Ayats Found (27)
Surah 2 : Ayat 169
إِنَّمَا يَأْمُرُكُم بِٱلسُّوٓءِ وَٱلْفَحْشَآءِ وَأَن تَقُولُواْ عَلَى ٱللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ
تمہیں بدی اور فحش کا حکم دیتا ہے اور یہ سکھاتا ہے کہ تم اللہ کے نام پر وہ باتیں کہو جن کے متعلق تمہیں علم نہیں ہے کہ وہ اللہ نے فرمائی ہیں1
1 | یعنی ان وہمی رسموں اور پابندیوں کے متعلق یہ خیال کہ یہ سب مذہبی اُمور ہیں جو خدا کی طرف سے تعلیم کیے گئے ہیں، دراصل شیطانی اِغوا کا کرشمہ ہے۔ اس لیے کہ فی الواقع ان کے مِن جانب اللہ ہونے کی کوئی سَنَد موجود نہیں ہے |
Surah 3 : Ayat 30
يَوْمَ تَجِدُ كُلُّ نَفْسٍ مَّا عَمِلَتْ مِنْ خَيْرٍ مُّحْضَرًا وَمَا عَمِلَتْ مِن سُوٓءٍ تَوَدُّ لَوْ أَنَّ بَيْنَهَا وَبَيْنَهُۥٓ أَمَدَۢا بَعِيدًاۗ وَيُحَذِّرُكُمُ ٱللَّهُ نَفْسَهُۥۗ وَٱللَّهُ رَءُوفُۢ بِٱلْعِبَادِ
وہ دن آنے والا ہے، جب ہر نفس اپنے کیے کا پھل حاضر پائے گا خواہ اُس نے بھلائی کی ہو یا برائی اس روز آدمی یہ تمنا کرے گا کہ کاش ابھی یہ دن اس سے بہت دور ہوتا! اللہ تمہیں اپنے آپ سے ڈراتا ہے اور وہ اپنے بندوں کا نہایت خیر خواہ ہے1
1 | سُوْرَةُ اٰلِ عِمْرٰن حاشیہ نمبر :27 |
Surah 4 : Ayat 17
إِنَّمَا ٱلتَّوْبَةُ عَلَى ٱللَّهِ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلسُّوٓءَ بِجَهَـٰلَةٍ ثُمَّ يَتُوبُونَ مِن قَرِيبٍ فَأُوْلَـٰٓئِكَ يَتُوبُ ٱللَّهُ عَلَيْهِمْۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلِيمًا حَكِيمًا
ہاں یہ جان لو کہ اللہ پر توبہ کی قبولیت کا حق اُنہی لوگوں کے لیے ہے جو نادانی کی وجہ سے کوئی برا فعل کر گزرتے ہیں اور اس کے بعد جلدی ہی توبہ کر لیتے ہیں ایسے لوگوں پر اللہ اپنی نظر عنایت سے پھر متوجہ ہو جاتا ہے اور اللہ ساری باتوں کی خبر رکھنے والا اور حکیم و دانا ہے
Surah 4 : Ayat 110
وَمَن يَعْمَلْ سُوٓءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُۥ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ ٱللَّهَ يَجِدِ ٱللَّهَ غَفُورًا رَّحِيمًا
اگر کوئی شخص برا فعل کر گزرے یا اپنے نفس پر ظلم کر جائے اور اس کے بعد اللہ سے درگزر کی درخواست کرے تو اللہ کو درگزر کرنے والا اور رحیم پائے گا
Surah 4 : Ayat 123
لَّيْسَ بِأَمَانِيِّكُمْ وَلَآ أَمَانِىِّ أَهْلِ ٱلْكِتَـٰبِۗ مَن يَعْمَلْ سُوٓءًا يُجْزَ بِهِۦ وَلَا يَجِدْ لَهُۥ مِن دُونِ ٱللَّهِ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
انجام کار نہ تمہاری آرزوؤں پر موقوف ہے نہ اہل کتاب کی آرزوؤں پر جو بھی برائی کرے گا اس کا پھل پائے گا اور اللہ کے مقابلہ میں اپنے لیے کوئی حامی و مدد گار نہ پاسکے گا
Surah 4 : Ayat 148
۞ لَّا يُحِبُّ ٱللَّهُ ٱلْجَهْرَ بِٱلسُّوٓءِ مِنَ ٱلْقَوْلِ إِلَّا مَن ظُلِمَۚ وَكَانَ ٱللَّهُ سَمِيعًا عَلِيمًا
اللہ اس کو پسند نہیں کرتا کہ آدمی بد گوئی پر زبان کھولے، الا یہ کہ کسی پر ظلم کیا گیا ہو، اور اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے
Surah 4 : Ayat 149
إِن تُبْدُواْ خَيْرًا أَوْ تُخْفُوهُ أَوْ تَعْفُواْ عَن سُوٓءٍ فَإِنَّ ٱللَّهَ كَانَ عَفُوًّا قَدِيرًا
