Ayats Found (8)
Surah 2 : Ayat 81
بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَـٰطَتْ بِهِۦ خَطِيٓــَٔتُهُۥ فَأُوْلَـٰٓئِكَ أَصْحَـٰبُ ٱلنَّارِۖ هُمْ فِيهَا خَـٰلِدُونَ
جو بھی بدی کمائے گا اور اپنی خطا کاری کے چکر میں پڑا رہے گا، وہ دوزخی ہے او ر دوزخ ہی میں وہ ہمیشہ رہے گا
Surah 4 : Ayat 85
مَّن يَشْفَعْ شَفَـٰعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُۥ نَصِيبٌ مِّنْهَاۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَـٰعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُۥ كِفْلٌ مِّنْهَاۗ وَكَانَ ٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍ مُّقِيتًا
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا1، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے
1 | یعنی یہ اپنی اپنی پسند اور اپنا اپنا نصیب ہے کہ کوئی خدا کی راہ میں کوشش کرنے اور حق کو سربلند کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارے اور اس کا اجر پائے ، اور کوئی خدا کے بندوں کو غلط فہمیوں میں ڈالنے اور ان کی ہمتیں پست کرنے اور انہیں اعلائے کلمۃ اللہ کی سعی و جہد سے باز رکھنے میں اپنی قوت صرف کرے ، اور اس کی سزا کا مستحق بنے |
Surah 6 : Ayat 160
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ عَشْرُ أَمْثَالِهَاۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَىٰٓ إِلَّا مِثْلَهَا وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ
جو اللہ کے حضور نیکی لے کر آئے گا اس کے لیے دس گنا اجر ہے، اور جو بدی لے کر آئے گا اس کو اتنا ہی بدلہ دیا جائے گا جتنا اس نے قصور کیا ہے، اور کسی پر ظلم نہ کیا جائے گا
Surah 7 : Ayat 95
ثُمَّ بَدَّلْنَا مَكَانَ ٱلسَّيِّئَةِ ٱلْحَسَنَةَ حَتَّىٰ عَفَواْ وَّقَالُواْ قَدْ مَسَّ ءَابَآءَنَا ٱلضَّرَّآءُ وَٱلسَّرَّآءُ فَأَخَذْنَـٰهُم بَغْتَةً وَهُمْ لَا يَشْعُرُونَ
پھر ہم نے ان کی بدحالی کو خوش حالی سے بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوب پھلے پھولے اور کہنے لگے کہ 1"ہمارے اسلاف پر بھی اچھے اور برے دن آتے ہی رہے ہیں" آخر کار ہم نے انہیں اچانک پکڑ لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی
1 | ایک ایک نبی اور ایک ایک قوم کا معاملہ الگ الگ بیان کرنے کے بعد اب وہ جامع ضابطہ بیان کیا جا رہا ہے جو ہر زمانہ میں اللہ تعالیٰ نے ابنیاء علیہ السلام کی بعثت کے موقع پر اختیار فرمایا ہے۔ اور وہ یہ ہے کہ جب کسی قوم میں کوئی نبی بھیجاگیا تو پہلے اس قوم کے خارجی ماحول کو قبول دعوت کے لیے نہایت ساز گار بنایا گیا۔ یعنی اس کو مصائب اور آفات میں مبتلا کیا گیا۔ قحط، وبا، تجارتی خسارے ، جنگی شکست اور اسی طرح کی تکلیفیں اس پر ڈالی گئیں۔ تا کہ اس کا دل نرم پڑے، اس کی شیخی اور تکبّر سے اکڑی ہوئی گردن ڈھیلی ہو، اس کا غرورِ طاقت اور نشہ دولت ٹوٹ جائے، اپنے ذرائع و وسائل اور اپنی قوتوں اور قابلیتوں پر اس کا اعتماد شکست ہو جائے، اُسے محسوس ہو کہ اُوپر کوئی اور طاقت بھی ہے جس کے ہاتھ میں اس کی قسمت کی باگیں ہیں، اور اس طرح اس کے کان نصیحت کے لیے کھل جائیں اور وہ اپنے خدا کے سامنے عاجزی کے ساتھ جھک جانے پر آمادہ ہو جائے۔ پھر جب اس سازگار ماحول میں بھی اس کا دل قبول ِ حق کی طرف مائل نہیں ہوتا تو اس کو خوش حالی کے فتنہ میں مبتلا کر دیا جاتا ہے اور یہاں سے اس کی بر بادی کی تمہید شروع ہو جاتی ہے ۔ جب وہ نعمتوں سے مالا مال ہونے لگتی ہے تو اپنے بُرے دن بھول جاتی ہے اور اس کے کج فہم رہنما اس کے ذہن میں تاریخ کا یہ احمقانہ تصوّر بٹھاتے ہیں کے حالات کا اُتار چڑھاؤ اور قسمت کا بناؤ اور بگاڑ کسی حکیم کے انتظام میں اخلاقی بنیادوں پر نہیں ہو رہا ہے بلکہ ایک اندھی طبیعت بالکل غیر اخلاقی اسباب سے کبھی اچھے اور کبھی بُرے دن لاتی ہی رہتی ہے، لہٰذا مصائب اور آفات کے نزول سے کوئی اخلاقی سبق لینا اور کسی ناصح کی نصیحت قبول کر کے خدا کے آگے زاری و تضرُّع کرنے لگنا بجز ایک طرح کی نفسی کمزوری کے اور کچھ نہیں ہے۔ یہی وہ احمقانہ ذہنیت ہے جس کا نقشہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں کھینچا ہے: لا یزال البلا ء بالمؤمن حتٰی یخر جَ نقیاً من ذنوبہٖ، والمنا فقُ مَثَلہُ کمثلِ الحِمار لا یدری فیمَ رَبَطہُ اھلہُ ولاَ فِیمَ ارسلوہ۔ یعنی”مصیبت مومن کی تو اصلاح کر تی چلی جاتی ہے یہاں تک کہ جب وہ اِس بھٹی سے نکلتا ہے تو ساری کھوٹ سے صاف ہو کر نکلتا ہے، لیکن منافق کی حالت با لکل گدھے کی سی ہوتی ہے جو کچھ نہیں سمجھتا کہ اس کے مالک نے کیوں اسے باندھا تھا اور کیوں اسے چھوڑ دیا ۔“پس جب کسی قوم کاحال یہ ہوتا ہے کہ نہ مصائب سے اس کا دل خدا کے آگے جھکتا ہے، نہ نعمتوں پر وہ شکر گزار ہوتی ہے، اور نہ کسی حال میں اصلاح کرتی ہے تو پھر اس کی بر بادی اِس طرح اس کے سر پر منڈلانے لگتی ہے جیسے پورے دن کی حاملہ عورت کہ کچھ نہیں کہا جا سکتا کب اس کا وضع حمل ہو جائے۔ یہاں یہ بات اور جان لینی چاہیے کہ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے جس ضابطہ کا ذکر فرمایا ہے ٹھیک یہی ضابطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے موقع پر بھی برتا گیا ور شامت زدہ قوموں کے جس طرزِ عمل کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے، ٹھیک وہی طرزِ عمل سورہ اعراف کے نزول کے زمانہ میں قریش والوں سے ظاہر ہو رہا تھا۔ حدیث میں عبد اللہ بن مسعود ؓ عبداللہ بن عباس ؓ دونوں کی متفقہ روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہٖ وسلم کی بعثت کے بعد جب قریش کے لوگوں نے آپ کی دعوت کے خلاف سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا تو حضور ؐ نے دعا کی کہ خدایا ، یوسف کے زمانہ میں جیسا ہفت سالہ قحط پڑا تھا ویسے ہی قحط سے ان لوگوں کے مقابلہ میں میری مدد کر۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انہیں سخت قحط میں مبتلا کر دیا اورنوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ مردار کھانے لگے، چمڑے اور ہڈیاں اور اُون تک کھا گئے۔ آخر کار مکہ کے لوگوں نے ،جن میں ابو سفیان پیش پیش تھا، حضور ؐ سے درخواست کی کہ ہمارے لیے خدا سے دعا کیجیے۔ مگر جب آپ کی دعا سے اللہ نے وہ بُرا وقت ٹال دیا ور بھلے دن آئے تو اُن لوگوں کی گر دنیں پہلے سے زیادہ اکڑ گئیں، اور جن کے دل تھوڑے بہت پسیج گئے تھے ان کو بھی اشرارِ قوم نے یہ کہہ کہہ کر ایمان سے روکنا شروع کر دیا کہ میاں، یہ تو زمانے کا اتار چڑھاؤ ہے۔ پہلے بھی قحط آتے ہی رہے ہیں، کوئی نئی بات تو نہیں ہے کہ اس مرتبہ ایک لمبا قحط پڑگیا، لہٰذا ان چیزوں سے دھوکا کھا کر محمد ؐ کے پھندے میں نہ پھنس جا نا۔ یہ تقریریں اس زمانے میں ہو رہی تھیں جب یہ سورہ اعراف نازل ہوئی ہے۔ اس لیے قرآن مجید کی یہ آیات ٹھیک اپنے موقع پر چسپاں ہوئی ہیں اور اسی پس منظر کو نگاہ میں رکھنے سے اِن کی معنویت پوری طرح سمجھ میں آسکتی ہے۔(تفصیلات کے لیے ملاحظہ ہو یونس، آیت ۲١۔ النحل ١١۲۔المومنون ۵۔۷٦۔ الدخان ۹۔١٦) |
