Ayats Found (3)
Surah 8 : Ayat 19
إِن تَسْتَفْتِحُواْ فَقَدْ جَآءَكُمُ ٱلْفَتْحُۖ وَإِن تَنتَهُواْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْۖ وَإِن تَعُودُواْ نَعُدْ وَلَن تُغْنِىَ عَنكُمْ فِئَتُكُمْ شَيْــًٔا وَلَوْ كَثُرَتْ وَأَنَّ ٱللَّهَ مَعَ ٱلْمُؤْمِنِينَ
(اِن کافروں سے کہہ دو) “اگر تم فیصلہ چاہتے تھے تو لو، فیصلہ تمہارے سامنے آ گیا 1اب باز آ جاؤ تو تمہارے ہی لیے بہتر ہے، ورنہ پھر پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی اسی سزا کا اعادہ کریں گے اور تمہاری جمعیت، خواہ وہ کتنی ہی زیادہ ہو، تمہارے کچھ کام نہ آ سکے گی اللہ مومنوں کے ساتھ ہے"
1 | مکہ سے روانہ ہوتے وقت مشرکین نے کعبہ کے پردے پکڑ کر دعا مانگی تھی کہ خدایادونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطاکر ۔ اورابو جہل نے خاص طور پر کہا تھا کہ خدایا ہم میں سے جو برسر حق ہواسے فتح دے اور جو بر سرِ ظلم ہواسے رسوا کردے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی منہ مانگی دعائیں حرف بحرف پوری کردیں اور فیصلہ کر کے بتا دیا کہ دونوں میں سے کون اچھا اوربر سرِ حق ہے |
Surah 40 : Ayat 58
وَمَا يَسْتَوِى ٱلْأَعْمَىٰ وَٱلْبَصِيرُ وَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ وَلَا ٱلْمُسِىٓءُۚ قَلِيلاً مَّا تَتَذَكَّرُونَ
اور یہ نہیں ہو سکتا کہ اندھا اور بینا یکساں ہو جائے اور ایماندار و صالح اور بد کار برابر ٹھیریں مگر تم لوگ کم ہی کچھ سمجھتے ہو1
1 | یہ وجوب آخرت کی دلیل ہے۔ اوپر کے فقرے میں بتایا گیا تھا کہ آخرت ہو سکتی ہے، اس کا ہونا غیر ممکن نہیں ہے۔ اور اس فقرے میں بتایا جا رہا ہے کہ آخرت ہونی چاہیے، عقل اور انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ وہ ہو، اور اس کا ہونا نہیں بلکہ نہ ہونا خلاف عقل و انصاف ہے۔ آخر کوئی معقول آدمی اس بات کو کیسے درست مان سکتا ہے کہ جو لوگ دنیا میں اندھوں کی طرح جیتے ہیں اور اپنے برے اخلاق و اعمال سے خدا کی زمین کو فساد سے بھر دیتے ہیں وہ اپنی اس غلط روش کا کوئی برا انجام نہ دیکھیں، اور اسی طرح وہ لوگ بھی جو دنیا میں آنکھیں کھول کر چلتے ہیں اور ایمان لا کر نیک عمل کرتے ہیں اپنی اس اچھی کار کردگی کا کوئی اچھا نتیجہ دیکھنے سے محروم رہ جائیں؟ یہ بات اگر صریحاً خلاف عقل و انصاف ہے تو پھر یقیناً انکار آخرت کا عقیدہ بھی عقل و انصاف کے خلاف ہی ہونا چاہیے، کیونکہ آخرت نہ ہونے کے معنی یہ ہیں کہ نیک و بد دونوں آخر کار مر کر مٹی ہو جائیں اور ایک ہی انجام سے دوچار ہوں۔ اس صورت میں صرف عقل و انصاف ہی کا خون نہیں ہوتا بلکہ خلاق کی بھی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس لیے کہ اگر نیکی اور بدی کا انجام یکساں ہے تو پھر بد بڑا عقل مند ہے کہ مرنے سے پہلے اپنے دل کے سارے ارمان نکال گیا اور نیک سخت بے وقوف ہے کہ خواہ مخواہ اپنے اوپر طرح طرح کی اخلاقی پابندیاں عائد کیے رہا۔ |
