Ayats Found (5)
Surah 4 : Ayat 146
إِلَّا ٱلَّذِينَ تَابُواْ وَأَصْلَحُواْ وَٱعْتَصَمُواْ بِٱللَّهِ وَأَخْلَصُواْ دِينَهُمْ لِلَّهِ فَأُوْلَـٰٓئِكَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَۖ وَسَوْفَ يُؤْتِ ٱللَّهُ ٱلْمُؤْمِنِينَ أَجْرًا عَظِيمًا
البتہ جو اُن میں سے تائب ہو جائیں او ر اپنے طرز عمل کی اصلاح کر لیں اور اللہ کا دامن تھام لیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دیں1، ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہیں اور اللہ مومنوں کو ضرور اجر عظیم عطا فرمائے گا
1 | اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کر دینے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی وفاداریاں اللہ کے سوا کسی اور سے وابستہ نہ ہوں، اپنی ساری دلچسپیوں اور محبتوں اور عقیدتوں کو وہ اللہ کے آگے نذر کردے، کسی چیز کے ساتھ بھی دل کا ایسا لگا ؤ باقی نہ رہے کہ اللہ کی رضا کے لیے اُسے قربان نہ کیا جا سکتا ہو |
Surah 5 : Ayat 9
وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِۙ لَهُم مَّغْفِرَةٌ وَأَجْرٌ عَظِيمٌ
جو لوگ ایمان لائیں اور نیک عمل کریں، اللہ نے ان سے وعدہ کیا ہے کہ ان کی خطاؤں سے درگزر کیا جائے گا اور انہیں بڑا اجر ملے گا
Surah 9 : Ayat 22
خَـٰلِدِينَ فِيهَآ أَبَدًاۚ إِنَّ ٱللَّهَ عِندَهُۥٓ أَجْرٌ عَظِيمٌ
ان میں وہ ہمیشہ رہیں گے یقیناً اللہ کے پاس خدمات کا صلہ دینے کو بہت کچھ ہے
Surah 33 : Ayat 35
إِنَّ ٱلْمُسْلِمِينَ وَٱلْمُسْلِمَـٰتِ وَٱلْمُؤْمِنِينَ وَٱلْمُؤْمِنَـٰتِ وَٱلْقَـٰنِتِينَ وَٱلْقَـٰنِتَـٰتِ وَٱلصَّـٰدِقِينَ وَٱلصَّـٰدِقَـٰتِ وَٱلصَّـٰبِرِينَ وَٱلصَّـٰبِرَٲتِ وَٱلْخَـٰشِعِينَ وَٱلْخَـٰشِعَـٰتِ وَٱلْمُتَصَدِّقِينَ وَٱلْمُتَصَدِّقَـٰتِ وَٱلصَّـٰٓئِمِينَ وَٱلصَّـٰٓئِمَـٰتِ وَٱلْحَـٰفِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَٱلْحَـٰفِظَـٰتِ وَٱلذَّٲكِرِينَ ٱللَّهَ كَثِيرًا وَٱلذَّٲكِرَٲتِ أَعَدَّ ٱللَّهُ لَهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
بالیقین1 جو مرد اور جو عورتیں مسلم ہیں2، مومن ہیں3، مطیع فرمان ہیں4، راست باز ہیں5، صابر ہیں6، اللہ کے آگے جھکنے والے ہیں7، صدقہ دینے والے ہیں8، روزہ رکھنے والے ہیں9، اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں10، اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے ہیں11، اللہ نے ان کے لیے مغفرت اور بڑا اجر مہیا کر رکھا ہے12
12 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
11 | اللہ کو کثرت سے یاد کرنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی کی زبان پر ہر وقت زندگی کے ہر معاملے میں کسی نہ کسی طرح خدا کا نام آتا رہے۔ یہ کیفیت آدمی پر اُس وقت تک طاری نہیں ہوتی جب تک اس کے دِل میں خدا کا خیال بس کر نہ رہ گیا ہو۔ انسان کے شعور سے گزر کر اس کے تحت الشعور اور لا شعور تک میں جب یہ خیال گہرا اُتر جاتا ہے تب ہی اس کا یہ حال ہوتا ہے کہ جو کام اور جو بات بھی وہ کرے گا اس میں خدا کا نام ضرور آئے گا۔کھائے گا تو بسم اللہ کہہ کر کھائے گا۔ فارغ ہو گا تو الحمد للہ کہے گا ۔ سوئے گا تو اللہ کو یاد کر کے اور اُٹھے گا تو اللہ ہی کا نام لیتے ہوئے۔ بات چیت میں بار بار اس کی زبان سے بسم اللہ ، الحمد للہ ، ماشاء اللہ اور اسے طرح کے دوسرے کلمات نکلتے رہیں گے۔ اپنے ہر معاملے میں اللہ سے مدد مانگے گا۔ ہر نعمت ملنے پر اس کا شکر ادا کرے گا۔ ہر آفت آنے پر اس کی رحمت کا طلبگار ہو گا۔ مشکل میں اس سے رجوع کرے گا۔ ہر بُرائی کا موقع سامنے آنے پر اس سے ڈرے گا۔ ہر قصور سرزد ہو جانے پر اس سے معافی چاہے گا۔ ہر حاجت پیش آنے پر اس سے دعا مانگے گا۔ غرض اُٹھتے بیٹھتے اور دنیا کے سارے کام کرتے ہوئے اس کا وظیفہ خدا ہی کا ذکر ہو گا۔ یہ چیز درحقیقت اسلامی زندگی کی جان ہے۔ دوسری جتنی بھی عبادات ہیں ان کے لیے بہر حا ل کو ئی وقت ہوتا ہے جب وہ ادا کی جاتی ہیں اور انہیں ادا کر چکنے کے بعد آدمی فارغ ہو جاتا ہے۔ لیکن یہ وہ عبادت ہے جو ہر وقت جاری رہتی ہے اور یہی انسان کی زندگی کا مستقبل رشتہ اللہ اور اس کی بندگی کے ساتھ جوڑے رکھتی ہے۔ خود عبادات اور تمام دینی کاموں میں بھی جان اِسی چیز سے پڑتی ہے کہ آدمی کا دِل محض اِن خاص اعمال کے وقت ہی نہیں بلکہ ہمہ وقت خدا کی طرف راغب اور اس کی زبان دائماً ا س کے ذکر سے تر رہے۔ یہ حالت انسان کی زندگی میں عبادات اور دینی کام ٹھیک اُسی طرح پروان چڑھتے اور نشو و نما پاتے ہیں جس طرح ایک پودا ٹھیک اپنے مزاج کے مطابق آب و ہوا میں لگا ہوا ہو۔ اس کے برعکس جو زند گی اس دائمی ذکرِ خدا سے خالی ہو اس میں محض مخصوص اوقات میں یا مخصوص مواقع پر ادا کی جانے والی عبادات اور دینی خدمات کی مثال اُس پودے کی سی ہے جو اپنے مزاج سے مختلف آب و ہوا میں لگایا گیا ہو اور محض باغبان کی خاص خبر گیری کی وجہ سے پل رہا ہو۔ اسی بات کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایک حدیث میں یوں واضح فرماتے ہیں : عن معاذ بن انس الجھنی عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم ان رجلاً ساءلہ ای المجاھدین اعظمُ اجراًیا رسول اللہَ؟ قال اکثر ھم للہِ تعَالیٰ ذکراً قال ایُّ الصایمین اکثراجرا ؟ قال اکثر ھم لِلہ عزّو جل ذکراً ثم ذکرا لصّلوٰۃ والزکوٰ ۃ والحجّ سالصَّدَ قَۃکل ذٰلک یقول رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اکثر ھم لِلہ ذکراً۔ (مسند احمد) ’’معاذ بن انَس جُہَنی روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یا رسول اللہ، جہاد کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر اجر پانے والا کون ہے؟ فرمایا جو اُن میں اللہ تعالٰی کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہے۔ اس نے عرض کیا روزہ رکھنے والوں میں سب سے زیادہ اجر کون پائے گاَ؟ فرمایا جو ان میں سب سے زیادہ اللہ کو یاد کرے والا ہو۔ پھر اس شخص نے اسی طرح نماز، زکوٰۃ حج اور صدقہ ادا کرنے والوں کے متعلق پوچھا اور حضورؐ نے ہر ایک کا یہی جواب دیا کہ ’’جو اللہ کو سب سے زیادہ یاد کرنے والا ہو۔ |
10 | اس میں دو مفہوم شامل ہیں۔ ایک یہ کہ وہ زنا سے پرہیز کرتے ہیں۔ دوسرے یہ کہ وہ برہنگی و عُریانی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی سمجھ لینا چاہیے کہ برہنگی و عریانی صرف اسی چیز کا نام نہیں ہے کہ آدمی لباس کے بغیر بالکل ننگا ہو جائے۔ بلکہ ایسا لباس پہننا بھی برہنگی ہی ہے جو اتنا رقیق ہو کہ جسم اس میں سے جھلکتا ہو، یا اتنا چُست ہو کہ جسم کی ساخت اور اس کے نشیب و فراز سب اُس میں سے نمایاں نظر آتے ہوں |