(مظلوم ہونے کی صورت میں اگر چہ تم پر بد گوئی کا حق ہے) لیکن اگر تم ظاہر و باطن میں بھلائی ہی کیے جاؤ، یا کم از کم برائی سے در گزر کرو، تو اللہ کی صفت بھی یہی ہے کہ وہ بڑا معاف کرنے والا ہے حالانکہ سزا دینے پر پوری قدرت رکھتا ہے
Surah 6 : Ayat 54
وَإِذَا جَآءَكَ ٱلَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِـَٔـايَـٰتِنَا فَقُلْ سَلَـٰمٌ عَلَيْكُمْۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ ٱلرَّحْمَةَۖ أَنَّهُۥ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوٓءَۢا بِجَهَـٰلَةٍ ثُمَّ تَابَ مِنۢ بَعْدِهِۦ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُۥ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
جب تمہارے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں تو ان سے کہو 1"تم پر سلامتی ہے تمہارے رب نے رحم و کرم کا شیوہ اپنے اوپر لازم کر لیا ہے یہ اس کا رحم و کرم ہی ہے کہ اگر تم میں سے کوئی نادانی کے ساتھ کسی برائی کا ارتکاب کر بیٹھا ہو پھر اس کے بعد توبہ کرے اور اصلاح کر لے تو وہ اُسے معاف کر دیتا ہے اور نرمی سے کام لیتا ہے"
1 | جو لوگ اُس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے ان میں بکثرت لوگ ایسے بھی تھے جن سے زمانۂ جاہلیّت میں بڑے بڑے گناہ ہو چکے تھے۔ اب اسلام قبول کرنے کے بعد اگرچہ ان کی زندگیاں بالکل بدل گئی تھیں ، لیکن مخالفین ِ اسلام اُن کو سابق زندگی کے عُیُوب اور افعال کے طعنے دیتے تھے۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ اہلِ ایمان کو تسلّی دو۔ انہیں بتا ؤ کہ جو شخص توبہ کر کے اپنی اصلاح کر لیتا ہے اس کے پچھلے قُصُوروں پر گرفت کرنے کا طریقہ اللہ کے ہاں نہیں ہے |
Surah 7 : Ayat 73
وَإِلَىٰ ثَمُودَ أَخَاهُمْ صَـٰلِحًاۗ قَالَ يَـٰقَوْمِ ٱعْبُدُواْ ٱللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرُهُۥۖ قَدْ جَآءَتْكُم بَيِّنَةٌ مِّن رَّبِّكُمْۖ هَـٰذِهِۦ نَاقَةُ ٱللَّهِ لَكُمْ ءَايَةًۖ فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِىٓ أَرْضِ ٱللَّهِۖ وَلَا تَمَسُّوهَا بِسُوٓءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
اور ثمود کی طرف1 ہم نے اُن کے بھائی صالحؑ کو بھیجا اس نے کہا 2"اے برادران قوم، اللہ کی بندگی کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں ہے تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لیے ایک نشانی کے طور پر ہے، لہٰذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کی زمین میں چرتی پھرے اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک درد ناک عذاب تمہیں آ لے گا
2 | ظاہرعبارت سے محسوس ہوتا ہے کہ پہلے فقرے میں اللہ کی جس کھلی دلیل کا ذکر فرمایا گیا ہے اس سے مراد یہی اُونٹنی ہے جسے اس دوسرے فقرے میں”نشانی“ کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ سورہ شعراء آیات۵۴ تا ١۵۸ میں تصریح ہے کہ ثمود والوں نے خود ایک ایسی نشانی کا حضرت صالح سے مطالبہ کیا تھا جو ان کے مامور من اللہ ہونے پر کھلی دلیل ہو، اور اسی جواب میں حضرت صالح نے اونٹنی کو پیش کیا تھا۔ اس سے یہ بات تو قطعی طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ اُونٹنی کو ظہور معجزے کے طور پر ہوا تھا اور یہ اسی نوعیت کے معجزات میں سے تھا جو بعض انبیاء نے اپنی نبوت کے ثبوت میں منکرین کے مطالبہ پر پیش کیے ہیں۔ نیز یہ بات بھی اس اونٹنی کی معجزانہ پیدائش پر دلیل ہے کہ حضرت صالح نے اسے پیش کرکے منکرین کو دھمکی دی کہ بس اب اس اونٹنی کی جان کے ساتھ تمہاری زندگی معلق ہے۔ یہ آزادانہ تمہاری زمینوں میں چرتی پھرے گی۔ ایک دن یہ اکیلی پانی پیے گی اور دوسرے دن پوری قوم کے جانور پیں گے۔ اور اگر تم نے اسے پاتھ لگایا تو یکایک تم پر خدا کا عذاب ٹوٹ پڑے گا۔ ظاہر ہے کہ ا س شان کے ساتھ وہی چیز پیش کی جا سکتی تھی جس کا غیر معمولی ہونا لوگوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ پھر یہ بات کہ ایک کافی مدّت تک یہ لوگ اس کے آزادانہ چرنے پھرنے کو اور اس بات کو کہ اک دن تنہا وہ پانی پیے اور دوسرے دن ان سب کے جانور پیں، بادل ناخواستہ برداشت کرتے رہے اور آخر بڑے مشوروں اور سازشوں کے بعد انہوں نے اسے قتل کیا، درآں حالے کہ حضرت صالح کے پاس کوئی طاقت نہ تھی جس کا انہیں کوئی خوف ہوتا، اِس حقیقت پر مزید دلیل ہے کہ وہ لوگ اس اُونٹنی سے خوف زدہ تھے اور جانتے تھے کہ اس کے پیچھے ضرور کوئی زور ہے جس کے بل پر وہ ہمارے درمیان دندناتی پھرتی ہے۔ مگر قرآن اس امر کی کوئی تصریح نہیں کرتا کہ یہ اُونٹنی کیسی تھی اور کس طرح وجود میں آئی۔ کسی حدیث صحیح میں بھی اس کے معجزے کے طور پرپیدا ہونے کی کیفیت بیان نہیں کی گئی ہے۔ اس لیے اُن روایات کو تسلیم کرنا کچھ ضروری نہیں جو مفسرین نے اس کی کیفیت پیدائش کے متعلق نقل کی ہیں۔ لیکن یہ بات کہ وہ کسی نہ کسی طور پر معجزے کی حیثیت رکھتی تھی، قرآن سے ثابت ہے |
1 | یہ عرب کی قدیم ترین اقوام میں سے دوسری قوم ہے جو عاد کے بعد سب سے زیادہ مشہور و معروف ہے۔ نزول قرآن سے پہلے اس کے قصّے اہل عرب میں زباں زد ِعام تھے۔ زمانہ جاہلیت کے اشعار اور خطبوں میں بکثرت اس کا ذکر ملتا ہے۔ اسیریا کے کتبات اور یونان، اسکندریہ اور روم کے قدیم مورخین اور جغرافیہ نویس بھی اس کا ذکر کرتے ہیں۔ مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے تک اس قوم کے کچھ بقایا موجود تھے، چنانچہ رومی مورخین کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومن افواج میں بھرتی ہوئے اور نبطیوں کے خلاف لڑے جن سے ان کی دشمنی تھی۔ ا س قوم کا مسکن شمالی مغربی عرب کا وہ علاقہ تھا جو آج بھی اَلحَجِر کے نام سے موسوم ہے۔ موجودہ زمانہ میں مدنیہ اور تبوک کے درمیان حجاز ریلوے پر ایک اسٹیشن پڑتا ہے جسے مدائنِ صالح کہتے ہیں۔ یہی ثمود کا صدر مقام تھا اور قدیم زمانہ میں حجر کہلاتا تھا۔ اب تک وہاں ہزاروں ایکڑ کے رقبے میں وہ سنگین عمارتیں موجود ہیں جن کو ثمود کے لوگوں نے پہاڑوں میں تراش تراش کر بنا یا تھا اور اس شہر خموشاں کو دیکھ کر اندازہ کیا جاتا ہے کہ کسی وقت اس شہر کی آبادی چار پانچ لاکھ سے کم نہ ہوگی۔ نزول قرآن کے زمانے میں حجاز کے تجارتی قافلے ان آثار قدیمہ کے درمیان سے گزرا کرتے تھے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے موقع پر جب ادھر سے گزرے تو آپ نے مسلمانوں کو یہ آثارِ عبرت دکھا ئے اور وہ سبق دیا جو آثار قدیمہ سے ہر صاحب ِ بصیرت انسان کو حاصل کر نا چاہیے۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشان دہی کر کے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہےجس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا ، باقی کنووں کا پانی نہ پینا۔ ایک پہاڑی در ے کو دکھا کر آپ نے بتایا کہ اسی درے سے وہ اُونٹنی پانی پینے کے لیے آتی تھی۔ چنانچہ وہ مقام آج بھی فَجُّ الناقہ کے نام سے مشہور ہے۔ ان کے کھنڈروں میں جو مسلمان سیر کرتے پھر رہے تھے اُن کو آپ نے جمع کیا اور ان کے سامنے ایک خطبہ دیا جس میں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی اور فرمایا کہ یہ اس قوم کا علاقہ ہے جس پر خدا کا عذاب نازل ہوا تھا، لہٰذا یہاں سے جلدی گزر جاؤ، یہ سیر گاہ نہیں ہے بلکہ رونے کا مقام ہے |
Surah 7 : Ayat 165
فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُكِّرُواْ بِهِۦٓ أَنجَيْنَا ٱلَّذِينَ يَنْهَوْنَ عَنِ ٱلسُّوٓءِ وَأَخَذْنَا ٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ بِعَذَابِۭ بَــِٔيسِۭ بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ
آخرکارجب وہ اُن ہدایات کو بالکل ہی فراموش کر گئے جو انہیں یاد کرائی گئی تھیں تو ہم نے اُن لوگوں کو بچا لیا جو برائی سے روکتے تھے اور باقی سب لوگوں کو جو ظالم تھے ان کی نافرمانیوں پر سخت عذاب میں پکڑ لیا1
1 | اس بیان سے معلوم ہوا کہ اس بستی میں تین قسم کے لوگ موجود تھے۔ ایک وہ جو دھڑلے سے احکام الہٰی کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ دوسرے وہ جو خود تو خلاف ورزی نہیں کر تے تھے مگر اس خلاف ورزی کو خاموشی کے ساتھ بیٹھے دیکھ رہے تھے اور ناصحوں سے کہتے تھے کہ ان کم بختوں کو نصیحت کرنے سے کیا حاصل ہے۔ تیسرے وہ جن کی غیرت ایمانی حدود اللہ کی اس کھلم کھلا بے حرمتی کو بر داشت نہ کر سکتی تھی اور وہ اس خیال سے نیکی کا حکم کرنے اور بدی سے روکنے میں سرگرم تھے کہ شاید وہ مجرم لوگ ان کی نصیحت سے راہ راست پر آجائیں اور اگر وہ راہ راست نہ اختیار کریں تب بھی ہم اپنی حد تک تو اپنا فرض ادا کر کے خدا کے سامنے اپنی براءت کا ثبوت پیش کر ہی دیں۔ اس صورت حال میں جب اس بستی پر اللہ کا عذاب آیا تو قرآن مجید کہتا ہے کہ اِن تینوں گروہوں میں سے صرف تیسرا گروہ ہی اس سے بچایا گیا کیونکہ اسی نے خدا کے حضور اپنی معذرت پیش کرنے کی فکر کی تھی اور وہی تھا جس نے اپنی براءت کا ثبوت فراہم کر رکھا تھا ۔ باقی دونوں گروہوں کا شمار ظالموں میں ہوا اور وہ اپنے جرم کی حد تک مبتلائے عذاب ہوئے۔ بعض مفسرین نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پہلے گروہ کے مبتلائے عذاب ہونے کی اور تیسرے گروہ کے نجات پانے کی تصریح کی ہے، لیکن دوسرے گروہ کے بارے میں سکوت اختیار کیا ہے لہٰذا اس کے متعلق یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ نجات پانے والوں میں سے تھا یا مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے ۔ پھر ایک روایت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ مروی ہے کہ وہ پہلے اس بات کے قائل تھے کہ دوسرا گروہ مبتلائے عذاب ہونے والوں میں سے تھا ، بعد میں ان کے شاگرد عِکرِمہ نے ان کو مطمئن کر دیا کہ دوسرا گروہ نجات پانے والوں میں شامل تھا ۔ لیکن قرآن کے بیان پر جب ہم غور کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابن عباس کا پہلا خیلا ہی صحیح تھا۔ ظاہر ہے کہ کسی بستی پر خدا کا عذاب آنے کی صورت میں تمام بستی دو ہی گروہوں میں تقسیم ہو سکتی ہے، ایک وہ جو عذاب میں مبتلا ہو اور دوسرا وہ جو بچا لیا جائے۔ اب اگر قرآن کی تصریح کے مطابق بچنے والا گروہ صرف تیسرا تھا، تو لا محالہ پہلے اور دوسرے دونوں گروہ نہ بچنے والوں میں شامل ہوں گے۔ اسی کی تائید مَعْذِرَةً اِلٰی رَبِّکُمْ کے فقرے سے بھی ہوتی ہے جس کی توثیق کے بعد کے فقرے میں خود اللہ تعالیٰ نے فرمادی ہے۔اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بستی میں علانیہ احکام ِ الہٰی کی خلاف ورزی ہو رہی ہو وہ ساری کی ساری قابلِ مواخذہ ہوتی ہے اور اس کا کوئی باشندہ محض اس بنا پر مواخذہ سے بری نہیں ہو سکتا کہ اس نے خود خلاف ورزی نہیں کی، بلکہ اُسے خدا کے سامنے اپنی صفائی پیش کرنے کےلیے لازماً اس بات کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا کہ وہ اپنی حدِ استطاعت تک اصلاح اور اقامت حق کی کوشش کرتا رہاتھا۔ پھر قرآن اور حدیث کے دوسرے ارشادات سے بھی ہم کو ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ اجتماعی جرائم کے باب میں اللہ کا قانون یہی ہے۔ چنانچہ قرآن میں فرمایا گیا ہے کہ وَاتَّقُوْ ا فِتْنَةً لَّا تُصِیْبَنَّ ا لَّذَینَ ظَلَمُوْ ا مِنْکُمْ خَآصَّةً(ڈرو اُس فتنہ سے جس کے وبال میں خصوصیت کے ساتھ صرف وہی لوگ گرفتار نہیں ہوں گے جنہوں نے تم میں سے ظلم کیا ہو)۔ اور اس کی تشریح میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ان اللہ لا یعذب العامة بعمل الخاصة حتٰی یرو االمنکربین ظھر ا ینھم وھم قادرون علیٰ ان ینکروہ فلا ینکروہ فاذا فعلوا ذٰلک عذب اللہ الخاصة و العامة، یعنی ”اللہ عزوجل خاص لوگوں کے جرائم پر عام لوگوں کو سزا نہیں دیتا جب تک عامتہالناس کی یہ حالت نہ ہو جائے کہ وہ اپنی آنکھوں کے سامنے بُرے کام ہوتے دیکھیں اور وہ ان کاموں کے خلاف اظہار ِ ناراضگی کرنے پر قادر ہوں اور پھر کوئی اظہار ناراضگی نہ کریں۔ پس جب لوگوں کا یہ حال ہوجاتا ہے تو اللہ خاص و عام سب کو عذاب میں مبتلا کر دیتا ہے“۔ مزید برآں جو آیات اس وقت ہمارے پیش نظر ہیں ان سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس بستی پر خدا کا عذاب دو قسطوں میں نازل ہوا تھا۔ پہلی قسط وہ جسے عذاب بئیس (سخت عذاب)فرمایا گیا ہے ، اور دوسری قسط وہ جس میں نافرمانی پر اصرار کرنے والوں کو بندر بنا دیا گیا ۔ ہم ایسا سمجھتے ہیں کہ پہلی قسط کے عذاب میں پہلے دونوں گروہ شامل تھے، اور دوسری قسط کا عذاب صرف پہلے گروہ کو دیا گیا تھا، و اللہ اعلم بالصواب۔ اِن ا صبتُ فمن اللہ وان ا خطَئْتُ فمن نفسی، واللہ غفورٌ رحیم |