Ayats Found (2)
Surah 52 : Ayat 21
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُم بِإِيمَـٰنٍ أَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَمَآ أَلَتْنَـٰهُم مِّنْ عَمَلِهِم مِّن شَىْءٍۚ كُلُّ ٱمْرِىِٕۭ بِمَا كَسَبَ رَهِينٌ
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور اُن کی اولاد بھی کسی درجہ ایمان میں ان کے نقش قدم پر چلی ہے ان کی اُس اولاد کو بھی ہم (جنت میں) اُن کے ساتھ ملا دیں گے اور اُن کے عمل میں کوئی گھاٹا ان کو نہ دیں1 گے ہر شخص اپنے کسب کے عوض رہن ہے2
2 | یہاں ’’ رہن‘‘ کا استعارہ بہت معنی خیز ہے ۔ ایک شخص اگر کسی سے کچھ قرض لے اور قرض دینے والا اپنے حق کی ادائیگی کے لیے ضمانت کے طور پر اس کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھ لے تو جب تک وہ قرض ادا نہ کر دے اس وقت تک فکِّ رہن نہیں ہو سکتا،اور اگر مدت مقررہ گزر جانے پر بھی وہ فکِّ رہن نہ کراۓ تو شئے مر ہو نہ ضبط ہو جاتی ہے ۔ انسان اور خدا کے درمیان معاملہ کی نوعیت کو یہاں اسی صورت معاملہ سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ خدا نے انسان کو جو سرو سامان، جو طاقتیں اور صلاحیتیں اور جو اختیارات دنیا میں عطا کیے ہیں وہ گویا ایک قرض ہے جو مالک نے اپنے بندے کو دیا ہے ، اور اس قرض کی ضمانت کے طور پر بندے کا نفس خدا کے پاس رہن ہے ۔ بندہ اس سرو سامان اور ان قوتوں اور اختیارات کو صحیح طریقے سے استعمال کر کے اگر وہ نیکیاں کماۓ جن سے یہ قرض ادا ہو سکتا ہو تو وہ شۓ مرہونہ، یعنی اپنے نفس کو چھڑا لے گا، ورنہ اسے ضبط کر لیا جاۓ گا۔ پچھلی آیت کے معاً بعد یہ بات اس لیے ارشاد فرمائی گئی ہے کہ مومنین صالحین خواہ بجاۓ خود کتنے ہی بڑے مرتبے کے لوگ ہوں ، ان کی اولاد کا فکِّ رہن اس کے بغیر نہیں ہو سکتا کہ وہ خود اپنے کسب سے اپنے نفس کو چھڑاۓ۔ باپ دادا کی کمائی اولاد کو نہیں چھڑا سکتی. البتہ اولاد اگر کسی درجے کے بھی ایمان اور اتباع صالحین سے اپنے آپ کو چھڑا لے جاۓ تو پھر یہ اللہ کا فضل اور اس کا کرم ہے کہ جنت میں وہ اسکو نیچے کے مرتبوں سے اٹھا کر اونچے مراتب میں باپ دادا کے ساتھ لے جا کر ملا دے ۔ باپ دادا کی نیکیوں کا یہ فائدہ تو اولاد کو مل سکتا ہے ، لیکن اگر وہ اپنے کسب سے اپنے آپ کو دوزخ کا مستحق بنا لے تو یہ کسی طرح ممکن نہیں ہے کہ باپ دادا کی خاطر اسے جنت میں پہنچا دیا جاۓ۔اس کے ساتھ یہ بات بھی اس آیت سے نکلتی ہے کہ کم درجے کی نیک اولاد کا بڑے درجے کے نیک آباء سے لے جا کر ملا دیا جانا دراصل اس اولاد کے کسب کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ان آباء کے کسب کا نتیجہ ہے ۔ وہ اپنے عمل سے اس فضل کے مستحق ہوں گے کہ ان کے دل خوش کرنے کے لیے ان کی اولاد کو ان سے لا ملایا جاۓ۔ اسی وجہ سے اللہ ان کے درجے گھٹا کر انہیں اولاد کے پاس نہیں لے جاۓ گا بلکہ اولاد کے درجے بڑھا کر ان کے پاس لے جاۓ گا، تاکہ ان پر خدا کی نعمتوں کے اتمام میں یہ کسر باقی نہ رہ جاۓ کہ اپنی اولاد سے دوری ان کے لیے باعث اذیت ہو |