9 | اس میں فرض اور نفل دونوں قسم کے روزے شامل ہیں |
8 | اس سے مُراد صرف فرض زکوٰۃ ادا کرنا ہی نہیں ہے ، بلکہ عام خیرات بھی اس میں شامل ہے۔ مُراد یہ ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کھلے دِل سے اپنے مال صرف کرتے ہیں۔ اللہ کے بندوں کی مدد کرنے میں اپنی حدِ استطاعت تک وہ کوئی دریغ نہیں کرتے۔ کوئی یتیم، کوئی بیمار، کوئی مصیبت زدہ، کوئی ضعیف و معذور، کوئی غریب و محتاج آدمی اُن کی بستیوں میں دستگیری سے محروم نہیں رہتا۔ اور اللہ کے دین کو سر بلند کرنے کے لیے ضرورت پیش آ جائے تو اس پر اپنے مال لُٹا دینے میں وہ کبھی بخل سے کام نہیں لیتے۔ |
7 | یعنی وہ تکبُّر اور استکبار اور غرورِ نفس سے خالی ہیں۔ وہ اِس حقیقت کا پورا شعور و احساس رکھتے ہیں کہ ہم بندے ہیں اور بندگی سے بالا تر ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اس لیے ان کے دِل اور جسم دونوں ہی اللہ کے آگے جھکے رہتے ہیں۔ ان پر خدا کا خوف غالب رہتا ہے۔ ان سے کبھی وہ رویہّ ظاہر نہیں ہوتا جو اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں مبتلا اور خدا سے بے خوف لوگوں سے ظاہر ہوا کرتا ہے۔ ترتیبِ کلام ملحوظ رکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں اِس عام خدا ترسانہ رویہّ کے ساتھ خاص طور پر ’’خشوع‘‘ سے مُراد نماز ہے کیوں کہ اس کے بعد ہی صدقے اور روزے کا ذکر کیا گیا ہے |
6 | یعنی خدا اور رسولؐ کے بتائے ہوئے سیدھے راستے پر چلنے اور خدا کے دین کو قائم کرنے میں جو مشکلات بھی پیش آئیں ، جو خطرات بھی درپیش ہوں ، جو تکلیفیں بھی اُٹھانی پڑیں اور جن نقصانات سے بھی دوچار ہونا پڑے ، ان کا پوری ثابت قدمی کے ساتھ مقابلہ کرتے ہیں۔ کوئی خوف، کوئی لالچ اور خواہشاتِ نفس کا کوئی تقاضا ان کو سیدھی راہ سے ہٹا دینے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ |
5 | یعنی اپنی گفتار میں بھی سچے ہیں اور اپنے معاملات میں بھی کھرے ہیں۔ جھوٹ ، فریب، بدنیتی ، دغا بازی اور چَھل بٹے ان کی زندگی میں نہیں پائے جاتے۔ ان کی زبان وہی بولتی ہے جسے اُن کا ضمیر صحیح جانتا ہے۔ وہ کام وہی کرتے ہیں جو ایمانداری کے ساتھ ان کے نزدیک راستی و صداقت کے مطابق ہوتا ہے۔ اور جس سے بھی وہ کوئی معاملہ کرتے ہیں دیانت کے ساتھ کرتے ہیں۔ |
4 | یعنی وہ محض مان کر رہ جانے والے بھی نہیں ہیں بلکہ عملاً اطاعت کرنے والے ہیں۔ ان کی یہ حالت نہیں ہے کہ ایمانداری کے ساتھ حق تو اُسی چیز کو مانیں جس کا اللہ اور اس کے رسولؐ نے حکم دیا ہے مگر عملاً اس کی خلاف ورزی کریں، اور اپنی مخلصانہ رائے میں تو ان سب کاموں کو بُرا ہی سمجھتے رہیں جنہیں اللہ اور اس کے رسول نے منع کیا ہے مگر اپنی عملی زندگی میں ارتکاب انہی کا کرتے چلے جائیں۔ |