Surah 45 : Ayat 21
أَمْ حَسِبَ ٱلَّذِينَ ٱجْتَرَحُواْ ٱلسَّيِّـَٔـاتِ أَن نَّجْعَلَهُمْ كَٱلَّذِينَ ءَامَنُواْ وَعَمِلُواْ ٱلصَّـٰلِحَـٰتِ سَوَآءً مَّحْيَاهُمْ وَمَمَاتُهُمْۚ سَآءَ مَا يَحْكُمُونَ
کیا وہ لوگ جنہوں نے برائیوں کا ارتکاب کیا ہے یہ سمجھے بیٹھے ہیں کہ ہم اُنہیں اور ایمان لانے والوں اور نیک عمل کرنے والوں کو ایک جیسا کر دیں گے کہ ان کا جینا اور مرنا یکساں ہو جائے؟ بہت بُرے حکم ہیں جو یہ لوگ لگاتے ہیں2
2 | یہ آخرت کے بر حق ہونے پر اخلاقی استدلال ہے۔ اخلاق میں خیر و شر اور اعمال میں نیکی و بدی کے فرق کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ اچھے اور برے لوگوں کا انجام یکساں نہ ہو، بلکہ اچھوں کو ان کی اچھائی کا اچھا بدلہ ملے اور برے اپنی برائی کا برا بدلہ پائیں۔ یہ بات اگر نہ ہو، اور نیکی و بدی کا نتیجہ ایک ہی جیسا ہو گو سرے سے اخلاق میں خولی و زشتی کی تمیز ہی بے معنی ہو جاتی ہے اور خدا پر بے انصافی کا الزام عائد ہوتا ہے۔ جو لوگ دنیا میں بدی کی راہ چلتے ہیں وہ تو ضرور یہ چاہتے ہیں کہ کوئی جزا و سزا نہ ہو، کیونکہ یہ تصور ہی ان کے عیش کو منغّص کر دینے والا ہے۔ لیکن خداوند عالم کی حکمت اور اس کے عدل سے یہ بات بالکل بعید ہے کہ وہ نیک و بد سے ایک جیسا معاملہ کرے اور کچھ نہ دیکھے کہ مومن صالح نے دنیا میں کس طرح زندگی بسر کی ہے اور کافر و فاسق یہاں کیا گل کھلاتا رہا ہے۔ ایک شخص عمر بھر اپنے اوپر خلاق کی پابندیاں لگاۓ رہا۔ حق والوں کے حق ادا کرتا رہا۔ نا جائز فائدوں اور لذتوں سے اپنے آپ کو محروم کیے رہا۔ اور حق و صداقت کی خاطر طرح طرح کے نقصانات برداشت کرتا رہا۔ دوسرے شخص نے اپنی خواہشات ہر ممکن طریقے سے پوری کیں، نہ خدا کا حق پہچانا اور نہ بندوں کے حقوق پر دست درازی کرنے سے باز آیا۔ جس طرح سے بھی اپنے لیے فائدے اور لذتیں سمیٹ سکتا تھا، سمیٹتا چلا گیا۔ کیا خدا سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ ان دونوں قسم کے آدمیوں کی زندگی کے اس فرق کو وہ نظر انداز کر دے گا؟ مرتے دم تک جن کا جینا یکساں نہیں رہا ہے، موت کے بعد اگر ان کا انجام یکساں ہو تو خدا کی خدائی میں اس سے بڑھ کر اور کیا بے انصافی ہو سکتی ہے؟(مزید تشریح کے لیے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن، جلد دوم، ص 263۔ 264۔ 368۔ 541، جلد سوم 205۔206۔ 600۔ 731 تا 734۔ جلد چہارم، تفسیر سورہ،صٓ، آیت 28۔ حاشیہ نمبر 30) |