Ayats Found (1)
Surah 57 : Ayat 19
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦٓ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلصِّدِّيقُونَۖ وَٱلشُّهَدَآءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں1 وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق2 اور شہید3 ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اور اُن کا نور ہے4 اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں
4 | یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے |
3 | اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اب عباسؓ، مسروق، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُلیٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِرَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْدُھُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاۓ ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے ‘‘ بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ،اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْاُ مَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْ نُوْا شُھَدَ آءَ عَلَیالنَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّسُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔143) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُشَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ (لحج۔87 ) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ حدیثمیں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء، ’’ میری امت کے مومن شہید ہیں ،‘‘ پھر حضورؐ نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر )۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من فریدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہٖ و دینہٖ کتب عنداللہ صدیقا فاذامات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ۔ ’’ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے جچانے کے لیے کسی سرزمین سے نکل جاۓ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ،’’ پر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضورؐ نے یہی آیت پڑھی (شھادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 144۔ النساء حاشیہ 99۔ جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 82) |
2 | یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجاۓ خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجاۓ خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جاۓ گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے بغیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جاۓ گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلاۓ گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی لواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 99) |
1 | یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الامان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے |