Ayats Found (12)
Surah 4 : Ayat 18
وَلَيْسَتِ ٱلتَّوْبَةُ لِلَّذِينَ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ حَتَّىٰٓ إِذَا حَضَرَ أَحَدَهُمُ ٱلْمَوْتُ قَالَ إِنِّى تُبْتُ ٱلْـَٔـٰنَ وَلَا ٱلَّذِينَ يَمُوتُونَ وَهُمْ كُفَّارٌۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَعْتَدْنَا لَهُمْ عَذَابًا أَلِيمًا
مگر توبہ اُن لوگوں کے لیے نہیں ہے جو برے کام کیے چلے جاتے ہیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت وقت آ جاتا ہے اُس وقت وہ کہتا ہے کہ اب میں نے توبہ کی، اور اسی طرح توبہ اُن کے لیے بھی نہیں ہے جو مرتے دم تک کافر رہیں ا یسے لوگوں کے لیے تو ہم نے درد ناک سزا تیار کر رکھی ہے1
1 | توبہ کے معنی پلٹنے اور رُجوع کرنے کے ہیں۔ گناہ کے بعد بندے کا خدا سے توبہ کرنا یہ معنی رکھتا ہے کہ ایک غلام، جو اپنے آقا کا نافرمان بن کر اسے منہ پھیر گیا تھا ، اب اپنے کیے پر پشیمان ہے اور اطاعت و فرماں برداری کی طرف پلٹ آیا ہے۔ اور خدا کی طرف سے بندے پر توبہ یہ معنی رکھتی ہے کہ غلام کی طرف سے مالک کی نظر عنایت جو پھر گئی تھی وہ ازسرِ نو اس کی طرف منعطف ہوگئی۔ اللہ تعالٰی اس آیت میں فرماتا ہے کہ میرے ہاں معافی صرف اُن بندوں کے لیے ہے جو قصداً نہیں بلکہ نادانی کی بنا پر قصُور کرتے ہیں، اور جب آنکھوں پر سے جہالت کا پردہ ہٹتا ہے تو شرمندہ ہو کر اپنے قصُور کی معافی مانگ لیتے ہیں۔ ایسے بندے جب بھی اپنی غلطی پر نادم ہو کر اپنے آقا کی طرف پلٹیں گے اس کا دروازہ کُھلا پائیں گے کہ ؎ ایں درگہِ ما درگہِ نومیدی نیست صد بار اگر توبہ شکستی باز آ مگر توبہ اُں کے لیے نہیں ہے جو اپنے خدا سے بے خوف اور بے پروا ہو کر تمام عمر گناہ پر گناہ کیے چلے جائیں اور پھر عین اُس وقت جبکہ موت کا فرشتہ سامنے کھڑا ہو معافی مانگنے لگیں۔ اسی مضمون کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِن الفاظ میں بیان فرمایا ہے کہ ان اللہ یقبل توبة العبد مالم یُغرغِر۔” اللہ بندے کی توبہ بس اُسی وقت تک قبُول کرتا ہے جب تک کہ آثارِ موت شروع نہ ہوں“۔ کیونکہ امتحان کی مُہلت جب پُوری ہوگئی اور کتابِ زندگی ختم ہو چکی تو اب پلٹنے کا کونسا موقع ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص کفر کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جائے اور دُوسری زندگی کی سرحد میں داخل ہو کر اپنی آنکھوں سے دیکھ لے کہ معاملہ اُس کے برعکس ہے جو وہ دنیا میں سمجھتا رہا تو اس وقت معافی مانگنے کا کوئی موقع نہیں |
Surah 5 : Ayat 31
فَبَعَثَ ٱللَّهُ غُرَابًا يَبْحَثُ فِى ٱلْأَرْضِ لِيُرِيَهُۥ كَيْفَ يُوَٲرِى سَوْءَةَ أَخِيهِۚ قَالَ يَـٰوَيْلَتَىٰٓ أَعَجَزْتُ أَنْ أَكُونَ مِثْلَ هَـٰذَا ٱلْغُرَابِ فَأُوَٲرِىَ سَوْءَةَ أَخِىۖ فَأَصْبَحَ مِنَ ٱلنَّـٰدِمِينَ
پھر اللہ نے ایک کوا بھیجا جو زمین کھودنے لگا تاکہ اُسے بتائے کہ اپنے بھائی کی لاش کیسے چھپائے یہ دیکھ کر وہ بولا افسوس مجھ پر! میں اس کوے جیسا بھی نہ ہوسکا کہ اپنے بھائی کی لاش چھپانے کی تدبیر نکال لیتا1 اس کے بعد وہ اپنے کیے پر بہت پچھتا یا2
2 | یہاں اس واقعہ کا ذکر کرنے سے مقصد یہودیوں کو ان کی اُس سازش پر لطیف طریقہ سے ملامت کرنا ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ ؐ کے جلیل القدر صحابہ کو قتل کرنے کے لیے کی تھی(ملاحظہ ہو اسی سُورۃ کا حاشیہ نمبر ۳۰)۔ دونوں واقعات میں مماثلت بالکل واضح ہے۔ یہ بات کہ اللہ تعالیٰ نے عرب کے اِن اُمّیوں کو قبولیت کا درجہ عطا فرمایا اور اُن پُرانے اہلِ کتاب کو رد کر دیا، سراسر اِس بُنیاد پر تھی کہ ایک طرف تقویٰ تھا اور دُوسری طرف تقویٰ نہ تھا۔ لیکن بجائے اس کے کہ وہ لوگ جنہیں رَد کر دیا گیا تھا، اپنے مردُود ہونے کی وجہ پر غور کرتے اور اُس قصُور کی تلافی کرنے پر مائل ہوتے جس کی وجہ سے وہ رد کیے گئے تھے، ان پر ٹھیک اُسی جاہلیت کا دورہ پڑ گیا جس میں آدم ؑ کا وہ غلط کار بیٹا مبتلا ہوا تھا، اور اُسی کی طرح وہ ان لوگوں کے قتل پر آمادہ ہو گئے جنہیں خدا نے قبولیت عطا فرمائی تھی۔ حالانکہ ظاہر تھا کہ ایسی جاہلانہ حرکتوں سے وہ خدا کے مقبول نہ ہو سکتے تھے ، بلکہ یہ کرتُوت انہیں اور زیادہ مردُود بنا دینے والے تھے |
1 | اس طرح اللہ تعالیٰ نے ایک کوّے کے ذریعہ سے آدم کے اس غلط کا ر بیٹے کو اس کی جہالت و نادانی پر متنبّہ کیا، اور جب ایک مرتبہ اس کو اپنے نفس کی طرف توجّہ کرنے کا موقع مل گیا توا س کی ندامت صرف اسی بات تک محدُود نہ رہی کہ وہ لاش چھپانے کی تدبیر نکالنے میں کوّے سے پیچھے کیوں رہ گیا، بلکہ اس کو یہ بھی احساس ہونے لگا کہ اس نے اپنے بھائی کو قتل کر کے کتنی بڑی جہالت کا ثبُوت دیا ہے۔ بعد کا فقرہ کہ وہ اپنے کیے پر پچھتایا، اسی مطلب پر دلالت کر تا ہے |
Surah 7 : Ayat 153
وَٱلَّذِينَ عَمِلُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ ثُمَّ تَابُواْ مِنۢ بَعْدِهَا وَءَامَنُوٓاْ إِنَّ رَبَّكَ مِنۢ بَعْدِهَا لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور جو لوگ برے عمل کریں پھر توبہ کر لیں اور ایمان لے آئیں تو یقیناً اِس توبہ و ایمان کے بعد تیرا رب درگزر اور رحم فرمانے والا ہے"
Surah 10 : Ayat 27
وَٱلَّذِينَ كَسَبُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ جَزَآءُ سَيِّئَةِۭ بِمِثْلِهَا وَتَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌۖ مَّا لَهُم مِّنَ ٱللَّهِ مِنْ عَاصِمٍۖ كَأَنَّمَآ أُغْشِيَتْ وُجُوهُهُمْ قِطَعًا مِّنَ ٱلَّيْلِ مُظْلِمًاۚ أُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
اور جن لوگوں نے بُرائیاں کمائیں ان کی بُرائی جیسی ہے ویسا ہی وہ بدلہ پائیں گے1، ذلّت ان پر مسلّط ہو گی، کوئی اللہ سے ان کو بچانے والا نہ ہو گا، ان کے چہروں پر ایسی تاریکی چھائی ہوئی ہو گی2 جیسے رات کے سیاہ پردے ان پر پڑے ہوئے ہوں، وہ دوزخ کے مستحق ہیں جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے
2 | وہ تاریکی جو مجرموں کے چہرے پر پکڑے جانے اور بچاؤ سے مایوس ہو جانے کے بعد چھا جاتی ہے |
1 | یعنی نیکوکاروں کے برعکس بدکاروں کے ساتھ معاملہ یہ ہو گا کہ جتنی بدی ہے اتنی ہی سزا دے دی جائے گی۔ ایسا نہ ہو گا کہ جرم سے ذرہ برابر بھی زیادہ سزا دی جائے۔(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو النمل، حاشیہ ۱۰۹ الف) |
Surah 11 : Ayat 78
وَجَآءَهُۥ قَوْمُهُۥ يُهْرَعُونَ إِلَيْهِ وَمِن قَبْلُ كَانُواْ يَعْمَلُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِۚ قَالَ يَـٰقَوْمِ هَـٰٓؤُلَآءِ بَنَاتِى هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْۖ فَٱتَّقُواْ ٱللَّهَ وَلَا تُخْزُونِ فِى ضَيْفِىٓۖ أَلَيْسَ مِنكُمْ رَجُلٌ رَّشِيدٌ
(ان مہمانوں کا آنا تھا کہ) اس کی قوم کے لوگ بے اختیار اس کے گھر کی طرف دوڑ پڑے پہلے سے وہ ایسی ہی بد کاریوں کے خوگر تھے لوطؑ نے ان سے کہا 1"بھائیو، یہ میری بیٹیاں موجود ہیں، یہ تمہارے لیے پاکیزہ تر ہیں کچھ خدا کا خوف کرو اور میرے مہمانوں کے معاملے میں مجھے ذلیل نہ کرو کیا تم میں کوئی بھلا آدمی نہیں؟"
1 | ہو سکتا ہے کہ حضرت لوطؑ کا اشارہ قوم کی لڑکیوں کی طرف ہو کیونکہ نبی اپنی قوم کے لیے بمنزلہ باپ ہوتا ہے اور قوم کی لڑکیاں اس کی نگاہ میں اپنی بیٹیوں کی طرح ہوتی ہیں اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آپ کا اشارہ خود اپنی صاحبزادیوں کی طرف ہو۔بہرحال دونوں صورتوں میں یہ گمان کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے کہ حضرت لوطؑ نے ان سے زنا کرنے کے لیے کہا ہو گا ’’یہ تمہارے لیے پاکیزہ ترہیں‘‘کا فقرہ ایسا غلط مفہوم لینے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا حضرت لوطؑ کا منشا صاف طور پر یہ تھا کہ اپنی شہوت نفس کو اس فطری اور جائز طریقے سے پورا کرو جو اللہ نے مقرر کیا ہے اور اس کے لیے عورتوں کی کمی نہیں ہے |
Surah 16 : Ayat 34
فَأَصَابَهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا عَمِلُواْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ
اُن کے کرتوتوں کی خرابیاں آخر اُن کی دامنگیر ہو گئیں اور وہی چیز اُن پر مسلط ہو کر رہی جس کا وہ مذاق اڑایا کرتے تھے
Surah 16 : Ayat 45
أَفَأَمِنَ ٱلَّذِينَ مَكَرُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ أَن يَخْسِفَ ٱللَّهُ بِهِمُ ٱلْأَرْضَ أَوْ يَأْتِيَهُمُ ٱلْعَذَابُ مِنْ حَيْثُ لَا يَشْعُرُونَ
پھر کیا وہ لوگ جو (دعوت پیغمبر کی مخالفت میں) بدتر سے بدتر چالیں چل رہے ہیں اِس بات سے بالکل ہی بے خوف ہو گئے ہیں کہ اللہ ان کو زمین میں دھنسا دے، یا ایسے گوشے میں ان پر عذاب لے آئے جدھر سے اس کے آنے کا ان کو وہم و گمان تک نہ ہو
Surah 35 : Ayat 10
مَن كَانَ يُرِيدُ ٱلْعِزَّةَ فَلِلَّهِ ٱلْعِزَّةُ جَمِيعًاۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ ٱلْكَلِمُ ٱلطَّيِّبُ وَٱلْعَمَلُ ٱلصَّـٰلِحُ يَرْفَعُهُۚۥ وَٱلَّذِينَ يَمْكُرُونَ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌۖ وَمَكْرُ أُوْلَـٰٓئِكَ هُوَ يَبُورُ
جو کوئی عزت چاہتا ہو اُسے معلوم ہونا چاہیے کہ عزت ساری کی ساری اللہ کی ہے1 اُس کے ہاں جو چیز اوپر چڑھتی ہے وہ صرف پاکیزہ قول ہے، اور عمل صالح اس کو اوپر چڑھاتا ہے2 رہے وہ لوگ جو بیہودہ چال بازیاں کرتے ہیں3، اُن کے لیے سخت عذاب ہے اور اُن کا مکر خود ہی غارت ہونے والا ہے
3 | یعنی باطل اور خبیث کلمے لے کر اٹھتے ہیں، ان کو چالاکیوں سے، فریب کاریوں سے اور نظر فریب استدلالوں سے فروغ دینے کی کوشش کرتے ہیں، اور ان کے مقابلے میں کلمہ حق کو نیچا دکھانے کے لیے کوئی بری سے بُری تدبیر استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتے |
2 | یہ ہے عزت حاصل کرنے کا اصل ذریعہ۔ اللہ کے ہاں جھوٹے اور خبیث اور مفسدانہ اقوال کو کبھی عروج نصیب نہیں ہوتا۔ اس کے ہاں تو صرف وہ قول عروج پاتا ہے جو سچا ہو، پاکیزہ ہو، حقیقت پر مبنی ہو، اور جس میں نیک نیتی کے ساتھ ایک صالح عقیدے اور ایک صحیح طرز فکر کی ترجمانی کی گئی ہو۔ پھر جو چیز ایک پاکیزہ کلمے کو عروج کی طرف لے جاتی ہے وہ قول کے مطابق عمل ہے۔ جہاں قول بڑا پاکیزہ ہو مگر عمل اس کے خلاف ہو وہاں قول کی پاکیزگی ٹھٹھر کر رہ جاتی ہے۔ محض زبان کے پھاگ اُڑانے سے کوئی کلمہ بلند نہیں ہوتا۔ اسے عروج پر پہنچانے کے لیے عمل صالح کا زور درکار ہوتا ہے۔ اس مقام پر یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ قرآن مجید قول صالح اور عمل صالح کو لازم و ملزوم کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ کوئی عمل محض اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے صالح نہیں ہو سکتا جب تک اس کی پشت پر عقیدہ صالحہ نہ ہو۔ اور کوئی عقیدہ صالحہ ایسی حالت میں معتبر نہیں ہو سکتا جب تک کہ آدمی کا عمل اس کی تائید و تصدیق نہ کر رہا ہو۔ ایک شخص اگر زبان سے کہتا ہے کہ میں صرف اللہ وحدہٗ لا شریک کو معبود مانتا ہوں، مگر عملاً وہ غیر اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اس کا یہ عمل اس کے قول کی تکذیب کر دیتا ہے۔ ایک شخص زبان سے کہتا ہے کہ میں شراب کو حرام مانتا ہوں، مگر عملاً وہ شراب پیتا ہے تو اس کا محض قول نہ خلق کی نگاہ میں مقبول ہو سکتا ہے نہ خدا کے ہاں اسے کوئی قبولیت نصیب ہو سکتی ہے۔ |
1 | یہ بات ملحوظ رہے کہ قریش کے سردار نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے مقابلے میں جو کچھ بھی کر رہے تھے اپنی عزت اور اپنے وقار کی خاطر کر رہے تھے۔ ان کا خیال یہ تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی بات چل گئی تو ہماری بڑائی ختم ہو جائے گی، ہمارا اثر و رسوخ مٹ جائے گا اور ہماری جو عزت سارے عرب میں بنی ہوئی ہے وہ خاک میں مل جائے گی۔ اس پر فرمایا جا رہا ہے کہ خدا سے کفر و بغاوت کر کے جو عزت تم نے بنا رکھی ہے، یہ تو ایک جھوٹی عزت ہے جس کے لیے خاک ہی میں ملنا مقدر ہے حقیقی عزت اور پائدار عزت جو دنیا سے لے کر عقبیٰ تک کبھی ذلت آشنا نہیں ہو سکتی، صرف خدا کی بندگی میں ہی میسر آ سکتی ہے۔ اس کے ہو جاؤ گے تو وہ تمہیں مل جائے گی۔ اور اس سے منہ موڑو گے تو ذلیل و خوار ہو کر رہو گے۔ |
Surah 39 : Ayat 48
وَبَدَا لَهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا كَسَبُواْ وَحَاقَ بِهِم مَّا كَانُواْ بِهِۦ يَسْتَهْزِءُونَ
وہاں اپنی کمائی کے سارے برے نتائج ان پر کھل جائیں گے اور وہی چیز ان پر مسلط ہو جائے گی جس کا یہ مذاق اڑاتے رہے ہیں
Surah 39 : Ayat 51
فَأَصَابَهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا كَسَبُواْۚ وَٱلَّذِينَ ظَلَمُواْ مِنْ هَـٰٓؤُلَآءِ سَيُصِيبُهُمْ سَيِّـَٔـاتُ مَا كَسَبُواْ وَمَا هُم بِمُعْجِزِينَ
پھر اپنی کمائی کے برے نتائج انہوں نے بھگتے، اور اِن لوگوں میں سے بھی جو ظالم ہیں وہ عنقریب اپنی کمائی کے برے نتائج بھگتیں گے، یہ ہمیں عاجز کر دینے والے نہیں ہیں