Ayats Found (21)
Surah 2 : Ayat 99
وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍۖ وَمَا يَكْفُرُ بِهَآ إِلَّا ٱلْفَـٰسِقُونَ
ہم نے تمہاری طرف ایسی آیات نازل کی ہیں جو صاف صاف حق کا اظہار کر نے والی ہیں اور ان کی پیروی سے صرف وہی لوگ انکار کرتے ہیں، جو فاسق ہیں
Surah 5 : Ayat 3
حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ ٱلْمَيْتَةُ وَٱلدَّمُ وَلَحْمُ ٱلْخِنزِيرِ وَمَآ أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦ وَٱلْمُنْخَنِقَةُ وَٱلْمَوْقُوذَةُ وَٱلْمُتَرَدِّيَةُ وَٱلنَّطِيحَةُ وَمَآ أَكَلَ ٱلسَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى ٱلنُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُواْ بِٱلْأَزْلَـٰمِۚ ذَٲلِكُمْ فِسْقٌۗ ٱلْيَوْمَ يَئِسَ ٱلَّذِينَ كَفَرُواْ مِن دِينِكُمْ فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَٱخْشَوْنِۚ ٱلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِى وَرَضِيتُ لَكُمُ ٱلْإِسْلَـٰمَ دِينًاۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ فِى مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍۙ فَإِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم پر حرام کیا گیا مُردار1، خون، سُور کا گوشت، وہ جانور جو خدا کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو25، وہ جو گھلا گھٹ کر، یا چوٹ کھا کر، یا بلندی سے گر کر، یا ٹکر کھا کر مرا ہو، یا جسے کسی درندے نے پھاڑا ہو سوائے اس کے جسے تم نے زندہ پاکر ذبح کر لیا اور3 وہ جو کسی آستا نے4 پر ذبح کیا گیا ہو5 نیز یہ بھی تمہارے لیے ناجائز ہے کہ پانسوں کے ذریعہ سے اپنی قسمت معلوم کرو6 یہ سب افعال فسق ہیں آج کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے پوری مایوسی ہو چکی ہے لہٰذا تم اُن سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو7 آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لیے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے (لہٰذا حرام و حلال کی جو قیود تم پر عائد کر دی گئی ہیں اُن کی پابند ی کرو)8 البتہ جو شخص بھوک سے مجبور ہو کر اُن میں سے کوئی چیز کھا لے، بغیر اس کے کہ گناہ کی طرف اس کا میلان ہو تو بیشک اللہ معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے9
9 | ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ ، حاشیہ نمبر ۱۷۲ |
8 | دین کو مکمل کر دینے سے مُراد ُس کو ایک مستقل نظامِ فکر و عمل اور ایک ایسا مکمل نظامِ تہذیب و تمدّن بنا دینا ہے جس میں زندگی کے جُملہ مسائل کا جواب اُصُولاً یا تفصیلاً موجود ہو اور ہدایت و رہنمائی حاصل کرنے کے لیے کسی حال میں اس سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ نعمت تمام کرنے سے مُراد نعمتِ ہدایت کی تکمیل کر دینا ہے۔ اور اسلام کو دین کی حیثیت سے قبول کر لینے کا مطلب یہ ہے کہ تم نے میری اطاعت و بندگی اختیار کرنے کا جو اقرار کیا تھا ، اس کو چونکہ تم اپنی سعی و عمل سے سچّا اور مخلصانہ اقرار ثابت کر چکے ہو، اس لیے میں نے اسے درجۂ قبولیّت عطا فر مایا ہے اور تمہیں عملاً اس حالت کو پہنچا دیا ہے کہ اب فی الواقع میرے سوا کسی کی اطاعت و بندگی کو جُوا تمہاری گردنوں پر باقی نہ رہا۔ اب جس طرح اعتقاد میں تم میرے مسلم ہو اسی طرح عملی زندگی میں بھی میرے سوا کسی اور کے مسلم بن کر رہنے کے لیے کوئی مجبُوری تمہیں لاحق نہیں رہی ہے۔ ان احسانات کا ذکر فرمانے کے بعد اللہ تعالیٰ سکوت اختیار فرماتا ہے مگر اندازِ کلام سے خود بخود یہ بات نِکل آتی ہے کہ جب یہ احسانات میں نے تم پر کیے ہین تو ان کا تقاضا یہ ہے کہ اب میرے قانون کی حُدُود پر قائم رہنے میں تمہاری طرف سے بھی کوئی کوتاہی نہ ہو۔ مستند روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ آیت حجۃ الوداع کے موقعہ پر سن ۱۰ ہجری میں نازل ہوئی تھی ۔ لیکن جس سلسلۂ کلام میں یہ واقع ہوئی ہے وہ صُلحِ حُدَیبیَہ سے متصل زمانہ (سن ۶ ہجری) کا ہے اور سیاقِ عبارت میں دونوں فقرے کچھ ایسے پیوستہ نظر آتے ہیں کہ یہ گمان نہیں کیا جا سکتا کہ ابتداء میں یہ سلسلۂ کلام اِن فقروں کے بغیر نازل ہوا تھا اور بعد میں جب یہ نازل ہوئے تو انہیں یہاں لا کر نصب کر دیا گیا۔ میرا قیاس یہ ہے ، وَ الْعِلْم ُ عِنْدَ اللہ، کہ ابتداءً یہ آیت اِسی سیاق ِ کلام میں نازل ہوئی تھی اس لیے اس کی حقیقی اہمیّت لوگ نہ سمجھ سکے۔ بعد میں جب تمام عرب مسخر ہو گیا اور اسلام کی طاقت اپنے شباب پر پہنچ گئی تو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ یہ فقرے اپنے نبی پر نازل فرمائے اور ان کے اعلان کا حکم دیا |
7 | آج“ سے مراد کوئی خاص دن اور تاریخ نہیں ہے بلکہ وہ دَور یا زمانہ مراد ہے جس میں یہ آیات نازل ہوئی تھیں۔ ہماری زبان میں بھی آج کا لفظ زمانۂ حال کے لیے عام طور پر بولا جاتا ہے۔ ”کافروں کو تمہارے دین کی طرف سے مایوسی ہو چکی ہے“، یعنی اب تمہارا دین ایک مستقل نظام بن چکا ہے اور خوس اپنی حاکمانہ طاقت کے ساتھ نافذ و قائم ہے۔ کفار جو اب تک اس کے قیام میں مانع و مزاحم رہے ہیں ، اب اس طرف سے مایوس ہو چکے ہیں کہ وہ اِسے مٹا سکیں گے اور تمہیں پھر پچھلی جاہلیّت کی طرف واپس لے جا سکیں گے۔ ”لہٰذا تم ان سے نہ ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو“، یعنی اس دین کے احکام اور اس کے ہدایات پر عمل کر نے میں اب کسی کافر طاقت کے غلبہ و قہر اور در اندازی و مزاحمت کا خطرہ تمہارے لیے باقی نہیں رہا ہے۔ انسانوں کے خوف کی اب کوئی وجہ نہیں رہی۔ اب تمہیں خدا سے ڈرنا چاہیے کہ اس کے احکام کی تعمیل میں اگر کوئی کوتاہی تم نے کی تو تمہارے پاس کوئی ایسا عذر نہ ہوگا جس کی بنا پر تمہارے ساتھ کچھ بھی نرمی کی جائے۔ اب شریعتِ الہٰی کی خلاف ورزی کے معنی یہ نہیں ہوں گے کہ تم دُوسرے کے اثر سے مجبُور ہو، بلکہ اس کے صاف معنی یہ ہوں گے کہ تم خدا کی اطاعت کرنا نہیں چاہتے |
6 | اِس آیت میں جس چیز کو حرام کیا گیا ہے اس کی تین بڑی قسمیں دُنیا میں پائی جاتی ہیں اور آیت کا حُکم ان تینوں پر حاوی ہے: (۱) مشرکانہ فال گیری، جس میں کسی دیوی یا دیوتا سے قسمت کا فیصلہ پُوچھا جاتا ہے ، یا غیب کی خبر دریافت کی جاتی ہے، یا باہمی نزاعات کا تصفیہ کرایا جاتا ہے۔ مشرکینِ مکّہ نے اِس غرض کے لیے کعبہ کے اندر ہُبَل دیوتا کے بُت کو مخصُوص کر رکھا تھا ۔ اس کے استھان میں سات تیر رکھے ہوئے تھے جن پر مختلف الفاظ اور فقرے کندہ تھے۔ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کا سوال ہو، یا کھوئی ہوئی چیز کا پتہ پُوچھنا ہو، یا خُون کے مقدمہ کا فیصلہ مطلوب ہو، غرض کوئی کام بھی ہو، اس کے لیے ہُبَل کے پانسہ دار ( صاحبِ القِداح) کے پاس پہنچ جاتے، اس کا نذرانہ پیش کرتے اور ہُبَل سے دُعا مانگتے کہ ہمارے اس معاملے کا فیصلہ کر دے۔ پھر پانسہ دار اِن تیروں کے ذریعہ سے فال نکالتا ، اور جو تیر بھی فال میں نِکل آتا اس پر لِکھے ہوئے لفظ کو ہُبَل کا فیصلہ سمجھا جاتا تھا۔ (۲) توہّم پرستانہ فال گیری، جس میں زندگی کے معاملات کا فیصلہ عقل و فکر سے کرنے کے بجائے کسی وہمی و خیالی چیز یا کسی اتفاقی شے کے ذریعہ سے کیا جاتا ہے۔ یا قسمت کا حال ایسے ذرائع سے معلوم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے جن کا وسیلۂ علمِ غیب ہونا کسی علمی طریق سے ثابت نہیں ہے۔ رمل ، نجوم، جفر، مختلف قسم کے شگون اور نچھتر، اور فال گیری کے بے شمار طریقے اس صنف میں داخل ہیں۔ (۳)جُوئے کی قسم کے وہ سارے کھیل اور کام جن میں اشیاء کی تقسیم کا مدار حقوق اور خدمات اور عقلی فیصلوں پر رکھنے کے بجائے محض کسی اتفاقی امر پر رکھ دیا جائے۔ مثلاً یہ کہ لاٹری میں اتفاقاً فلاں شخص کا نام نِکل آیا ہے لہٰذا ہزار ہا آدمیوں کی جیب سے نِکلا ہوا روپیہ اُس ایک شخص کی جیب میں چلا جائے۔ یا یہ کہ علمی حیثیت سے تو ایک معمّہ کے بہت سے حل صحیح ہیں، مگر انعام وہ شخص پائے گا جس کا حل کسی معقول کوشش کی بنا پر نہیں بلکہ محض اتفاق سے اُس حل کے مطابق نِکل آیا ہو جو صاحبِ معمّہ کے صندوق میں بند ہے۔ اِن تین اقسام کو حرام کر دینے کے بعد قُرعہ اندازی کی صرف وہ سادہ صُورت اسلام میں جائز رکھی گئی ہے جس میں دو برابر کے جائز کاموں یا دو برابر کے حقوق کے درمیان فیصلہ کرنا ہو۔ مثلاً ایک چیز پر دو آدمیوں کا حق ہر حیثیت سے بالکل برابر ہے، اور فیصلہ کرنے والے کے لیے ان میں سے کسی کو ترجیح دینے کی کوئی معقول وجہ موجود نہیں ہے ، اور خود ان دونوں میں سے بھی کوئی اپنا حق خود چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ اس صُورت میں ان کی رضا مندی سے قرعہ اندازی پر فیصلہ کا مدار رکھا جا سکتا ہے۔ یا مثلاً دو کام یکساں درست ہیں اور عقلی حیثیت سے آدمی ان دونوں کے درمیان مذبذب ہو گیا ہے کہ ان میں سے کس کو اختیار کرے ۔ اس صُورت میں ضرورت ہو تو قریہ اندازی کی جاسکتی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بالعمُوم ایسے مواقع پر یہ طریقہ اختیار فرمانے تھے جبکہ دو برابر حق داروں کے درمیان ایک کو ترجیح دینے کی ضرورت پیش آ جاتی تھی اور آپ ؐ کو اندیشہ ہوتا تھا کہ اگر آپ ؐ خود ایک کو ترجیح دیں گے تو دُوسرے کو ملال ہو گا |
5 | اس مقام پر یہ بات خوب سمجھ لینی چاہیے کہ کھانے پینے کی چیزوں میں حرام و حلال کی جو قیُود شریعت کی طرف سے عائد کی جاتی ہیں اُن کی اصل بُنیاد اُن اشیاء کے طبّی فوائد یا نقصانات نہیں ہوتے، بلکہ اُن کے اخلاقی فوائد و نقصانات ہوتے ہیں۔ جہاں تک طبیعی اُمُور کا تعلق ہے اللہ تعالیٰ نے اُن کو انسان کی اپنی سعی و جستجو اور کاوش و تحقیق پر چھوڑ دیا ہے۔ یہ دریافت کرنا انسان کا اپنا کام ہے کہ مادّی اشیاء میں سے کیا چیزیں اس کے جسم کو غزائے صالح بہم پہنچانے والی ہیں اور کیا چیزیں تغذیہ کے لیے غیر مفید ہیں یا نقصان دہ ہیں۔ شریعت اِن اُمُور میں اس کی رہنمائی کی ذمّہ داری اپنے سر نہیں لیتی۔ اگر یہ کام اس نے اپنے ذمّہ لیا ہوتا تو سب سے پہلے سنکھیا کو حرام کیا ہوتا۔ لیکن آپ دیکھتے ہی ہیں کہ قرآن و حدیث میں اُس کا، یا اُن دُوسرے مفردات و مرکبّات کا ، جو انسان کے لیے سخت مُہلک ہیں، سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ شریعت غذا کے معاملہ میں جس چیز پر روشنی ڈالتی ہے وہ دراصل اُس کا یہ پہلو ہے کہ کس غذا کا انسان کے اخلاق پر کیا اثر ہوتا ہے، اور کونسی غذائیں طہارتِ نفس کے لحاظ سے کیسی ہیں ، اور غذا حاصل کرنے کے طریقوں میں سے کون سے طریقے اعتقادی و نظری حیثیت سے صحیح یا غلط ہیں۔ چونکہ اس کی تحقیق کرنا انسان کے بس میں نہیں ہے ، اور اسے دریافت کرنے کے ذرائع انسان کو میسّر ہی نہیں ہیں، اور اسی بنا پر انسان نے اکثر اِن اُمُور میں غلطیاں کی ہیں، اس لیے شریعت صرف اِنہی اُمُور میں، اس کی رہنمائی کرتی ہے ۔ جن چیزوں کو اس نے حرام کیا ہے انہیں اس وجہ سے حرام کیا ہے کہ یا تو اخلاق پر ان کا بُرا اثر پڑتا ہے، یا وہ طہارت کے خلاف ہیں، یا ان کا تعلق کسی فاسد عقیدہ سے ہے۔ بر عکس اس کے جن چیزوں کو اس نے حلال کیا ہے ان کی حِلّت کی وجہ یہ ہے کہ وہ اِن بُرائیوں میں سے کوئی بُرائی اپنے اندر نہیں رکھتیں۔ سوال کیا جا سکتا ہے کہ خدا نے ہم کو ان اشیاء کی حُرمت کے وجوہ کیوں نہ سمجھائے تا کہ ہمیں بصیرت حاصل ہوتی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے وجوہ کو سمجھنا ہمارے لیے ممکن نہیں ہے۔ مثلاً یہ بات کہ خُون ، یا سُور کے گوشت یا مُردار کے کھانے سے ہماری اخلاقی صفات میں کیا خرابیاں رُونما ہوتی ہیں، کس قدر اور کس طرح ہوتی ہیں، اس کی تحقیق ہم کسی طرح نہیں کر سکتے ، کیونکہ اخلاق کو نا پنے اور تولنے کے ذرائع ہمیں حاصل نہیں ہیں۔ اگر بالفرض اُن کے بُرے اثرات کو بیان کر بھی دیا جاتا تو شبہ کرنے ولا تقریباً اُسی مقام پر ہوتا جس مقام پر وہ اب ہے، کیونکہ وہ اس بیان کی صحت و عدمِ صحت کو آخر کس چیز سے جانچتا۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے حرام و حلال کے حُدُود کی پابندی کا انحصار ایمان پر رکھ دیا ہے۔ جو شخص اس بات پر مطمئن ہو جائے کہ کتاب ، اللہ کی کتاب ہے اور رسول ، اللہ کا رسول ہے ، اور للہ علیم و حکیم ہے، وہ اس کے مقرر کیے ہوئے حُدُود کی پابندی کرے گا، خواہ ان کی مصلحت اس کی سمجھ میں آئے یا نہ آئے۔ اور جو شخص اس بُنیادی عقیدے پر ہی مطمئن نہ ہو، اس کے لیے اِس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ جن چیزوں کی خرابیاں انسانی علم کے احاطہ میں آگئی ہیں صرف انہی سے پرہیز کرے ا ور جن کی خرابیوں کا علمی احاطہ نہیں ہو سکا ہے ان کے نقصانات کا تختہ ٔ مشق بنتا رہے |
4 | اصل میں لفظ” نُصُب“ استعمال ہوا ہے۔ اس سے مراد وہ سب مقامات ہیں جن کو غیراللہ کی نذر و نیاز چڑھانے کے لیے لوگوں نے مخصُوص کر رکھا ہو، خواہ وہاں کوئی پتھر یا لکڑی کی مُورت ہو یا نہ ہو۔ ہماری زبان میں اس کا ہم معنی لفظ آستانہ یا استھان ہے جو کسی بزرگ یا دیوتا سے ، یا کسی خاص مشرکانہ اعتقاد سے وابستہ ہو |
3 | یعنی جو جانور مذکورۂ بالا حوادث میں سے کسی حادثے کا شکار ہوجانے کے باوجود مرا نہ ہو بلکہ کچھ آثارِ زندگی اس میں پائےجاتے ہوں ، اس کو اگر ذبح کر لیا جائے تو اُسے کھا یا جا سکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ حلال جانور کا گوشت صرف ذبح کرنے سے حلال ہوتا ہے ، کوئی دُوسرا طریقہ اس کو ہلاک کر نے کا صحیح نہیں ہے۔ یہ ”ذبح“ اور ”ذکاۃ“ اسلام کے اصطلاحی لفظ ہیں۔ ان سے مراد حلق کا اتنا حصہ کاٹ دینا ہے جس سے جسم کا خون اچھی طرح خارج ہو جائے۔ جھٹکا کرنے یا گلا گھُونٹنے یا کسی اور تدبیر سے جانور کو ہلاک کرنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ خُون کا بیشتر حصہ جسم کے اندر ہی رُک کر رہ جاتا ہے اور وہ جگہ جگہ جم کر گوشت کے ساتھ چمٹ جاتا ہے۔۔ بر عکس اس کے ذبح کرنے کی صُورت میں دماغ کے ساتھ جسم کا تعلق دیر تک باقی رہتا ہے جس کی وجہ سے رگ رگ کا خُون کھِنچ کر باہر آجاتا ہے اور اس طرح پُورے جسم کا گوشت خُون سے صاف ہوجاتا ہے۔ خون کے متعلق ابھی اُوپر ہی یہ بات گزر چکی ہے کہ وہ حرام ہے، لہٰذا گوشت کے پاک اور حلال ہونے کے لیے ضروری ہے کہ خُون اس سے جُدا ہو جائے |
2 | یعنی جس کو ذبح کرتے وقت خدا کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو، یا جس کو ذبح کرنے سے پہلے یہ نیت کی گئی ہو کہ یہ فلاں بزرگ یا فلاں دیوی یا دیوتا کی نذر ہے۔ (ملاحظہ ہو سُورۂ بقرہ، حاشیہ نمبر ۱۷۱) |
1 | یعنی وہ جانور جو طبعی موت مر گیا ہو |
Surah 6 : Ayat 49
وَٱلَّذِينَ كَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَا يَمَسُّهُمُ ٱلْعَذَابُ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
اور جو ہماری آیات کو جھٹلائیں وہ اپنی نافرمانیوں کی پاداش میں سزا بھگت کر رہیں گے
Surah 6 : Ayat 121
وَلَا تَأْكُلُواْ مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ ٱسْمُ ٱللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُۥ لَفِسْقٌۗ وَإِنَّ ٱلشَّيَـٰطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰٓ أَوْلِيَآئِهِمْ لِيُجَـٰدِلُوكُمْۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ
اور جس جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح نہ کیا گیا ہو اس کا گوشت نہ کھاؤ، ایسا کرنا فسق ہے شیاطین اپنے ساتھیوں کے دلوں میں شکوک و اعتراضات القا کرتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں1 لیکن اگر تم نے اُن کی اطاعت قبول کر لی تو یقیناً تم مشرک ہو2
2 | یعنی ایک طرف اللہ کی خداوندی کا اقرار کرنا اور دُوسری طرف اللہ سے پھرے ہوئے لوگوں کے احکام پر چلنا اور ان کے مقرر کیے ہوئے طریقوں کی پابندی کرنا ، شرک ہے۔ توحید یہ ہے کہ زندگی سراسر اللہ کی اطاعت میں بسر ہو۔ اللہ کے ساتھ اگر دُوسروں کو اعتقادًا مستقل بالذّات مطاع مان لیا جائے تو یہ اعتقادی شرک ہے، اور اگر عملاً ایسے لوگوں کی اطاعت کی جائے جو اللہ کی ہدایت سے بے نیاز ہو کر خود امر ونہی کے مختار بن گئے ہوں تو یہ عملی شرک ہے |
1 | حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ کی روایت ہے کہ عُلمائے یہُود جُہلائے عرب کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض کرنے کے جو سوالات سکھایا کرتے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ”آخر کیا معاملہ ہے کہ جسے خدا مارے وہ تو حرام ہو اور جسے ہم ماریں وہ حلال ہو جائے“۔ یہ ایک ادنٰی سا نمونہ ہے اس ٹیڑھی ذہنیّت کا جو ان نام نہاد اہلِ کتاب میں پائی جاتی تھی۔ وہ اس قسم کے سوالات گھڑ گھڑ کر پیش کرتے تھے تاکہ عوام کے دلوں میں شُبہات ڈالیں اور انھیں حق سے لڑنے کے لیے ہتھیار فراہم کر کے دیں |
Surah 6 : Ayat 145
