Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 257
ٱللَّهُ وَلِىُّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ يُخْرِجُهُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَوْلِيَآؤُهُمُ ٱلطَّـٰغُوتُ يُخْرِجُونَهُم مِّنَ ٱلنُّورِ إِلَى ٱلظُّلُمَـٰتِۗ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے1 اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں2 اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے3
3 | اُوپر دعویٰ کیا گیا تھا کہ مومن کا حامی و مددگار اللہ ہوتا ہے اور وہ اُسے تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور کافر کے مددگار طاغوت ہوتے ہیں اور وہ اسے روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ اب اسی کی توضیح کے لیے تین واقعات مثال کے طور پر پیش کیے جارہےہیں۔ ان میں سے پہلی مثال ایک ایسے شخص کی ہے، جس کے سامنے واضح دلائل کے ساتھ حقیقت پیش کی گئی اور وہ اس کے سامنے لاجواب بھی ہوگیا۔ مگر چونکہ اس نے طاغوت کے ہاتھ میں اپنی نکیل دے رکھی تھی، اس لیے وضوحِ حق کے بعد بھی وہ روشنی میں نہ آیا اور تاریکیوں ہی میں بھٹکتا رہ گیا۔ بعد کی دو مثالیں دو ایسے اشخاص کی ہیں، جنہوں نے اللہ کا سہارا پکڑا تھا، سو اللہ ان کی تاریکیوں سے اس طرح روشنی میں نکال لایا کہ پردہٴ غیب میں چھُپی ہوئی حقیقتوں تک کا ان کو عینی مشاہدہ کرا دیا |
2 | ”طاغُوت“یہاں طَوَاغِیْت کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے، یعنی خدا سے منہ موڑ کر انسان ایک ہی طاغوت کے چنگل میں نہیں پھنستا، بلکہ بہت سے طواغیت اس پر مسلّط ہو جاتے ہیں۔ ایک طاغوت شیطان ہے، جو اس کے سامنے نت نئی جھوٹی ترغیبات کا سدا بہار سبز باغ پیش کرتا ہے۔ دُوسرا طاغوت آدمی کا اپنا نفس ہے، جو اسے جذبات و خواہشات کا غلام بنا کر زندگی کے ٹیڑھے سیدھے راستوں پر کھینچے کھینچے لیے پھرتا ہے۔ اور بےشمار طاغوت باہر کی دُنیا میں پھیلے ہوئے ہیں ۔ بیوی اوربچّے ، اعزّہ اور اقربا ، برادری اور خاندان ، دوست اور آشنا، سوسائٹی اور قوم، پیشوا اور رہنما، حکومت اور حکام، یہ سب اس کے لیے طاغوت ہی طاغوت ہوتے ہیں، جن میں سے ہر ایک اس سے اپنی اغراض کی بندگی کراتا ہے اور بے شمار آقا ؤ ں کا یہ غلام ساری عمر اسی چکّر میں پھنسا رہتا ہے کہ کس آقا کو خوش کرے اور کس کی ناراضی سے بچے۔ |
1 | تاریکیوں سے مُراد جہالت کی تاریکیاں ہیں، جن میں بھٹک کر انسان اپنی فلاح و سعادت کی راہ سے دُور نِکل جاتا ہے اور حقیقت کے خلاف چل کر اپنی تمام قوتوں اور کوششوں کو غلط راستوں میں صَرف کرنے لگتا ہے۔ اور نُور سے مُراد علمِ حق ہے، جس کی روشنی میں انسان اپنی اور کائنات کی حقیقت اور اپنی زندگی کے مقصد کو صاف صاف دیکھ کر اعلیٰ وجہ البصیرت ایک صحیح راہِ عمل پر گامزن ہوتا ہے |
Surah 57 : Ayat 9
هُوَ ٱلَّذِى يُنَزِّلُ عَلَىٰ عَبْدِهِۦٓ ءَايَـٰتِۭ بَيِّنَـٰتٍ لِّيُخْرِجَكُم مِّنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۚ وَإِنَّ ٱللَّهَ بِكُمْ لَرَءُوفٌ رَّحِيمٌ
وہ اللہ ہی تو ہے جو اپنے بندے پر صاف صاف آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمہیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور مہربان ہے
Surah 65 : Ayat 11
رَّسُولاً يَتْلُواْ عَلَيْكُمْ ءَايَـٰتِ ٱللَّهِ مُبَيِّنَـٰتٍ لِّيُخْرِجَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِنَ ٱلظُّلُمَـٰتِ إِلَى ٱلنُّورِۚ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ وَيَعْمَلْ صَـٰلِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّـٰتٍ تَجْرِى مِن تَحْتِهَا ٱلْأَنْهَـٰرُ خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۖ قَدْ أَحْسَنَ ٱللَّهُ لَهُۥ رِزْقًا
ایک ایسا رسو ل1 جو تم کو اللہ کی صاف صاف ہدایت دینے والی آیات سناتا ہے تاکہ ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے2 جو کوئی اللہ پر ایمان لائے اور نیک عمل کرے، اللہ اُسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی یہ لوگ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ نے ایسے شخص کے لیے بہترین رزق رکھا ہے
2 | یعنی جہالت کی تاریکیوں سے علم کی روشنی میں نکال لاۓ۔ اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب انسان طلاق، عدت اور نفقات کے متعلق دنیا کے دوسرے قدیم اور جدید عائلی قوانین کا مطالعہ کرتا ہے۔ اس تقابلی مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود آج تک کسی قوم کو ایسا معقول اور فطری اور معاشرے کے لیے مفید قانون میسر نہیں آ سکا ہے جیسا اس کتاب اور اس کے لانے والے رسولؐ نے ڈیڑھ ہزار برس پہلے ہم کو دیا تھا اور جس پر کسی نظر ثانی کی ضرورت نہ کبھی پیش آئی نہ پیش آ سکتی ہے۔ یہاں اس تقابلی بحث کا موقع نہیں ہے۔ اس کا محض ایک مختصر سا نمونہ ہم نے اپنی کتاب ’’حقوق الزوجین‘‘ کے آکری حصہ میں درج کیا ہے۔ لیکن جو اصحاب علم چاہیں وہ دنیا کے مذہبی اور لادینی قوانین سے قرآن و سنت کے اس قانون کا مقابلہ کر کے خود دیکھ لیں |
1 | مفسرین میں سے بعض نے نصیحت سے مراد قرآن لیا ہے، اور رسول سے مراد محمد صلی اللہ علیہ و سلم اور بعض کہتے ہیں کہ نصیحت سے مراد خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ہی ہیں، یعنی آپ کی ذات ہمہ تن نصیحت تھی۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر زیادہ صحیح ہے، کیونکہ پہلی تفسیر کی رو سے فقرہ یوں بنانا پڑے گا کہ ’’ ہم نے تمہاری طرف ایک نصیحت نازل کی ہے اور ایک ایسا رسول بھیجا ہے ‘‘ قرآن کی عبارت میں اس تبدیلی کی آخر ضرورت کیا ہے جب کہ اس کے بغیر ہی عبارت نہ صرف پوری طرح بامعنی ہے بلکہ زیادہ پر معنی بھی ہے |