Ayats Found (6)
Surah 4 : Ayat 152
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦ وَلَمْ يُفَرِّقُواْ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ أُوْلَـٰٓئِكَ سَوْفَ يُؤْتِيهِمْ أُجُورَهُمْۗ وَكَانَ ٱللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا
بخلاف اس کے جو لوگ اللہ اور ا س کے تمام رسولوں کو مانیں، اور اُن کے درمیان تفریق نہ کریں، اُن کو ہم ضرور اُن کے اجر عطا کریں گے، اور اللہ بڑا درگزر فرمانے والا اور رحم کرنے والا ہے
Surah 18 : Ayat 30
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ إِنَّا لَا نُضِيعُ أَجْرَ مَنْ أَحْسَنَ عَمَلاً
رہے وہ لوگ جو مان لیں اور نیک عمل کریں، تو یقیناً ہم نیکو کار لوگوں کا اجر ضائع نہیں کیا کرتے
Surah 47 : Ayat 36
إِنَّمَا ٱلْحَيَوٲةُ ٱلدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌۚ وَإِن تُؤْمِنُواْ وَتَتَّقُواْ يُؤْتِكُمْ أُجُورَكُمْ وَلَا يَسْــَٔلْكُمْ أَمْوَٲلَكُمْ
یہ دنیا کی زندگی تو ایک کھیل اور تماشا ہے 1اگر تم ایمان رکھو اور تقویٰ کی روش پر چلتے رہو تو اللہ تمہارے اجر تم کو دے گا اور وہ تمہارے مال تم سے نہ مانگے گا2
2 | یعنی وہ غنی ہے، اسے اپنی ذات کے لیے تم سے لینے کی کچھ ضرورت نہیں ہے۔ اگر وہ اپنی راہ میں تم سے کچھ خرچ کرنے کے لیے کہتا ہے تو وہ اپنے لیے نہیں بلکہ تمہاری ہی بھلائی کے لیے کہتا ہے |
1 | یعنی آخرت کے مقابلے میں اس دنیا کی حیثیت اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے کہ چند روز کا دل بہلاوا ہے۔ یہاں کی کامرانی و ناکامی کوئی حقیقی اور پائیدار چیز نہیں ہے جسے کوئی اہمیت حاصل ہو۔ اصل زندگی آخرت کی ہے جس کی کامیابی کے لیے انسان کو فکر کرنی چاہیے۔ (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد سوم، تفسیر سورہ عنکبوت، حاشیہ 102) |
Surah 57 : Ayat 19
وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ بِٱللَّهِ وَرُسُلِهِۦٓ أُوْلَـٰٓئِكَ هُمُ ٱلصِّدِّيقُونَۖ وَٱلشُّهَدَآءُ عِندَ رَبِّهِمْ لَهُمْ أَجْرُهُمْ وَنُورُهُمْۖ وَٱلَّذِينَ كَفَرُواْ وَكَذَّبُواْ بِـَٔـايَـٰتِنَآ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلْجَحِيمِ
اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ہیں1 وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق2 اور شہید3 ہیں، اُن کے لیے اُن کا اجر اور اُن کا نور ہے4 اور جن لوگوں نے کفر کیا ہے اور ہماری آیات کو جھٹلایا ہے وہ دوزخی ہیں
4 | یعنی ان میں سے ہر ایک جس مرتبے کے اجر اور جس درجے کے نور کا مستحق ہو گا وہ اس کو ملے گا۔ وہ اپنا اپنا اجر اور اپنا اپنا نور پائیں گے ۔ ان کے لیے ان کا حصہ آج ہی سے محفوظ ہے |
3 | اس آیت کی تفسیر میں اکابر مفسرین کے درمیان اختلاف ہے ۔ اب عباسؓ، مسروق، ضحاک مقاتل بن حیان وغیرہ کہتے ہیں کہ اُلیٰٓئِکَ ھُمُ الصِّدِّ یْقُوْنَ پر ایک جملہ ختم ہو گیا۔ اس کے بعد وَ الشُّہَدَآءُ عِنْدِرَبِّھِمْ لَھُمْ اَجْرُھُمْ وَنُوْدُھُمْ ایک الگ مستقل جملہ ہے ۔ اس تفسیر کے لحاظ سے آیت کا ترجمہ یہ ہو گا کہ ’’ جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاۓ ہیں وہی صدیق ہیں ۔ اور شہداء کے لیے ان کے رب کے ہاں ان کا اجر اور ان کا نور ہے ‘‘ بخلاف اس کے مجاہد اور متعدد دوسرے مفسرین اس پوری عبارت کو ایک ہی جملہ مانتے ہیں اور ان کی تفسیر کے لحاظ سے ترجمہ وہ ہو گا جو اوپر ہم نے متن میں کیا ہے ۔ دونوں تفسیروں میں اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ پہلے گروہ نے شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں لیا ہے ،اور یہ دیکھ کر کہ ہر مومن اس معنی میں شہید نہیں ہوتا انہوں نے وَالشُّھَدَآءُ عِنْدَ رَبِّھِمْ کو ایک الگ جملہ قرار دے دیا ہے ۔ مگر دوسرا گروہ شہید کو مقتول فی سبیل اللہ کے معنی میں نہیں بلکہ حق کی گواہی دینے والے کے معنی میں لیتا ہے اور اس لحاظ سے ہر مومن شہید ہے ۔ ہمارے نزدیک یہی دوسری تفسیر قابل ترجیح ہے اور قرآن و حدیث سے اس کی تائید ہوتی ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے : وَکَذٰ لِکَ جَعَلْنٰکُمْاُ مَّۃً وَّ سَطاً لِّتَکُوْ نُوْا شُھَدَ آءَ عَلَیالنَّا سِ وَیَکُوْ نَ الرَّسُوْ لُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔143) اور اسی طرح ہم نے تم کو ایک متوسط امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہو۔ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَفِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُشَھِیْداً عَلَیْکُمْ وَتَکُوْنُوْا شَھَدَآءَ عَلَ النَّاسِ (لحج۔87 ) اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام مسلم رکھا تھا اور اس قرآن میں بھی (تمہارا یہی نام ہے ) تاکہ رسول تم گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ۔ حدیثمیں حضرت بَراء بن عازِب کی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو انہوں نے یہ فرماتے سنا مؤمنوا امَّتی شھدآء، ’’ میری امت کے مومن شہید ہیں ،‘‘ پھر حضورؐ نے سورہ حدید کی یہی آیت تلاوت فرمائی (ابن جریر )۔ ابن مردویہ نے اسی معنی میں حضرت ابوالدرداء سے یہ روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : من فریدینہ من ارضٍ مخافۃ الفتنۃ علیٰ نفسہٖ و دینہٖ کتب عنداللہ صدیقا فاذامات قبضہ اللہ شھیداً ثم تلا ھٰذاہ الایٰۃ۔ ’’ جو شخص اپنی جان اور اپنے دین کو فتنے سے جچانے کے لیے کسی سرزمین سے نکل جاۓ وہ اللہ کے ہاں صدیق لکھا جاتا ہے اور جب وہ مرتا ہے تو اللہ شہید کی حیثیت سے اس کی روح قبض فرماتا ہے ،’’ پر یہ بات ارشاد فرمانے کے بعد حضورؐ نے یہی آیت پڑھی (شھادت کے اس مفہوم کی تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، البقرہ، حاشیہ 144۔ النساء حاشیہ 99۔ جلد چہارم، الاحزاب، حاشیہ 82) |
2 | یہ صدق کا مبالغہ ہے ۔ صادق سچا، اور صدیق نہایت سچا۔ مگر یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ صدق محض سچے اور مطابق حقیقت قول کو نہیں کہتے بلکہ اس کا اطلاق صرف اس قول پر ہوتا ہے جو بجاۓ خود بھی سچا ہو اور جس کا قائل ہی سچے دل سے اس حقیقت کو مانتا ہو جسے وہ زبان سے کہہ رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم اللہ کے رسول ہیں ، تو یہ بات بجاۓ خود عین حقیقت کے مطابق ہے ، کیونکہ آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں ، لیکن وہ شخص اپنے اس قول میں صادق صرف اسی وقت کہا جاۓ گا جبکہ اس کا اپنا عقیدہ بھی یہی ہو کہ آپ اللہ کے رسول ہیں ۔ لہٰذا صدق کے لیے ضروری ہے کہ قول کی مطابقت حقیقت کے ساتھ بھی ہو اور قائل کے بغیر کے ساتھ بھی۔ اسی طرح صدق کے مفہوم میں وفا اور خلوص اور عملی راستبازی بھی شامل ہے ۔ صادق الوعد (وعدے کا سچا) اس شخص کو کہیں گے جو عملاً اپنا وعدہ پورا کرتا ہو اور کبھی اس کی خلاف ورزی نہ کرتا ہو۔ صدیق (سچا دوست) اسی کو کہا جاۓ گا جس نے آزمائش کے مواقع پر دوستی کا حق ادا کیا ہو اور کبھی آدمی کو اس سے بے وفائی تجربہ نہ ہوا ہو۔ جنگ میں صادق فی القتال (سچا سپاہی) صرف وہی شخص کہلاۓ گا جو جان توڑ کر لڑا ہو اور جس نے اپنے عمل سے اپنی بہادری ثابت کر دی ہو۔ پس صدق کی حقیقت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ قائل کا عمل اس کے قول سے مطابقت رکھتا ہو۔ قول کے خلاف عمل کرنے والا صادق قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اسی بنا پر تو آپ اس شخص کو جھوٹا واعظ کہتے ہیں جو کہے کچھ اور کرے کچھ۔ اب غور کرنا چاہیے کہ یہ تعریف جب صدق اور صادق کی ہے تو مبالغہ کے صیغہ میں کسی کو صدیق کہنے کا مطلب کیا ہو گا۔ اس کے معنی لازماً ایسے راستباز آدمی کے ہیں جس میں کوئی کھوٹ نہ ہو، جو کبھی حق اور راستی سے نہ ہٹا ہو، جس سے یہ توقع ہی نہ کی جا سکتی ہو کہ وہ کبھی اپنے ضمیر کے خلاف کوئی بات کہے گا۔ جس نے کسی بات کو مانا ہو تو پورے خلوص کے ساتھ مانا ہو، اس کی وفاداری کا حق ادا کیا ہو اور اپنے عمل سے ثابت کر دیا ہو کہ وہ فی لواقع ویسا ہی ماننے والا ہے جیسا ایک ماننے والے کو ہونا چاہیے (مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد اول، النساء، حاشیہ 99) |
1 | یہاں ایمان لانے والوں سے مراد وہ صادق الامان لوگ ہیں جن کا طرز عمل جھوٹے مدعیان ایمان اور ضعف الایمان لوگوں سے بالکل مختلف تھا۔ جو اس وقت ایک دوسرے سے بڑھ کر مالی قربانیاں دے رہے تھے اور اللہ کے دین کی خاطر جانیں لڑا رہے تھے |
Surah 16 : Ayat 97
مَنْ عَمِلَ صَـٰلِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُۥ حَيَوٲةً طَيِّبَةًۖ وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
جو شخص بھی نیک عمل کرے گا، خواہ وہ مرد ہو یا عورت، بشر طیکہ ہو وہ مومن، اسے ہم دنیا میں پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے 1اور (آخرت میں) ایسے لوگوں کو ان کے اجر ان کے بہترین اعمال کے مطابق بخشیں گے2
2 | یعنی آخرت میں ان کا مرتبہ اُن کے بہتر سے بہتر اعمال کے لحاظ سے مقرر ہوگا۔ بالفاظ دیگر جس شخص نے دنیا میں چھوٹی اور بڑی، ہر طرح کی نیکیاں کی ہوں گی اُسے وہ اونچا مرتبہ دیا جائے گا جس کا وہ اپنی بڑی سے بڑی نیکی کے لحاظ سے مستحق ہو گا۔ |
1 | اس آیت میں مسلم اور کافر دونوں ہی گروہوں کے اُن تمام کم نظراور بے صبر لوگوں کی غلط فہمی دور کی گئی ہے جو یہ سمجھتے ہیں کہ سچائی اور دیانت اور پرہیزگاری کی روش اختیار کرنے سے آدمی کی آخرت چاہے بن جاتی ہو مگر اس کی دنیا ضرور بگڑ جاتی ہے۔ اللہ تعالٰی ان کے جواب میں فرماتا ہے کہ تمہارا یہ خیال غلط ہے۔ اِس صحیح رویہ سے محض آخرت ہی نہیں بنتی، دنیا بھی بنتی ہے۔ جو لوگ حقیقت میں ایماندار اور پاکباز اور معاملہ کےکھرے ہوتے ہیں ان کی دنیوی زندگی بھی بے ایمان اور بدعمل لوگوں کے مقابلہ میں صریحًا بہتر رہتی ہے۔ جو ساکھ اور سچی عزت اپنی بے داغ سیرت کی وجہ سے انہیں نصیب ہوتی ہے وہ دوسروں کو نصیب نہیں ہوتی۔ جو ستھری اور پاکیزہ کامیابیاں انہیں حاصل ہوتی ہیں وہ ان لوگوں کو میسر نہیں آتیں جن کی ہر کامیابی گندے اور گھناؤنے طریقوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ وہ بوریا نشین ہو کر بھی قلب کے جس اطمینان اور ضمیر کی جس ٹھنڈک سے بہرہ مند ہوتے ہیں اس کا کوئی ادنیٰ سا حصّہ بھی محلول میں رہنے والے فساق و فجار نہیں پا سکتے۔ |
Surah 2 : Ayat 277
إِنَّ ٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَأَقَامُواْ ٱلصَّلَوٲةَ وَءَاتَوُاْ ٱلزَّكَوٲةَ لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
ہاں، جو لوگ ایمان لے آئیں اور نیک عمل کریں اور نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں، اُن کا اجر بے شک ان کے رب کے پاس ہے اور ان کے لیے کسی خوف اور رنج کا موقع نہیں1
1 | اس رکوع میں اللہ تعالیٰ بار بار دو قسم کے کرداروں کو بالمقابل پیش کر رہا ہے۔ ایک کردار خود غرض، زر پرست، شائیلاک قسم کے انسان کا ہے، جو خدا اور خلق دونوں کے حقوق سے بےپروا ہو کر روپیہ گننے اور گِن گِن کر سنبھالنے اور ہفتوں اور مہینوں کے حساب سے اس کو بڑھانے اور اس کی بڑھوتری کا حساب لگانے میں منہمک ہو۔ دُوسرا کردار ایک خدا پرست، فیّاض اور ہمدرد انسان کا کردار ہے، جو خدا اور خلقِ خدا دونوں کے حقوق کا خیال رکھتا ہو، اپنی قوتِ بازو سے کما کر خود کھائے اور دُوسرے بندگانِ خدا کو کھلائے اور دل کھول کر نیک کاموں میں خرچ کرے۔ پہلی قسم کا کردار خدا کو سخت نا پسند ہے۔ دنیا میں اس کردار پر کوئی صالح سوسائیٹی نہیں بن سکتی ، اور آخرت میں ایسے کردار کے لیے غم و اندوہ اور کلفت و مصیبت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بخلاف اس کے اللہ کو دُوسری قسم کا کردار پسند ہے، اسی سے دُنیا میں صالح سوسائیٹی بنتی ہے اور وہی آخرت میں انسان کے لیے موجبِ فلاح ہے |