Ayats Found (18)
Surah 16 : Ayat 5
وَٱلْأَنْعَـٰمَ خَلَقَهَاۗ لَكُمْ فِيهَا دِفْءٌ وَمَنَـٰفِعُ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اس نے جانور پیدا کیے جن میں تمہارے لیے پوشاک بھی ہے اور خوراک بھی، اور طرح طرح کے دوسرے فائدے بھی
Surah 16 : Ayat 8
وَٱلْخَيْلَ وَٱلْبِغَالَ وَٱلْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةًۚ وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ
اُس نے گھوڑے اور خچر اور گدھے پیدا کیے تاکہ تم ان پر سوار ہو اور وہ تمہاری زندگی کی رونق بنیں وہ اور بہت سی چیزیں (تمہارے فائدے کے لیے) پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم تک نہیں ہے1
1 | یعنی بکثرت ایسی چیزیں ہیں جو انسان کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہیں اور انسان کو خبر تک نہیں ہے کہ کہاں کہاں کتنے خُدّام اُس کی خدمت میں لگے ہوئے ہیں اور کیا خدمت انجام دے رہے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 66
وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَـٰمِ لَعِبْرَةًۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهِۦ مِنۢ بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشَّـٰرِبِينَ
اور تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق موجود ہے اُن کے پیٹ سے گوبر اور خون کے درمیان ہم ایک چیز تمہیں پلاتے ہیں، یعنی خالص دودھ،1 جو پینے والوں کے لیے نہایت خو ش گوار ہے
1 | ’’گوبر اورخون کے درمیان“ کا مطلب یہ ہے کہ جانور جو غذا کھاتے ہیں اُس سے ایک طرف تو خون بنتا ہے، اور دوسری طرف فضلہ، مگر انہی جانوروں کی صنفِ اُناث میں اُسی غذا سے ایک تیسری چیز بھی پیدا ہو جاتی ہے جو خاصیت، رنگ و بو، فائدے اور مقصد میں ان دونوں سے بالکل مختلف ہے۔ پھر خاص طور پر مویشیوں میں اس چیز کی پیداوار اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں کو ضرورت پوری کرنے کے بعد انسان کے لیے بھی یہ بہترین غذا کثیر مقدار میں فراہم کرتے رہتے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 69
ثُمَّ كُلِى مِن كُلِّ ٱلثَّمَرَٲتِ فَٱسْلُكِى سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلاًۚ يَخْرُجُ مِنۢ بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَٲنُهُۥ فِيهِ شِفَآءٌ لِّلنَّاسِۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ
اپنے چھتے بنا اور ہر طرح کے پھلوں کا رس چوس اور اپنے رب کی ہموار کی ہوئی راہوں پر چلتی رہ1 اِس مکھی کے اندر سے رنگ برنگ کا ایک شربت نکلتا ہے جس میں شفا ہے لوگوں کے لیے2 یقیناً اس میں بھی ایک نشانی ہے اُن لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں3
3 | اس پورے بیان سے مقصود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کے دوسرے جُز کی صداقت ثابت کرتا ہے۔ کفار و مشرکین دو ہی باتوں کی وجہ سے آپ کی مخالفت کر رہے تھے۔ ایک یہ کہ آپ آخرت کی زندگی کا تصور پیش کرتے ہیں، جو اخلاق کے پورے نظام کا نقشہ بدل ڈالتا ہے۔ دوسرے یہ کہ آپ صرف ایک اللہ کو معبود اور مطاع اور مشکل کشا فریاد رس قرار دیتے ہیں جس سے وہ پورا نظامِ زندگی غلط قرار پاتا ہے جو شرک یا دہریت کی بنیاد پر تعمیر ہوا ہو۔ دعوت محمدی ؐ کے انہی دونوں اجزاء کو برحق ثابت کرنے کے لیے یہاں آثارِکائنات کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ بیان کا مدعا یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی دنیا پر نگاہ ڈال کر دیکھ لو، یہ آثار جو ہرطرف پائے جاتے ہیں نبی کے بیان کی تصدیق کر رہے ہیں یا تمہارے اوہام و تخیلات کی؟ نبی کہتا ہے کہ تم مرنے کے بعد دوبارہ اُٹھائے جاؤ گے۔ تم اسے ایک اَن ہونی بات قرار دیتےہو۔ مگر زمین ہر بارش کے موسم میں اس کا ثبوت فراہم کرتی ہے کہ اعادۂ خلق نہ صرف ممکن ہے بلکہ روز تمہاری آنکھوں کے سامنے ہو رہا ہے۔ نبی کہتا ہے کہ یہ کائنات بے خدا نہیں ہے۔ تمہارے دہریے اس بات کو ایک بے ثبوت دعویٰ قرار دیتے ہیں۔ مگر مویشیوں کی ساخت، کھجوروں اور انگوروں کی بناوٹ اور شہد کی مکھیوں کی خلقت گواہی دے رہی ہے کہ ایک حکیم اور رب رحیم نے ان چیزوں کو ڈیزائن کیا ہے، ورنہ کیونکر ممکن تھا کہ اتنے جانور اور اتنے درخت اور اتنی مکھیاں مِل جُل کر انسان کے لیے ایسی ایسی نفیس اور لذیذ اور مفید چیزیں اس باقاعدگی کے ساتھ پیدا کرتی رہتیں۔ نبی کہتا ہے کہ اللہ کے سوا کوئی تمہاری پرستش اور حمد و ثنا اور شکر و وفا کا مستحق نہیں ہے۔ تمہارے مشرکین اس پر ناک بھوں چڑھاتے ہیں اور اپنے بہت سے معبودوں کی نذر و نیاز بجا لانے پر اصرار کرتے ہیں۔ مگر تم خود ہی بتاؤ کہ یہ دودھ اور یہ کھجوریں اور یہ انگور اور یہ شہد، جو تمہاری بہترین غذائیں ہیں، خدا کے سوا اور کس کی بخشی ہوئی نعمتیں ہیں؟ کس دیوی یا دیوتا یا ولی نے تمہاری رزق رسانی کے لیے یہ انتظامات کیے ہیں؟ |
2 | شہد کا ایک مفید اور لذیذ غذا ہونا تو ظاہر ہے، اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا۔ البتہ اس کے اندر شفا ہونا نسبتًہ ایک مخفی بات ہے اِس لیے اس پر متنبہ کر دیا گیا۔ شہد اول تو بعض امراض میں بجائے خود مفید ہے، کیونکہ اسکے اندر پھولوں اور پھلوں کا رس، اور ان کا گلوکوز اپنی بہترین شکل میں موجود ہوتا ہے۔ پھر شہد کا یہ خاصّہ کہ وہ خود بھی نہیں سڑتا اور دوسری چیزوں کو بھی اپنے اندر ایک مدت تک محفوظ کررکھتا ہے، اسے اس قابل بنا دیتا ہے کہ دوائیں تیار کرنے میں اس سے مدد لی جائے۔ چنانچہ الکوہل کے بجائے دنیا کے فنِّ دوا سازی میں وہ صدیوں اسی غرض کے لیے استعمال ہوتا رہا ہے۔ مزید براں شہد کی مکھی اگر کسی ایسے علاقے میں کام کرتی ہے جہاں کوئی خاص جڑی بوٹی کثرت سے پائی جاتی ہو تو اس علاقے کا شہد محض شہد ہی نہیں ہوتا بلکہ اس جڑی بوٹی کا بہترین جوہر بھی ہوتا ہے اور اُس مرض کے لیے مفید بھی ہوتا ہے جس کی دوائیں اُس جڑی بوٹی میں خدا نے پیدا کی ہے۔ شہد کی مکھی سے یہ کام اگر باقاعدگی سے لیا جائے، اور مختلف نباتی دواؤں کے جوہر اس سے نکلوا کر ان کے شہد علیٰحدہ علیٰحدہ محفوظ کیے جائیں تو ہمارا خیال ہے کہ یہ شہد لیبارٹریوں میں نکالے ہوئے جوہروں سے زیادہ مفید ثابت ہو ں گے۔ |
