Ayats Found (9)
Surah 2 : Ayat 213
كَانَ ٱلنَّاسُ أُمَّةً وَٲحِدَةً فَبَعَثَ ٱللَّهُ ٱلنَّبِيِّــۧنَ مُبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ وَأَنزَلَ مَعَهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ بِٱلْحَقِّ لِيَحْكُمَ بَيْنَ ٱلنَّاسِ فِيمَا ٱخْتَلَفُواْ فِيهِۚ وَمَا ٱخْتَلَفَ فِيهِ إِلَّا ٱلَّذِينَ أُوتُوهُ مِنۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُمُ ٱلْبَيِّنَـٰتُ بَغْيَۢا بَيْنَهُمْۖ فَهَدَى ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ لِمَا ٱخْتَلَفُواْ فِيهِ مِنَ ٱلْحَقِّ بِإِذْنِهِۦۗ وَٱللَّهُ يَهْدِى مَن يَشَآءُ إِلَىٰ صِرَٲطٍ مُّسْتَقِيمٍ
ابتدا میں سب لوگ ایک ہی طریقہ پر تھے (پھر یہ حالت باقی نہ رہی اور اختلافات رونما ہوئے) تب اللہ نے نبی بھیجے جو راست روی پر بشارت دینے والے اور کج روی کے نتائج سے ڈرانے والے تھے، اور اُن کے ساتھ کتاب بر حق نازل کی تاکہ حق کے بارے میں لوگوں کے درمیان جو اختلافات رونما ہوگئے تھے، ان کا فیصلہ کرے (اور ان اختلافات کے رونما ہونے کی وجہ یہ نہ تھی کہ ابتدا میں لوگوں کو حق بتایا نہیں گیا تھا نہیں،) اختلاف اُن لوگوں نے کیا، جنہیں حق کا عمل دیا چکا تھا اُنہوں نے روشن ہدایات پا لینے کے بعد محض اس کے لیے حق کو چھوڑ کر مختلف طریقے نکالے کہ وہ آپس میں زیادتی کرنا چاہتے تھے1 پس جو لوگ انبیا پر ایمان لے آئے، انہیں اللہ نے اپنے اذن سے اُس حق کا راستہ دکھا دیا، جس میں لوگوں نے اختلاف کیا تھا اللہ جسے چاہتا ہے، راہ راست دکھا دیتا ہے2
2 | اُوپر کی آیت اور اس آیت کے درمیان ایک پُوری داستان کی داستان ہے، جسے ذکر کیے بغیر چھوڑ دیا گیا ہے، کیونکہ یہ آیت خود اس کی طرف اشارہ کر رہی ہے اور قرآن کی مکی سُورتوں میں ( جو سُورہ بقرہ سے پہلے نازل ہوئی تھیں) یہ داستان تفصیل کے ساتھ بیان بھی ہو چکی ہے۔ انبیا ؑ جب کبھی دُنیا میں آئے، انھیں اور ان پر ایمان لانے والے لوگوں کو خدا کے باغی و سرکش بندوں سے سخت مقابلہ پیش آیا اور انھوں نے اپنی جانیں جو کھوں میں ڈال کر باطل طریقوں کے مقابلہ میں دینِ حق کو قائم کرنے کی جدوجہد کی۔ اس دین کا راستہ کبھی پھُولوں کی سیج نہیں رہا کہ اٰ مَنَّا کہا اور چین سے لیٹ گئے۔ اس ”اٰ مَنَّا“ کا قدرتی تقاضا ہر زمانے میں یہ رہا ہے کہ آدمی جس دین پر ایمان لایا ہے ، اسے قائم کرنے کی کوشش کرے اور جو طاغوت اس کے راستے میں مزاحم ہو، اس کا زور توڑنے میں اپنے جسم و جان کی ساری قوّتیں صرف کر دے |
1 | ناواقف لوگ جب اپنی قیاس و گمان کی بُنیاد پر ”مذہب“ کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، تو کہتے ہیں کہ انسان نے اپنی زندگی کی ابتدا شرک کی تاریکیوں سے کی، پھر تدریجی ارتقا کے ساتھ ساتھ یہ تاریکی چھٹتی اور روشنی بڑھتی گئی یہاں تک کہ آدمی توحید کے مقام پر پہنچا۔ قرآن اس کے برعکس یہ بتاتا ہے کہ دُنیا میں انسان کی زندگی کا آغاز پُوری روشنی میں ہوا ہے۔ اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے جس انسان کو پیدا کیا تھا اُس کو یہ بھی بتا دیا تھا کہ حقیقت کیا ہےاور تیرے لیے صحیح راستہ کون سا ہے۔ اس کے بعد ایک مدّت تک نسلِ آدم راہِ راست پر قائم رہی اور ایک اُمّت بنی رہی۔ پھر لوگوں نے نئے نئے راستے نکالے اور مختلف طریقے ایجاد کر لیے۔ اس وجہ سے نہیں کہ ان کو حقیقت نہیں بتائی گئی تھی، بلکہ اس وجہ سے کہ حق کو جاننے کے باوجود بعض لوگ اپنے جائز حق سے بڑھ کر امتیازات، فوائد اور منافع حاصل کرنا چاہتے تھے اور آپس میں ایک دُوسرے پر ظلم، سرکشی اور زیادتی کرنے کے خواہشمند تھے۔ اسی خرابی کو دُور کرنے کے لیے اللہ تعالٰی نے انبیائے کرام کو مبعوث کرنا شرُوع کیا۔ یہ انبیا ؑ اس لیے نہیں بھیجے گئے تھے کہ ہر ایک اپنے نام سے ایک نئے مذہب کی بنا ڈالے اور اپنی ایک نئی اُمّت بنا لے۔ بلکہ ان کے بھیجے جانے کی غرض یہ تھی کہ لوگوں کے سامنے اس کھوئی ہوئی راہِ حق کو واضح کر کے اُنھیں پھر سے ایک اُمّت بنا دیں |
Surah 4 : Ayat 175
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَٱعْتَصَمُواْ بِهِۦ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِى رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا
Surah 6 : Ayat 82
ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَلَمْ يَلْبِسُوٓاْ إِيمَـٰنَهُم بِظُلْمٍ أُوْلَـٰٓئِكَ لَهُمُ ٱلْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
حقیقت میں تو امن انہی کے لیے ہے اور راہ راست پر وہی ہیں جو ایمان لائے اور جنہوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا1"
1 | یہ پُوری تقریر اس بات پر شاہد ہے کہ وہ قوم اللہ فاطر السّمٰوات و الارض کی ہستی کی منکر نہ تھی بلکہ اس کا اصلی جُرم اللہ کے ساتھ دُوسروں کو خدائی صفات اور خدا وندانہ حقوق میں شریک قرار دینا تھا۔ اوّل تو حضرت ابراہیم ؑ خود ہی فرما رہے ہیں کہ تم اللہ ساتھ دُوسری چیزوں کو شریک کرتے ہو۔ دوسرے جس طرح آپ ان لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے اللہ کا ذکر فرماتے ہیں، یہ اندازِ بیان صرف اُنہی لوگوں کے مقابلہ میں اختیار کیا جاسکتا ہے جو اللہ کے نفسِ وجود سے منکر نہ ہوں۔ لہٰذا اُن مفسّرین کی رائے درست نہیں ہے جنھوں نے اس مقام پر اور حضرت ابراہیم ؑ کے سلسلہ میں دُوسرے مقامات پر قرآن کے بیانات کی تفسیر اس مفروضہ پر کی ہے کہ قومِ ابراہیم ؑ اللہ کی منکر یا اس سے ناواقف تھی اور صرف اپنے معبُودوں ہی کو خدائی کا بالکلّیہ مالک سمجھتی تھی۔ آخری آیت میں یہ جو فقرہ ہے کہ ”جنھوں نے اپنے ایمان کو ظلم کے ساتھ آلودہ نہیں کیا“، اس میں لفظ ظلم سے بعض صحابہ کو غلط فہمی ہوئی تھی کہ شاید اس سے مراد معصیت ہے ۔لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تصریح فرمادی کہ دراصل یہاں ظلم سے مراد شرک ہے۔ لہٰذا اس آیت کا مطلب یہ ہوا کہ جو لوگ اللہ کو مانیں اور اپنے اس ماننے کو کسی مشرکانہ عقیدہ و عمل سے آلودہ نہ کریں، امن صرف اُنہی کے لیے ہے اور وہی راہِ راست پر ہیں۔ اس موقع پر یہ جان لینا بھی دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہ واقعہ جو حضرت ابرہیم ؑ کی عظیم الشان پیغمبرانہ زندگی کا نقطۂ آغاز ہے، بائیبل میں کوئی جگہ نہیں پا سکا ہے ۔ البتہ تَلمُود میں اس کا ذکر موجود ہے ۔ لیکن اس میں دو باتیں قرآن سے مختلف ہیں۔ ایک یہ کہ وہ حضرت ابرہیم ؑ کی جستجو ئے حقیقت کو سُورج سے شروع کر کے تاروں تک اور پھر خدا تک لے جاتی ہے۔ دُوسرے اس کا بیان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب سُورج کو ھٰذَا رَبِّیْ کہا تو ساتھ ہی اس کی پرستش بھی کر ڈالی اور اسی طرح چاند کو بھی انہوں نے ھٰذَا رَبِّیْ کہہ کر اس کی پرستش کی |
Surah 22 : Ayat 24
وَهُدُوٓاْ إِلَى ٱلطَّيِّبِ مِنَ ٱلْقَوْلِ وَهُدُوٓاْ إِلَىٰ صِرَٲطِ ٱلْحَمِيدِ
ان کو پاکیزہ بات قبول کرنے کی ہدایت بخشی گئی1 اور انہیں خدائے ستودہ صفات کا راستہ دکھایا گیا2
2 | جیسا کہ دیباچے میں بیان کیا گیا ہے ، ہمارے نزدیک یہاں سورے کا وہ حصہ ختم ہو جاتا ہے جو مکی دور میں نازل ہوا تھا۔ اس حصے کا مضمون اور انداز بیان وہی ہے جو مکی سورتوں کا ہوا کرتا ہے ، اور اس میں کوئی علامت بھی ایسی نہیں ہے جس کی بنا پر یہ شبہ کیا جا سکے کہ شاید یہ پورا حصہ ، یا اس کا کوئی جز مدینے میں نازل ہوا ہو۔ صرف آیت : ھٰذٰ نِ خَصْمٰنِ ا خْتَصَمُوْ ا فِیْ رَبِّھِمْ ( یہ دو فریق ہیں جن کے درمیان اپنے رب کے بارے میں جھگڑا ہے ) کے متعلق بعض مفسرین نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت مدنی ہے۔ لیکن اس قول کی بنیاد صرف یہ ہے کہ ان کے نزدیک ان دو فریقوں سے مراد جنگ بدر کے فریقین ہیں ، اور یہ کوئی مضبوط بنیاد نہیں ہے۔ سیاق و سباق میں کہیں کوئی چیز ایسی نہیں پائی جاتی جو اس اشارے کو اس جنگ کے فریقین کی طرف پھیرتی ہو۔ الفاظ عام ہیں ، اور سیاق عبارت صاف بتا رہا ہے کہ اس سے مراد کفر و ایمان کی اس نزاع عام کے فریقین ہیں جو ابتدا سے چلی آ رہی ہے اور قیامت تک جاری رہے گی۔ جنگ بدر کے فریقین سے اس کا تعلق ہوتا تو اس کی جگہ سورہ انفال میں تھی نہ کہ اس سورے میں اور اس سلسلہ کلام میں۔ یہ طریق تفسیر اگر صحیح مان لیا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ قرآن کی آیات بالکل منتشر طریقہ پر نازل ہوئیں اور پھر ان کو بلا کسی ربط و مناسبت کے بس یوں ہی جہاں چاہا لگا دیا گیا۔ حالانکہ قرآن کا نظم کلام خود اس نظریے کی سب سے بڑی تردید ہے |
1 | اگرچہ پاکیزہ بات کے الفاظ عام ہیں ، مگر مراد ہے وہ کلمہ طیبہ اور عقیدہ صالحہ جس کو قبول کرنے کی بنا پر وہ مومن ہوئے |
Surah 48 : Ayat 20
وَعَدَكُمُ ٱللَّهُ مَغَانِمَ كَثِيرَةً تَأْخُذُونَهَا فَعَجَّلَ لَكُمْ هَـٰذِهِۦ وَكَفَّ أَيْدِىَ ٱلنَّاسِ عَنكُمْ وَلِتَكُونَ ءَايَةً لِّلْمُؤْمِنِينَ وَيَهْدِيَكُمْ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے1 فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی 2اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے3، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے4 اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے5