قُل لَّآ أَجِدُ فِى مَآ أُوحِىَ إِلَىَّ مُحَرَّمًا عَلَىٰ طَاعِمٍ يَطْعَمُهُۥٓ إِلَّآ أَن يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَّسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنزِيرٍ فَإِنَّهُۥ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ ٱللَّهِ بِهِۦۚ فَمَنِ ٱضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اے محمدؐ! ان سے کہو کہ جو وحی تمہارے پاس آئی ہے اس میں تو میں کوئی چیز ایسی نہیں پاتا جو کسی کھانے والے پر حرام ہو، الا یہ کہ وہ مُردار ہو، یا بہایا ہوا خون ہو، یاسور کا گوشت ہو کہ وہ ناپاک ہے، یا فسق ہو کہ اللہ کے سوا کسی اور کے نام پر ذبح کیا گیا ہو1 پھر جو شخص مجبوری کی حالت میں (کوئی چیز اِن میں سے کھا لے) بغیر اس کے کہ وہ نافرمانی کا ارادہ رکھتا ہو اور بغیر اس کے کہ وہ حد ضرورت سے تجاوز کرے، تو یقیناً تمہارا رب در گزر سے کام لینے والا اور رحم فرمانے والا ہے
1 | یہ مضمون سُورہ بقرہ آیت ۷۳ اور سُورہ مائدہ آیت ۳ میں گزر چکا ہے، اور آگے سُورہ نحل آیت ۱۱۵ میں آنے والا ہے۔ سُورہ بقرہ کی آیت اور اس آیت میں بظاہر اتنا اختلاف پایا جاتا ہے کہ وہاں محض ”خون“ کہا گیا ہے اور یہاں خون کے ساتھ مَسْفُوْح کی قید لگائی گئی ہے ، یعنی ایسا خون جو کسی جانور کو زخمی کر کے یا ذبح کر کے نکالا گیا ہو۔ مگر دراصل یہ اختلاف نہیں بلکہ اُس حکم کی تشریح ہے۔ اِسی طرح سُورۂ مائدہ کی آیت میں ان چار چیزوں کے علاوہ چند اور چیزوں کی حُرمت کا بھی ذکر ملتا ہے، یعنی وہ جانور جو گلا گھُونٹ کر یا چوٹ کھا کر یا بلندی سے گِر کر یا ٹکر کھا کر مرا ہو یا جسے کسی درندے نے پھاڑ ا ہو۔ لیکن فی الحقیقت یہ بھی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک تشریح ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جانور اس طور پر ہلاک ہوئے ہوں وہ بھی مُردار کی تعریف میں آتے ہیں۔ فقہائے اسلام میں سے ایک گروہ اس بات کا قائل ہے کہ حیوانی غذاؤں میں سے یہی چار چیزیں حرام ہیں اور ان کے سوا ہر چیز کا کھانا جائز ہے۔ یہی مسلک حضرت عبداللہ ابن عباس اور حضرت عائشہ کا تھا۔ لیکن متعدّد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزوں کے کھانے سے یا تو منع فرمایا ہے یا ان پر کراہت کا اظہار فرمایا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے ، کچیلوں والے درندے اور پنجوں والے پرندے ۔ اس وجہ سے اکثر فقہاء تحریم کو ان چار چیزوں تک محدُود نہیں مانتے بلکہ دُوسری چیزوں تک اسے وسیع قرار دیتے ہیں۔ مگر اس کے بعد پھر مختلف چیزوں کی حِلّت و حُرمت میں فقہاء لء درمیان اختلاف ہوا ہے۔ مثلاً پالتو گدھے کو امام ابو حنیفہ ، امام مالک اور امام شافعی حرام قرار دیتے ہیں۔ لیکن بعض دُوسرے فقہا کہتے ہیں کہ وہ حرام نہیں ہے بلکہ کسی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر اس کی ممانعت فرما دی تھی۔ درندہ جانوروں اور شکاری پرندوں اور مُردار خور حیوانات کو حنفیہ مطلقاً حرام قرار دیتے ہیں۔ مگر امام مالک اور اَوزاعی کے نزدیک شکاری پرندے حلال ہیں۔ لَیث کے نزدیک بِلّی حلال ہے۔ امام شافعی کے نزدیک صرف وہ درندے حرام ہیں جو انسان پر حملہ کرتے ہیں، جیسے شیر، بھیڑیا، چیتا وغیرہ۔ عِکْرِمہ کے نزدیک کوّا اور بجّو دونوں حلال ہیں۔ اسی طرح حنفیہ تما م حشرات الارض کو حرام قرار دیتے ہیں ، مگر ابن ابی لیلیٰ، امام مالک اور اوزاعی کے نزدیک سانپ حلال ہے۔ ان تمام مختلف اقوال اور ان کے دلائل پر غور کرنے سے یہ بات صاف معلوم ہوتی ہے کہ دراصل شریعت الہٰی میں قطعی حُرمت اُن چار ہی چیزوں کی ہے جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے ۔ ان کے سوا دُوسری حیوانی غذاؤں میں مختلف درجوں کی کراہت ہے۔ جن چیزوں کی کراہت صحیح روایات کے مطابق نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے وہ حُرمت کے درجہ سے قریب تر ہیں اور جن چیزوں میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہوا ہے ان کی کراہت مشکوک ہے۔ رہی طبعی کراہت جس کی بنا پر بعض اشخاص بعض چیزوں کو کھانا پسند نہیں کرتے، یا طبقاتی کراہت جس کی بنا پر انسانوں کے بعض طبقے بعض چیزوں کو ناپسند کرتے ہیں، یا قومی کراہت جس کی بنا پر بعض قومیں بعض چیزوں سے نفرت کرتی ہیں ، تو شریعتِ الہٰی کسی کو مجبُور نہیں کرتی کہ وہ خواہ مخواہ ہر اس چیز کو ضرور ہی کھا جائے جو حرام نہیں کی گئی ہے۔ اور اسی طرح شریعت کسی کو یہ حق بھی نہیں دیتی کہ وہ اپنی کراہت کو قانون قرار دے اور ان لوگوں پر الزام عائد کر ے جو ایسی غذائیں استعمال کرتے ہیں جنھیں وہ نا پسند کرتا ہے |
Surah 7 : Ayat 102
وَمَا وَجَدْنَا لِأَكْثَرِهِم مِّنْ عَهْدٍۖ وَإِن وَجَدْنَآ أَكْثَرَهُمْ لَفَـٰسِقِينَ
ہم نے ان میں سے اکثر میں کوئی پاس عہد نہ پایا بلکہ اکثر کو فاسق ہی پایا1
1 | ”کوئی پاس ِ عہد نہ پایا“ یعنی کسی قسم کے عہد کا پاس بھی نہ پایا ، نہ اُس فطری عہد کا پاس جس میں پیدائشی طور پر ہر انسان خدا کا بندہ اور پروردہ ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، نہ اُس اجتماعی عہد کا پاس جس میں ہر فرد بشر انسانی برادری کا ایک رکن ہونے کی حیثیّت سے بندھا ہوا ہے، اور نہ اُس ذاتی عہد کا پاس جو آدمی اپنی مصیبت اور پریشانی کے لمحوں میں یا کسی جذبہ خیر کے موقع پر خدا سے بطور خود باندھا کرتا ہے۔ انہی تینوں عہدوں کے توڑنے کو یہاں فسق قرار دیا گیاہے |
Surah 7 : Ayat 145
وَكَتَبْنَا لَهُۥ فِى ٱلْأَلْوَاحِ مِن كُلِّ شَىْءٍ مَّوْعِظَةً وَتَفْصِيلاً لِّكُلِّ شَىْءٍ فَخُذْهَا بِقُوَّةٍ وَأْمُرْ قَوْمَكَ يَأْخُذُواْ بِأَحْسَنِهَاۚ سَأُوْرِيكُمْ دَارَ ٱلْفَـٰسِقِينَ
اس کے بعد ہم نے موسیٰؑ کو ہر شعبہ زندگی کے متعلق نصیحت اور ہر پہلو کے متعلق واضح ہدایت تختیوں پر لکھ کر دے دی1 اور اس سے کہا: 2"اِن ہدایات کو مضبوط ہاتھوں سے سنبھال اور اپنی قوم کو حکم دے کہ ان کے بہتر مفہوم کی پیروی کریں عنقریب میں تمہیں فاسقوں کے گھر دکھاؤں گا3
3 | یعنی آگے چل کر تم لوگ اُن قوموں کے آثار قدیمہ پر سے گزروگے جنہوں نےخدا کی بندگی و اطاعت سے منہ موڑا اور غلط روی پر اصرار کیا۔ ان آثار کو دیکھ کر تمہیں خود معلوم ہو جائے گا کہ ایسی روش اختیار کرنے کا کیا انجام ہوتا ہے |
2 | یعنی احکامِ الہٰی کا وہ صاف اور سیدھا مفہوم لیں جو عقل ِعام سے ہر وہ شخص سمجھ لے گا جس کی نیت میں فساد، یا جس کے دل میں ٹیڑھ نہ ہو۔ یہ قید اس لیے لگائی گئی کہ جو لوگ احکام کے سیدھے سادھے الفاظ میں سے قانونی اینچ پینچ اورحیلوں کے راستے اور فتنوں کی گنجائشیں نکالتے ہیں ، کہیں ان کی موشگافیوں کو کتاب اللہ کی پیروی نہ سمجھ لیا جائے |
