Ayats Found (7)
Surah 2 : Ayat 218
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَٱلَّذِينَ هَاجَرُواْ وَجَـٰهَدُواْ فِى سَبِيلِ ٱللَّهِ أُوْلَـٰٓئِكَ يَرْجُونَ رَحْمَتَ ٱللَّهِۚ وَٱللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
بخلا ف اِس کے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے خدا کی راہ میں اپنا گھر بار چھوڑا اور جہاد کیا ہے1، وہ رحمت الٰہی کے جائز امیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے انہیں نوازنے والا ہے
1 | جہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی انتہائی کوشش صرف کردینا۔ یہ محض جنگ کا ہم معنی نہیں ہے۔ جنگ کے لیے تو ”قِتَال“ کا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ جِھَاداس سے وسیع تر مفہُوم رکھتا ہے اور اس میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے۔ مجاہد وہ شخص ہے، جو ہر وقت اپنے مقصد کی دُھن میں لگا ہو، دماغ سے اس کے لیے تدبیریں سوچے، زبان و قلم سے اسی کی تبلیغ کرے، ہاتھ پا ؤ ں سے اسی کے لیے دَوڑ دُھوپ اور محنت کرے، اپنے تمام امکانی وسائل اُس کو فروغ دینے میں صَرف کر دے، اور ہر اُس مزاحمت کا پُوری قوت کے ساتھ مقابلہ کرے جو اس راہ میں پیش آئے، حتّٰی کہ جب جان کی بازی لگانے کی ضرورت ہو تو اس میں بھی دریغ نہ کرے۔ اس کا نام ہے ”جہاد“۔ اور جہاد فی سبیل اللہ یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف اللہ کی رضا کے لیے اور اس غرض کے لیے کیا جائے کہ اللہ کا دین اس کی زمین پر قائم ہو اور اللہ کا کلمہ سارے کلموں پر غالب ہو جائے۔ اس کے سوا اور کوئی غرض مجاہد کے پیشِ نظر نہ ہو |
Surah 4 : Ayat 73
وَلَئِنْ أَصَـٰبَكُمْ فَضْلٌ مِّنَ ٱللَّهِ لَيَقُولَنَّ كَأَن لَّمْ تَكُنۢ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُۥ مَوَدَّةٌ يَـٰلَيْتَنِى كُنتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا
اور اگر اللہ کی طرف سے تم پر فضل ہو تو کہتا ہے اور اس طرح کہتا ہے کہ گویا تمہارے اور اس کے درمیان محبت کا تو کوئی تعلق تھا ہی نہیں کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو بڑا کام بن جاتا
Surah 4 : Ayat 175
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَٱعْتَصَمُواْ بِهِۦ فَسَيُدْخِلُهُمْ فِى رَحْمَةٍ مِّنْهُ وَفَضْلٍ وَيَهْدِيهِمْ إِلَيْهِ صِرَٲطًا مُّسْتَقِيمًا
اب جو لوگ اللہ کی بات مان لیں گے اور اس کی پناہ ڈھونڈیں گے ان کو اللہ اپنی رحمت اور اپنے فضل و کرم کے دامن میں لے لے گا اور اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ ان کو دکھا دے گا
Surah 9 : Ayat 21
يُبَشِّرُهُمْ رَبُّهُم بِرَحْمَةٍ مِّنْهُ وَرِضْوَٲنٍ وَجَنَّـٰتٍ لَّهُمْ فِيهَا نَعِيمٌ مُّقِيمٌ
ان کا رب انہیں اپنی رحمت اور خوشنودی اور ایسی جنتوں کی بشارت دیتا ہے جہاں ان کے لیے پائیدار عیش کے سامان ہیں
Surah 9 : Ayat 71
وَٱلْمُؤْمِنُونَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَآءُ بَعْضٍۚ يَأْمُرُونَ بِٱلْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ ٱلْمُنكَرِ وَيُقِيمُونَ ٱلصَّلَوٲةَ وَيُؤْتُونَ ٱلزَّكَوٲةَ وَيُطِيعُونَ ٱللَّهَ وَرَسُولَهُۥٓۚ أُوْلَـٰٓئِكَ سَيَرْحَمُهُمُ ٱللَّهُۗ إِنَّ ٱللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، زکوٰۃ دیتے ہیں اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں1 یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ کی رحمت نازل ہو کر رہے گی، یقیناً اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے
1 | ”جس طرح منافقین ایک الگ اُمت ہیں اسی طرح اہلِ ایمان بھی ایک الگ امت ہیں۔ اگرچہ ایمان کا ظاہری اقرار اور اسلام کی پیروی کا خارجی اظہار دونوں گروہوں میں مشترک ہے۔ لیکن دونوں کے مزاج، اخلاق، اطوار، عادات اور طرزِ عمل میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں۔ جہاں زبان پر ایمان کا دعویٰ ہے ، مگر دل سچے ایمان سے خالی ہیں وہاں زندگی کا سارا رنگ ڈھنگ ایسا ہے جو اپنی ایک ایک ادا سے دعوائے ایمان کی تکذیب کررہاہے۔ اوپر کے لیبل پر تو لکھا ہے کہ یہ مُشک ہے مگر لیبل کے نیچے جو کچھ ہے وہ اپنے پورے وجود سے ثابت کر رہا ہے کہ یہ گوبر کے سوا کچھ نہیں۔ بخلاف اس کے جہاں ایمان اپنی اصل حقیقت کے ساتھ موجود ہے وہاں مُشک اپنی صورت سے، اپنی خوشبو سے ، اپنی خاصیتوں سے ہر آزمائش اور ہر معاملہ میں اپنا مُشک ہونا کھولے دے رہا ہے۔ اسلام و ایمان کے عربی نام نے بظاہر دونوں گروہوں کو ایک اُمت بنا رکھا ہے، مگر فی الواقع منافق مسلمانوں کا اخلاقی مزاج اور رنگِ طبیعت کچھ اور ہے اور صادق الایمان مسلمانون کا کچھ اور۔ اسی وجہ سے منافقانہ خصائل رکھنے والے مردوزن ایک الگ جتھا بن گئے ہیں جن کو خدا سے غفلت ، برائی سے دلچسپی، نیکی سے بُعد اور خیر سے عدم تعاون کی مشترک خصوصیات نے ایک دوسرے سے وابستہ اور اہلِ ایمان سے عملًا بے تعلق کر دیا ہے۔ اور دوسری جانب سچے مومن مردوزن ایک دوسرا گروہ بن گئے ہیں جس کے سارے افراد میں یہ خصوصیت مشترک ہے کہ نیکی سے وہ دلچسپی رکھتے ہیں، بدی سے نفرت کرتے ہیں، خدا کی یاد ان کے لیے غذا کی طرح زندگی کی ناگزیر ضروریات میں شامل ہے، راہِ خدا میں خرچ کرنے کےلیے ان کے دل اور ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، اور خدا اور رسول کی اطاعت ان کی زندگی کا وتیرہ ہے۔ اس مشترک اخلاقی مزاج اور طرزِ زندگی نے انہیں آپس میں ایک دوسرے سے جوڑا اور منافقین کے گروہ سے توڑ دیا ہے |
Surah 9 : Ayat 99
وَمِنَ ٱلْأَعْرَابِ مَن يُؤْمِنُ بِٱللَّهِ وَٱلْيَوْمِ ٱلْأَخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنفِقُ قُرُبَـٰتٍ عِندَ ٱللَّهِ وَصَلَوَٲتِ ٱلرَّسُولِۚ أَلَآ إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْۚ سَيُدْخِلُهُمُ ٱللَّهُ فِى رَحْمَتِهِۦٓۗ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور انہی بدویوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اُسے اللہ کے تقرب کا اور رسولؐ کی طرف سے رحمت کی دعائیں لینے کا ذریعہ بناتے ہیں ہاں! وہ ضرور ان کے لیے تقرب کا ذریعہ ہے اور اللہ ضرور ان کو اپنی رحمت میں داخل کریگا، یقیناً اللہ درگزر کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے
Surah 45 : Ayat 30
فَأَمَّا ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ فَيُدْخِلُهُمْ رَبُّهُمْ فِى رَحْمَتِهِۦۚ ذَٲلِكَ هُوَ ٱلْفَوْزُ ٱلْمُبِينُ
پھر جو لوگ ایمان لائے تھے اور نیک عمل کرتے رہے تھے انہیں ان کا رب اپنی رحمت میں داخل کرے گا اور یہی صریح کامیابی ہے