5 | یعنی تمہیں مزید بصیرت اور یقین حاصل ہو، اور آئندہ تم اسی طرح اللہ اور رسول کی اطاعت پر قائم رہو اور اللہ کے اعتماد پر راہ حق میں پیش قدمی کرتے چلے جاؤ، اور یہ تجربات تمہیں یہ سبق سکھا دیں کہ خدا کا دین جس اقدام کا تقاضا کر رہا ہو، مومن کا کام یہ ہے کہ خدا کے بھروسے پر وہ اقدام کر ڈالے، اس حیص بیص میں لگ جاۓ کہ میری طاقت کتنی ہے اور باطل کی طاقتوں کا زور کتنا ہے |
4 | نشانی اس بات کی کہ جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت میں ثابت قدم رہتا ہے اوراللہ کے بھروسے پر حق اور راستی کی حمایت کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے اسے اللہ کس کس طرح اپنی تائید و نصرت سے نوازتا ہے |
3 | یعنی کفار قریش کو یہ ہمت اس نے نہ دی کہ وہ حدیبیہ کے مقام پر تم سے لڑ جاتے، حالانکہ تمام ظاہری حالات کے لحاظ سے وہ بہت زیادہ بہتر پوزیشن میں تھے، اور جنگی نقطہ نظر سے تمہارا پلہ ان کے مقابلہ میں بہت کمزور نظر آتا تھا۔ مزید براں اس سے مراد یہ بھی ہے کہ کسی دشمن طاقت کو اس زمانے میں مدینے پر بھی حملہ آور ہونے کی جرأت نہ ہوئی ، حالانکہ چودہ سو مردانِ جنگی کے نکل جانے کے بعد مدینے کا محاذ بہت کمزور ہو گیا تھا اور یہود و مشرکین اور منافقین اس موقع سے فائدہ اٹھا سکتے تھے |
2 | اس سے مراد ہے صلح حدیبیہ جس کو سورۃ کے آغازمیں فتح مبین قرار دیا گیا ہے |
1 | اس سے مراد وہ دوسری فتوحات ہیں جو خیبر کے بعد مسلمانوں کو مسلسل حاصل ہوتی چلی گئیں |
Surah 64 : Ayat 11
مَآ أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ إِلَّا بِإِذْنِ ٱللَّهِۗ وَمَن يُؤْمِنۢ بِٱللَّهِ يَهْدِ قَلْبَهُۥۚ وَٱللَّهُ بِكُلِّ شَىْءٍ عَلِيمٌ
کوئی 1مصیبت کبھی نہیں آتی مگر اللہ کے اذن ہی سے آتی ہے2 جو شخص اللہ پر ایمان رکھتا ہو اللہ اس کے دل کو ہدایت بخشتا ہے3، اور اللہ کو ہر چیز کا علم ہے4
4 | اس سلسلہ کلام میں اس ارشاد کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ اللہ کو معلوم ہے کہ کون شخص واقعی ایمان رکھتا ہے اور کس شان کا ایمان رکھتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے علم کی بنا پر اسی قلب کو ہدایت بخشتا ہے جس میں ایمان ہو، اور اسی شان کی ہدایت بخشتا ہے جس شان کا ایمان اس میں ہو۔ دوسرا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اپنے مومن بندوں کے حالات سے اللہ بے خبر نہیں ہے۔ اس نے ایمان کی دعوت دے کر، اور اس ایمان کے ساتھ دنیا کی شدید آزمائشوں میں ڈال کر انہیں ان کے حال پر چھوڑ نہیں دیا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کس مومن پر دنیا میں کیا کچھ گزر رہی ہے اور وہ کن حالات میں اپنے ایمان کے تقاضے کس طرح پورے کر رہا ہے۔ اس لیے اطمینان رکھو کہ جو مصیبت بھی اللہ کے اذن سے تم پر نازل ہوتی ہے، اللہ کے علم میں ضرور اس کی کوئی عظیم مصلحت ہوتی ہے اور اس کے اندر کو4ئی بڑی خیر پوشیدہ ہوتی ہے، کیونکہ اللہ اپنے مومن بندوں کا خیر خواہ ہے، بلا وجہ انہیں مصائب میں مبتلا کرنا نہیں چاہتا |