1 | بائیبل میں تصریح ہے کہ یہ دونوں تختیاں پھتر کی سلیں تھیں، اور ان تختیوں پر لکھنے کا فعل بائیبل اور قرآن دونوں میں اللہ تعالیٰ کی طرف منسُوب کیا گیا ہے۔ ہمارے پاس کوئی ذریعہ ایسا نہیں جس سے ہم اس بات کا تعیُّن کر سکیں کہ آیا ان تختیوں پر کتابت کا کام اللہ تعالیٰ نے براہِ راست اپنی قدرت سے کیا تھا، یا کسی فرشتے سے یہ خدمت لی تھی، یا خود حضرت موسیٰ کا ہاتھ استعمال فرمایا تھا۔(تقابل کے لیے ملاحضہ ہو بائیبل، کتاب خروج، باب ۳١، آیت١۸۔باب ۳۲،آیت ١۵،١٦ و استثناء باب ۵ آیت ٦۔۲۲) |
Surah 9 : Ayat 8
كَيْفَ وَإِن يَظْهَرُواْ عَلَيْكُمْ لَا يَرْقُبُواْ فِيكُمْ إِلاًّ وَلَا ذِمَّةًۚ يُرْضُونَكُم بِأَفْوَٲهِهِمْ وَتَأْبَىٰ قُلُوبُهُمْ وَأَكْثَرُهُمْ فَـٰسِقُونَ
مگر اِن کے سوا دوسرے مشرکین کے ساتھ کوئی عہد کیسے ہوسکتا ہے جبکہ اُن کا حال یہ ہے کہ تم پر قابو پا جائیں تو نہ تمہارے معاملہ میں کسی قرابت کا لحاظ کریں نہ کسی معاہدہ کی ذمہ داری کا وہ اپنی زبانوں سے تم کو راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر دل ان کے انکار کرتے ہیں 1اور ان میں سے اکثر فاسق ہیں2
2 | یعنی ایسے لوگ ہیں جنہیں نہ اخلاقی ذمہ داریوں کا احساس ہے اور نہ اخلاق کی پابندیوں کے توڑنے میں کوئی باک |
1 | یعنی بظاہر تو وہ صلح کی شرطیں طے کرتے ہیں مگر د ل میں بدعہدی کا ارادہ ہوتا ہے اور اس کا ثبوت تجربے سے اس طرح ملتا ہے کہ جب کبھی انہوں نے معاہدہ کیا توڑنے ہی کے لیے کیا |
Surah 10 : Ayat 33
كَذَٲلِكَ حَقَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ عَلَى ٱلَّذِينَ فَسَقُوٓاْ أَنَّهُمْ لَا يُؤْمِنُونَ
(اے نبیؐ، دیکھو) اس طرح نافرمانی اختیار کرنے والوں پر تمہارے رب کی بات صادق آ گئی کہ وہ مان کر نہ دیں گے1
1 | یعنی ایسی کھلی کھلی اور عام فہم دلیلوں سے بات سمجھائی جاتی ہے، لیکن جنہوں نے نہ ماننے کا فیصلہ کر لیا ہو وہ اپنی ضد کی بنا پر کسی طرح مان کر نہیں دیتے۔ |
Surah 17 : Ayat 16
وَإِذَآ أَرَدْنَآ أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُواْ فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا ٱلْقَوْلُ فَدَمَّرْنَـٰهَا تَدْمِيرًا
جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرتے ہیں تو اس کے خوشحال لوگوں کو حکم دیتے ہیں اور وہ اس میں نافرمانیاں کرنے لگتے ہیں، تب عذاب کا فیصلہ اس بستی پر چسپاں ہو جاتا ہے اور ہم اسے برباد کر کے رکھ دیتے ہیں1
1 | اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔ ہلاک کرنے کے ارداے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالٰی یونہی بے قصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کر لیتا ہے،بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کر لیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کاظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔ دراصل جس حقیقت پر اس آیت میں متنبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ ایک معاشرے کو آخر کار جو چیز تباہ کرتی ہے وہ اس کے کھاتے پیتے،خوشحال لوگوں اور اونچے طبقوں کا بگاڑ ہے۔ جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحبِ اقتدار لوگ فسق وفجور پر اُتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بد کاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اورآخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔ لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بد اخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں۔ |