1 | ’’رب کی ہموار کی ہوئی راہوں“ کا اشارہ اُس پورے نظام اور طریق کار کی طرف ہے جس پر شہد کی مکھیوں کا ایک گروہ کام کرتا ہے۔ان کے چھتوں کی ساخت،ان کے گروہ کی تنظیم،ان کے مختلف کارکنوں کی تقسیم کار،ان کی فراہمی غذا کے لیے پیہم آمدو رفت،ان کا باقاعدگی کے ساتھ شہد بنا بنا کر ذخیرہ کرتے جانا،یہ سب وہ راہیں ہیں جو ان کے عمل کے لیے ان کے رب نے اس طرح ہموار کر دی ہیں کہ انہیں کبھی سوچنے اور غوروفکر کرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی۔بس ایک مقرر نظام ہے جس پر ایک لگے بندھے طریقے پر شَکَر کے یہ بے شمار چھوٹے چھوٹے کارخانے ہزار ہا برس سے کام کیے چلے جارہے ہیں۔ |
Surah 16 : Ayat 79
أَلَمْ يَرَوْاْ إِلَى ٱلطَّيْرِ مُسَخَّرَٲتٍ فِى جَوِّ ٱلسَّمَآءِ مَا يُمْسِكُهُنَّ إِلَّا ٱللَّهُۗ إِنَّ فِى ذَٲلِكَ لَأَيَـٰتٍ لِّقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ
کیا اِن لوگوں نے کبھی پرندوں کو نہیں دیکھا کہ فضائے آسمانی میں کسی طرح مسخر ہیں؟ اللہ کے سوا کس نے اِن کو تھام رکھا ہے؟ اِس میں بہت نشانیاں ہیں اُن لوگوں کے لیے جو ایمان لاتے ہیں
Surah 16 : Ayat 81
وَٱللَّهُ جَعَلَ لَكُم مِّمَّا خَلَقَ ظِلَـٰلاً وَجَعَلَ لَكُم مِّنَ ٱلْجِبَالِ أَكْنَـٰنًا وَجَعَلَ لَكُمْ سَرَٲبِيلَ تَقِيكُمُ ٱلْحَرَّ وَسَرَٲبِيلَ تَقِيكُم بَأْسَكُمْۚ كَذَٲلِكَ يُتِمُّ نِعْمَتَهُۥ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تُسْلِمُونَ
اس نے اپنی پیدا کی ہوئی بہت سی چیزوں سے تمہارے لیے سائے کا انتظام کیا، پہاڑوں میں تمہارے لیے پناہ گاہیں بنائیں، اور تمہیں ایسی پوشاکیں بخشیں جو تمہیں گرمی سے بچاتی ہیں1 اور کچھ دوسری پوشاکیں جو آپس کی جنگ میں تمہاری حفاظت کرتی ہیں2 اس طرح وہ تم پر اپنی نعمتوں کی تکمیل کرتا ہے3 شاید کہ تم فرماں بردار بنو
3 | اتمامِ حجت یا تکمیل نعمت سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالٰی زندگی کے ہر پہلو میں انسان کی ضروریات کا پوری جُزرسی کے ساتھ جائزہ لیتا ہے اور پھر ایک ایک ضرورت کو پورا کرنے کا انتظام فرماتا ہے۔ مثلًا اِسی معاملے کو لیجیے کہ خارجی اثرات سے انسان کے جسم کی حفاظت مطلوب تھی۔ اس کے لیے اللہ نے کس کس پہلو سے کتنا کتنا اور کیسا کچھ سروسامان پیدا کیا، اس کی تفصیلات اگر کوئی لکھنے بیٹھے تو ایک پوری کتاب تیار ہو جائے۔ یہ گویا لباس اور مکان کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ یا مثلاً تغذیے کے معاملہ کو لیجیے۔ اس کے لیے کتنے بڑے پیمانے پر کیسے کیسے تنّوعات کے ساتھ کیسی کیسی جُزئی ضرورتوں تک کا لحاظ کر کے اللہ تعالٰی نے بے حد و حساب ذرائع فراہم کیے، اُن کا اگرکوئی جائزہ لینے بیٹھے تو شاید محض اقسامِ غذا اوراشیاء ِغذا کی فہرست ہی ایک ضخیم مجلّد بن جائے۔ یہ گویا تغذیہ کے پہلو میں اللہ کی نعمت کا اتمام ہے۔ اِسی طریقہ سے اگر انسانی زندگی کے ایک ایک گوشے کا جائزہ لے کر دیکھا جائے تو معلوم ہو گا کہ ہر گوشے میں اللہ نے ہم پر اپنی نعمتوں کا اِتمام کر رکھا ہے۔ |
1 | سردی سے بچانے کا ذکر یا تو اس لیے نہیں فرمایا گیا کہ گرمی میں کپڑوں کا استعمال انسانی تمدن کا تکمیلی درجہ ہے اور درجہ ٔکمال کا ذکر کر دینے کے بعد ابتدائی درجات کے ذکر کی حاجت نہیں رہتی، یا پھراسے خاص طور پر اس لیے بیان کیا گیا ہے کہ جن ملکوں میں نہایت مہلک قسم کی بادِ سموم چلتی ہے وہاں سردی کے لباس سے بھی بڑھ کر گرمی کا لباس اہمیت رکھتا ہے۔ ایسے ممالک میں اگرآدمی سر، گردن، کان اور سارا جسم اچھی طرح ڈھانک کر نہ نکلے تو گرم ہوا اُسے جھُلس کر رکھ دے، بلکہ بعض اوقات تو آنکھوں کو چھوڑ کر پورا منہ تک لپیٹ لینا پڑتا ہے۔ |
