل ایمان کی مٹھی بھر جماعت پر نرغہ کر رکھا ہے ، عرب کی سر زمین میں جگہ جگہ مسلمان تختہ مشق ستم بناۓ جا رہے ہیں ، ملک کے گوشے گوشے سے مظلوم مسلمان سخت بے سر و سامانی کی حالت میں پناہ لینے کے لیے مدینے کی طرف بھاگے چلے آ رہے ہیں ، مخلص مسلمانوں کی کمر ان مظلوموں کو سہارا دیتے دیتے ٹوٹی جا رہی ہے ، اور دشمنوں کے مقابلے میں بھی یہی مخلص مومن سر بکف ہیں ، مگر یہ سب کچھ دیکھ کر بھی ایمان کا دعویٰ کرنے والا یہ گروہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا تھا۔ اس پر ان لوگوں کو شرم دلائی جا رہی ہے کہ تم کیسے ایمان لانے والے ہو؟ اسلام کے لیے حالات نزاکت کی اس حد کو پہنچ چکے ہیں ، کیا اب بھی وہ وقت نہیں آیا کہ اللہ کا ذکر سن کر تمہارے دل پگھلیں اور اس کے دین کے لیے تمہارے دلوں میں ایثار و قربانی اور سر فروشی کا جذبہ پیدا ہو؟ کیا ایمان لانے والے ایسے ہی ہوتے ہیں کہ اللہ کے دین پر برا وقت آۓ اور وہ اس کی ذرا سی ٹیس بھی اپنے دل میں محسوس نہ کریں ؟ اللہ کے نام پر انہیں پکارا جاۓ اور وہ اپنی جگہ سے ہلیں تک نہیں ؟ اللہ اپنی نازل کردہ کتاب میں خود چندے کی اپیل کرے ، اور اسے اپنے ذمہ قرض قرار دے ، اور صاف صاف یہ بھی سنا دے کہ ان حالات میں جو اپنے مال کو میرے دین سے عزیز تر رکھے گا وہ مومن نہیں بلکہ منافق ہو گا، اس پر بھی ان کے دل نہ خدا کے خوف سے کانپیں ، نہ اس کے حکم کے آگے جھکیں ؟ |