3 | یعنی جن کی یہ اطاعت محض ظاہری نہیں ہے۔ بادل نا خواستہ نہیں ہے ، بلکہ دِل سے وہ اسلام ہی کی رہنمائی کو حق مانتے ہیں۔ ان کا ایمان یہی ہے کہ فکر و عمل کا جو راستہ قرآن اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے دکھایا ہے وہی سیدھا اور صحیح راستہ ہے اور اسے کی پیروی میں ہماری فلاح ہے۔ جس چیز کو اللہ اور اس کے رسول نے غلط کہہ دیا ہے ان کی اپنی رائے بھی یہی ہے کہ وہ یقیناً غلط ہے ، اور جسے اللہ اور اس کے رسول نے حق کہہ دیا ہے ان کا اپنا دِل و دماغ بھی اسے برحق ہی یقین کرتا ہے۔ ان کے نفس اور ذہن کی حالت یہ نہیں ہے کہ قرآن اور سُنت سے جو حکم ثابت ہو اُسے وہ نامناسب سمجھتے ہوں اور اس فکر میں غلطاں و پیچاں رہیں کہ کسی طرح اسے بدل کر اپنی رائے کے مطابق، یا دُنیا کے چلتے ہوئے طریقوں کے مطابق ڈھال بھی دیا جائے اور یہ الزام بھی اپنے سر نہ لیا جائے کہ ہم نے حکمِ خدا اور رسول میں ترمیم کر ڈالی ہے۔ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم ایمان کی صحیح کیفیت کو یوں بیان فرماتے ہیں : ذاق طعم الایمان من رضی با للّٰہ ربّاً و بالاسلام دینا و بِمُحمَّدٍ رسُلا۔ایمان کا لذت ہو گیا وہ شخص جو راضی ہوا اس بات پر کہ اللہ ہی اس کا رب ہو اور اسلام ہی اس کا دین ہو اور محمدؐ ہی اس کے رسولؐ ہوں۔ اور ایک دوسری حدیث میں آپ اس کی تشریح یوں کرتے ہیں۔ لایؤمن احد کم حتٰی یکون ھواہ تبعاًلما جئتُ بہٖ (شرح السنّہ) تم میں کوئی شخص مومن نہیں ہوتا جب تک کہ اس کی خواہشِ نفس اُس چیز کے تابع نہ ہو جائے جسے میں لایا ہوں |
2 | یعنی جنہوں نے اسلام کو اپنے لیے ضابطۂ حیات کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے اور یہ طے کر لیا ہے کہ اب وہ اُسی کی پیروی میں زندگی بسر کریں گے۔دوسرے الفاظ میں ، جن کے اندر اسلام کے دیے ہوئے طریقِ فکر اور طرزِ زندگی کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت باقی نہیں رہی ہے۔بلکہ وہ اس کی اطاعت اور اتباع کی راہ اختیار کر چکے ہیں |
1 | پچھلے پیراگراف کے بعد متصلاً یہ مضمون ارشاد فرما کر ایک لطیف اشارہ اس امر کی طرف کر دیا گیا ہے کہ اوپر ازواجَ مطہرات کو جو ہدایات دی گئی ہیں وہ اُن کے لیے خاص نہیں ہیں بلکہ مسلم معاشرے کو بالعموم اپنے کردار کی اصلاح انہی ہدایات کے مطابق کرنی چاہیے۔ |
Surah 48 : Ayat 29
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ ٱللَّهِۚ وَٱلَّذِينَ مَعَهُۥٓ أَشِدَّآءُ عَلَى ٱلْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْۖ تَرَٮٰهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلاً مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضْوَٲنًاۖ سِيمَاهُمْ فِى وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ ٱلسُّجُودِۚ ذَٲلِكَ مَثَلُهُمْ فِى ٱلتَّوْرَٮٰةِۚ وَمَثَلُهُمْ فِى ٱلْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْــَٔهُۥ فَـَٔـازَرَهُۥ فَٱسْتَغْلَظَ فَٱسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِۦ يُعْجِبُ ٱلزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ ٱلْكُفَّارَۗ وَعَدَ ٱللَّهُ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمَۢا
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت 1اور آپس میں رحیم ہیں2 تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں3 یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں4 اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی 5ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ کفار ان کے پھلنے پھولنے پر جلیں اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا6 ہے
