Ayats Found (2)
Surah 90 : Ayat 17
ثُمَّ كَانَ مِنَ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلصَّبْرِ وَتَوَاصَوْاْ بِٱلْمَرْحَمَةِ
پھر (اس کے ساتھ یہ کہ) آدمی اُن لوگوں میں شامل ہو جو ایمان لائے 1اور جنہوں نے ایک دوسرے کو صبر اور (خلق خدا پر) رحم کی تلقین کی2
2 | یہ مومن معاشرے کی دو اہم خصوصیات ہیں جن کو دو مختصر فقروں میں بیان کر دیا گیا ہے۔ پہلی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے افراد ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کریں۔ اور دوسری یہ کہ وہ ایک دوسرے کو رحم کی تلقین کریں۔ جہاں تک صبر کا تعلق ہے، ہم اس سے پہلے بار ہا اس امر کی وضاحت کر چکے ہیں کہ قرآن مجید جس وسیع مفہوم میں اس لفظ کو ا ستعمال کرتا ہے اس کے لحاظ سے مومن کی پوری زندگی صبر کی زندگی ہے، اور ایمان کے راستے میں قدم رکھتے ہی آدمی کے صبر کا امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ خدا کی فرض کردہ عبادتوں کے انجام دینے میں صبر درکار ہے۔ خدا کے احکام کی اطاعت و پیروی میں صبر کی ضرورت ہے۔ خدا کی حرام کی ہوئی چیزوں سے بچنا صبر کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اخلاق کی برائیوں کو چھوڑنا اور پاکیزہ اخلاق اختیار کرنا صبر چاہتا ہے۔ قدم قدم پر گناہوں کی ترغیبات سامنے آتی ہیں جن کا مقابلہ صبر ہی سے ہو سکتا ہے۔ بے شمار مواقع زندگی میں ایسے پیش آتے ہیں جن میں خدا کے قانون کی پیروی کی جائے تو نقصانات، تکالیف، مصائب، اور محرومیوں سے سابقہ پڑتا ہے اور اس کے برعکس نافرمانی کی راہ اختیار کی جائے تو فائدے اور لذتیں حاصل ہوتی نظر آتی ہیں۔ صبر کے بغیر ان مواقع سے کوئی مومن بخریت نہیں گزر سکتا۔ پھر ایمان کی راہ اختیار کرتے ہی آدمی کو اپنے نفس اور اس کی خواہشات سے لے کر اپنے اہل و عیال، اپنے خاندان، معاشرے ، اپنے ملک و قوم، اور دنیا بھر کے شیاطین جن و انس کی مزاحمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، حتی کہ راہ خدا میں ہجرت اور جہاد کی نوبت بھی آ جاتی ہے۔ ان سب حالات میں صبر ہی کی صفت آدمی کو ثابت قدم رکھ سکتی ہے۔ اب یہ ظاہر بات ہے کہ ایک ایک مومن اکیلا اکیلا اس شدید ا متحان میں پڑ جائے تو ہر وقت شکست کھا جانے کے خطرے سے دوچار ہو گا اور مشکل ہی سے کامیاب ہو سکے گا۔ بخلاف اس کے ا گر ایک مومن معاشرہ ایسا موجود ہو جس کا ہر فرد خود بھی صابر ہو اور جس کے سارے افراد ایک دوسرے کو صبر کے اس ہمہ گیر امتحان میں سہارا بھی دے رہے ہوں تو کامرانیاں اس معاشرے کے قدم چومیں گی۔ بدی کے مقابلے میں ایک بے پناہ طاقت پیدا ہو جائے گی۔ انسانی معاشرے کو بھلائی کے راستے پر لانے کے لیے ا یک زبردست لشکر تیار ہو جائے گا۔ رہا رحم، تو اہل ایمان کے معاشرے کی امتیازی شان یہی ہے کہ وہ ایک سنگدل، بے رحم اور ظالم معاشرہ نہیں ہوتا بلکہ انسانیت کے لیے رحیم و شفیق اور آس میں ایک دوسرے کا ہمدرد و غمخوار معاشرہ ہوتا ہے۔ فرد کی حیثیت سے بھی ایک مومن اللہ کی شان رحیمی کا مظہر ہے، اور جماعت کی حیثیت سے بھی مومنوں کا گروہ خدا کے اس رسول کا نمائندہ ہے جس کی تعریف میں فرمایا گیا ہے کہ ’’وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا رَحْمَةً لِّلْعَالَمِينَ‘‘ (الانبیاء۔106) آنحضورؐ نے سب سے بڑھکر جس بلند اخلاقی صفت کو اپنی امت میں فروغ دینے کی کوشش فرمائی ہے وہ یہی رحم کی صفت ہے۔ مثال کے طور پر آپ کے حسب ذیل ارشادات ملاحظہ ہوں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی نگاہ میں اس کی کیا اہمیت تھی۔ حضرت جریر بن عبداللہ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: لا یرحم اللہ من لا یرحم الناس (بخاری ۔ مسلم) اللہ اس شخص پر رحم نہیں کرتا جو انسانوں پر ر حم نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: الراحمون یرحمھم الرحمن۔ ارحموامن فی الارض یرحمکم من فی السماء (ابو داؤد۔ ترمذی) رحم کرنے والوں پر رحمان رحم کرتا ہے۔ زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا۔ حضرت ابو سعید خدری حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: من لا یرحم لا یرحم (بخاری فی الادب المفرد)۔ جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: لیس منا من لم یرحم صغیر نا ولم یوقر کبیرنا (ترمذی) وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھائے ، اور ہمارے بڑے کی توقیر نہ کرے۔ ابو داؤد نے حضورؐ کے اس ارشاد کو حضرت عبداللہ بن عمرو کے حوالہ سے یوں نقل کیا ہے: من لم یرحم صغیرنا و یعرف حق کبیرنا فلیس منا۔ جس نے ہمارے چھوٹے پر رحم نہ کھایا اور ہمارے بڑے کا حق نہ پہچانا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ میں نے ابو ا لقاسم صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے سنا ہے: لا تنزع الرحمۃ الا من شقی (مسند ا حمد۔ ترمذی) بد بخت آدمی کے دل ہی سے رحم سلب کر لیا جاتا ہے۔ حضرت عباس بن حمار کی روایت ہے کہ حضورؐ نے فرمایا تین قسم کے آدمی جنتی ہیں۔ ان میں سے ایک: رجل رحیم رقیق القلب لکل ذل قربی و مسلم۔ (مسلم) وہ شخص ہے جو ہر رشتہ دار اور ہر مسلمان کے لیے رحیم او رقیق القلب ہو۔ حضرت نعمان بن بشیرؓ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: تری المومنین و تراحمھم و توادھم و تعاطفھم کمثل الجسد اذا اشتکی عضوا تداعی لہ سائر الجسد با لسھر و الحمی۔ (بخاری و مسلم) تم مومنوں کو آپس کے رحم اور محبت اور ہمدری کے معاملہ میں ایک جسم کی طرح پاؤ گے کہ اگر ایک عضور میں کوئی تکلیف ہو تو سارا جسم اس کی خاطر بے خوابی اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ حضرت ابو موسیؓ اشعری کہتے ہیں کہ حضورؐ نے فرمایا: المومن للمومن کالبنیان یشد بعضہ بعضاً مومن دوسرے مومن کے لیے اس دیوار کی طرح ہے جس کا ہر حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر حضورؐ کا یہ ارشاد نقل کرتے ہیں: المسلم اخوالمسلم لا یظلمہ و لا یسلمہ و من کان فی حاجۃ اخیہ کان اللہ فی حاجتہ و من فرج عن مسلم کربۃ فرج اللہ عنہ کربۃ من کربات یوم القیامۃ و من ستر مسلما سترہ اللہ یوم ا لقیامۃ۔ (بخاری و مسلم) مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے نہ اس مدد سے باز رہتا ہے۔ جو شخص اپنے بھائی کی کسی حاجت کو پورا کرنے میں لگا ہو گا اللہ اس کی حاجت پوری کرنے میں لگ جائے گا۔ اور جو شخص کسی مسلمان کو کسی مصیبت سے نکالے گا اللہ تعالی اسے روز قیامت کی مصیبتوں میں سے کسی مصیبت سے نکال دے گا، اور جو شخص کسی مسلمان کی عیب پوری کرے گا اللہ قیامت کے روز اس کی عیب پوری کرے گا۔ ان ارشادات سے معلوم ہو جاتا ہے کہ نیک اعمال کرنے والوں کو ایمان لانے کے بعد اہل ایمان کے گروہ میں شامل ہونے کی جو ہدایت قرآن مجید کی اس آیت میں دی گئی ہے اس سے کس قسم کا معاشرہ بنانا مقصود ہے |
1 | یعنی ان اوصاف کے ساتھ یہ ضروری ہے کہ آدمی مومن ہو، کیونکہ ایمان کے بغیر نہ کوئی عمل صالح ہے اور نہ اللہ کے ہاتھ وہ مقبول ہو سکتا ہے۔ قرآن مجید میں بکثرت مقامات پر اس کی تصریح کی گئی ہے کہ نیکی وہی قابل قدر اور ذریعہ نجات ہے جو ایمان کے ساتھ ہو۔ مثلاً سورہ نساء میں فرمایا ’’جو نیک اعمال کرے، خواہ وہ مرد ہو یا عورت ، اور ہو وہ مومن، تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے‘‘ (آیت 124)۔ سورہ نحل میں فرمایا ’’جو نیک عمل کرے ، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن ، تو ہم اسے پاکیزہ زند گی بسر کرائیں گے اور ایسے لوگوں کو ان کا اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق عطا کریں گے‘‘ (آ یت 97)۔ سورہ مومن میں فرمایا ’’اور جو نیک عمل کرے، خواہ مرد ہو یا عورت، اور ہو وہ مومن، ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے، وہاں ان کو بے حساب رزق دیا جائے گا‘‘ (آیت 40)۔ قرآن پاک کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ یہ دیکھے گا کہ اس کتاب میں جہاں بھی عمل صالح کے اجر اور اس کی جزائے خیر کا ذکر کیا گیا ہے وہاں لازماً اس کے ساتھ ا یمان کی شرط لگی ہوئی ہے۔ عمل بلا ایمان کو کہیں بھی خدا کے ہاں مقبول نہیں قرار دیا گیا ہے اور نہ اس پر کسی اجر کی امید دلائی گئی ہے۔ اس مقام پر یہ اہم نکتہ بھی نگاہ سے مخفی نہ رہنا چاہیے کہ آیت میں یہ نہیں فرمایا گیا کہ ’’پھر وہ ایمان لایا‘‘ بلکہ یہ فرمایا گیا ہے کہ ’’پھر وہ ان لوگوں میں شامل ہوا جو ایمان لائے‘‘۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ محض ایک فرد کی حیثیت سے اپنی جگہ ایمان لا کر رہ جانا مطلوب نہیں ہے، بلکہ مطلوب یہ ہے کہ ہر ایمان لانے والا ان دوسرے لوگوں کے ساتھ مل جائے جو ایمان لائے ہیں تاکہ اس اہل ایمان کی ایک جماعت بنے، ایک مومن معاشرہ وجود میں آئے، اور اجتماعی طور پر ان بھلائیوں کو قائم کیا جا ئے جن کا قائم کرنا، اور ان برائیوں کو مٹایا جائے جن کا مٹانا ایمان کا تقاضا ہے |
Surah 90 : Ayat 18
أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْمَيْمَنَةِ
یہ لوگ ہیں دائیں بازو والے