Surah 23 : Ayat 21
وَإِنَّ لَكُمْ فِى ٱلْأَنْعَـٰمِ لَعِبْرَةًۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِى بُطُونِهَا وَلَكُمْ فِيهَا مَنَـٰفِعُ كَثِيرَةٌ وَمِنْهَا تَأْكُلُونَ
اور حقیقت یہ ہے کہ تمہارے لیے مویشیوں میں بھی ایک سبق ہے ان کے پیٹوں میں جو کچھ ہے اسی میں سے ایک چیز ہم تمہیں پلاتے ہیں1، اور تمہارے لیے ان میں بہت سے دوسرے دُوسرے فائدے بھی ہیں
1 | یعنی دودھ جس کے متعلق قرآن میں دوسری جگہ فرمایا گیا ہے کہ خون اور گوبر کے درمیان یہ ایک تیسری چیز ہے جو جانور کی غذا سے پیدا کر دی جاتی ہے (النحل، آیت 66) |
Surah 24 : Ayat 45
وَٱللَّهُ خَلَقَ كُلَّ دَآبَّةٍ مِّن مَّآءٍۖ فَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ بَطْنِهِۦ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰ رِجْلَيْنِ وَمِنْهُم مَّن يَمْشِى عَلَىٰٓ أَرْبَعٍۚ يَخْلُقُ ٱللَّهُ مَا يَشَآءُۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ قَدِيرٌ
اور اللہ نے ہر جاندار ایک طرح کے پانی سے پیدا کیا، کوئی پیٹ کے بل چل رہا ہے تو کوئی دو ٹانگوں پر اور کوئی چار ٹانگوں پر جو کچھ وہ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے
Surah 35 : Ayat 28
وَمِنَ ٱلنَّاسِ وَٱلدَّوَآبِّ وَٱلْأَنْعَـٰمِ مُخْتَلِفٌ أَلْوَٲنُهُۥ كَذَٲلِكَۗ إِنَّمَا يَخْشَى ٱللَّهَ مِنْ عِبَادِهِ ٱلْعُلَمَـٰٓؤُاْۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ غَفُورٌ
اور اسی طرح انسانوں اور جانوروں اور مویشیوں کے رنگ بھی مختلف ہیں1 حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اُس سے ڈرتے ہیں2 بے شک اللہ زبردست اور درگزر فرمانے والا ہے3
3 | یعنی وہ زبردست تو ایسا ہے کہ نافرمانوں کو جب چاہے پکڑ لے، کسی میں یارا نہیں کہ اس کی پکڑ سے بچ نکلے، مگر یہ اس کی شان عفو و درگزر ہے جس کی بنا پر ظالموں کو مہلت ملے جا رہی ہے۔ |
2 | یعنی جو شخص اللہ کی صفات سے جتنا زیادہ نا واقف ہو گا اور اس کے برعکس جس شخص کو اللہ کی قدرت، اس کے علم، اس کی حکمت، اس کی قہاری و جبّاری، اور اس کی دوسری صفات کی جتنی معرفت حاصل ہوگی اتنا ہی وہ اس کی نافرمانی سے خوف کھائے گا۔ پس درحقیقت کس آیت میں علم سے مراد فلسفہ و سائنس اور تاریخ و ریاضی وغیرہ درسی علوم نہیں ہیں بلکہ صفات الہٰی کا علم ہے قطع نظر اس سے کہ آدمی خواندہ ہو یا نا خواندہ۔ جو شخص خدا سے بے خوف ہے وہ علّامہ دہر بھی ہو تو اس علم کے لحاظ سے جاہل محض ہے۔ اور جو شخص خدا کی صفات کو جانتا ہے اور اس کی خشیت اپنے دل میں رکھتا ہے وہ اَن پڑھ بھی ہو تو ذی علم ہے۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اس آیت میں لفظ ’’علماء‘‘ سے وہ اصطلاحی علماء بھی مراد نہیں ہیں جو قرآن و حدیث اور فقہ و کلام کا علم رکھنے کی بنا پر علمائے دین کہے جاتے ہیں۔ وہ اس آیت کے مصداق صرف اسی صورت میں ہوں گے جبکہ ان کے اندر خدا ترسی موجود ہو۔ یہی بات حضرت عبداللہ بن مسعود نے فرمائی ہے کہ لیس العلم عن کثرۃ الحدیث و لٰکن العلم عن کثرۃ الخشیۃ۔‘‘ علم کثرت حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے ہے‘‘ اور یہی بات حضرت حسن بصریؒ نے فرمائی ہے کہ العلم من خشی الحمٰن بالغیب و رغب فیما رغب اللہ فیہ و زھد فیما سخط اللہ فیہ۔ ’’علم وہ ہے جو اللہ سے بے دیکھے ڈرے، جو کچھ اللہ کو پسند ہے اس کی طرف وہ راغب ہو‘اور جس چیز سے اللہ ناراض ہے اس سے وہ کوئی دلچسپی نہ رکھے۔ |