6 | ایک گروہ اس آیت میں مِنْھُمْ کی مِنْ کو تبعیض کے معنی میں لیتا ہے اور آیت کا ترجمہ یہ کرتا ہے کہ ’’ان میںسےجو لوگ ایمان لاۓ اور جنہوں نے نیک عمل کیے اللہ نے ان سےمغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے‘‘۔ اس طرح یہ لوگ صحابہ پر طعن کا راستہ نکالتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے صحابہ میں سے بہت سے لوگ مومن و صالح نہ تھے ۔ لیکن یہ تفسیر اسی سورۃ کی آیات 4۔5۔18 اور 26 کے خلاف پڑتی ہے، اور خود اس آیت کے ابتدائی فقروں سے بھی مطابقت نہیں رکھتی ۔ آیات 4۔5۔ میں اللہ تعالیٰ نے ان تمام صحابہ کے دلوں میں سکنیت نازل کیے جانے اور ان کے ایمان میں اضافہ ہونے کا ذکر فرمایا ہے جو حدیبیہ میں حضور کے ساتھ تھے، اور بالا استثناء ان سب کو جنت میں داخل ہونے کی بشارت دی ہے ۔ آیت 18 میں اللہ تعالیٰ نے ان سب لوگوں کے حق میں اپنی خوشنودی کا اظہار فرمایا ہے جنہوں نے درخت کے نیچے حضور سے بیعت کی تھی، اور اس میں بھی کوئی استثناء نہیں ہے۔ آیت 26 میں بھی حضورؐ کے تمام ساتھیوں کے لیے مومنین کا لفظ استعمال کیا ہے، ان کے اوپر اپنی سکینت نازل کرنے کی خبر دی ہے، اور فرمایا ہے کہ یہ لوگ کلمہ تقویٰ کی پابندی کے زیادہ حق دار اور اسکے اہل ہیں۔ یہاں بھی یہ نہیں فرمایا کہ ان میں سے جو مومن ہیں صرف ان ہی کے حق میں یہ خبر دی جا رہی ہے۔ پھر خود اس آیت کے بھی ابتدائی فقروں میں جو تعریف بیان کی گی ہے وہ ان سب لوگوں کے لیے ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ تھے۔ الفاظ یہ ہیں کہ جو لوگ بھی آپ کے ساتھمیں وہ ایسے اور ایسے ہیں۔ اس کے بعد یکایک آخری فقرے پر پہنچ کر یہ ارشاد فرمانے کا آخر کیا موقع ہو سکتا تھا کہ ان میں سےکچھ لوگ مومن و صالح تھے اور کچھ نہ تھے۔ اس لیے یہاں منْ کو تبعیض کے معنی میں لینا نظم کلام کے خلاف ہے۔ در حقیقت یہاں مِنْ بیان کےلیےہےجس طرح آیت فَاجْتَنِبُو ا الرِّجْسَ مِنَ الْاوثَانِ (بتوں کی گندگی سےبچو) میں مِنْ تبعیض کے لیے نہیں بلکہ لازماً بیان ہی کے لیے ہے، ورنہ آیت کے معنی یہ ہو جائیں گے کہ ’’ بتوں میں سےجا نا پاک ہیں ان سے پرہیز کرو، اور اس سےنتیجہ یہ نکلے گا کہ کچھ بت پاک بھی قرار پائیں گے جن کی پرستش سےپرہیز لازم نہ ہو گا |
5 | یہ تمثیل حضرت عیسیٰ علیہالسلام کے ایک وعظ میں بیان ہوئی ہے جسےبائیبل کے عہد نامہ جدید میں اس طرح نقل کیا گیا ہے۔ ’’اور اس نے کہا خدا کی بادشاہی ایسی ہے جیسےکوئی آدمی زمین میں بیج ڈالے اور رات کو سوۓ اور ن کو جاگے اور وہ بیج اس طرح اگے اور بڑھے کہ وہ نہ جانے۔ زمین آپ سےآپ پھل لاتی ہے۔ پتی،پھر بالیں ، پھر بالوں میں تیار دانے، پھر جب اناج پک چکا تو وہ فی الفور درانتی لگاتا ہے کیونکہ کاٹنے کا وقت آ پہنچا ۔ ۔ ۔ ۔ وہ رائی کے دانے کے مانند ہے کہ جب زمین میں بویا جاتا ہےتو زمین کےسب بیجوں سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مگر جب بو دیا گیا تو اگ کر سب ترکاریوں سے بڑا ہو جاتا ہے اور ایسی بڑی ڈالیاں نکالتا ہے کہ ہوا کے پرندےاس کے ساۓ میں بسیر کرسکتےہیں۔‘‘ (مرقس،بابا4، آیات 26 تا 32۔ اس وعظ کا آخری حصہ انجیل متی ، باب13، آیات 31۔32 میں بھی ہے) |
