Ayats Found (3)
Surah 2 : Ayat 5
أُوْلَـٰٓئِكَ عَلَىٰ هُدًى مِّن رَّبِّهِمْۖ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایسے لوگ اپنے رب کی طرف سے راہ راست پر ہیں اور وہی فلاح پانے والے ہیں
Surah 24 : Ayat 51
إِنَّمَا كَانَ قَوْلَ ٱلْمُؤْمِنِينَ إِذَا دُعُوٓاْ إِلَى ٱللَّهِ وَرَسُولِهِۦ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ أَن يَقُولُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَاۚ وَأُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلْمُفْلِحُونَ
ایمان لانے والوں کا کام تو یہ ہے کہ جب وہ اللہ اور رسول کی طرف بلا ئے جائیں تاکہ رسول ان کے مقدمے کا فیصلہ کرے تو وہ کہیں کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
Surah 23 : Ayat 1
قَدْ أَفْلَحَ ٱلْمُؤْمِنُونَ
یقیناً فلاح پائی ہے ایمان والوں نے1 جو2:
2 | یہاں سے آیت 9 تک ایمان لانے والوں کی جو صفات بیان کی گئی ہیں وہ گویا دلیلیں ہیں اس دعوے کی کہ انہوں نے ایمان لا کر در حقیقت فلاح پائی ہے۔ بالفاظ دیگر گویا یوں کہا جا رہا ہے کہ ایسے لوگ آخر کیوں کر فلاح یاب نہ ہوں جن کی یہ اور یہ صفات ہیں۔ ان اوصاف کے لوگ ناکام و نامراد کیسے ہو سکتے ہیں۔ کامیابی انہیں نصیب نہ ہو گی تو اور کنھیں ہو گی |
1 | ایمان لانے والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی دعوت قبول کر لی آپ کو اپنا ہادی و رہبر مان لیا، اور اس طریق زندگی کی پیروی پر راضی ہو گۓ جسے آپ نے پیش کیا ہے۔ فلاح کے معنی ہیں کامیابی و خوشحالی۔ یہ لفظ خسران کی ضد ہے جو ٹوٹے اور گھاٹے اور نا مرادی کے معنی میں بولا جاتا ہے۔ اَفْلَحَ الرّجل کے معنی ہیں فلاں شخص کامیاب ہوا، اپنی مراد کو پہنچا، آسودہ و خوشحال ہو گیا، اس کی کو شش بار آور ہوئی۔ اس کی حالت اچھی ہو گئی۔ قَدْ اَفْلَحَ ’’یقیناً فلاح پائی ‘‘َ آغاز کلام ان الفاظ سے کرنے کی معنویت اس وقت تک سمجھ میں نہیں آ سکتی جب تک وہ ماحول نگاہ میں نہ رکھا جائے جس میں یہ تقریر کی جا رہی تھی۔ اس وقت ایک طرف دعوت اسلامی کے مخالف سرداران مکہ تھے جن کی تجارتیں چمک رہی تھیں ، جن کے پاس دولت کی ریل پیل تھی ، جن کو دنیوی خوشحالی کے سرے لوازم میسر تھے۔اور دوسری طرف دعوت اسلامی کے پیرو تھے جن میں سے اکثر تو پہلے ہی غریب اور خستہ حال تھے ، اور بعض جو اچھے کھاتے پیتے گھرانوں سے تعلق رکھتے تھے یا اپنے کاروبار میں پہلے کامیاب تھے ، ان کو بھی اب قوم کی مخالفت نے بد حال کر دیا تھا۔ اس صورت حال میں جب تقریر کا آغاز اس فقرے سے کیا گیا کہ ’’یقیناً فلاح پائی ہے ایمان لانے والوں نے ‘‘ تو اس سے خود بخود یہ مطلب نکلا کہ تمہارا معیار فلاح و خسران غلط ہے ، تمہارے اندازے غلط ہیں ، تمہاری نگاہ دور رس نہیں ہے ، تم اپنی جس عارضی و محدود خوشحالی کو فلاح سمجھ رہے ہو وہ فلاح نہیں خسران ہے ، اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے ماننے والوں کو جو تم ناکام و نامراد سمجھ رہے ہو وہ دراصل کامیاب و با مراد ہیں۔ اس دعوت حق کو مان کر انہوں نے خسارے کا سودا نہیں کیا ہے بلکہ وہ چیز پائی ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں ان کو پائدار خوشحالی سے ہم کنار کرے گی۔ اور اسے رد کر کے در اصل خسارے کا سودا تم نے کیا ہے جس کے بڑے نتائج تم یہاں بھی دیکھو گے اور دنیا سے گزر کر دوسری زندگی میں بھی دیکھتے رہو گے۔ یہی اس سورے کا مرکزی مضمون ہے اور ساری تقریر اول سے آخر تک اسی مدعا کو ذہن نشین کرنے کے لیے کی گئی ہے |