Ayats Found (1)
Surah 42 : Ayat 36
فَمَآ أُوتِيتُم مِّن شَىْءٍ فَمَتَـٰعُ ٱلْحَيَوٲةِ ٱلدُّنْيَاۖ وَمَا عِندَ ٱللَّهِ خَيْرٌ وَأَبْقَىٰ لِلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ
جو کچھ بھی تم لوگوں کو دیا گیا ہے وہ محض دنیا کی چند روزہ زندگی کا سر و سامان ہے1، اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر بھی ہے اور پائدار بھی2 وہ اُن لوگوں کے لیے ہے جو ایمان لائے ہیں اور اپنے رب پر بھروسہ کرتے ہیں3
3 | اللہ پر توکل کو یہاں ایمان لانے کا لازمی تقاضا، اور آخرت کی کامیابی کے لیے ایک ضروری وصف قرار دیا گیا ہے۔ توکل کے معنی یہ ہیں کہ : اولاً ،آدمی کو اللہ تعالیٰ کی رہنمائی پر کامل اعتماد ہو اور وہ یہ سمجھے کہ حقیقت کا جو علم، اخلاق کے جو اصول ،حلال و حرام کے جو حدود، اور دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے جو قواعد و ضوابط اللہ نے دیے ہیں وہی بر حق ہیں اور انہی کی پیروی میں انسان کی خیر ہے۔ ثانیاً ، آدمی کا بھروسہ اپنی طاقت ، قابلیت، اپنے ذرائع و وسائل ، اپنی تدابیر، اور اللہ کے سوا دوسروں کی امداد و اعانت پر نہ ہو، بلکہ وہ پوری طرح یہ بات ذہن نشین رکھے کہ دنیا اور آخرت کے ہر معاملے میں اس کی کامیابی کا اصل انحصار اللہ کی توفیق و تائید پر ہے ، اور اللہ کی توفیق و تائید کا وہ اسی صورت میں مستحق ہو سکتا ہے جبکہ وہ اس کی رضا کو مقصود بنا کر ، اس کے مقرر کی ہوۓ حدود کی پابندی کرتے ہوۓ کام کرے۔ ثالثاً ، آدمی کو ان وعدوں پر پورا بھوسا ہو جو اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل صالح کا رویہ اختیار کرنے والے اور باطل کے بجاۓ حق کے لیے کام کرنے والے بندوں سے کیے ہیں ، اور ان ہی وعدوں پر اعتماد کرتے ہوۓ وہ ان تمام فوائد اور منافع اور لذائذ کو لات مار دے جو باطل کی راہ پر جانے کی صورت میں اسے حاصل ہوتے نظر آتے ہوں ، اور ان سارے نقصانات اور تکلیفوں اور محرومیوں کو انگیز کر جاۓ جو حق پر استقامت کی وجہ سے اس کے نصیب میں آئیں۔ توکل کے معنی کی اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ایمان کے ساتھ اس کا کتنا گہرا تعلق ہے ، اور اس کے بغیر جو ایمان محض خالی خولی اعتراف و اقرار کی حد تک ہو اس سے وہ شاندار نتائج کیوں نہیں حاصل ہو سکتے جن کا وعدہ ایمان لا کر توکل کرنے والوں سے کیا گیا ہے |
2 | یعنی وہ دولت اپنی نوعیت و کیفیت کے لحاظ سے بھی اعلیٰ درجے کی ہے ، اور پھر وقتی و عارضی بھی نہیں ہے بلکہ ابدی اور لازوال ہے |
1 | یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر آدمی پھول جاۓ۔ بڑی سے بڑی دولت بھی جو دنیا میں کسی شخص کو ملی ہے ، ایک تھوڑی سی مدت ہی کے لیے ملی ہے۔ چند سال وہ اس کو برت لیتا ہے اور پھر سب کچھ چھوڑ کر دنیا سے خالی ہاتھ رخصت ہو جاتا ہے۔ پھر وہ دولت بھی چاہے بہی کھاتوں میں کتنی ہی بڑی ہو، عملاً اس کا ایک قلیل سا حصہ ہی آدمی کے اپنے استعمال میں آتا ہے۔ اس مال پر اترانا کسی ایسے انسان کا کام نہیں ہے جو اپنی اور اس مال و دولت کی، اور خود اس دنیا کی حقیقت کو سمجھتا ہو |