1 | یہ مضمون اس سے پہلے سورہ رعد آیت 23، اور سورہ مومن آیت 8 میں بھی گزر چکا ہے ، مگر یہاں ان دونوں مقامات سے بھی زیادہ ایک بڑی خوش خبری سنائی گئی ہے ۔ سورہ رعد والی آیت میں صرف اتنی بات فرمائی گئی تھی کہ اہل جنت کے آباؤ اجداد اور ان کی بیویوں میں سے جو جو افراد بھی صالح ہوں گے وہ سب ان کے ساتھ جنت میں داخل ہوں گے ۔ اور سورہ مومن میں ارشاد ہوا تھا کہ فرشتے اہل ایمان کے حق میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی اولاد اور ازواج اور آباء میں سے جو صالح ہوں انہیں بھی جنت میں ان سے ملا دے ۔ یہاں ان دونوں آیتوں سے زائد جو بات فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اگر اولاد کسی نہ کسی درجہ ایمان میں بھی اپنے آباء کے نقش قدم کی پیروی کرتی رہی ہو، تو خواہ اپنے عمل کے لحاظ سے وہ اس مرتبے کی مستحق نہ ہو جو آباء کا ان کے بہتر ایمان و عمل کی بنا پر حاصل ہو گا، پھر بھی یہ اولاد اپنے آباء کے ساتھ ملا دی جاۓ گی۔ اور یہ ملانا اس نوعیت کا نہ ہو گا جیسے وقتاً فوقتاً کوئی کسی سے جا کر ملاقات کر لیا کرے ، بلکہ اس کے لیے اَلْحَقْنا بِھِمْ کے الفاظ استعمال کیے گۓ ہیں جن کے معنی یہ ہیں کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہی رکھے جائیں گے ۔ اس پر مزید یہ اطمینان دلایا گیا ہے کہ اولاد سے ملانے کے لیے آباء کا درجہ گھٹا کر انہیں نیچے نہیں اتارا جاۓ گا، بلکہ آباء سے ملانے کے لیے اولاد کا درجہ بڑھا کر انہیں اوپر پہنچا دیا جاۓ گا۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ارشاد اس بالغ اولاد کے بارے میں ہے جس نے سنِ رُشد کو پہنچ کر اپنے اختیار اور ارادے سے ایمان لانے کا فیصلہ کیا ہو اور جو اپنی مرضی سے اپنے صالح بزرگوں کے نقش قدم پر چلی ہو۔ رہی ایک مومن کی وہ اولاد جو سن رشد کو پہنچنے سے پہلے ہی مر گئی ہو تو اس کے معاملہ میں کفر و ایمان اور طاعت و معصیت کا سرے سے کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اسے تو ویسے ہی جنت میں جانا ہے اور اس کے آباء کی آنکھیں ٹھنڈی کرنے کے لیے ان ہی کے ساتھ رکھا جانا ہے ۔ |
Surah 52 : Ayat 24
۞ وَيَطُوفُ عَلَيْهِمْ غِلْمَانٌ لَّهُمْ كَأَنَّهُمْ لُؤْلُؤٌ مَّكْنُونٌ
اور اُن کی خدمت میں وہ لڑکے دوڑتے پھر رہے ہوں گے جو انہی کے لیے مخصوص ہوں گے 1ایسے خوبصورت جیسے چھپا کر رکھے ہوئے موتی
1 | یہ نکتہ قابل غور ہے کہ غُلْمَا نُھُمْ نہیں فرمایا بلکہ غِلْمَا نٌ لَّہُمْ فرمایا ہے ۔ اگر غِلْمَا نُہُمْ فرمایا جاتا تو اس کے یہ گمان ہو سکتا تھا کہ دنیا میں ان کے جو خادم تھے وہی جنت میں بھی ان کے خادم بنا دیے جائیں گے ، حالانکہ دنیا کا جو شخص بھی جنت میں جاۓ گا اپنے استحقاق کی بنا پر جاۓ گا اور کوئی وجہ نہیں کہ جنت میں پہنچ کر وہ اپنے اسی آقا کا خادم بنا دیا جاۓ جس کی خدمت وہ دنیا میں کرتا رہا تھا۔ بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کوئی خادم اپنے عمل کی وجہ سے اپنے مخدوم کی بہ نسبت زیادہ بلند مرتبہ جنت میں پاۓ۔ اس لیے غِلْمَانٌ لَّھُمْ فرما کر اس گمان کی گنجائش باقی نہیں رہنے دی گئی۔ یہ لفظ اس بات کی وضاحت کر دیتا ہے کہ یہ وہ لڑکے ہوں گے جو جنت میں ان کی خدمت کے لیے مخصوص کر دیے جائیں گے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد چہارم، تفسیر سورہ صافات، حاشیہ 26) |