3 | یعنی مصائب کے ہجوم میں جو چیز انسان کو راہ راست پر قائم رکھتی ہے اور کسی سخت سے سخت حالت میں بھی اس کے قدم ڈگمگانے نہیں دیتی وہ صرف ایمان باللہ ہے۔ جس کے دل میں ایمان نہ ہو وہ آفات کو یا تو اتفاقات کا نتیجہ سمجھتا ہے، یا دنیوی طاقتوں کو ان کےسامنے لانے اور روکنے میں مؤثر مانتا ہے، یا انہیں ایسی خیالی طاقتوں کا عمل سمجھتا ہے جنہیں انسانی اوہام نے نفع و ضرر پہنچانے پر قادر فرض کر لیا ہے، یا خدا کو فاعِل مختار مانتا تو ہے مگر صحیح ایمان کے ساتھ نہیں مانتا۔ ان تمام مختلف صورتوں میں آدمی کم ظرف ہو کر رہ جاتا ہے۔ ایک خاص حد تک تو وہ مصیبت سہہ لیتا ہے، لیکن اس کے بعد وہ گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔ ہر آستانے پر جھک جاتا ہے۔ ہر ذلت قبول کر لیتا ہے۔ ہر کمینی حرکت کر سکتا ہے۔ ہر غلط کام کرنے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ خدا کو گالیاں دینے سے بھی نہیں چوکتا۔ حتیٰ کہ خود کشی تک کر گزرتا ہے۔ اس کے بر عکس جو شخص یہ جانتا اور سچے دل سے مانتا ہو کہ سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے اور وہی اس کائنات کا مالک و فرمانروا ہے، اور اسی کے اذن سے مصیبت آتی اور اسی کے حکم سے ٹل سکتی ہے، اس کے دل کو اللہ صبر و تسلیم اور رضا بقضاء کی توفیق دیتا ہے، اس کو عزم اور ہمت کے ساتھ ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی طاقت بخشتا ہے، تاریک سے تاریک حالات میں بھی اس کے سامنے اللہ کے فضل کی امید کا چراغ روشن رہتا ہے، اور کوئی بڑی سے بڑی آفت بھی اس کو اتنا پست ہمت نہیں ہونے دیتی کہ وہ راہ راست سے ہٹ جاۓ، یا باطل کے آگے سر جھکا دے، یا اللہ کے سوا کسی اور کے در پر اپنے درد کا مداوا ڈھونڈنے لگے۔ اس طرح ہر مصیبت نہیں رہتی بلکہ نتیجے کے اعتبار سے سراسر رحمت بن جاتی ہے، کیونکہ خواہ وہ اس کا شکارہو رہ جاۓ یا اس سے بخیریت گزر جاۓ، دونوں صورتوں میں وہ اپنے رب کی ڈالی ہوئی آزمائش سے کامیاب ہو کر نکلتا ہے۔ اسی چیز کو ایک متفق علیہ حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس طرح بیان فرمایا ہے : عجباً للمؤمن، لا یقیضی اللہ لہ قضاءً الا کان خیراً الہٰ، ان اصا بتْہ ضَرّاء صؓر، فکان خیراً لہٗ، وان اصابَتہ سرّاء شکر، فکان خیراً الہ، ولیس ذالک لِاَ حدٍ الّا المؤمن۔ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے۔ اللہ اس کے حق میں جو فیصلہ بھی کرتا ہے وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ مصیبت پڑے تو صبر کرتا ہے، اور وہ اس کے لیے اچھا ہوتا ہے۔ خوشحالی میسر آۓ تو شکر کرتا ہے، اور وہ بھی اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔ یہ بات مومن کے سوا کسی کو نصیب نہیں ہوتی |
2 | یہ مضمون سورہ الحدید، آیات 22۔ 23 میں بھی گزر چکا ہے اور وہاں حواشی نمبر 39 تا 42 میں ہم اس کی تشریح کر چکے ہیں۔ جن حالات میں اور جس مقصد کے لیے یہ بات وہاں فرمائی گئی تھی، اسی طرح کے حالات میں اسی مقصد کے لیے اسے یہاں دہرایا گیا ہے۔ جو حقیقت مسلمانوں کے ذہن نشین کرنی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ نہ مصائب خود آ جاتے ہیں، نہ دنیا میں کسی کی یہ طاقت ہے کہ اپنے اختیار سے جس پر جو مصیبت چاہے نازل کر دے۔ یہ تو سراسر اللہ کے اِذن پر موقوف ہے کہ کسی پر کوئی مصیبت نازل ہونے دے یا نہ ہونے دے۔ اور اللہ کا اذن بہر حال کسی نہ کسی مصلحت کی بنا پر ہوتا ہے جسے انسان نہ جانتا ہے نہ سمجھ سکتا ہے |
1 | اب روۓ سخن اہل ایمان کی طرف ہے۔ اس سلسلہ کلام کو پڑھتے ہوۓ یہ بات نگاہ میں رہنی چاہیے کہ جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں وہ مسلمانوں کے لیے سخت مصائب کا زمانہ تھا۔ مکہ سے برسوں ظلم سہنے کے بعد سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آ گۓ تھے۔ اور مدینے میں جن حق پر ستوں نے ان کو پناہ دی تھی ان پر دہری مصیبت آ پڑی تھی۔ ایک طرف انہیں سینکڑوں مہاجرین کو سہارا دینا جو عرب کے مختلف حصوں سے ان کی طرف چلے آ رہے تھے، اور دوسری طرف پورے عرب کے اعداۓ اسلام ان کے درپے آزاد ہو گۓ تھے |
Surah 21 : Ayat 4
قَالَ رَبِّى يَعْلَمُ ٱلْقَوْلَ فِى ٱلسَّمَآءِ وَٱلْأَرْضِۖ وَهُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلْعَلِيمُ
رسُولؐ نے کہا میرا رب ہر اُس بات کو جانتا ہے جو آسمان اور زمین میں کی جائے، وہ سمیع اور علیم ہے1
1 | یعنی رسول نے کبھی اس جھوٹے پروپیگنڈے اور سرگوشیوں کی اس مہم (Whispering Campaign) کا جواب اس کے سوا نہ دیا کہ ’’ تم لوگ جو کچھ باتیں بناتے ہو سب خدا سنتا اور جانتا ہے ، خواہ زور سے کہو ، خواہ چپکے چپکے کانوں میں پھونکو ‘‘۔ وہ کبھی بے انصاف دشمنوں کے مقابلے میں ترکی بہ ترکی جواب دینے پر نہ اتر آیا |
Surah 39 : Ayat 19
أَفَمَنْ حَقَّ عَلَيْهِ كَلِمَةُ ٱلْعَذَابِ أَفَأَنتَ تُنقِذُ مَن فِى ٱلنَّارِ
(اے نبیؐ) اُس شخص کو کون بچا سکتا ہے جس پر عذاب کا فیصلہ چسپاں ہو چکا ہو1؟ کیا تم اُسے بچا سکتے ہو جو آگ میں گر چکا ہو؟
1 | یعنی جس نے اپنے آپ کو خدا کے عذاب کا مستحق بنا لیا ہو اور اللہ نے فیصلہ کر لیا ہو کہ اسے اب سزا دینی ہے |
Surah 17 : Ayat 19
وَمَنْ أَرَادَ ٱلْأَخِرَةَ وَسَعَىٰ لَهَا سَعْيَهَا وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَأُوْلَـٰٓئِكَ كَانَ سَعْيُهُم مَّشْكُورًا
اور جو آخرت کا خواہشمند ہو اور اس کے لیے سعی کرے جیسی کہ اس کے لیے سعی کرنی چاہیے، اور ہو وہ مومن، تو ایسے ہر شخص کی سعی مشکور ہوگی1
1 | یعنی اس کےکام کی قدر کی جائے گی اور جتنی اور جیسی کوشش بھی اس نے آخرت کی کامیابی کے لیے کی ہوگی اس کا پھل وہ ضرور پائے گا |