1 | اس سے یہ سمجھانا مقصود ہے کہ خدا کی پیدا کردہ کائنات میں کہیں بھی یک رنگی و یکسانی نہیں ہے۔ ہر طرف تنُّوع ہی تنُّوع ہے ایک ہے زمین اور ایک ہی پانی سے طرح طرح کے درخت نکل رہے ہیں اور ایک درخت کے دو پھل تک اپنے رنگ، جسامت اور مزے میں یکساں نہیں ہیں۔ ایک ہی پہاڑ کو دیکھو تو اس میں کئی کئی رنگ تمہیں نظر آئیں گے اور اس کے مختلف حصوں کی مادی ترکیب میں بڑا فرق پایا جائے گا۔ انسانوں اور جانوروں میں ایک ماں باپ کے دو بچے تک یکساں نہ ملیں گے۔ اس کائنات میں اگر کوئی مزاجوں اور طبیعتوں اور ذہنیتوں کی یکسانی ڈھونڈے اور وہ اختلافات دیکھ کر گھبرا اٹھے جن کی طرف اوپر(آیت نمبر 19 تا 22 میں)اشارہ کیا گیا ہے تو یہ اس کے اپنے فہم کی کوتاہی ہے۔ یہی تنوع اور اختلاف تو پتہ دے رہا ہے کہ اس کائنات کو کسی زبردست حکیم نے بے شمار حکمتوں کے ساتھ پیدا کیا ہے اور اس کا بنانے والا کوئی بے نظیر خلاّق اور بے مثل صنّاع ہے جو ہر چیز کا کوئی ایک ہی نمونہ لے کر نہیں بیٹھ گیا ہے، بلکہ اس کے پاس ہر شے کے لیے نئے سے نئے ڈیزائن اور بے حد و حساب ڈیزائن ہیں۔ پھر خاص طور پر انسانی طبائع اور اذہان کے اختلاف پر کوئی شخص غور کرے تو اسے معلوم ہو سکتا ہے کہ یہ کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہے بلکہ در حقیقت حکمت تخلیق کا شاہ کار ہے۔ اگر تمام انسان پیدائشی طور پر اپنی افتاد طبع اور اپنی خواہشات، جذبات، میلانات اور طرز فکر کے لحاظ سے یکساں بنا دیے جاتے اور کسی اختلاف کی کوئی گنجائش نہ رکھی جاتی تو دنیا میں انسان کی قوم کی ایک نئی مخلوق پیدا کرنا ہی میرے سے لا حاصل ہو جاتا۔ خالق نے جب اس زمین پر ایک ذمہ دار مخلوق اور اختیارات کی حامل مخلوق وجود میں لانے کا فیصلہ کیا تو اس فیصلے کی نوعیت کا لازمی تقاضا یہی تھا کہ اس کی ساخت میں ہر قسم کے اختلافات کی گنجائش رکھی جاتی۔ یہ چیز اس بات کی سب سے بڑی شہادت ہے کہ انسان کسی اتفاقی حادثے کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک عظیم الشان حکیمانہ منصوبے کا نتیجہ ہے اور ظاہر ہے کہ حکیمانہ منصوبہ جہاں بھی پایا جائے گا وہاں لازماً اس کے پیچھے ایک حکیم ہستی کار فرما ہوگی۔ حکیم کے بغیر حکمت کا وجود صرف ایک احمق ہی فرض کر سکتا ہے۔ |
Surah 36 : Ayat 71
أَوَلَمْ يَرَوْاْ أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَآ أَنْعَـٰمًا فَهُمْ لَهَا مَـٰلِكُونَ
کیا یہ لوگ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی چیزوں1 میں سے اِن کے لیے مویشی پیدا کیے اور اب یہ ان کے مالک ہیں
1 | ’’ہاتھوں‘‘ کا لفظ اللہ تعالٰی کے لیے بطور استعارہ استعمال ہوا ہے۔اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ معاذاللہ وہ ذات پاک جسم رکھتی ہے اور انسانوں کی طرح ہاتھوں سے کام کرتی ہے۔بلکہ اس سے یہ احساس دلانا مقصود ہے کہ ان چیزوں کو اللہ تعالٰی نے خود بنایا ہے،ان کی تخلیق میں کسے دوسرے کا ذرہ برابر دخل نہیں ہے۔ |