4 | غالباً یہ اشارہ کتاب استثناء، باب 33 ، آیات 2۔3 کی ظرف ہے جن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد مبارک کا ذکر کرتے ہوۓ آپ کے صحابہ کے لیے’’ قدسیوں‘‘ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔ اس کے سوا اگر صحابہ کرام کی کوئی صفت توراۃ میں بیان ہوئی تھی تو وہ اب موجود محرف توراۃ میں نہیں ملتی |
3 | اس سے مراد پیشانی کا وہ گٹہ نہیں ہے جو سجدے کرنے کی وجہ سے بعض نمازیوں کے چہرے پر پڑ جاتا ہے۔ بلکہ اس سےمراد خدا ترسی ، کریم النفسی، شرافت اور حسن اخلاق کے وہ آثار ہیں جو خدا کے آگے جھکنے کی وجہ سے فطرۃً آدمی کے چہرے پر نمایا ں ہو جاتے ہیں۔ انسان کا چہرہ ایک کھلی کتاب ہوتا ہے جس کے صفحات پر آدمی کے نفس کی کیفیات بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک متکبر انسان کا چہرہ ایک متواضع اور منکسرالمزاج آدمی کے چہرے سےمختلف ہوتا ہے۔ ایک بد اخلاق آدمی کا چہرہ ایک نیک نفس اور خوش خلق آدمی کے چہرے سے الگ پہچانا جاتا ہے۔ ایک لفنگے اور بد کار آدمی کی صورت اور ایک شریف پاک باز آدمی کی سورت میں نمایاں فرق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے ارشاد کا منشاء یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے یہ ساتھی تو ایسے ہیں کہان کو دیکھتے ہی ایک آدمی بیک نظر یہ معلوم کر سکتا ہے کہ یہ خیر الخلائق ہیں، کیونکہ خدا پرستی کا تور ان کے چہروں پر چمک رہا ہے ۔ یہ وہی چیز ہے جس کے متعلق امام مالکؒ بیان کرتے ہیں کہ جب صحابہ کرام کی فوجیں شام کی سر زمین میں داخل ہوئیں تو شام کے عیسائی کہتے تھے کہ مسیح کے حواریوں کی جو شان ہم سنتے تھے یہ تو اسی شان کے لوگ نظر آتے ہیں |
2 | یعنی ان کی سختی جو کچھ بھی ہے دشمنان دین کے لیے ہے، اہل ایمان کے لیے نہیں ہے۔ اہل ایمان کے مقابلے میں وہ نرم ہیں، رحیم و شفیق ہیں، ہمدرد و غمگسار ہیں۔ اصول اور مقصد کے اتحاد نے ان کے اندر ایک دوسرے کے لیے محبت اور ہم رنگی و ساز گاری پیدا کر دی ہے |
1 | اصل الفاظ میں اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّار، ۔ عربی زبان میں کہتے ہیں فُلانٌ شَدِیْدٌ عَلَیْہِ، فلاں شخص اس پر شدید ہے، یعنی اس کو رام کرنا اور اپنے مطلب پر لانا اس کے لیے مشکل ہے۔ کفار پر اصحاب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے سخت ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ کافروں کے ساتھ درشتی اور تند خوئی سے پیش آتے ہیں ، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنے ایمان کی پختگی، اصول کی مضبوطی، سیرت کی طاقت، اور ایمانی فراست کی وجہ سے کفار کے مقابلے میں پتھر کی چٹان کا حکم رکھتے ہیں۔ وہ موم کی ناک نہیں ہیں کہ انہیں کافر جدھر چاہیں موڑ دیں۔ وہ نرم نہیں ہیں کہ کافر انہیں آسانی کے ساتھ چبا جائیں۔ انہیں کسی خوف سے دبا یا نہیں جاسکتا ۔ انہیں کسی ترغیب سے خریدا نہیں جاسکتا۔ کافروں میں یہ طاقت نہیں ہے کہ انہیں اس مقصد عظیم سے ہٹ دیں جس کے لیے وہ سر دھڑ کی بازی لگا کر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا ساتھ دینے کے لیے اٹھے ہیں |