Surah 27 : Ayat 90
وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَكُبَّتْ وُجُوهُهُمْ فِى ٱلنَّارِ هَلْ تُجْزَوْنَ إِلَّا مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ
اور جو بُرائی لیے ہوئے آئے گا، ایسے سب لوگ اوندھے منہ آگ میں پھینکے جائیں گے کیا تم لوگ اس کے سوا کوئی اور جزا پا سکتے ہو کہ جیسا کرو ویسا بھرو؟1
1 | قرآن مجید میںمتعد مقامات پراس امر کی تصریح کی گئی ہے کہ آخرت میںبدی کابدلہ اتنا ہی دیا جائے گا جتنی کسی نے بدی کی ہونیکی کااجر اللہ تعالیٰ آدمی کے عمل سے بہت زیادہ عطافرمائے گا۔ اس کی مزید مثالوں کےلیے ماحظہ ہو، یونس،آیات۲۶۔۲۷۔القصص، آیت۸۴۔ العنکبوت، آیت ۷ سباءآیات۳۷۔۳۸۔ المومن، آیت ۴۰۔ |
Surah 28 : Ayat 84
مَن جَآءَ بِٱلْحَسَنَةِ فَلَهُۥ خَيْرٌ مِّنْهَاۖ وَمَن جَآءَ بِٱلسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى ٱلَّذِينَ عَمِلُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ إِلَّا مَا كَانُواْ يَعْمَلُونَ
جو کوئی بھَلائی لے کر آئے گا اس کے لیے اس سے بہتر بھَلائی ہے، اور جو بُرائی لے کر آئے تو بُرائیاں کرنے والوں کو ویسا ہی بدلہ ملے گا جیسے عمل وہ کرتے تھے
Surah 23 : Ayat 40
قَالَ عَمَّا قَلِيلٍ لَّيُصْبِحُنَّ نَـٰدِمِينَ
جواب میں ارشاد ہوا "قریب ہے وہ وقت جب یہ اپنے کیے پر پچھتائیں گے"
Surah 23 : Ayat 34
وَلَئِنْ أَطَعْتُم بَشَرًا مِّثْلَكُمْ إِنَّكُمْ إِذًا لَّخَـٰسِرُونَ
اب اگر تم نے اپنے ہی جیسے ایک بشر کی اطاعت قبول کر لی تو تم گھاٹے ہی میں رہے1
1 | بعض لوگوں نے یہ غلط سمجھا ہے کہ یہ باتیں وہ لوگ آپس میں ایک دوسرے سے کرتے تھے۔ نہیں یہ خطاب در اصل عوام الناس سے تھا۔ سرداران قوم کو جب خطرہ ہوا کہ عوام پیغمبر کی پاکیزہ شخصیت اور دل لگتی باتوں سے متاثر ہو جائیں گے۔ اور ان کے متاثر ہو جانے کے بعد ہماری سرداری پھر کس پر چلے گی، تو انہوں نے یہ تقریروں کر کر کے عام لوگوں کو بہکانا شروع کیا۔ یہ اسی معاملے کا ایک دوسرا پہلو ہے جو اوپر سرداران قوم نوح کے ذکر میں بیان ہوا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ خدا کی طرف سے پیغمبری ویغمبری کچھ نہیں ہے ، محض اقتدار کی بھوک ہے جو اس شخص سے یہ باتیں کرا رہی ہے۔ یہ فرماتے ہیں کہ بھائیو ، ذرا غور تو کرو کہ آخر یہ شخص تم سے کس چیز میں مختلف ہے۔ ویسا ہی گوشت پوست کا آدمی ہے جیسے تم ہو۔ کوئی فرق اس میں اور تم میں نہیں ہے۔ پھر کیوں یہ بڑا بنے اور تم اس کے فرمان کی اطاعت کرو؟ ان تقریروں میں یہ بات گویا بلا نزاع تسلیم شدہ تھی کہ ہم جو تمہارے سردار ہیں تو ہمیں تو ہونا ہی چاہیے ، ہمارے گوشت پوست اور کھانے پینے کی نوعیت کی طرف دیکھنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ زیر بحث ہماری سرداری نہیں ہے ، کیونکہ وہ تو آپ سے آپ قائم اور مسلم ہے ، البتہ زیر بحث یہ نئی سرداری ہے جو اب قائم ہوتی نظرآرہی ہے۔ اس طرح ان لوگوں کی بات سرداران قوم نوح کی بات سے کچھ زیادہ مختلف نہ تھی جن کو نزدیک قابل الزام اگر کوئی چیز تھی تو وہ ’’ اقتدار کی بھوک‘‘ تھی جو کسی نۓ آنے والے کے اندر محسوس ہو یا جس کے ہونے کا شبہ کیا جا سکے۔ رہا ان کا اپنا پیٹ، تو وہ سمجھتے تھے کہ اقتدار بہر حال اس کی فطری خوراک ہے جس سے اگر وہ بد ہضمی کی حد تک بھی بھر جائے تو قابل اعتراض نہیں |